نظمیہ
ماند محبت/ کیا گُدڑی کیا‘ چاند محبت/ ماند محبت/ آگ نہ رووے/ پانی پانی جھاگ نہ رووے/ آگ نہ رووے/ کُلیہ کیا ہے/ عشق تمہارا حُلیہ کیا ہے/ کُلیہ کیا ہے/ دھڑ کو مجھ میں/ آؤ آ کر بھڑ کو مجھ میں/ دھڑ کو مجھ میں/ راج کماری/ مقناطیسی نیند سے ہاری/ راج کماری/ متر چرائیں / کیسے تیرا عطر چرائیں/ متر چرائیں/ دل وہمی ہے/ درد کی کیا گہما گہمی ہے/ دل وہمی ہے/ صد مو صدمو/ مٹی مٹی اے ہم قدمو/ صدمو صدمو/دن چڑھتا ہے/ جب جوبن میں رس پڑتا ہے/ دن چڑھتا ہے/ خواب ہولڑ کی/ تم کتنی نایاب ہو لڑکی/ خواب ہو لڑکی/ قسموں جیسی/ ہندوستان کی رسموں جیسی/ قسموں جیسی/ دیہاتی ہو/ کتنا سپنوں میں آتی ہو/ دیہاتی ہو/ سونپ یہ آنسو/ خنجر خنجر گھونپ یہ آنسو/ سونپ یہ آنسو/ لہجہ تیکھا/ مُلک نے دو ہونٹوں سے سیکھا/ لہجہ تیکھا/ نیند غلافی/ رُک رُک کریو عشق تلافی/ نیند غلافی/ دجلے اندر/ ہفت سمندر/ دجلہ شاہی/خیف سپاہی/ لب کُھلتے ہیں/ رنگت کاہی/ غزہ کی پٹی/ بنا بیاہی/ درد کے بستر/ شب خاکستر/ چپ اکلوتی/ آنکھ کے نشتر/ اے تم کیا ہو /حمص عشاء ہو/ کیا کرتے ہو غافل عشقو/ میں آتا ہوں دکھی دمشقو!
نظمیہ
دیئے کی آنکھیں/ کھلیں گی اپنے کیے کی آنکھیں/ دیئے کی آنکھیں/ سلامتی ہے/ یہ رات کتنی علامتی ہے/ ملامتی ہے/ کہ چھیڑتا ہوں/ میں اپنا سینہ اُدھیڑتا ہوں/ کہ چھیڑتا ہوں/ چہکتی نافو/ دَیا کرو/ زر کے لحافو/ چہکتی نافو/ میں عام عامرؔ/ میں ایک اپنی نیام عامرؔ/ میں عام عامرؔ/ خدا کو شکوہ/ گلی گلی ہر عشاء کو شکوہ/ خدا کو شکوہ!
دُعا
مرے ہاتھ میرا قبیلہ دُعا/ مرے ہونٹ میرا وسیلہ دُعا/ میں راتوں کو رازوں کے پہرے میں ہوں/ کنوئیں میں ہوں اور سب سے گہرے میں ہوں/ مری پشت پر کوئی دجلہ نہیں/ مرے خون کا کوئی بدلہ نہیں/ عطا کائناتوں کے نقشے تمہیں/ وہ ربِّ سماوات بخشے تمہیں!
قذافی کا پستول
قذافی اور نیفے میں/ یہ سونے کی ٹرافی/ رات کی باچھیں نہیں کھلتیں/ سمندر سے تری باتیں نہیں ملتیں/ سفر سپنوں سے خالی ہے/ (قذاقی کے لیے ہر شہر گالی ہے) قذافی بجھ گئی ‘مٹی اضافی/ میں ہرن مینار پر فتوے نہیں جڑتا/ ہرن مینار شیخ الشرم کے اندر نہیں پڑتا/ وہی نیفہ جو سونے کے کسی پستول سے/ شب خون جنتا تھا/ معمر آستینوں سے وہی باندھا نہیں جاتا/ قذافی کا جنازہ اتنا اوپر ہے کہ واں/ مخلوق کاکاندھا نہیں جاتا/ خدا ‘ناراض ہے ‘شاید قذافی سے/ خیابانِ حلب‘ اُردن چھلک اُٹھے معافی سے/ خدایانِ حلب‘ اُردن‘ مدھر مخمورعامرؔ/ عابدہ پروین کی بے درد کافی سے۔
نظم
چولستان غزل سکتی ہو/ جل سکتی ہو/ دُھوپ سے چہرہ مل سکتی ہو/ جل سکتی ہو/ یادوں یادوں‘ بھادوں بھادوں/ گرتی اور پگھل سکتی ہو/ جل سکتی ہو/ پیار میں عامرؔ‘ پانی کی اس دھار میں عامرؔ مروا رید اگل سکتی ہو/ جل سکتی ہو/ تم جو مینا زاد ہو لڑکی/ چاروں کھونٹ رمل سکتی ہو/ جل سکتی ہو/ کتنی بار کہا ہے تم سے/ اپنی اور پھسل سکتی ہو/ جل سکتی ہو/ ہر ہر گھاٹ کنول سکتی ہو/ جل سکتی ہو/ جل سکتی ہو‘ تم سینے پہ چل سکتی ہو/ جل سکتی ہو/ جل اور گنگا جل سکتی ہو/ جل سکتی ہو!
تنہائی کی حمد
کسی بھی گوشہ ہائے خواب سے ہے/ بیش قیمت میری تنہائی/ قسم ہے‘ آدم و خوا کی پہلی آشنائی کی/ مرے ہمراہ تم ہوتیں/ تو میں/ تسموں سے دُنیا باندھ لیتا!
حیف کی حمد
حیف رفتار مری/ رات کو یلغار مری/ میرے شب خون سے گریے کو نمی ملتی ہے/ خواب ہے خواب میں تصویر بنی ملتی ہے/ صبحِ صادق کی قسم اور حوادث کی قسم/ تجھ میں دفنا کے بدن قوسِ قزح کرنا ہے/ میں نے ملکوں کی جوانی سے مسح کرنا ہے۔
نظمیہ
میں دیر گیری/ میں میرؔ کے وقت کی اسیری/ میں دیر گیری/ غروب تانوں/ کبھی تو میں اپنی بات مانوں/ غروب تانوں/ خدا سے خالی/ بدن ہوئے ہیں عشاء سے خالی/ زبر ہے کوئی/ چراغ کتنے اچھالتی ہے/ خبر ہے کوئی!
نشانی
نشانی ہے بیٹھک/ مری پسلیوں سے پرانی ہے بیٹھک! یہاں باپ کی چارپائی پڑی تھی/ یہاں شاعری ہاتھ باندھے کھڑی تھی۔
نظمیہ
اُس کی سانسوں میں جلتی اگر بتیو! مجھ سے وعدہ کرو‘ پھول کی پتیو/ اُس کا دل بھول کے بھی دُکھانا نہیں/ اُس کے لب حفظ کر کے بھلانا نہیں!
نظمیہ
رات کے پہروں میں‘ تپتی ہوئی دوپہروں میں/ یاد آتی ہو بہت‘ یاد بہت آتی ہو/ جتنے رخسار ہیں دُنیا کے پری خانے میں/ آج شامل ہیں تری یاد کے ظہرانے میں/ یاد آتی ہو بہت‘ یاد بہت آتی ہو!
آج کا مقطع
زباں کو سر پہ اٹھائے بھی ہم پھرے ہیں‘ ظفرؔ
سخن کیا ہے زباں پر سوار ہو کر بھی