ہمارے کچھ بھائی مارشل لاء سے ڈراتے اور اس پردے میں کرپٹ جمہوری حکومت کا دفاع بھی کرتے اور اس کے گُن بھی گاتے رہتے ہیں جبکہ ملک میں مارشل لاء کا نہ تو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی کوئی عقلِ سلیم رکھنے والا شخص اس کی حمایت یا وکالت جیسی حماقت کر سکتا ہے جبکہ‘ جیسا کہ پہلے بھی انہی کالموں میں عرض کیا جا چکا ہے‘ مارشل لاء لگائے یا فوجی حکومت قائم کیے بغیر بھی اس ملک کے سب سے بڑے ناسور‘ کرپشن سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے اور محض نیب اور ایف آئی اے کو وزارت دفاع کے ماتحت کر دینے سے سارا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ فوج کا کام نہیں ہے لیکن جو کام مثلاً کراچی میں رینجرز اور فوج سے لیا جا رہا ہے کیا وہ فوج ہی کے فرائض میں شامل ہے؟ فوج وہاں کرپشن پر اس لیے توجہ دے رہی ہے کہ یہ پیسہ دہشت گردی میں استعمال ہو رہا ہے جبکہ بلوچستان سمیت دوسرے صوبوں میں بھی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے کیونکہ دہشت گرد اپنے آپ کو حکومت کا متبادل سمجھتے ہیں اور اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کے لیے فنڈز اکٹھا کرنا بھی ضروری اور جائز قرار دیتے ہیں کہ دونوں باتیں لازم و ملزوم بھی ہیں۔
ملک میں کرپشن کے خاتمے کے لیے محکمہ اینٹی کرپشن کے علاوہ ایف آئی اے اور نیب ہی ہیں۔ اینٹی کرپشن کا عالم تو یہ ہے کہ بقول شخصے سب سے زیادہ کرپشن اینٹی کرپشن ہی کے محکمے میں پائی جاتی ہے جبکہ دوسرے دونوں ادارے بس برائے نام ہی
ہیں بلکہ کرپشن کو روکنے کی بجائے یہ کرپشن چھپانے اور اس کی حوصلہ افزائی کا باعث ہیں اور جس حکومت کے یہ براہ راست ماتحت ہیں اس کے خلاف اربوں کے سکینڈل آئے روز منظر عام پر آتے رہتے ہیں اور کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی جبکہ گندم اور گیس سکینڈل تازہ ترین مثالیں ہیں جس میں اربوں روپے اِدھر اُدھر کر دیے گئے جبکہ عمالِ حکومت خود اور براہ راست اس میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔ بس برائے نام انکوائری کمیٹیاں قائم کردی گئی ہیں جس کا نتیجہ سب کو معلوم ہے۔ کسی عدالت کو اس حوالے سے سوموٹو ایکشن لینے کی توفیق نہیں ہوئی اور ملک کو ایک کرپٹ مافیا کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
لطیفہ یہ ہے کہ سابق وزیراعظم کے خلاف 17 ارب کی کرپشن کی انکوائری تو وزیراعظم سے ان کی ملاقات کے بعد کھڈے لائن لگا دی گئی ہے البتہ سابق ترک خاتونِ اول کے عطیہ میں دیئے گئے ایک ہار کے بارے انہیں نوٹس دینا ضروری سمجھا گیا ہے کہ اسے واپس کریں ورنہ ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ حتیٰ کہ اپنے دور میں موصوف نے ارب ہا روپے کی جو ''خدمت ارزانی‘‘ فرمائی ہے‘ اس کی کسی نے تفتیش کی ضرورت محسوس کی ہے نہ ہی انہیں نوٹس
وغیرہ دینے کا کوئی تکلف روا رکھا گیا ہے جبکہ زیادہ امکان اسی کا ہے کہ وہ ہار بھی ہضم کر جائیں گے اور کسی نہ کسی بہانے کارروائی وغیرہ بھی ٹل جائے گی اور یہی مفاہمتی پالیسی کے وہ ثمرات ہیں جو دونوں ہاتھوں سے سمیٹے جا رہے ہیں۔
تازہ ترین کارگزاری یہ ہے کہ ایان علی کے خلاف منی لانڈرنگ‘ ٹیکس چوری اور کئی دیگر الزامات پر ایف بی آر کو کارروائی سے روک دیا گیا ہے‘ شاید اس لیے کہ زرداری صاحب نے فوج کے خلاف اپنے کڑاکے دار بیان کے بعد اب پھر مفاہمتی سیاست کو جاری و ساری رکھنے کا اعلان کردیا ہے کیونکہ اس کے بغیر دونوں پارٹیوں کی قیادت ایک قدم بھی نہیں چل سکتیں کہ دونوں ایک دوسرے کے کانے اور رازدار ہیں اور اگر ایک نے دوسرے کے خلاف چُوں بھی کی تو دوسرا سارا کچا چٹھہ کھول کر رکھ دے گا۔
ہمارے وہ دوست جو مارشل لاء کے زمانے میں موجیں لوٹتے اور نام نہاد جمہوری دور میں مارشل لاء سے ڈرانے کا کاروبار کرتے ہیں‘ انہیں حکومت کی میگا کرپشن کی کہانیاں صرف قصے کہانیاں لگتی ہیں۔ لطف یہ ہے کہ وہ کرپشن کو تسلیم بھی کرتے ہیں اور اس کے خلاف واویلا کرنے کی بجائے ایسی بیش قیمت تجاویز پیش کرتے ہیں کہ حکومت‘ فوج اور سیاسی جماعتوں کو ایک ایسا ایکشن پلان تیار کرنا چاہیے جس میں احتسابی عمل کی یقین دہانی ہو اور اس پلان پر کسی کے اثرانداز ہونے کا امکان نہ رہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسی حکومت یہ پلان بنانے یا اس میں شامل ہونے کا تصور ہی کیسے کر سکتی ہے جو کرپشن میں نہ صرف خود گوڈے گوڈے دھنسی ہوئی ہو بلکہ دیگر سیاست دانوں کی کرپشن کی پردہ داری میں بھی مصروف ہو۔ یقینا ہمارے یہ دوست خدانخواستہ نابینا نہیں ہیں اور کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔
آپ کسی بھی حکومت کی حمایت کر سکتے ہیں لیکن اس میں اتنی پردہ پوشی کی کیا ضرورت ہے جبکہ پسِ چلمن آپ نظر بھی آ رہے ہیں۔ ہمارے جو دوست کھل کر (موجودہ) حکومت کی حمایت کرتے ہیں‘ انہیں کبھی اس بات کی پروا نہیں ہوتی کہ لوگ کیا کہیں گے کیونکہ جو ''عزت‘‘ انہیں اس طرح سے ملی ہوئی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے لیے یہی کافی ہے۔ ان میں کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو
اپنی تحریروں میں حکومت کی کھل کر مخالفت بھی کرتے ہیں تاکہ ان کی پردہ داری قائم رہے لیکن یہ طریقِ واردات بھی اب پرانا ہو چکا ہے اور لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ کون کیا ہے اور کس بینڈ سے بول رہا ہے۔ وہ یہ بات خوب اچھی طرح سے سمجھتے ہیں اور انہیں سمجھانے کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ کرپشن ہی اس ملک کی سب سے بڑی بیماری ہے جو اسے گھن کی طرح کھائے چلی جا رہی ہے لیکن چونکہ ان کے اپنے مفادات اسی سے وابستہ ہیں‘ اس لیے ان کے وعظ میں کوئی اثر بھی باقی نہیں رہا۔
مارشل لاء یا فوجی حکومت کبھی جمہوری حکومت کا متبادل نہیں ہو سکتیں اور مارشل لاء سے ڈرانے اور حکومتی کرپشن سے چشم پوشی غالباً خود مارشل لاء کی حمایت سے بھی بڑا جرم ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کے ایک کھرب 51 ارب روپے پڑے ہماری جمہوری حکومت کا منہ چڑا رہے ہیں۔ نیب اور ایف آئی اے اگر براہ راست وزیراعظم کی بجائے سیکرٹری دفاع کو جوابدہ ہوں تو دیکھتے ہیں کہ کرپشن اور کرپشن کی یہ پردہ پوشی کیسے ختم نہیں ہوتی۔ یہ رہا گھوڑا اور یہ اس کا میدان!
آج کا مقطع
پرِ پرواز ہی ایک ایسی مصیبت ہے‘ ظفرؔ
جس کو میں شاملِ پرواز نہیں رکھ سکتا