فیس بک سے میرا واسطہ بس اتنا سا ہی ہے کہ اس میں سے مجھے بعض نئے پرانے شعرا کے اشعار دستیاب ہو جاتے ہیں‘ جنہیں میں اپنے کالم کی زینت بنا لیا کرتا ہوں۔ ایک دوست نے مجھے فون پر بتایا کہ علی اکبر ناطقؔ نے آپ کے ساتھ ایک ملاقات کرتے ہوئے کچھ جملے آپ سے منسوب کئے ہیں‘ مثلاً: میں فراق گورکھپوری‘ جون ایلیا اور خورشید رضوی کو شاعر نہیں سمجھتا وغیرہ وغیرہ۔ سو‘ اگر میں ان کی تردید یا وضاحت نہ کروں تو یہی سمجھا جائے گا کہ یہ باتیں میں نے کہی ہیں۔ ہمارے دوست علی اکبر ناطقؔ‘ چونکہ ناطق یعنی اسم بامسمیٰ ہیں ‘اس لیے ان کا نطق ہر وقت رواں رہتا ہے اور جو جی میں آئے گل فشانیاں کرتے رہتے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ وہ اگلے روز چند دوستوں کے ہمراہ غریب خانے پر تشریف لائے تھے اور ظاہر ہے کہ شعروشاعری پر بھی گپ شپ رہی؛البتہ جو میں نے کہا‘ وہ یہ تھا کہ فراق گورکھپوری اور جون ایلیا کے کلام میں بھرتی کے اشعارپریشان کن حد تک زیادہ ہیں۔ میں نے تو یہ بھی عرض کیا تھا کہ میرؔ کے ہاں بھی بھرتی کے اشعار فراواں نظر آتے ہیں ‘جس سے ناطقؔ صاحب نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ میرؔ تو بہت بڑے شاعر ہیں۔ میں نے کہا کہ ان کے بہت بڑا ہونے سے کون کافر انکار کرتا ہے‘ بلکہ بقول غالب ع
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں
تاہم انہوں نے کھڈھپ قسم کے الفاظ بکثرت استعمال کیے ہیں‘ جس سے ان کی شاعری کا ایک بڑا حصہ غیر سلیس ہو گیا ہے۔ برادر شمس الرحمن فاروقی نے ایک جگہ لکھا تھا کہ میرؔ نے اپنی شاعری میں اتنے ہزار الفاظ استعمال کیے ہیں‘ جس پر میں نے شرارتاً یہ جملہ کسا تھا کہ میرؔ صاحب شعر کہہ رہے تھے یا کوئی لغت مرتب کر رہے تھے؟
فاروقی صاحب چند سال پہلے غریب خانے پر تشریف لائے تھے تو انہوں نے فراقؔ کے حوالے سے میری رائے کی تصدیق کی تھی؛ اگرچہ وہ ویسے بھی فراقؔ کے کٹڑ مخالفین میں شامل ہیں۔ میں نے انہیں فراقؔ کا اپنا پسندیدہ شعر؎
دلکی گنتی نہ یگانوں میں نہ بیگانوں میں
لیکن اُس جلوہ گہِ ناز سے اٹھتا بھی نہیں
سنایا تو بولے کہ اس میں ''یگانہ‘‘ کو انہوں نے ''اپنا‘‘ کے معنوں میں استعمال کیا ہے ‘جو سراسر غلط ہے کہ یگانہ کا مطلب یکتا ہے‘ نیز یہ بھی کہا کہ ان کے ہر تیسرے شعر میں جلوہ گہِ ناز ضرور ہوتا ہے اور جہاں تک جون ایلیا کا تعلق ہے تو میں نے انہیں کبھی ناشاعر نہیں کہا‘ بلکہ کئی سال پہلے جب امارات میں ان کا جشن منایا گیا تھا تو میں بھی ساتھ تھا اور ان کی فرمائش پر ان کی شاعری کے حوالے سے ایک مختصر مضمون بھی لکھا تھا جو ان کے بروشر میں شائع بھی ہوا تھا‘ تاہم یہ میں پہلے بھی کہیں لکھ چکا ہوںکہ جونؔ کی دو غزلیں جن کا ایک ایک شعر اس طرح سے ہے۔
تکتے رہتے ہو آسماں کی طرف
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا؟
اور
دل نے ڈالا تھا درمیاں جن کو
لوگ وہ درمیاں کے تھے ہی نہیں
یہ اپنی ردیفوں ہی کی وجہ سے مقبول ہوئیں ‘جبکہ یہ دونوں مستعار ہیں۔ پہلی کے حوالے سے استاد انجم رومانی کا بہت پہلے کا کہا ہوا شعر؎
دل سے اٹھتا ہے صبح و شام دھواں
کوئی رہتا ہے اس مکان میں کیا
جبکہ دوسری ردیف اکبرؔ الہ آبادی سے لی گئی ہے‘ جن کا شعر یہ ہے؎
شیخ سے بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
جونؔ ایلیا کا لب و لہجہ ہی اس کی شاعری کی جان ہے‘ جس کے بارے میں ہمارے دوست انور شعور نے ایک بار کہا تھا کہ یہ لب و لہجہ میرا تھا‘ جسے جونؔ نے اُچک لیا!اور جہاں تک خورشید رضوی صاحب کی شاعری کا تعلق ہے تو میری دانست میں وہ پیچھے اس لئے رہ گئے ہیں کہ ان کا ڈکشن اور طرزِ اظہار تقسیم ملک کے وقت ہی کا ہے اور انہوں نے جدید طرز ِاحساس کی اپنی شاعری کو ہوا تک لگنے نہیں دی۔ عالم آدمی ہیں اور عربی شاعری پر ان کی تحقیق قابل ِذکر ہے۔ مجھے کسی لفظ کے بارے میں کوئی الجھن ہوتی ہے تو میں رضوی صاحب سے پوچھ لیا کرتا ہوں یا ڈاکٹر تحسین فراقی سے۔
ریکارڈ کی درستی
بھائی صاحب نے اپنے آج والے کالم میں ایک شعر اس طرح درج کیا ہے۔
تری دعا ہے کہ ہو تیری آرزو پوری
مری دعا ہے کہ تری آرزو بدل جائے
دوسرے مصرع میں لفظ ''کہ‘‘ فالتو ہے‘ جس سے مصرع بے وزن ہو گیا ہے۔جناب رئوف طاہر نے پروفیسر ناصر علی سید کا ایک شعر اس طرح درج کیا ہے۔
کچھ شہر کی شاموں میں بھی ایک سحر تھا ناصرؔ
کچھ گائوں کی صبحوں نے بھی ہم کو نہ پکارا
پہلے مصرعے میں لفظ ''ایک‘‘ کے استعمال سے مصرع بے وزن ہو گیا ہے‘ جبکہ اصل مصرع اس طرح سے ہے ۔ع
کچھ شہر کی شاموں میں بھی اک سحر تھا ناصرؔ
آج کا مطلع
جُڑی ہوئی چیزوں کو جدا کرتا رہتا ہوں
پتا نہیں سارا دن کیا کرتا رہتا ہوں