اپوزیشن کے اسمبلیوں سے استعفے‘ تجویز زیر غور ہے: فضل الرحمن
جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ ''اپوزیشن کے اسمبلیوں سے استعفے‘ تجویز زیر غور ہے‘‘ کیونکہ خاکسار کے پاس تو دینے کو استعفیٰ بھی نہیں ہے اور جن کے پاس ہیں‘ وہ دینے کو تیار نہیں ہیں‘ ورنہ بہت پہلے ہی دے دیتے‘ کیونکہ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اگر استعفے دیئے تو دوبارہ منتخب نہیں ہونا ہے‘ تاہم اگر مارچ بھی روک دیا گیا اور دھرنے پر تو یہ لوگ ویسے ہی متفق نہیں ہیں‘ تو میرا کام ختم ہے اور ان کا شروع‘ جبکہ حکومت کچھ دینے دلانے پر بھی تیار نہیں ہے؛ حتیٰ کہ مدرسوں کے بارے میںنئے قانون کو بھی واپس نہیں لے رہی‘ جو میری طاقت ہیں اور اب‘ سوچ رہا ہوں کہ یہ پنگا‘ نہ ہی لیا جاتا تو بہتر تھا‘ کیونکہ حکومت کے جو ادارے نظر آ رہے ہیں‘ ان کے پیشِ نظر ادارے بھی ڈنڈے کھانے اور ہڈیاں تڑوانے کو تیار نظر نہیں آتے‘ اوپر سے گرفتاریاں ابھی سے شروع ہو گئی ہیں اور اسلام آباد کو بھی حکومت نے خود ہی بند کر دیا ہے۔اب‘ ہم کیا بند کریں گے؟ آپ اگلے روز پشاور میں غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
ملک احتجاجی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا: جاوید ہاشمی
سینئر سیاستدان‘ جو گزرتے وقت کے ساتھ مزید سینئر ہوتے جا رہے ہیں‘ نے کہا ہے کہ ''ملک احتجاجی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا‘‘ اور میاں نواز شریف کا مقصد بھی یہی ہے ‘کیونکہ جو کام وہ کرتے رہے ہیں‘ ملک اس کا بھی متحمل نہیں ہو سکتا تھا‘ تاہم جو کسر باقی رہ گئی ہے‘ اب نکالنا چاہتے ہیں اور یہ ماشاء اللہ ان کا چیلنج ہے کہ مارچ اور دھرنے کے بعد ملک اس کا متحمل ہو کر دکھائے اور وہ ''آپ مرے جگ پر لو‘‘ ہی کے محاورے پر عمل پیرا ہیں‘ کیونکہ وہ دیانتداری کے ساتھ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے باقی عمر اگر جیل میں ہی رہنا ہے تو یہ ملک ان کے لیے کس کام کا ہے ‘جس کے لیے انہوں نے مولانا صاحب کا سہارا لیا ہے‘ کیونکہ اس حوالے سے وہ بھی میاں صاحب کے ہم خیال ہی پائے جاتے ہیں‘ جبکہ جمعیت علمائے ہند نے جو کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا ہے تو مولانا نے اس کی مذمت بھی نہیں کی۔ آپ اگلے روز ملتان میں پریس کانفرنس میں میڈیا کے نمائندوں کے سوالات کے جواب دے رہے تھے۔
مسائل کا واحد حل عمران خان کا استعفیٰ ہے: بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''مسائل کا واحد حل‘ عمران خان کا استعفیٰ ہے‘‘ کیونکہ ان کے مستعفی ہوتے ہی مہنگائی اور بیروزگاری سمیت ملک کے جملہ مسائل فوری طور پر حل ہو جائیں گے‘ سبزیاں‘ پھل اور دالیں مفت ملا کریں گی اور آٹے دال کا کوئی بھائو ہی باقی نہیں رہے گا اور ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ‘جو انتقامی کارروائیوں کی صورت سوہانِ روح بنا ہوا ہے‘ دفع دفعان ہو جائے گا‘ کیونکہ وزیراعظم فضل الرحمن اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے احتسابی ادارے کا گھونٹ دیں گے‘ جو ہمارے تعاون کی پہلی شرط تھی‘ اس کے علاوہ سارے سیاسی قیدیوں کی رہائی ہوجائے گی‘ بلکہ سابقہ حکومت سے اس پر معافی بھی منگوائی جائے گی۔ علاوہ ازیں جو جائیدادیں‘ اثاثے اور بینک اکائونٹس وغیرہ ضبط کئے گئے تھے‘ وہ فوری طور پر وَاگزار کروائے جائیں گے اور ہر طرف امن و امان اور شہد اور دودھ کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
ریکارڈ کی درستی
ہمارے چھوٹے بھائی اور معروف کالم نے اپنے ایک کالم میں کل جونؔ ایلیا کا شعر اس طرح نقل کیا ہے؎
ہم سب بہت عجیب ہیں‘ اتنے عجیب ہیں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
جبکہ اصل شعر اس طرح سے ہے؎
میں بھی بہت عجیب ہوں‘ اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
اس میں ایک تو ''سب بہت‘‘ کی صورت میں عیب ِ تنافر پیدا ہو گیا ہے اور اگر موصوف نے اپنی کسی ضرورت کے تحت اس میں تصّرف سے کام لیا ہے ‘تو وہ بھی بتا دینا چاہیے تھا۔ ع
وما علینا الاالبلاغ
اور‘ اب آخر میں بہاول نگر سے سید عامرؔـ سہیل کی نظم:
جزیرہ الجزیرہ
جزیرہ الجزیرہ اور الف لیلیٰ‘ الف لیلیٰ/ مخاطب مندروں کی گھنٹیاں گُم صُم/ وہ ہاتھوں سے بدن دفنا رہی ہے/ کبھی گھٹنے کبھی رانیں رگڑتی ہے ستونوں سے/ کہ مشرق آنجہانی/ زائچے‘ رمّال فانی/ اک عرب باقی بچا ہے/ سب ہیں زندانی/ طویلے میں وہ دُلکی چال بھرتی ہو رہی ہے/ جو سجے سینے رگیدے گی (مسلمانی پہ کوئی حرف نہ آئے)/ کوئی دف بے ہدف ہے/ اور اکتارے کی دھن زانی/ میں اک اک حمد سیپارے کے پہلو سے چھواؤں گا/ یہاں ہر حُسن بے معنی/ خدا تقدیر لکھ دیتا ہے/ مُڑ کر دیکھنے کی آنکھ بھر زحمت نہیں کرتا/ مگر آہن‘ مگر آہن/ کلیجے کھا کے بھی جس سُورما کا جی نہیں بھرتا/ مسلسل کرفیو کی رات ہے‘ جس سے/ تہجد کی اکیلی آنکھ کا/ آنسو نہیں ڈرتا!
آج کا مطلع
محبت ہے‘ مگر اُس کو خبر ہونے سے ڈرتا ہوں
کہ اس خوشبوئے دل کے منتشر ہونے سے ڈرتا ہوں