اگلے روز محبّی اصغر ندیم سید کا فون آیا کہ بھارت کے ایک شاعر جینت پرمار کا شعری مجموعہ آیا ہے۔ بہت عمدہ کتاب ہے، اور اس میں ایک شعر آپ کی تعریف میں بھی ہے۔ میں خود پڑھ لوں تو پیش کر دوں گا۔ دراصل اس کی اطلاع مجھے پہلے ہی بہاول نگر سے اپنے شاعر دوست سلیم شہزاد کے ذریعے مل چکی تھی اور میرے لیے آئی ہوئی کتاب انہوں نے بھجوا بھی دی اس لیے سید صاحب زحمت نہ اٹھائیں۔ جو شعر اس خاکسار پر ضائع کیا گیا ہے وہ یہ ہے ؎
ابھی رطب و یابس میں ڈوبا ہوں میں
ہیں آبِ رواں میں ظفرؔ ایک دو
کتاب کا نام ہے ''جیا کومیتی کے سپنے‘‘ جو احمد آباد سے شائع ہوئی ہے اور اس کی قیمت 300روپے رکھی گئی ہے۔ کتاب میں درج خاکوں سے پتا چلتا ہے کہ شاعر مصور بھی ہے۔ انتساب مینا، سنکیتا اور ودشا کے نام ہے۔ دبیز کاغذ پر عمدہ گیٹ اپ میں چھاپی گئی ہے۔ اس کی پہلی خوبی تو یہ ہے کہ اس کی ڈکشن اور انداز دوسروں سے مختلف ہے اور یہی شاعری کا جواز بھی ہے ورنہ ایک جیسی شاعری آپ کو کہیں نہیں پہنچا سکتی۔
جن مشاہیر کے حوالے ان نظموں میں ملتے ہیں، ان میں مجسمہ ساز جیا کومیتی کے علاوہ جون مائر، ایڈگر ایلن پو، پکاسو، پال والیری، ممونے، اسدؔ، میکلش، رومی، حضرت خواجہ، غالب، تفتہ، علائی، ثاقب، مجروح، بوریس پاسترناک، میرؔ، سوریہ، صادقین، فیض، اقبال، ورجن، راشد، شبابِ ملت، منٹو، ٹیگور، پال گوگین، فریڈا کاہلو، شاہ حسین، زلفی، ریشماں، عارف لوہار، امیر خسرو، منو، ڈاکٹر ابیدکر، ولاس گھوگرے، برہما، برسامنڈا، عادل منصوری، فانی‘ سرشار اور بلراج کومل شامل ہیں۔
اس میں زیادہ تر نظمیں ہیں البتہ آخر میں ''تسبیح‘‘ کے عنوان کے تحت چند غزلیں بھی ہیں تا ہم ان میں ایک التزام یہ رکھا گیا ہے کہ مقطع کے بعد مطلع کو دہرا دیا گیا ہے جیسا کہ مشاعروں میں کیا جاتا ہے۔ شاعر نے اس کی اس طرح وضاحت بھی کی ہے کہ ''ان سات غزلوں کا میں نے ''تسبیح‘‘ عنوان رکھا ہے۔ تسبیح میں آخری دو منکے مل جاتے ہیں۔ مطلع کا پہلا مصرع اور آخری مصرع مل کر ایک مطلع اور ہو جاتا ہے۔ تسبیح میں خیال مسلسل ہوتا ہے‘‘ سرورق اور پیٹنگز شاعر کی اپنی ہیں جبکہ غالبؔ کی پینٹنگ وِرشا مہاپاتر کی ہے۔ ہو سکتا ہے اس ڈکشن میں اور اس طرح کی شاعری بھارت میں اور بھی ہوتی ہو لیکن میری نظر سے نہیں گزری جبکہ نظم میں ایک ہی پیرا یہ اب تک نظر آتا ہے۔ اخترالایمان اور بلراج کومل وہاں کے اہم شاعر شمار ہوتے ہیں لیکن مجھے انہوں نے کم کم ہی متاثر کیا ہے۔ ڈکشن کے علاوہ جینت پرمار کی نظموں میں تجرید اور ابہام کی کارفرمائی نمایاں نظر آتی ہے‘ جو جدید نظم کی ایک خصوصیت اور خوبی بھی ہے۔
بظاہر یہ موزوں نظمیں ہیں لیکن ایک لحاظ سے جگہ جگہ ان میں وزن کے فقدان کی وجہ سے جھٹکے سے لگتے ہیں۔ اس فنی سقم کے باوجود، میں سمجھتا ہوں کہ شاعر نے اس طرح اپنا ایک لحن بنانے کی کوشش کی ہے کیونکہ اسے عروض سے عدم واقفیت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ویسے بھارت کے اکثر دیگر شعراء کی نظموں میں بھی وزن ٹوٹتا ہے اور جن میں گلزار اور ستیہ پال آنند بطور خاص شامل ہیں، جاوید اختر بھی۔
غزلیں گوتعداد میں بہت کم ہیں لیکن ان کا بھی ایک اپنا ذائقہ ہے۔ پہلی اچھی بات تو یہ ہے کہ ان میں نام نہاد تغزل کہیں ڈھونڈے سے بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ میں نے تو ''آبِ رواں‘‘ ہی میں کہہ دیا تھا کہ ؎
تغزل کا بازار ٹھنڈا ہوا کوئی اور ہی دوپہر گرم ہے
عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان غزلوں میں اس دوپہر کی تپش محسوس کی جا سکتی ہے۔ ان نظموں میں شاعر نے ہمیں جیاکومیتی کے سپنے دکھانے کی کوشش کی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر وہ ہمیں اپنے سپوں کی کوئی جھلک بھی دکھاتے۔ ویسے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ انہوں نے یہ اپنے ہی سپنے دکھائے ہوں، یعنی ؔ
خوشتر آں باشد کہ سر دلبراں
گفتہ آید در حدیثِ دیگراں
ان کی ایک نظم دیکھیے:
روسی کویتا کے جنگل میں
(بوریس پاسترناک کی نذر)
ایک آنکھ سے جاگتی ہے
ساری دنیا جب سوتی ہے
موسمِ گل کے خواب دیکھتی رہتی ہے
جاڑوں میں بُنتی ہے خواب بہاروں کے
سوئے ہوئے لوگوں کی جبیں پر
چاند ستاروں کی مانند چمکتی ہے
انقلاب کے گیت سناتی ہے جب بھی
سائبیریا میں جلا وطنی کی سزا سنائی جاتی ہے
روسی کویتا کے جنگل میں
پکارتا ہوں جب بھی تجھ کو
دل کی ہری بھری ٹہنی سے
ہزار طوطے اڑتے ہیں
اور، اب اس کی غزل کے تیور دیکھیے:
سورج نقطے میں ڈھلتا تھا
شبنم میں سایہ جلتا تھا
حیرت کی چڑیا کے پروں پر
میرا دل اُڑتا رہتا تھا
پائوں میں کانٹے چبھتے نہیں تھے
ساتھ میرے جب تُو چلتا تھا
دیا سلائی شام کی روشن
کمرے میں صحرا جلتا تھا
سانجھا چولہا تھا ہر گھر میں
رستے سے رستہ ملتا تھا
صِفر کی زنجیریں پائوں میں
میں خود کو سنتا رہتا تھا
میں خود کو سنتا رہتا تھا
سورج نقطے میں ڈھلتا تھا
آج کا مقطع
گھیرا ہوا ہے اِس کی حدوں نے اِسے‘ ظفر
یہ شہر وہ ہے جس کے مضافات ہی نہیں