ایسا لگتا ہے کہ دُھوپ کو جیسے کسی کی نظر لگ گئی۔ ایک ہی دن کے لیے اپنا جلوہ دکھایا اور پھر وہی دھند۔ دوپہر کے وقت کہیں شکل دکھاتی ہے‘ بلکہ اب تو اُس جاڑے کا بھی کوچ نقاّرہ بجنے والا ہے جو بس چند روز ہی کے لیے آیا تھا۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ بہرحال‘ موسم سب اُسی کے ہیں‘ ان میں کمی بیشی بھی وہ خود ہی کرتا رہتا ہے‘ شکوے شکایت کی کیا گنجائش ہے۔
چیئرمین اکادمی ادبیات نے فون پر شرمندہ کیا کہ آپ کی کتاب کسی سے مانگ کر پڑھ رہا ہوں۔ شاعر علی شاعر سے شکایت کی تو وہ کہنے لگے کہ میں نے کتاب بھجوا دی تھی‘ واللہ اعلم بالصواب۔ کچھ ایسا ہی معاملہ امجد اسلام امجد کے حوالے سے بھی تھا۔ کتاب انہیں بھی نہیں ملی تھی‘ اس پر بھی شاعر صاحب کا کہنا تھا کہ میں نے بھجوا دی تھی، بلکہ ان کا پوسٹل ایڈریس بھی مجھے بتایا جو انہیں زبانی یاد تھا۔ انہیں بھی کتاب دوبارہ بھجوائی جائے گی۔ خدا کرے کتاب نارنگ صاحب کو مل گئی ہو‘ بہت سے دوستوں نے شکایت کی کہ کتاب میں اغلاط بہت ہیں۔ شاعر علی شاعر کو اغلاط نامہ تیار کر کے بھجوایا تھا جو وہ جلد چھاپ کر کتاب میں لگا دیں گے اور جہاں جہاں کتاب پہنچائی گئی ہے وہاں وہاں یہ بھی بھیج دیں گے۔ پہلی چار جلدوں میں غلطی اس لیے نہیں تھی کہ ناشر اور ہمارے ناراض دوست اظہر غوری نے ان پر ذاتی توجہ دی تھی۔ سبھی ناشر اس طرح نہیں کرتے۔ کر بھی نہیں سکتے۔ افضل گوہر (سابق رائو افضل گوہر) کا فون آیا، پاس ہی معراج جامی اور ارشد ملک بھی بیٹھے تھے‘ ان کے ساتھ بھی گپ شپ رہی۔ یہ میرے خاص الخاص محبت کرنے والوں میں سے ہیں‘ خدا نظر بد سے بچائے۔
حضرت شمس الرحمن فاروقی کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ آج کل احمد مشتاق کا کلیات ترتیب دینے میں مصروف ہیں۔ ان کے آخری مجموعے ''اوراقِ خزانی‘‘ کو شامل کر کے اسے اپ ٹو ڈیٹ کر رہے ہیں۔ کبھی فون پر بات بھی ہو جاتی ہے‘ تاہم ان کے بارے میں تازہ اطلاع محمود الحسن کی معرفت ملتی رہتی ہے جو یہاں ایک روزنامے میں کام کرتے ہیں۔
اکبر معصوم کا پنجابی مجموعہ ''نیندر پچھلے پہر دی‘‘ ڈاکٹر صغرا صدف کے توسط سے چھپ رہا تھا جس میں تاخیر کی وجہ انہوں نے یہ بتائی کہ آج کل وہ لوگ بھرتیاں وغیرہ کر رہے ہیں‘ چند روز میں فارغ ہو کر اس کام کو بھی نمٹائیں گی۔ آنے کا پکا وعدہ بھی کیا۔
ندا خاں بہت عمدہ مُغنّی ہیں‘ اس لیے بھی کہ انہوں نے میری غزلیں بھی گا رکھی ہیں‘ فیصل آباد میں رہائش ہے۔ ڈاکٹر صغرا صدف ان کا بھی ایک شو کروا رہی ہیں‘ ذرا فارغ ہو کر۔ اُن کی اہلیہ سے فون پر رابطہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صغرا نے بتایا کہ موصوفہ کا نام صابر خان ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے نام آپس میں بدل لیے ہیں کیونکہ 'ندا‘ خاصا زنانہ نام ہے اور صابر مردانہ!
گھر کے سامنے کوئی سوا دو کنال کا پلاٹ خالی تھا‘ وہ بھی آفتاب نے خرید کر شامل کر لیا ہے۔ اُس کی سطح اونچی کروائی۔ وہاں پہاڑیاں بھی بنوائی جا رہی ہیں۔
یہ کم و بیش ساری کی ساری غیر اہم باتیں ہیں‘ تاہم کالم میں غیر اہم باتوں کی گنجائش بہرحال موجود ہوتی ہے اور اگر نہ ہو تو نکال لی جاتی ہے اور حق بات تو یہ ہے کہ کالم بس کالم ہی ہوتا ہے۔ اس میں اہم بات تو تلاش کرنا پڑتی ہے کہ آخر کوئی کام تو قاری کو بھی کرنا چاہیے۔
ایک موقر قومی روزنامہ کی طرف سے اس جمعہ کو ایک مزاحیہ مشاعرہ آواری ہوٹل میں برپا ہوا جس کی صدارت کے لیے مجھ سے فرمائش کی گئی لیکن معذرت ہی کرنا پڑی کہ دراصل تو یہ میلان انور مسعود اور خالد مسعود خان کا ہے یعنی جس کا کام اُسی کو ساجے۔ میری شاعری میں جو کہیں کہیں بشاشت نظر آتی ہے وہ مزاج کم ہوتا ہے اور شرارت زیادہ۔ بے محل ہی سہی‘ لیکن اپنا ایک شعر یاد آ رہا ہے ؎
جو ہو نہیں سکتی وہ محبت نہ کیا کر
ہم ایسے شریفوں سے شرارت نہ کیا کر
ناز بٹ کا فون آیا تھا کہ جنُید سے ابھی ابھی گپ شپ ہوئی ہے جہاں سے آپ کے دو خوبصورت شعر دستیاب ہوئے ہیں۔ اس غزل کا کوئی اور شعر یاد ہو تو سنا دیجیے۔ میں نے کہا : اس غزل کا مقطع ہی یاد رہ گیا ہے‘ وہ سُن لیں ؎
فصیلِ شوق اُٹھانا‘ ظفرؔ ضرور مگر
کسی طرف سے نکلنے کا راستا رکھنا
اور اب خانہ پُری کے نام پر ایک غیر اہم غزل بلکہ دو غزلہ :
ایسی آپ لکیر ہیں
جس کے سبھی فقیر ہیں
ہیں مضمونِ حسن اور
کیسا باتصویر ہیں
صفحۂ دل پر آپ ہی
مدت سے تحریر ہیں
کوئی نرالی خاک تھی
جس کا آپ خمیر ہیں
جان شرینی ہو قبول
آپ ہمارے پیر ہیں
بھوکا ہوں، میں اور آپ
خاصی ٹیڑھی کھیر ہیں
آپ کے بعد نہیں کچھ بھی
آخر اور اخیر ہیں
صورت کوئی نکالیے
آپ تو باتدبیر ہیں
ہم ہی مجرم تھے‘ ظفرؔ
ہم ہی بے تقصیر ہیں
.........
ایسے ترے اسیر ہیں
خود اپنی زنجیر ہیں
اشتہار ہیں آپ کا
مُفتے کی تشہیر ہیں
کسی گم شدہ راہ کے
لٹے پٹے رہگیر ہیں
آپ ہمارے لیے نہیں
شَکر ہیں یا شِیر ہیں
خواب ہمارے آج تک
سارے بے تعبیر ہیں
کسی طلسمی باغ کی
رسی ہوئی انجیر ہیں
آپ تو ایسے نہیں تھے
بچے بہت شریر ہیں
کچھ کر دیے ہیں منہدم
کچھ زیر تعمیر ہیں
شعر اپنے دیکھو‘ ظفرؔ
کیسے بے تاثیر ہیں
آج کا مقطع
آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں‘ ظفر
کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف