سرمایہ کاروں کو مکمل تحفظ فراہم کریں گے: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''ہم سرمایہ کاروں کو مکمل تحفظ فراہم کریں گے‘‘ جیسا کہ سرمایہ داروں کو فراہم کیا ہے اور نہیں پوچھا کہ یہ سرمایہ کہاں سے آیا اور اس قدر بے تحاشا بینک اکاؤنٹس‘ جائیدادوں اور اثاثوں کا راز کیا ہے حتیٰ کہ اس سلسلے میں جواب کے طور پر کوئی خط پیش کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی کیونکہ اس نے بھی تائید و تصدیق نہیں کرنی تھی، اس لیے سرمائے میں جتنا بھی اضافہ کیا جائے‘ اس پر کوئی سوال نہیں اٹھایا جائے گا جبکہ اب تو قوانین میں ترمیم کے بعد کسی بھی قسم کے کسی سوال کے اٹھائے جانے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور اگر ہو بھی تو اس کا کوئی جواب ہی دستیاب نہیں ہوتا۔ آپ اگلے روز برطانوی ہائی کمشنر اور بزنس وفد کونسل سے ملاقات کر رہے تھے۔
عوام آٹے اور سیاستدان اقتدار کیلئے
قطار میں لگے ہوئے ہیں: سراج الحق
امیرِ جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے کہا ہے کہ ''عوام آٹے اور سیاستدان اقتدار کیلئے قطار میں لگے ہوئے ہیں‘‘ اور جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری قوم رفتہ رفتہ ڈسپلن اختیار کرتی جا رہی ہے کیونکہ قطار میں لگنا اور اپنی باری کا انتظار کرنا ان بنیادی اوصاف میں شامل ہے جو کسی قوم کو ترقی کے راستے پر گامزن کرتے ہیں جبکہ بڑی سیاسی جماعتوں نے اقتدار میں آنے کی بھی باریاں مقرر کر رکھی ہیں اور باری باری حکومت میں آ کر دونوں ہاتھوں سے عوام کی خدمت شروع کر دیتی ہیں اور کسی طرح کی چھینا جھپٹی کا کوئی امکان نہیں رہتا اور ساتھ ہی ساتھ وہ ایک دوسرے سے لوٹا ہوا پیسہ نکلوانے کا عہد بھی کیا کرتی ہیں۔ آپ اگلے روز منصورہ میں علماء و مشائخ رابطہ کونسل سے خطاب کر رہے تھے۔
تمام سیاسی جماعتیں مل کر
ضابطۂ اخلاق بنائیں: بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''تمام سیاسی جماعتیں مل کر ضابطۂ اخلاق بنائیں‘‘ اگرچہ جو ضابطۂ اخلاق اب تک بنا رکھا ہے‘ وہ کافی سے زیادہ ہے اور اس کے بعد کسی مزید ضابطۂ اخلاق کی ضرورت باقی نہیں رہتی جو ہو بہو دیگر جماعتوں کے ضابطۂ اخلاق کی کاربن کاپی ہے جبکہ اس کی موجد بھی وہ جماعتیں خود ہی ہیں، جبکہ ہم نے اس پر عمل کر کے اس فن کو کہیں کا کہیں پہنچا دیا ہے اور تاریخ میں دونوں کا نام لکھا جائے گا؛ تاہم ورائٹی کی غرض سے اس ضابطۂ اخلاق میں معمولی رد و بدل بھی بروئے کار لایا جا سکتا ہے؛ تاہم مقصد دونوں کا ایک اور صرف ایک ہی ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
ناقدین کی منفی تنقید ان کا
کردار ظاہر کرتی ہے: ثنا خان
اداکاری سے کنارہ کشی اختیار کرنے والی بالی وڈ اداکارہ ثنا خان نے کہاہے کہ ''ناقدین کی منفی تنقید ان کا کردار ظاہر کرتی ہے‘‘ کیونکہ کسی خوبصورت چیز پر نکتہ چینی کرنا بجائے بدصورتی کی ذیل میں آتا ہے؛ چنانچہ اداکار چاہے جن بھوت کا کردار ہی ادا کر رہا ہو‘ اس کے فن کی تعریف ہی کرنی چاہیے کیونکہ منفی کرداروں کا بھی اپنا ایک حسن ہوتا ہے جس کا اندازہ وہ کردار ہی لگا سکتا ہے، اس لیے بھلے کوئی اداکار آپ کو ناپسند ہی ہو‘ جی کڑا کر کے اس کی تعریف کر دینی چاہیے کیونکہ تعریف سے آپ کا کچھ نہیں بگڑتا مگر اس سے فنکار کا بہت بھلا ہو جاتا ہے اور اصل کام سارا بھلائی میں ہی مضمر ہے جبکہ 'کر بھلا سو ہو بھلا‘ کا محاورہ بھی اس کی دلیل ہے۔ آپ اگلے روز ممبئی میں ایک انٹرویو میں اظہارِ خیال کر رہی تھیں۔
خوبصورتی کو زوال ہے مگر فن
کبھی زوال پذیر نہیں ہوتا: نیلم منیر
اداکارہ نیلم منیر نے کہا ہے کہ ''خوبصورتی کو زوال ہے مگر فن کبھی زوال پذیر نہیں ہوتا‘‘ اور میں تجربے کی بنیاد پر ایسا کہہ رہی ہوں کیونکہ خوبصورتی کا معاملہ ذرا توجہ طلب ہے لیکن میں سمجھتی ہوں کہ فن ابھی کچھ دن اور نکال جائے گا جبکہ خوبصورتی کی ساری بنیاد میک اپ ہی ہے، اس لیے میں تمام اداکاراؤں سے کہوں گی کہ میک اپ کے بغیر گھر سے باہر ہرگز نہ نکلا کریں ورنہ خوبصورتی کے زوال کے ساتھ ساتھ وہ اپنے فن کو بھی زوال کے سپرد کر دیں گی اس لیے جہاں تک ممکن ہو سکے دونوں کو برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ آپ اگلے روز ایک ٹی وی انٹرویو میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہی تھیں۔
اور‘ اب آخر میں یہ تازہ غزل:
زندگی میں کہیں کھویا‘ کہیں پایا ہوا ہے
اور پائے ہوئے کو بھی گنوایا ہوا ہے
اُس کی تعبیر کی پروا کبھی کرتے نہیں ہم
خواب جو خودکو یہاں ہم نے دکھایا ہوا ہے
چائے کی ایک پیالی ہے کہ جس میں ہم نے
اس محبت کا یہ طوفان اُٹھایا ہوا ہے
زندگی ہے کوئی تصویر سی جس کو ہم نے
نہ بنایا ہوا ہے اور نہ مٹایا ہوا ہے
وہی آئے گا جسے ہم نے بلایا بھی نہیں
کبھی آئے گا نہیں جس کو بلایا ہوا ہے
دے نہیں سکتے اُسے یاد نہ کرنے کی قسم
اور غلط یہ بھی نہیں اس کو بھلایا ہوا ہے
اُس کی خاموشی کا ہنگامہ زیادہ ہے بہت
کہنے کو ہم نے بھی اک شور مچایا ہوا ہے
کچھ توجہ کہیں یا حسن تغافل‘ اُس نے
ہاتھ پکڑا ہی وہ کب تھا جو چھڑایا ہوا ہے
حق تو یہ ہے کہ ظفرؔ شعر کا یہ لقمۂ تر
لگ رہا کہیں پہلے ہی چبایا ہوا ہے
آج کا مقطع
بکھرتا جا رہا ہے دور تک رنگِ جدائی
ظفرؔ کیا پوچھتے ہو زخمِ دل کیسا کِھلا ہے