موبائل فون جو اب کتاب سے بھی بڑھ کر آپ کے ساتھی کا کردار ادا کرتا ہے‘ خاص طور پر میرے جیسے آدمی کے لیے جس کا زیادہ تر وقت گھر پر ہی گزرتا ہو اور گھر میں بالعموم اکیلا بھی ہو۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ ہر وقت رونق لگی رہتی ہے‘ یعنی فیس بُک کے علاوہ بھی۔ لوگ محبت اور یگانگت شعار کرتے ہوئے نہ صرف شاعری شیئر کرتے ہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ یعنی لطیفے‘ دعائیں اور ادبی خبریں وغیرہ۔ دوستوں کی فون کالز ان کے علاوہ۔ مثلاً غالباً اٹک سے شعیب زمان بلا ناغہ خیریت دریافت کرتے اور سلامتی کی دعا دیتے ہیں ۔ اوکاڑہ سے جاوید راہی طرح طرح کی دعائوں سے ناک میں دم کیے رکھتے ہیں یعنی میسج پر میسج۔ جناب ذاکر حسین ضیائی مختلف ہم عصر شعراء کے اشعار‘ باقاعدگی سے ارسال کرتے ہیں۔ میں میسج کھول تو لیتا ہوں‘ کر نہیں سکتا نہ ہی جواب دینے کی توفیق ہے۔ کوئی بہت ضروری میسج کرنا یا کسی کا جواب دینا ہو تو ملازم لڑکے کی خدمات حاصل کرتا ہوں جو تقریباً ان پڑھ ہے۔
آج پہلے تو نعیم احمد ضرار کا میسج موصول ہوا کہ میں جلداز جلد آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ میری رہائش (کان نمک) کھیوڑہ میں ہے۔ آپ ہمارا نمک کھا رہے ہیں اس لیے آپ پر کچھ نہ کچھ حق تو ہمارا بھی ہے۔ میں نمک حرام نہیں کہلانا چاہتا‘ اس لیے جب‘ آپ کا جی چاہے‘ فون کر کے تشریف لے آئیں۔ تاہم جہاں میں رہتا ہوں وہ بھی کانِ نمک سے کچھ کم نہیں ہے۔ اس علاقے کو مڈ لینڈ فارم ہائوسز کہتے ہیں جو شہر سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اگر اتنا دل گردہ ہے تو آ جائیں۔ چشمِ ما روشن‘ دلِ ماشاد۔ راستہ میں بتا دوں گا اگرچہ بتانے پر بھی اکثر مہربان بھٹک جاتے ہیں۔
دو میسج اس کے علاوہ ہیں جو مُبین مرزا اور ذوالفقار عادل کے اشعار پر مشتمل ہیں۔ مبین مرزا جیسا کہ آپ جانتے ہیں‘ کراچی سے ''مکالمہ‘‘ نکالتے ہیں۔ شاعری کے علاوہ افسانہ اور تنقید لکھتے ہیں۔ ان کے نام سے تین شعر ہیں جن میں سے ایک نے تو مجھے ‘ یوں سمجھیے کہ پکڑ کر بٹھا دیا ہے۔ اچھا شعر کم کم ہی دستیاب ہوتا ہے۔ مبین مرزا سے میں ویسے بھی ناراض تھا‘ اور‘ اب بھی ہوں لیکن احباب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ جب میں رائے دینے یا لکھنے لگتا ہوں تو کسی کا دوست ہوتا ہوں نہ دشمن‘ مخالف نہ موافق۔ میری سلیٹ ہر وقت صاف رہتی ہے۔ نیز یہ کہ اچھے شعر کو تو میں صدقۂ جاریہ سمجھتا ہوں اور جب تک اسے آگے چلا نہ لوں‘ مجھے چین ہی نہیں آتا۔ ظاہر ہے کہ یہ میری پسند کا شعر ہوتا ہے لیکن میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ میری پسند کچھ ایسی گئی گزری بھی نہیں ہوتی۔ بہرحال‘ آپ شعر دیکھیے ؎
یہی تو دُکھ ہے زمیں آسماں بنا کر بھی
میں در بدر ہوں خود اپنا جہاں بنا کر بھی
اچھا شعر تو میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کی دین ہے اور یہ کسی وقت‘ کسی پر بھی اُتر سکتی ہے اور‘ اچھے شعر پر کسی کی اجارہ داری بھی نہیں ہو سکتی۔ اچھے شعر کے ساتھ ساتھ شاعر جھک بھی مارتا ہے۔ میں تو اکثر مارا کرتا ہوں لیکن اس میں بھی اتنی گنجائش ضرور رکھتا ہوں کہ اس کا کوئی جواز بھی موجود رہے۔ مذکورہ بالا شعر کوئی غیر معمولی شعر نہیں ہے لیکن معمولی بھی نہیں ہے۔ مضمون بھی کوئی خاص نیا نہیں‘ اور‘ نئے مضمون رہ بھی کہاں گئے ہیں کہ ایک مضمون کا ہزارہا شعر دستیاب ہے۔ اس لیے ہر شعر کو معمولی بھی کہا جا سکتا ہے‘ تاہم بعض اوقات شاعر شعر میں جیسے جادو کا کوئی ٹکڑا رکھ دیتا ہے جس سے شعر کی کایا پلٹ جاتی ہے۔ اور ‘ ہم یہی کچھ کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں‘ جس میں کبھی کامیاب ہوتے ہیں اور کبھی ناکام۔
ویسے شعر کے ساتھ مضمون کا کوئی خاص تعلق بھی نہیں ہوتا۔ بلکہ اکثر اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اعلیٰ و ارفع اور نسبتاً نیا مضمون باندھنے سے بھی شعر نہیں بنتا۔ محبی افتخار عارف کہا کرتے تھے کہ ظفر بھائی بات کچھ نہیں ہوتی اور آپ شعر بنا دیتے ہیں۔ یہ کوئی خوبی کی بات نہ بھی ہو‘ تو بھی یہ ضرور ہے کہ میں نے مضمون کو کبھی اپنا درد سر نہیں بننے دیا۔ بعض اوقات تو میرے شعر کا کوئی سر پیر ہوتا ہی نہیں۔ بہرحال‘ سب سے پہلے اس غزل کی زمین نئی ہے جو دامنِ دل کو کھینچتی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ اکثر اوقات غزل کی زمین ہی بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ مثلاً غیر مردّف غزل نے مجھے کبھی مزہ نہیں دیا کہ ردیف کا ایک اپنا لطف ہے جس سے شعر کو خواہ مخواہ محروم کر دیا جاتا ہے۔ شاید اس لیے میرے ہاں غیر مردّف غزل آپ کو کہیں ڈھونڈنے ہی سے دستیاب ہو گی۔
اس شعر نے مجھے مسّرت سے ہمکنار کیا ہے جس میں میں نے کئی دوسروں کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ کمزور اور مکھی پر مکھی مار کہ شعر سُن سُن اور پڑھ پڑھ کر ہماری حالت پہلے ہی غیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اس شعر کے علاوہ بھی مبین مرزا کے دو اور شعردرج ہیں‘ لیکن مندرجہ بالا شعر کے مقابلے میں ایسے شعر کو رکھنا اُس شعر کے ساتھ بھی زیادتی ہو گی۔ ذوالفقار عادل کا شعر بھی دیکھیے ؎
یار ہم نے تو زندگی کا شو
لائنوں میں کھڑے کھڑے دیکھا
ذوالفقار عادل میرے پسندیدہ شعرا میں سے ہیں۔ ان کے جو اشعار مجھے زبانی یاد ہیں وہ آپ کی نذر کرتا ہوں ؎
جتنا اُڑا دیا گیا
اتنا غبار تھا نہیں
دل سے گزر رہا ہے کوئی ماتمی جلوس
اور اس کے راستے کو کُھلا کر رہے ہیں ہم
ایک ایسے شہر میں ہیں جہاں کچھ نہیں بچا
لیکن اک ایسے شہر میں کیا کر رہے ہیں ہم
کب سے کھڑے ہوئے ہیں کسی گھر کے سامنے
کب سے اک اور گھر کا پتا کر رہے ہیں ہم
تاہم ‘ اوپر درج شعر کا کچھ مزہ نہیں آیا۔ حتیٰ کہ دو انگریزی الفاظ کے استعمال سے بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
لیکن میں مبین مرزا کے دوسرے شعروں سے بھی آپ کو محروم کرنا نہیں چاہتا۔ دیکھیے : ؎
اسے بھی دیکھیں گے فرصت میں‘ ایسی عجلت کیا
حسابِ عمرِ گزشتہ کہیں نہیں جاتا
جشنِ تنہائی سمیٹا جائے
ورنہ اب شہر میں چرچا ہو گا
یہ بھی اچھے اشعار ہیں لیکن پہلے والا شعر مجھے زیادہ اچھا لگا۔
آج کا مطلع
ابھی خاموش رہنا تھا مگر اظہار کر ڈالا
جو تھا دشوار اُس کو اور بھی دشوار کر ڈالا