"ZIC" (space) message & send to 7575

سرخیاں ‘متن‘ دسترس اور اقتدارؔ جاوید

حکومت ملک کیلئے خطرہ‘ جلد رخصت ہونا چاہیے: احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر داخلہ اور نواز لیگ کے سیکرٹری جنرل چودھری احسن اقبال نے کہا ہے کہ ''حکومت ملک کیلئے خطرہ ہے‘ جلد رخصت ہونا چاہیے‘‘ اگرچہ ہماری حکومت ملک کیلئے اس سے بھی بڑا خطرہ تھی‘ لیکن اسے کافی دیر کے بعد رخصت کیا گیا اور اس خطرے کا منطقی نتیجہ نکلنے ہی والا تھا کہ ہمیں رخصت کر کے اسے ایک اور خطرے میں ڈال دیا گیا ‘لیکن خاطر جمع رکھیں‘ یہ حکومت اس خطرے کو منطقی انجام تک پہنچانے کا دم خم ہی نہیں رکھتی‘ اس لئے اس کیلئے ہمارا ہی انتظار کرنا پڑے گا۔ اوّل تو مولانا صاحب کے مارچ اور دھرنے کے بعد ہی یہ کام ہو جائے گا‘ جس کیلئے اسے ہماری سپورٹ بھی حاصل ہے اور جس کیلئے میاں نواز شریف کی طرف سے خصوصی تاکید کی گئی ہے‘ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ حکومت کو رخصت کرنا نا گزیر ہے ۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شریک تھے۔
نظام لپیٹنے کیلئے اسلام آباد آئیں گے: سینیٹر حمد اللہ
جے یو آئی کے رہنما سینیٹر حمد اللہ نے کہا ہے کہ ''ہم نظام لپیٹنے کیلئے اسلام آباد آئیں گے‘‘ بشرطیکہ اس سے پہلے ہمیں ہی نہ لپیٹ دیا گیا‘ کیونکہ حکومت کے تیور کچھ اچھے نظر نہیں آ رہے‘ جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سے اپنا بستر تک نہیں لپیٹا جاتا‘ اسی لئے مدرسوں کے طلبہ کی خدمات حاصل کی جا رہی ہیں‘ تاکہ حکومت اُنہیں کچھ نہ کہے کہ بچے ہیں اور اگر حسب ِ وجوہ ہمیں حلوہ کھلایا گیا تو یہ ماشاء اللہ اس مقدار میں کھایا جاتا ہے کہ کھاتے کھاتے بے سُدھ ہو جائیں گے‘ جس کے بعد حکومت کو کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی‘ لیکن اگر ہمیں وزیراعلیٰ نے کے پی سے آگے ہی نہ آنے دیا تو وہ سارا حلوہ بے کار جائے گا اور اس کفرانِ نعمت کے ذمہ دار وزیراعلیٰ خود ہوں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں ایک نجی ٹی وی سے بیان جاری کر رہے تھے۔
دوست ممالک میں جا کر پاکستانی لوگوں کو 
چور کہنا درست نہیں: مریم اورنگزیب
سابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات اور نواز لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''دوست ممالک میں جا کر پاکستانی لوگوں کو چور کہنا درست نہیں‘‘ کیونکہ جو لوگ چور ہیں‘ ساری دنیا اُنہیں اچھی طرح سے جانتی ہے کہ وہ چور ہیں‘ دوست ملکوں کے منہ کا ذائقہ خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے‘ بلکہ حق تو یہ ہے کہ انہیں اپنے ملک میں بھی چور کہنے کی چنداں ضرورت نہیں‘ کیونکہ یہاں کا بچہ بچہ انہیں جانتا ہے اور اپنے دانت بھی پیس رہا ہے کہ کسی طرح اُنہیں کچا ہی چبا جائے‘ لیکن ان بچوں سمیت سب لوگ خاطر جمع رکھیں کہ انہیں ان پیسوں میں سے ایک دھیلے کی بھی وصولی نہیں ہوگی ‘کیونکہ ہضم شدہ پیسہ کب واپس ہوتا ہے‘ آپ اگلے روز اپنا ردعمل ظاہر کر رہی تھیں۔
دسترس
یہ راحت سرحدی کی غزلوں کا مسودہ ہے‘ جو ہمیں ارسال کیا گیا ہے۔ ان سے صرف یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ جدید غزل کا مطالعہ کریں ‘جو اُن کیلئے بہتر ہوگا۔ کچھ منتخب اشعار:
میں اُس کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہوں
وہ اپنی راہ مجھے کاٹ کر نکالے گا
کچھ نہیں ہے تو ذرا دیر سہارے کے لیے
گرتی دیوار پہ اک ہاتھ بنا دیتے ہیں
ڈور ساری اُلجھ گئی راحتؔ
اک گرہ کھولنے کے چکر میں
پھر کہاں اپنا آپ دیکھیے گا
سامنے سے اگر ہٹایا مجھے
کچھ اور تھی یہ محبت اسے کہوں کیسے
بجھا بجھا رہا میں اور خفا خفا تُو بھی
کون تھے جانے ترا قہر تھا ٹوٹا جن پر
ہم تو ہیں تیری عنایات کے مارے ہوئے لوگ
چار چُفیرے
یہ اقتدار جاوید کی ایک ہی پنجابی غزل کا مجموعہ ہے‘ جسے دارالنوادر نے چھاپا ہے۔ غزل کے اشعار کی تعداد لگ بھگ 500ہے ‘جن میں ایک ہی قافیہ استعمال کیا گیا ہے اور کوئی قافیہ دہرایا نہیں گیا‘ جہاں قافیہ نہ ملا وہاں سندھی‘ بلوچی‘ پشتو اور فارسی کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ انتساب نجم شاہ کے نام ہے؛ دیباچہ محمد عباس مرزا اور پس سرورق محمد اکرم سعید کے قلم سے ہے۔ چند ابتدائی اشعار ملاحظہ ہوں:
اُچے تیرے محل منارے ہیٹھ وگن دریا
چھنن چھنن جے گھنگھرو باجن دھڑن دھڑن دریا
ایس وجود دی اپنی رونق اپنی جیا جوُن ایٔ
اس جنگل وچ نچدا پھردا کوئی ہرن دریا
حلق حلق تک بھرے ہوئے نیں چپ چپ وہندے جاون
نیرو نیر ہو جاون جے کر گل کرن دریا
چیتر چمن وجود مرے تے نظر اوہدی ہک پئی تے
سکی دھرت دے اُتے وسیا نیل گگن دریا
ایتھے موتی سُفنے اندر اوتھے اصلی لبھدے
پورا شہر ہنیرے ڈبیا تے چمکن دریا
سونے رنگے رڑے میدان نیں چاندی وانگوں چھاں ہے
رنگاں اُتے رنگ پئے ڈوہلن رنگ رنگن دریا
اپنی شان سنبھال کے ٹر دے لہندے ول لہندے نیں
کس درویش دی صحبت وچ پروان چڑھن دریا
غوطے کھاندا جائے وچارا عکسوں عکسی ہو کے
کنڈھیاں دے سنگ ڈولے چن نوں اپنا چن دریا
تھلّے سپّی تھلے موتی اُتے بیڑی والا
اپنا من دریا او لوکا اپنا تن دریا
آج کا مقطع
ظفرؔ بُری نہیں آوارگی مگر پھر بھی
کبھی ادھر سے جو گزرو تو گھر بھی آ جانا

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں