"ZIC" (space) message & send to 7575

’’دیر سویر‘‘ رفعت ناہید کا شعری مجموعہ

ملتان سے شاعرہ رفعت ناہید کے کلام سے آپ کی ملاقات کئی بار کرا چکا ہوں ۔ اب اس کا پہلا مجموعہ کلام چھپ کر مارکیٹ میں آیا ہے جو ملتان کتاب گھر ملتان نے شائع کیا اور اس کی قیمت 200روپے رکھی ہے۔ کتاب کا نام ''دیر سویر‘‘ ہے جو اس نے اپنے مرحوم ابا جی کے نام انتساب کی ہے۔ آپ سابق بیورو کریٹ اور شاعر سعید الظفر کی ہمشیرہ ہیں‘ جو کافی عرصے سے لندن میں مقیم ہیں۔ کتاب کے آتے ہی برادرم عطاء الحق قاسمی نے اس پر کالم بھی لکھ مارا ہے‘ جبکہ میری کتاب ان کے پاس کوئی دو ماہ سے پڑی ہے اور اس پر لکھنے کا وعدہ موصوف نے پورا نہیں کیا۔ میں تو اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ عطا سے کالم لکھوانے کے لیے خاتون ہونا ازبس ضروری ہے کیونکہ اتنی پھرتی انہوں نے پہلے کبھی نہیں دکھائی۔ البتہ انہوں نے رفعت کی جو نظمیں اپنی تعریف و توصیف کے ساتھ درج کی ہیں‘ وہ اس کی نسبتاً کمزور نظمیں ہیں۔ مجھے ویسے بھی وہ کمزور ہی لگتی تھیں کیونکہ اس کتاب کو میری کتاب پر ترجیح دی گئی تھی۔اب اس کتاب کی طرف آتے ہیں ۔
اس نے کہا تھا کہ میں اپنا تازہ کلام بھی بھجوا رہی ہوںجس کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے اُسے کل سے فون کر رہا ہوں مگر جواب ندارد‘ حالانکہ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ اکثراس کا فون ویسے ہی بند ملا۔ شبہ ہوا کہ بیچاری کہیں فوت ہی نہ ہو گئی ہو کہ آدمی پانی کا بلبلا ہی تو ہے یعنی ع
کیا اعتبار ہستی ناپائیدار کا
اور اگر خدانخواستہ میرا یہ گمان ٹھیک بھی نکلے تو مجھے اس کے سوگ میں کم ازکم تین دن کالم کی چھٹی کرنا پڑے گی۔ البتہ دو دن اس کے فون کا انتظار ضرور کروں گا۔ اس کتاب میں پانچ سات بہت عمدہ نظمیں بھی موجود ہیں اور اگر کسی کتاب میںاگر ایسا ہو تو اس کی اشاعت کا ایک جواز ضرور پیدا ہو جاتا ہے۔ اس کی کچھ نظمیں:
شرارت
پہلے اس نے شربت جیسی آنکھوں سے مخمور کیا/پھر آنکھوں میں پانی بھر کے/ اوربھی چکنا چُور کیا/ دل کو تھاما/ آہ بھری/ اور رونے پر مجبور کیا/ کیسے کیسے دانے پھینکے/ من کا پنچھی گھیر لیا/ دروازے میں پُلو اٹکا/ جوتی ٹوٹی/ سانس اڑی/ چٹیا نے گھبرا کر بل پر بل کھایا/ ہاتھ کا پنکھا کان کی بالی میں الجھا/ اور چھوٹ گیا/ اس نے مُڑ کر ہنس کر دیکھا/ کن اکھیوں میں شربت کھنکا/ پھر مورکھ نے سارا قصہ/ بستی میں مشہور کیا۔
تُم آباد
بام سے ہٹ کر پیڑ کا سایہ/ دل میں اک راز/ بالکنی میں اُڑتا آنچل / روزن میں اک آنکھ/ حوض کنارے پچھلے دو دن کا اخبار/ ایک عروس ہے/ ساتھ تمہی ہو/ دیکھوں جتنی بار/ گھر کے پیچھے لان میں کوکو// کوئل کی فریاد/ طاق میں چُر مُر پھول پڑا ہے/ ساتھ تمہاری یاد/ دور کہیں یہ موڑ سڑک کا/ گیٹ پر پہرے دار/ آباد گھروں میں روشنیاں ہیں/ ایک میں تم آباد۔
Decade
ہم نے گزری شب کو فون پہ طے کر ڈالا/ اب ملنا ہے/ کب ملنا ہے/ یا نہیں ملنا/ اپنے معنی کھو بیٹھا ہے/ ہم دونوں اپنے اسرار گنوا بیٹھے ہیں/ اُس کی آنکھیں ' سب آنکھوں سے اچھی آنکھیں/ میری پلکیں/ سب پلکوں سے لمبی پلکیں/ اپنے اپنے دلکش جادو کھو بیٹھی ہیں/ اس کے ہاتھوں کی گرمی میں/ اب ٹھنڈک ہے/ (سانسوں میں پھر کیوں یہ بھاپ بنی ہے؟) دونوں کی آواز میں شک کی پھانس لگی ہے/ لہجے کتنے بدل گئے ہیں/ گارے جیسی گدلی سوچ پہ/ ایک پرانی آس کے پائوں پھسل گئے ہیں/ برفیلی خاموشی نے/ دل یخ کر ڈالا/میری دھڑکن پر سناٹا دوڑ رہا ہے/ میں نے سر پٹڑی پر رکھ کر/ خود کو ڈھیلا چھوڑ دیا ہے/ اورجُدائی چھک چھک کرتی میرے سر پر آ پہنچی ہے۔
ہم ملیں گے
زمیں یہ ایک دن ساری سمندر میں/اتر جائے گی/ اور مچلتے گونجتے پانی کی سو پرتوں کے نیچے/ کہیں ملائم زرد چٹانوں تلے سے/ نکل کر آئے گی/ اک سانولی بے حد سجیلی/جل پری/ چمکتی تیز لہریں چوم کر وہ/ چین کی بنسی بجائے گی/ زمیں کے ختم ہونے کا/ بہت ہی مختصر سا/ الوداعی گیت گائے گی/ زمیں کے دیوتا/ اوتار سارے/ کسی گم نام/ کم آباد سیارے میں جا آباد ہوں گے/ (مکاں اپنے بنائیں گے)/ وہیں پچھلی گلی میں ہم ملیں گے۔
Micro ......
اپنے دوست سے باتیں کرتے/ سانس کو پھندا لگ جاتا ہے/ چائے کپ سے گر جاتی ہے/ شال کا پلّو/ جوتی کی ایڑی میں آ کر/ اڑ جاتا ہے/ گرتے گرتے بچتی ہوں/ شانے سے بیگ پھسل جاتا ہے/ اور تم/ شانے اچکا کر/ لمحے کے اس ایک ہزارویں حصے میں/ میرا دل/ جیکٹ کی پاکٹ میں رکھ کر/ چل دیتے ہو۔
امریکہ جانے والا تانگہ
گھر سے باہر/ ہرے بانس کے اونچے پودوں سے آگے/ سڑک جو گزرتی ہے/ ننھے چراغوں کی بستی سے ہو کے/ ولایت کو جاتی ہے/ ابھی اک تانگہ جو گزرا ہے/ امریکہ جائے گا/ اس کی سواری شکاگو میں اُترے گی/ بڑی دیر تک اس کی ٹپ ٹپ/ بڑی دیر تلک/ میرے کانوں میں بجتی رہے گی/ رات کے پچھلے پہر/ بلب کی روشنی کے نیچے/ میں نے دنیا کا نقشہ بچھا یا ہے/ بہت ْملک آپس میں پنسل سے جوڑے ہیں/ سرحد سے سرحد بھی ملائی ہے/ رستے بھی بنائے ہیں/ سڑکیں بھی نکالی ہیں/ پربت بھی اٹھائے ہیں/ بے قابو پانی پر‘ یوں ساحل بھی بنائے ہیں/ رن وے بھی دکھائے ہیں/ خود کو بستی سے باہر ہی پیڑوں تلے بٹھایا ہے/ اور تمہیں میں نے/ اوپر کو جاتی ہوئی لفٹ میں/ جا کر کے سجایا ہے۔
کسی اگلی نشست میں اس کی غزل کے بارے میں بھی آگاہ کروں گا جو اس کی نظموں ہی کی تاثیر کی حامل ہے۔
آج کا مطلع
میں نے کب دعویٰ کیا تھا سربسر باقی ہوں میں
پیش خدمت ہوں تمہارے جس قدر باقی ہوں میں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں