اس دفعہ آمنہ بٹ کا لیا ہوا میرا رسمی سا انٹرویو جبکہ خاص الخاص چیز زاہد مسعود کا مضمون ہے جس میں انہوں نے ہمارے دیرینہ ساتھی شاعر‘ دانشور اور صحافی شفقت تنویر مرزا کو یاد کیا ہے جنہیں ہم سے بچھڑے چار سال ہو گئے ہیں۔ وہ یقیناً پنجابی زبان کے بڑے لوگوں میں سے تھے۔ اس مضمون میں ایک بات کا شاید عمداً ذکر نہیں کیا گیا کہ انتقال سے پہلے جو طویل عرصہ انہوں نے علالت میں گزارا‘ تنگدستی کی وجہ سے وہ خاصا تکلیف دہ تھا۔ کسی کے سامنے مدد کے لیے ہاتھ پھیلانا ان کے لیے ناممکن تھا اور حکومت سے بھی ان کا اتنا ہی مطالبہ تھا کہ پی پی ایل کے جو واجبات حکومت کے ذمے ہیں وہ ادا کر دیئے جائیں ‘اس پر میرے جیسے ان کے مداحوں اور دوستوں نے کالم بھی باندھے لیکن حکومت نے کچھ بھی کر کے نہ دیا۔
اس کے علاوہ حضہ شعر میں رخسانہ نور‘ بشیر ربانی‘ الطاف ضامن چیمہ اور نثار ترابی کی تخلیقات ہیں۔ ادبی خبریں فائزہ بٹ نے جمائی ہیں جن میں لاہور پریس کلب کی لٹریری کمیٹی کی طرف سے بزرگ شاعر بابا نجمی کی سترہویں سالگرہ کے انعقاد کی کہانی ہے جس کی صدارت منو بھائی نے کی جبکہ پلاک کی ڈائریکٹر ڈاکٹر صغریٰ صدف‘ عارف نظامی‘ پروین سجل‘ سلطانہ منور اور مدثر اقبال بٹ نے خصوصی شرکت کی۔
اس کے علاوہ پلاک کی طرف سے 6 ستمبر یوم دفاع کے حوالے سے گولڈن جوبلی خواتین مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت معروف شاعرہ شہناز مزمل نے کی جبکہ نقابت کے فرائض نیلما ناہید درانی نے ادا کئے۔ شاعرات میں ان کے علاوہ حمیدہ شاہین‘ ثمینہ سید‘ عفت علوی‘ ہجویری بھٹی‘ انجم قریشی‘ کنول‘ حیدر زیبی اور صائمہ الماس شامل تھیں۔ پنجاب ادبی ثقافتی تنظیم مجلس میاں محمد سرگودھا کا اجلاس منعقد ہوا۔ پنجابی صوفی شاعر سید پیر وارث شاہ کی نگری جنڈالہ شیر خان کا اجلاس اور محفل ہیر نائٹ کا اہتمام کیا گیا۔ اس کے علاوہ لطائف تھے اور کتاب پر تبصرہ ۔نثار ترابی کی غزل دیکھیے :
ڈل دا پانی ٹھریا ہو یا
درد کسے دا چریا ہویا
اوڑک جگ نوں چھڈ جاندااے
اپنے آپ ا چ ہریا ہویا
رُکھاں تھلے بہہ نہیں سکدا
پرچھاویں توں ڈریا ہویا
فیر کدی نہ واپس پرتے
پیر تھلاں وچ دھریا ہویا
شام پئی سی ہو کے بھردی
پُھل سی باغ اچ مریا ہویا
بُلھیاں دے ول کر کے سہکاں
زہر پیالہ بھریا ہویا
کلام شاہ حسین کے طور پر یہ ٹکڑا :
مائے نی میں کنہوں آکھاں درد وچھوڑے دا حال نی
دُھوال دُھکھے میرے مرشد والا جاں پھولاں تاں لال نی
دُکھاں دی روٹی‘ سُولاں سا سالن آہیں دا بالن بال نی
کہے حسین فقیر نمانا شوہ ملے تاں تھیواں نہال نی
ماہنامہ پنچم کا ماں بولی نمبر
''پنچم‘‘ نامی ماہوار رسالہ ہمارے دوست ثاقب مقصود عرصہ دراز سے نکال رہے ہیں جو ہر لحاظ سے ایک معیاری جریدہ ہے۔ حال ہی میں انہوں نے اس کا ماں بولی نمبر شائع کیا ہے جو اس وقت پیش نظر نہ ہونے کی وجہ سے اس اطلاع کو ہی فی الحال کافی سمجھا جائے ۔یہ ایک ضخیم رسالہ ہے جس کے شروع میں ماں بولی ہی کے حوالے سے بابائے پنجابی نجم حسین سید کی خوبصورت نظم شامل ہے۔ لکھنے والوں میں مقصود ثاقب اور فائزہ کے علاوہ محمد آصف خاں‘ شفقت تنویر مرزا‘ نجم حسین سید‘ مشتاق صوفی و دیگر نامور ادیب شامل ہیں۔ اس یادگار دستاویز کی اشاعت پر مقصود ثاقب بجاطور پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔
شکیلہ جبیں
یہ کلام شاعرہ کے مجموعہ کلام ''بنی اپنی گُرو آپ‘‘ میں سے لیا گیا ہے جو ساون پبلی کیشنز نے پچھلے سال شائع کیا تھا اور اس کی قیمت 600 روپے رکھی تھی۔ عطا الحق قاسمی‘ پروفیسر ڈاکٹر ناہید شاہد اور ڈاکٹر صغریٰ صدف کے بقول یہ تصوف میں رچی بسی شاعری ہے۔ فی الحال ان کی صرف ایک نظم کا لطف لیجیے :
مائے نی کل رات
اجے ہوئی نئیں سی سر گھی
ہر شے سی اوہدے ورگی
میرے ویڑے آ گیا چور
جد پا دتا میں شور
فیر گل ہوئی نہ بات
مائے نی کل رات
مکھ سر میرے چوں کڈھی
میرے منہ چوں بولی وڈی
میرے کھوہ کے لے گیا ہوش
دس میرا کیہہ دوش
چپ ہو گئے پھل تے پات
مائے نی کل رات
میرے کنیں دتا رُوں
میں چاں کیتا نہ چُوں
میں ہوکے گونگی بولی
گئی چڑھ سمے دی ڈولی
مینوں بُھل گئی میری ذات
مائے نی کل رات
میرے ہتھ پھڑا کے چھنی
وچ جھاڑ گیا اوہ کنی
میں ویکھ کے کیتا واہ
توں چور نیں ہے شاہ
ہُن پیکا دے گیا رات
مائے نے کل رات
میری خالی کر کے کھوپڑی
میرے دل دی ٹِکی چوپڑی
دل رکھ دتا میرے کول
جویں لج نال بدھا ڈول
میں ڈبی وچ فرات
مائے نی کل رات
آج کا مطلع
وہ دن بھر کچھ نہیں کرتے ہیں میں آرام کرتا ہوں
وہ اپنا کام کرتے ہیں میں اپنا کام کرتا ہوں