صبح صبح مُحبی ڈاکٹر تحسین فراقی کا فون آیا کہ میں نے ''مکالمہ‘‘ میں آپ کی سوانح عمری کی قسط پڑھی ہے‘ جو بہت اچھی لگی لیکن آپ نے اس کا عنوان جو درگزشت رکھا ہے وہ ٹھیک نہیں‘ اسے تبدیل کر دیجیے کیونکہ لغت کے مطابق در گزشت کا مطلب ہے مر گیا۔ میں نے کہا آپ کوئی اچھا سا نام تجویز کر دیجیے جس کا انہوں نے وعدہ کیا۔ اس کے بعد میں نے خود اس لفظ پر غور کیا کہ میں نے یہ عنوان کیوں رکھا ہے اور محسوس کیا کہ یہ غلط نہیں کیونکہ سرگزشت کا مطلب ہے جو سر پر گزری تو در گزشت کے معنی ہوئے جو اندر یا دل پر گزری۔ اس کے علاوہ درگزر کرنا کا مطلب مر جانا نہیں بلکہ برداشت کرنا ہے مثلاً یہ بھی کہ میں اس کام سے درگزرا یعنی اسے نظر انداز کیا۔
اور جہاں تک لغت کا تعلق ہے تو میں اس میں دیئے گئے معنی کو حتمی تسلیم نہیں کرتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ لغوی کے ساتھ ساتھ لفظ کے لفظی معنی بھی ہو سکتے ہیں کیونکہ لغت بھی آخر انسانوں ہی کی بنائی ہوئی ہے‘ وہ بھی غلطی یا کوتاہی کے مرتکب ہو سکتے ہیں‘ بلکہ میں نے زبان سے جو بغاوت کی تھی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ الفاظ کو معانی کے اندر قید کر دیا گیا ۔ حلانکہ طے کردہ یا دیے گئے معانی کے علاوہ بھی ہو سکتے ہیں‘ اور میں نے اگر شاعری میں ایسا کیا ہے تو نثر میں کیوں نہیں کر سکتا یعنی اگر میں لغت کو من و عن تسلیم کر لوں تو کیا پچاس سال تک میں نے جھک ماری ہے؟ یعنی ؎
زباں کو سر پہ بٹھائے بھی ہم پھرے ہیں‘ ظفر
سخن کیا ہے زباں پر سوار ہو کر بھی
''عورت ہوں ناں‘‘یہ عارفہ شہزاد کی نظموں کا مجموعہ ہے جسے دستاویزات مطبوعات لاہور نے چھاپا ہے اور قیمت 280روپے رکھی ہے۔ پس سرورق ڈاکٹر تبسم کاشمیری لکھتے ہیں:''عارفہ کے مجموعہ کلام کا جب میں نے ٹائٹل پڑھا تو چونک اٹھا... عورت ہوں ناں‘ اور جب میں نے کچھ تیزی اور کچھ آہستگی کے ساتھ ان نظموں کو پڑھنا شروع کیا تو مجھے مسلسل محسوس ہوتا رہا کہ عارفہ کی بیشتر نظمیں یہ کہہ رہی ہیں...عورت ہوں ناں! اورانتہائی بامعنی نظموں کا یہ مجموعہ جدید اردو نظم کے شعرا میں بالعموم اور شاعرات میں بالخصوص‘ ایک ایسا شعری نقش تخلیق کرنے میں کامیاب ہوا ہے جس کی مثالیں ہمارے ہاں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ ان نظموں کا مجموعی پیرایہ کسی نہ کسی شکل میں تانیثیت کے جذبہ اور احساس کی نہایت لطیف‘ پر جمال اور پر کیف تمثالیں بناتا ہے۔ عارفہ کی نظموں میں عصری حساسیت کا آشوب بھی ملتا ہے اور انسانی رشتوں کی خوبصورت تمثالوں کا منظر نامہ بھی نظر آتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاعری وہ ہے جو ہمیں کسی نہ کسی سطح پر MOVEکرے‘ ہمارے اندر حساسیت‘ فکر اور احساس کے دیئے جلائے اور ہمیں تخلیقی طور پر اندر سے روشن کرتی جائے۔عارفہ کے مجموعہ کو پڑھ کر میں تو ایسے ہی تجربات کی واردات سے گزرا ہوں‘ اب آپ بھی میرے شریک سفر بن کر اس شعری واردات میں شریک ہو جائیں‘‘۔
اب اس کے بعد کچھ کہنے سننے کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے کہ ڈاکٹر صاحب تو نقاد اور نظم گو ہیں اور نظم پر اتھارٹی بھی۔ میں تو اپنے آپ کو غزل پر بھی اتھارٹی نہیں سمجھتا‘ حالانکہ غزل پر اتھارٹی ہونے کے لیے کسی خاص کوالیفکیشن کی ضرورت نہیں ہے۔
اس کتاب میں سے کچھ نظمیں میں نے بھی پڑھی ہیں اور انہیں پڑھتے وقت ایسا نہیں لگتا کہ آپ کوئی بیگار کاٹ رہے ہیں یا آپ سے کوئی ایسا کام زبردستی کروایا جا رہا ہے جسے آپ کرنا نہ چاہتے ہوں۔ غزل کے مقابلے میں نظم ویسے بھی ایک اور ہی دنیا کی چیز ہے۔ اسے غزل کی طرح پڑھنا بھی نہیں چاہیے کہ اسے غزل کی طرح پڑھا جا بھی نہیں سکتا۔ غزل کے مقابلے میں نظم کی ایک سہولت یہ بھی ہے کہ آپ اسے بیچ میں کہیں سے بھی ختم کر سکتے ہیں‘ بات پوری کیے بغیر ۔بات تو غزل کے شعر میں بھی پوری نہیں کہنی چاہیے جبکہ نظم میں ادھوری بات کو آپ بعد میں بھی کسی وقت مکمل کر سکتے ہیں؛ اگرچہ نظم کبھی مکمل نہیں ہوتی اور اس میں کچھ مزید کہنے کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے جبکہ بقایا بات غزل میں کہنا ممکن نہیں ہوتا۔
نظم اچھی یا بری نہیں ہوتی‘ یہ تو بس ہوتی ہے‘ اسے پڑھ کر شائبہ سا گزرتا ہے کہ کوئی بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے یا کچھ چھپانے کی سعی کی گئی ہے ‘جیسے ؎
وہ کسی کے پاس رکنے اور ٹھہرنے میں کہاں
جو مزہ نزدیک سے ہو کر گزر جانے میں ہے
پابند نظم کا تو اب رواج ہی نہیں رہ گیا نہ ہی وہ اچھی لگتی ہے یعنی آج کی نظم کو آپ شکوہ جواب شکوہ کی طرح نہیں پڑھ سکتے نہ ہی یہ اس طرح سے لکھی جاتی ہے‘ آزاد نظم نے پابند نظم پر اس طرح قبضہ جما لیا ہے جس طرح آزاد نظم کی جگہ پر اب نثری نظم قابض ہوتی ہے۔ پابند نظم کی ایک قابل رحم مثال ہمارے سینئر ترین شاعر منیب الرحمان کی وہ نظمیں ہیں جو اس بار ''دنیا زاد‘‘ میں شائع ہوئی ہیں اور تبرک کے طور پر ہی پڑھی جا سکتی ہیں۔ غزل تو زیادہ دل کے معاملات پر ہی مشتمل ہوتی ہے لیکن نظم میں دل کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی بروئے کار لانا پڑتا ہے ۔نظم کو غزل کی طرح پڑھنے والے اس لیے مایوسی کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ غزل کے شعر سے فوری طور پر کسی نہ کسی یافت کی توقع ہوتی ہے۔ نظم میں ایسا نہیں ہوتا۔ نظم رفتہ رفتہ اور نامعلوم انداز میں اپنا اثر چھوڑتی ہے کیونکہ اپنے آپ کو نظم کے سپرد کرنا پڑتا ہے‘ اس کے ساتھ رشتے داری گانٹھنی پڑتی ہے۔ سو‘ یہ بات نہایت خوش آئند ہے کہ غزل اور ٹینشن آہستہ آہستہ قاری کا پیچھا چھوڑ رہی ہے اور اسے نظم کے اندر داخل ہونے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔
یہ کوئی غیر معمولی نظمیں نہیں ہیں کیونکہ نظم کا نظم ہونا بجائے خود ایک غیر معمولی بات ہے۔ میں نے پہلے بھی کہیں لکھ رکھا ہے کہ نظم کبھی ختم نہیں ہوتی‘ جہاں یہ ختم ہوئی تھی وہیں سے آپ اسے کسی وقت بھی شروع کر سکتے ہیں بلکہ آپ کی بجائے کوئی اور بھی اسے وہاں سے شروع کر سکتا ہے کیونکہ اس میں اتنی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ عارفہ شہزاد ایک خوبصورت شاعرہ ہیں اور اس کا کچھ اندازہ پس سرورق شائع ہونے والی تصویر سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ ایک خوبصورت شخص سے ایسے کسی کام کی توقع کی ہی نہیں جا سکتی جو خوبصورت نہ ہو۔
میرے پسندیدہ نظم گو شعرا کی فہرست میں جن دو ناموں کا حال ہی میں اضافہ ہوا ہے وہ زاہد مسعود اور زاہد حسن ہیں۔ اس لیے بھی کہ غزل گو ہونے کے باوجود نظم میرا سروکار ہے۔ ظاہر ہے کہ نظم اگر مستقبل کی شاعری ہے تو میں خود ہی کچھ عرصے بعد ماضی کا شاعر ہو جائوں گا۔ نظم مجھے فیسی نیٹ کرتی ہے اور میرے لیے یہی کافی ہے۔ اور اب عارفہ کی یہ نظم جس کا عنوان ہے ''جو تم چپ رہو تو‘‘... جو تم چپ رہو تو /پرندے اڑانیں بھلا بیٹھتے ہیں / ہوا سادھ کر دم /نہ جانے اداسی سے کیا سوچتی ہے/ سب رنگ بادل بھی آ گھیرتے ہیں/ بھری دوپہر/ شام کے ملگجے سے لپٹ کر / وہ آنسو بہاتی ہے/ آنکھیں بھگو دیتی ہے/ منظروں کی ! جو تم چپ رہو تو/ میرے دل میں ایسے کئی وسوسے ٹھوکریں مارتے ہیں/ لہو جسم میں ٹھیرتا ہی نہیں ہے/ میری سانس کی دھونکنی سے/ بھڑکتی ہے وہ آگ/ جانے میں کیا کچھ جلا بیٹھتی ہوں/ تمہارے سوا/ سب بھلا بیٹھتی ہوں/ جو م چپ رہو تو/ میری روح میں اضطراب ایسا اٹھے/ کہ پھر نیند میں بھی جو سوتا نہیں ہے/ کوئی کام بھی مجھ سے ہوتا نہیں ہے۔
آج کا مقطع
ہم نے چھیڑا نہیں اشیائے محبت کو‘ ظفرؔ
جو جہاں پر تھی پڑی اس کو وہیں رہنے دیا