ایک بار پھر بارش بھی ہو گئی‘ تیز ہوائوں نے بھی زور باندھا اور سردی میں اضافہ بھی ہوا اور درختوں پر سے پرانی گرد کا بوجھ بھی اُترا۔ بارش آتی ہے تو اکیلی نہیں آتی‘ بہت سی کھوئی ہوئی یادیں بھی ساتھ لاتی ہے اور ہنگامہ خیزی کو بھی جی چاہتا ہے۔ اسی سلسلے میں آفتاب اقبال نے تیتر پارٹی کا اہتمام کیا جس میں اس کے سارے شکاری دوست اور دونوں چھوٹے بھائی بھی مدعو تھے۔ یہ تقریب وقتاً فوقتاً دہرائی بھی جاتی ہے۔ دو باتوں پر سبھی متفق تھے۔ ایک تو یہ کہ جو مزہ اکٹھے شکار کھیلنے میں آتا ہے اس سے کئی گنا زیادہ تیتر کی ایسی ضیافت میں آتا ہے اور دوسرے یہ کہ اس طرح تیتر کی ضیافت کوئی بھی نہیں کرتا۔ آفتاب کے زیادہ تر شکاری شیر گڑھ اور مصطفی آباد کے سید صاحبان ہی ہوتے ہیں۔ زیادہ متکلم بلال شاہ تھے جو اپنے شکار کے تجربات بھی بتا رہے تھے اور شکار کے کئی گُر بھی۔
آفتاب احمد شاہ نے بتایا کہ ''ساتویں سمت کا سفر‘‘ کے عنوان سے اُن کا پانچواں شعری مجموعہ زیر اشاعت ہے۔ یہ بھی بتایا کہ ایک عزیز کی شادی پر لاہور آ رہا ہوں جہاں ملاقات ہونا بہت ضروری ہے۔ رات گئے اُن کا فون آیا کہ میری گاڑی میری ساس نے منگوائی تھی جو ابھی واپس نہیں آئی‘ اس لیے آج حاضر نہیں ہو سکتا۔ آج کل ریٹائرڈ زندگی کے مزے لے رہے ہیں۔
بانو آپا کی رحلت کی خبر مل چکی ہے۔ مستنصر حسین تارڑ نے مجھے غزل کا اہرام لکھا ہے‘ اسی طرح بانو قدسیہ فکشن کا اہرام تھیں۔ بھارت سے میرے تیسرے مجموعہ کی اشاعت ہوئی تو اس پر ایک تقریب بھی منعقد ہوئی جس کی صدارت اشفاق احمد نے کی جبکہ مضمون نگاروں میں بانو آپا بھی شامل تھیں۔ ان کے مضمون کا ایک اقتباس میں نے یہاں سے چھپنے والے ایڈیشن کے سرورق پر لگایا تھا۔ اُن کے ساتھ بہت سے اور رشتوں کے علاوہ ایک یہ بھی کہ وہ راوین تھیں۔
سعدیہ راشد کی طرف سے ہمدرد تھنکرز فورم جو شوریٰ ہمدرد بھی کہلاتا ہے‘ اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ موصول ہوا ہے جس کا موضوع پاکستان کے دو سلگتے مسائل کرپشن اور دہشت گردی ہے۔ لاہور میں اس کا اجلاس بدھ 8 فروری تین بجے شام ہمدرد مرکز غازی علم دین شہید روڈ لاہور اور راولپنڈی/ اسلام آباد منگل 7 فروری چار بجے شام‘ ہمدرد مرکز مری روڈ‘ کراچی جمعرات 9 فروری چار بجے شام سروسز میس‘ عبداللہ ہارون روڈ جبکہ پشاور میں منگل 7 فروری چار بجے پشاور سروسز کلب میں منعقد ہو گا۔ میں خود ان کے کئی اجلاسوں میں شریک ہوا ہوں۔ گفتگو کا معیار اعلیٰ اور حکیم محمد سعید مرحوم و مغفور کے شایان شان ہوتا ہے۔
کسی کالم میں ذکر بھی کر چکا ہوں‘ پچھلے دنوں اقتدار جاوید اور فرخ یار آئے تھے‘ بلکہ اقتدار جاوید انہیں لے کر آئے تھے اور فرخ یار اپنا تیسرا اور تازہ مجموعہ نظم ''یہ ماہ و سال یہ عمریں‘‘ چھوڑ گئے تھے جو کتابوں اور رسالوں میں کہیں اِدھر اُدھر ہو گیا، اس لیے پچھلے دنوں کتابوں کے ذکر خیر میں شامل نہ ہو سکا۔ اب اقتدار جاوید نے یاد دلایا تو بہرحال میں نے ڈھونڈ نکالا۔ اسے بُک کارنر جہلم نے چھاپا اور قیمت 400 روپے رکھی ہے۔ پس سرورق محمد حمید شاہد کی تحریر ہے جس کی آخری سطور اسی طرح سے ہیں: ''یہ دنیا جس میں ارادوں کا ایندھن ہر شے کی رفتار متعین کرتا ہے یا وہ بستی جس کی ہر گلی، ہر فصیل اور ہر ممٹی سے دہشت‘ خوف اور حیرت اُبل رہی ہے‘ سب اس کے ہاں نظم میں ڈھلا ہے۔ تاہم فرخ یار کا اس باب میں قرینہ یہ رہا ہے کہ پہلے وہ زمانوں سے اُبلتے اور زمینوں پر یورش کرتے حوادث کو کسی تیز دھار کٹاری کی طرح چیرتے کاٹتے اپنے وجود کے اندر اُترنے دیتا ہے‘ پھر کہیں جا کر وہ اس کی نظر میں ظہور کرتے ہیں۔ یہی سبب مجھے یقین سے کہنے پر اُکساتا ہے کہ نظموں کی یہ کتاب بھی پہلے دو مجموعوں کی طرح اپنے خالص اور تخلیقی مزاج کی وجہ سے فرخ یار کی نہ صرف انفرادیت نمایاں کرے گی‘ اس کی شناخت مزید مستحکم کرے گی‘‘۔
اس کتاب کا پُر مغز اور عالمانہ دیباچہ اقتدار جاوید نے تحریر کیا ہے جو کتاب کے آخر میں دیا گیا ہے۔ اس میں سے آخری دو پیرے :
جدید آزاد اردو نظم جس بڑے پیٹے کی متقاضی اور جس بڑے تجربے کی داعی اور مُوید ہے فرخ یار کی نظم میں اس کے خدوخال نمایاں نظر آتے ہیں۔ آزاد نظم کے تجربے سے گزرنا جدید اُردو نظم اور نظم نگار دونوں کا بلاشبہ ایک کڑا امتحان ہے کہ مجتمع ہو کر اور بڑے سانس کے ساتھ بات کرنا ایک دشوار امر ہے اور اِدھر اُدھر دیکھنے کا مخالف بھی۔ فرخ یار نے شعوری طور پر مروجہ اور اپنی نظم کے درمیان جو سدّ روئیں اٹھائی ہے زمانہ اس کا اسیر بھی ہوا ہے اور مشتاق بھی کہ جس زبان میں جو شعری تجربہ بیان کیا ہے اور جس تہذیب کی یافت کا وہ طلب گار ہے اس پر کئی اجنبی اور پرائی تہذیبیں قربان کی جا سکتی ہیں۔
اور اب ''بے چینی‘‘ کے نام سے اس کی یہ نظم :
سب سیدھا رکھنے کی خواہش میں
کچھ اُلٹا ہو جائے تو ہم گھبرا کر
جیون گدلا کر لیتے ہیں
خوف میں لپٹے سانسوں سے بھر جاتے ہیں
ذرا ذرا زندہ رہتے ہیں
کافی سارا مر جاتے ہیں
اور اب آخر میں خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل :
کسی پر جانفشانی کر رہا ہوں
یہ دولت آنی جانی کر رہا ہوں
رواں کیسی روانی کر رہا ہوں
جو میں پتھر کو پانی کر رہا ہوں
ستارے ٹانکتا ہوں خاکِ دل پر
زمیں کو آسمانی کر رہا ہوں
جہاں سے واپس آنا ہے کسی دن
محبت کو نشانی کر رہا ہوں
کیا کرتا ہوں ناممکن کو ممکن
بڑھاپے کو جوانی کر رہا ہوں
حسابِ دوستاں لکھوں گا اک دن
ابھی تک تو زبانی کر رہا ہوں
سُنا کر منّ و سلویٰ کے فسانے
کسی کی میزبانی کر رہا ہوں
رعایا ہوں نئے لوگوں کی، اور میں
غزل پر حُکمرانی کر رہا ہوں
ظفرؔ آسیب ہوں اپنا ہی خود پر
عجب جادُو بیانی کر رہا ہوں
آج کا مقطع
میں اگر اُس کی طرف دیکھ رہا ہوں توظفرؔ
اپنے حصے کی محبت کے لیے دیکھتا ہوں