یہ ہمارے دوست قاسم یعقوب کا مجموعۂ کلام ہے۔ انتساب کچھ اس طرح سے ہے'' عامر مشتاق کے گھر کے اردگرد پھیلے اُس جنگل کے نام جہاں زندگی ابھی تک اپنی نومولود حالت میں پڑی ہے‘‘۔ آپ نہ صرف جریدۂ نقاد کے مدیر ہیں بلکہ اسلام آباد کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں لیکچرر ہیں اور اردو پڑھاتے ہیں۔ پسِ سرورق شاعر کی تصویر اور توصیفی تحریر ہے، جس کے نیچے ناشر سمیت کسی کا نام نہیں ہے اور جس سے یہی تاثر ابھرتا ہے کہ یہ شاعر کی بقلم خود ہے۔ سچی بات ہے ، اگر شاعر خود اپنی تعریف نہیں کرے گا تو دوسروں سے کیا توقع رکھ سکتا ہے؟ کتاب کے پہلے حصے میں نظمیں ہیں اور دوسرے میں غزلیں۔ ہم فی الحال دوسرے حصے ہی کے بارے کچھ عرض کریں گے۔ شاعری، بالخصوص غزل کی شرطِ اوّل یہ ہے کہ وہ موزوں یعنی وزن میں ہو اور اس میں زبان بھی درست استعمال کی گئی ہو۔ آئیے، دیکھتے ہیں کہ شاعر نے اس بنیادی شرط کو کس طرح پورا کیا ہے تا کہ دوسری شرائط اور لوازمات کے بارے آپ کو اندازہ لگانے میں آسانی رہے:
صفحہ نمبر 94 پر مطلع کے دونوں مصرعے
شاخوں کی دُھند ہٹا کے، آج اس نے پورا دیکھا ہے
تاریکی میں اک پیڑ نے خود کو برہنہ دیکھا ہے
مختلف بحروں میں ہیں جبکہ دوسرا مصرعہ خارج از وزن ہے۔ اس میں ''اک‘‘ کی بجائے اگر ''ایک‘‘ ہوتا تو یہ نقص دور ہو سکتا تھا۔ اسی طرح دوسرے شعر کا پہلا مصرعہ ع
اک بھیڑ بچی ہے باقی جو مجھ سے سچ کہتی ہے
بھی دوسری بحر میں چلا گیا ہے اور خارج از وزن ہے، اسی طرح تیسرے شعر کا پہلا مصرعہ ع
گھٹنے گھٹنے ریت اور آبلے، نابینا دھوپ کی پیاس
یہ بھی خارج از وزن ہے۔ صفحہ 84 پر غزل کے دوسرے شعر کے پہلے مصرعہ میں ع
خوش ہے کہ نہیں کھلتی یہ دیوار کسی طرف
میں لفظ طرف کو غلط وزن میں باندھا گیا ہے۔ اس کی بجائے ''سمت‘‘ ہوتا تو ٹھیک تھا۔ صفحہ 98 دوسرے شعر کا دوسرا مصرعہ؎
چہرے کی نیلابی کچھ اس کا کپڑا کہتا ہے
میں نیلابی کی ''بی‘‘ بُری طرح گرتی ہے جبکہ ''نیلابی‘‘ بجائے خود محلِ نظر ہے۔تیسرے شعر کا پہلا مصرعہ ع
اشکوں کی آری سے میں کٹ بھی سکتا ہوں
ایک اور بحر میں چلا گیا ہے۔ صفحہ 103 پر دوسرے شعر کے دوسرے مصرعہ میںع
میں اُن کی طرف، سو رُخِ طرفین ٹھیک ہے
یہاں بھی ''طرف‘‘ کو غلط وزن میں باندھا گیا ہے۔ صفحہ 104 پر غزل کے یہ مصرعیع
میں گھونسلا بن کے رہتا ہوں شاخِ زماں میں خود کو چھپا کر
دل کی بات اگر کہنی ہے آواز کو تھوڑا اُونچا کر
خارج از وزن ہیں۔ صفحہ 105 کے دوسرے شعر کا پہلے مصرعہ ع
دینِ معاشرت کی نفی سے ہُوا ہوں میں
میں لفظ ''نفی ‘‘ کو غلط وزن پر باندھا گیا ہے جو بر وزنِ ''شمع‘‘ ہے مثلاً ع
نفی سے کرتی ہے اثبات تراوش گویا (غالبؔ)
پائوں پھٹیں گے، خون بہے گا راہ میں تب گھر آئے گا
چھ دروازوں سے گزرو گے تو ساتواں در آئے گا
میں دوسرا مصرعہ خارج از وزن ہے۔ صفحہ 110 پر غزل کے مطلع میں ع
قصّہ اُس عمر کا جب خون میں جوانی اٹھتی تھی
پہلا مصرعہ خارج از وزن ہے۔ اسی طرح چوتھے شعر کا مصرعہ اوّل ع
آنکھیں خواب کو بستر پر چھوڑ کے آ جاتی تھیں
بھی خارج از وزن ہے۔ پانچویں شعر کا مصرعۂ اوّل ع
شہد، مٹھاس اور قند پسندیدہ ذائقے تھے
بھی خارج از وزن ہے جبکہ دوسرا مصرعہ
اُس کے واسطے خوشبو ہانڈی کی اٹھتی تھی
دوسری بحر میں چلا گیا ہے۔ صفحہ 114 پر چوتھے شعر؎
یہ پیڑ بھی تو میرے ساتھ پھلتا پھُولتا تھا
میں گر پڑا تھا کسی وقت تو یہ کٹا بھی تھا
میں دوسرا مصرعہ خارج از وزن ہے۔ صفحہ 116 پر درج مطلع کا دوسرا مصرعہ ع
خط لکھا تھا دریا کو اور پانی میں پھینک دیا تھا
خارج از وزن ہے، دوسرے شعر کا مصرعہ ٔ ثانیع
نقشے میں کمرے تھے، دروازے بھی تھے، نیند نہیں تھی
بھی خارج از وزن ہے۔ تیسرے شعر کے مصرعۂ ثانی میں ع
میں کب سے سوچ رہا ہوں تم نے دیر سے کیوں پہچانا تھا
میں لفظ ''میں‘‘ زائد ہے جس سے مصرعہ خارج از وزن اور دوسری بحر میں چلا گیا ہے۔ چھٹے شعر کا دوسرا مصرعہ ع
پھُول بنا کر صفحے پر وقت کی گوند سے جوڑا تھا
بھی خارج از وزن ہے۔ صفحہ 119 کے تیسرے شعر؎
شہر کے بس اڈوں پر رش اتنا ہے کیوں
کیسے رہیں گے اتنے لوگ خدایا جنگل میں
اس کے دوسرے مصرعہ میں لفظ ''اتنے‘‘ زائد ہے۔صفحہ 128 کا دوسرا شعر اس طرح سے ہے؎
کبھی کبھی ہی ملتا ہے موقع ندی پہ بیٹھنے کا
جب میں اکیلا ہوتا ہوں اور وہ تنہا ہوتی ہے
اس کے دوسرے مصرعہ میں لفظ ''اور‘‘ زائد ہے جس سے مصرعہ بے وزن ہو گیا ہے بلکہ دوسری بحر میں چلا گیا ہے۔ واضح رہے کہ شاعر کا یہ چوتھا مجموعہ ہے۔
اور، اب آخر میں جریدہ ''نقاط‘‘ کے تازہ شمارہ میں سے مزید منتخب اشعار؎
اکسیر تھی سبھی کو محبت مگر مجھے
یہ مستند علاج بھی اچھا نہ کر سکا (فرحان عارض)
بندِ افسردگی عجب ہے دوست
ہنس لو جتنی دفعہ نہیں کھلتا
ایک کمرہ تو گھر میں ایسا ہے
جو تمہارے سوا نہیں کھلتا
اٹھا کے اشک میں دل بانجھ خاک سے اس کی
یہ بیج اب کسی اچھی جگہ لگائوں گا (تجمّل کاظمی)
ہم ایسے بھٹکے ہوئوں کو یہ خوف رہتا ہے
یہ گمرہی بھی تیری سمت ہی نہ لے جائے
زندگی وہ لباس ہے جو ہمیں
پورا آیا نہ کھینچ تان کے بھی
آنکھ روشن ہوئی تو ہم پہ کھلا
ہم اندھیرے میں لگ گئے ترے ہاتھ
اپنی گلیوں میں آ کے مار گئے
اجنبی سرحدوں سے بھاگے ہوئے (راز احتشام)
پھیل جائے نہ ساری بستی میں
بات دیوار نے سنی ہوئی ہے
اس کے بھی ٹوٹنے کا ڈر ہے ہمیں
ہم سے جو آج تک بنا ہی نہیں (آفتاب نواب)
کہیں کہیں سے بدلتے ہیں خستہ پیراہن
لباسِ زندگی سارا نہیں بدلتے ہیں (ابرار شاہ)
آج کا مطلع
جب بھی کوئی منظر دکھلانا پڑتا ہے
خود کو ہی رستے سے ہٹانا پڑتا ہے