سالن میں نمک زیادہ
سالن میں نمک کی کمی بیشی اکثر اوقات ہی رہتی ہے جس پر تلخی وغیرہ بھی ہوتی رہتی ہے اور میاں کی سرزنش بھی‘ ظاہر ہے کہ نمک کی زیادتی کھانے کی ساری لذت ہی کو شرما کر رکھ دیتی ہے۔ حتّیٰ کہ شاعر لوگ بھی بلبلا اٹھتے ہیں: مثلاً غالباً شاد عارفی کا شعر ہے ؎
نمک سالن میں اتنا تیز توبہ
مزعفر ڈالڈا آمیز توبہ
یعنی ایک نمک کی زیادتی ہی سے آدمی توبہ توبہ کر اٹھتا ہے۔ سو‘ سالن میں نمک کم کرنے کے کوئی سائنسی طریقے بھی ضرور ہوں گے کیونکہ سائنس جتنی ترقی کر چکی ہے وہ پریشان کن بھی ہے۔ اسی لیے سائنس سے دور دور رہنا ہی اچھا ہوتا ہے۔ تاہم زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم اگرچہ سائنسدان نہیں ہیں اور الحمدللہ کہ نہیں ہیں اور اس بدمزگی کو دور کرنے کے لیے جو طریقہ ہم نے ایجاد کیا ہے وہ سہل الحصول بھی ہے اور اس پر کچھ زیادہ خرچہ بھی نہیں اٹھتا‘ اور وہ یہ ہے کہ نمک زدہ سالن میں دو چمچ بھر کر پسی ہوئی سرخ مرچوں کے ڈال دیں اور سالن کو اچھی طرح سے ہلائیں اور گھمائیں! حتّیٰ کہ مرچیں سالن میں اچھی طرح سے مکس ہو جائیں‘ اور جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نمک کی تلخی نیست و نابود ہو جائے گی بلکہ کھانے والوں کو یاد ہی نہیں رہے گا کہ سالن میں کبھی نمک زیادہ بھی تھا ‘یعنی مرچوں کی زیادتی نمک کی زیادتی کو بالکل زائل کر دے گی اور نمک کی زیادتی کی وجہ سے شُوں شُوں کرنے والے شُوں شُوں بھول کر شاں شاں کرنے لگیں گے اور اگر تھوڑی بداحتیاطی سے سالن میں مرچیں زیادہ ہو جائیں تو بھی گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ اس میں دو چمچ نمک کے ڈال کر اس کو دہرائیں‘ خاطر خواہ نتائج حاصل ہونگے۔
رہنمائے باورچی خانہ
خواتین خانہ کی سہولت کے لیے ہم نے یہ نہایت مفید کتاب تیار کروائی ہے تاکہ وہ ہر قسم کے کھانے گھر پر ہی تیار کر سکیں اور اپنے میاں کی بھی منظور نظر رہیں کیونکہ بقول شخصے خاوند کی محبت اس کے پیٹ کے راستے سے آتی ہے۔ اگرچہ موجودہ حالات میں وہ بے چارہ ماسوائے محبت کے اور کچھ کر بھی نہیں سکتا۔ اگرچہ گھر سے باہر رہنے میں وہ زیادہ سکون محسوس کرے گا لیکن کڑا پہنانا سراسر زیادتی ہے۔ بلکہ اب تو مزید سہولت ہو گئی ہے کہ برتن وغیرہ صاف کرنے کے علاوہ وہ دفتر یا دکان سے گھر آ کر رات کا کھانا بھی تیار کر سکتا ہے۔ کھانوں کی اس شہرہ آفاق کتاب کا دیباچہ ہماری خصوصی درخواست پر میاں نوازشریف نے لکھی ہے اور بہت مزے لے لے کر لکھا ہے جس میں قسم قسم کے کھانوں کی ترکیبیں پوری تفصیل سے بیان کر دی گئی ہیں جو کہ ماشاء اللہ باتصویر ہیں اور ہر پکوان کی رنگین تصویر بھی شامل کر دی گئی ہے۔ کتاب ہذا میں صاحب موصوف کے چوبیس باورچیوں کے تفصیلی انٹرویوز بھی شامل کئے گئے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ وہ اپنے کام سے بوقت طعام کس طرح عہدہ برا ہوتے ہیں کیونکہ اکثر اوقات انہیں ڈبل ڈیوٹی بھی ادا کرنا پڑتی ہے اور ہر وقت انہیں اپنی نوکری کے لالے پڑے رہتے ہیں۔
فاضل دیباچہ نگار نے کھانوں کی تیاری کے علاوہ انہیں کھانے کے طریقے بھی وضاحت سے بیان کئے ہیں کہ اللہ تعالی کی نعمتوں سے کس طرح زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالی نے انسان کو کھانے اور اپنی عبادت کرنے ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ علاوہ ازیں اگر تیاری کے دوران کھانا کچا رہ جائے یا زیادہ پک جائے تو اس کو صبر و شکر کے ساتھ کھانے کی تلقین کی گئی ہے کیونکہ اسے کسی صورت بھی ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے۔ نیز یہ کہ کھانا اگر ضرورت سے زیادہ تیار ہو جائے تو محفوظ کرنے کی بجائے اللہ کا نام لے کر اسے بھی کھا جانا چاہیے کیونکہ ایک تو باسی ہو کر اس کی غذائیت کم ہو سکتی ہے اور دوسرے لوڈشیڈنگ کے اس زمانے میں فریج وغیرہ بھی متاثر ہوتے رہتے ہیں اور کھانا خراب ہونے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔
صاحب موصوف نے رنگ رنگ کے کھانوں کے علاوہ انہیں ہضم کرنے کے لیے طرح طرح کی پھکیاں تیار کرنے کے طریقے بھی بیان کر دیئے ہیں تاکہ اگر ضرورت سے زیادہ بھی کھا لیا جائے تو اسے اچھی طرح ہضم بھی کیا جا سکے کہ اوّل تو ہر شریف آدمی کا معدہ لکڑ ہضم‘ پتھر ہضم ہونا چاہیے کہ اسے پھکیاں وغیرہ استعمال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے‘ تاہم پھکیوں کے ساتھ ساتھ مختلف چورن تیار اور استعمال کرنے کے طریقے بھی اس ازحد مفید کتاب میں بتائے گئے ہیں۔ مزید برآں یہ سنہری نسخہ بھی بیان کر دیا گیا ہے کہ اگر پھکی اور چورن استعمال کرنے کے باوجود کھانا ہضم نہ ہو رہا ہو یا پھکی وغیرہ ہر وقت دستیاب نہ ہو تو اوپر سے دبا کر مزید کھا لینا چاہیے تاکہ اس کے بوجھ تلے آ کر پہلا کھانا بھی ہضم ہو جائے۔
فاضل دیباچہ نگار نے اپنی پسندیدہ ڈشیں تیار کرنے کا طریقہ بطور خاص بیان کیا ہے جو تقریباً 125 بنتی ہیں اور یہ بھی بتایا ہے کہ ان سب کو اگر ایک ساتھ یعنی ایک ہی وقت میں کھانا مطلوب ہو تو اس کا کیا طریقہ ہے کہ معدے کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔ صاحب موصوف کے نظریے کے مطابق خدا اگر توفیق دے تو ہر وقت کھاتے رہنا چاہیے بصورت دیگر یہ کفران نعمت میں شمار ہو سکتا ہے بلکہ اس پر عمل کرنے سے آپ عاقبت کی فکر سے بھی فارغ ہو جائیں گے کیونکہ کھانا بجائے خود ایک عبادت ہے کہ ساتھ ساتھ آپ اللہ کا شکر بھی ادا کرتے جاتے ہیں۔ کھانوں میں جن جن جانوروں اور پرندوں کا گوشت استعمال ہوتا ہے صاحب موصوف نے ان سب کے خواص بھی دل کھول کر بیان کر دیئے ہیں کہ کس کس جانور یا پرندے کا گوشت کھانے سے دماغ تیز ہوتا ہے اور کون سا قوت مردی میں اضافہ کرتا ہے‘ کون سا جسم کو چاق و چوبند رکھتا ہے اور کس کے کھانے سے ہاضمہ تیز ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ چنانچہ آپ جناب نے تیتر‘ تلور‘ بٹیر‘ تلیئر‘ کبوتر‘ مرغابی‘ مرغ‘ فاختہ‘ ہریل‘ مچھلی‘ ہر قسم کا بکرا‘ مینڈھا‘ دنبہ‘ گائے‘ بھینس‘ ہرن‘ خرگوش اور دیگر خوردنی جانوروں اور پرندوں کے خواص کھول کر بیان کر دیئے ہیں تاکہ قوم اس سے صحیح معنوں میں استفادہ کر سکے۔ ہر جانور اور پرندے کی رنگین تصویر چھاپنے کا بھی اہتمام کیا گیا ہے جو اپنے طور پر بیحد اشتہا انگیز ہے۔
اس مقبول عام کتاب کا یہ ایک سو آٹھواں ایڈیشن ہے جس کی قیمت صرف 500 روپے رکھی گئی ہے۔ موجودہ ایڈیشن کی ایک کاپی خریدنے والے کو سابقہ ایڈیشن کے دو نسخے مفت پیش کئے جائیں گے۔ نیز دیباچہ نگار نے کھانا بنانے‘ کھانے اور پھکی اور چورن استعمال کرتے ہوئے ہرپوز میں رنگین تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں جس کی وجہ سے کتاب ماشا اللہ دھڑا دھڑ فروخت ہو رہی ہے اور سابقہ سارے ریکارڈ توڑ رہی ہے۔ موجودہ ایڈیشن ترمیم و اضافہ کے ساتھ شائع کیا گیا ہے جس میں دیباچہ نگار کی کچھ مزید پسندیدہ ڈشوں کا اضافہ کیا گیا ہے ''پہلے آئو‘ پہلے پائو‘ ‘ نقالوں سے ہوشیار رہیں۔ سنہری موقع سے فائدہ اٹھائیں۔ ایسی مفید عام کتابیں ہر روز شائع نہیں ہوتیں۔ عقلمنداں را اشارہ کافی است۔دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔
آج کا مقطع
محبت سربسر نقصان تھا میرا ظفرؔ اب کے
میں اس سے بچ بھی سکتا تھا مگر ہونے دیا میں نے