عوام کو بہت جلد ریلیف کی
خوش خبری دیں گے: وزیراعظم
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عوام کو بہت جلد ریلیف کی خوشخبری دیں گے‘‘ کیونکہ ہم صرف خوشخبری ہی دے سکتے ہیں، ریلیف دینا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے اور جب حکومت کے لیے کوئی ریلیف موجود نہیں ہے تو عوام کو کہاں سے دیں گے کیونکہ مقبولِ عام محاورہ بھی یہی ہے کہ اوّل خویش‘ بعد درویش، جبکہ عوام جیسے درویشوں کو تو ریلیف کی ویسے بھی ضرورت نہیں ہے اور وہ چوبیس گھنٹے اپنی درویشی ہی میں مست رہتے ہیں، اس لیے فی الحال ان کے لیے ریلیف کی کھوکھلی خوشخبری ہی کافی ہے اور انہیں اسی پر اکتفا کرنا چاہیے۔ آپ اگلے روز چودھری سالک کو فون کر کے پولیس ایکشن پر اظہارِ افسوس کر رہے تھے۔
آدھی رات کو دروازے توڑنا نامناسب: شافع حسین
پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صدر چودھری شجاعت حسین کے صاحبزادے چودھری شافع حسین نے کہا ہے کہ ''آدھی رات کو دروازے توڑنا نامناسب ہے‘‘ کیونکہ چوبیس گھنٹوں میں جب پورا وقت دستیاب تھا تو دروازے کسی اور وقت بھی توڑے جا سکتے تھے کیونکہ دروازوں کو بھی رات بھر آرام کرنے کا حق حاصل ہے اور ان کی نیند میں خلل ڈالنے کی کسی صورت تعریف نہیں کی جا سکتی؛ چنانچہ اب اگر دوبارہ دروازے توڑنے کی ضرورت پیش آئے تو اس کے لیے دن کا کوئی وقت مقرر کیا جا سکتا ہے، نیز ٹوٹے ہوئے دروازوں کی پہلے مرمت کرانی بھی ضروری ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
کابینہ میں اتنی صلاحیت نہیں کہ ملکی
مسائل حل کر سکے: شاہد خاقان عباسی
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ نواز کے مرکزی رہنما شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''کابینہ میں اتنی صلاحیت نہیں کہ ملکی مسائل حل کر سکے‘‘ اس لیے ملکی مسائل دیگر متعلقہ احباب کو حل کرنا چاہئیں جو آج تک حل کرتے آئے ہیں جن میں سے کچھ تو اس کام میں سپیشلسٹ ہیں اور یدِطولیٰ رکھتے ہیں اور جو کافی عرصے سے نامعلوم وجوہات کی بنا پر خاموش ہیں حالانکہ سب کو بھی صاف نظر آ رہا ہے کہ اس حکومت اور کابینہ سے ملکی مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں اس لیے بیحد ضروری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنی روایتی ذمہ داریاں سنبھال لیں، پیشتر اس کے کہ بہت دیر ہو جائے اور الیکشن کی مصیبت ہمارے گلے پڑ جائے۔ آپ اگلے روز گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
بکتر بند گاڑیوں کو دروازے
توڑتے پہلے کبھی نہیں دیکھا: اعجاز الحق
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اعجاز الحق نے کہا ہے کہ ''بکتر بند گاڑیوں کو دروازے توڑتے پہلے کبھی نہیں دیکھا‘‘ اور بکتر بند گاڑیوں کا یہ نہایت غلط استعمال ہے کیونکہ جب دروازے توڑنے کے لیے دوسرے اوزار موجود ہیں تو بکتر بند گاڑیوں کو زحمت دینے کی کیا ضرورت ہے؛ تاہم یہ بھی غنیمت ہے کہ زندگی میں پہلی بار یہ نظارہ دیکھ تو لیا؛ تاہم اس سے بکتر بند جیسی قیمتی گاڑیوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور یہ اُن کی توہین بھی ہے، اس لیے بہتر ہے کہ آئندہ جب بھی دروازے توڑنا ہوں تو دیگر تیر بہدف طریقے آزمائے جائیں کہ بہتری اسی میں ہے۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اظہارِ خیال کر رہے تھے۔
پرویز الٰہی کو بہادر لیڈر کی طرح
گرفتاری دینی چاہیے تھی: شرجیل میمن
سندھ کے صوبائی وزیر اور پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن نے کہا ہے کہ ''پرویز الٰہی کو بہادر لیڈر کی طرح گرفتاری دینی چاہیے تھی‘‘ یا وہ میاں نواز شریف کی طرح بہادری سے کام لیتے ہوئے لندن جا سکتے تھے یا دلیری اور جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زرداری صاحب کی طرح دبئی کا رخ کر سکتے تھے، کیونکہ اس طرح ان کے گھر کا گیٹ بھی ٹوٹنے سے بچ جاتا جس کی مرمت پر کافی خرچہ اُٹھا ہوگا جبکہ گرفتاری کے بعد اُن کی فوری ضمانت بھی ہو جانا تھی اور ملک کے جری لیڈروں میں اُن کا نام بھی روشن حروف سے لکھا جاتا لیکن اس طرح انہوں نے ایک بہادر لیڈر کا ثبوت دینے کا سنہری موقع ضائع کر دیا۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔
اور‘ اب آخر میں شیخوپورہ سے اظہر عباس کی غزل:
جیسا میں ہوں جیسے تم ہو ایسا اور بھی ہے
ہم دونوں کے ساتھ ہی کوئی اجڑا اور بھی ہے
یعنی عمر گزر جائے گی رستہ ڈھونڈنے میں
یعنی اس صحرا سے آگے صحرا اور بھی ہے
جس پر دونوں چل سکتے ہیں اک دوجے کے ساتھ
ترکِ تعلق سے ہٹ کر اک رستہ اور بھی ہے
تیرے جیسا ڈھونڈ لوں جا کر اور کہیں سے میں
تیرے جیسا اس دنیا میں اچھا! اور بھی ہے
نیچے اتر گیا ہے پانی ہونٹ لگاتے ہی
دریا کی اس جانب شاید پیاسا اور بھی ہے
جنگل ہے اور رات اندھیری خطرے ایک سے ایک
لیکن! ہم دونوں کے بیچ اک خطرہ اور بھی ہے
اتنی جلدی بوجھل ہو گئی نیند سے تیری آنکھ
اس قصے کے بعد مری جاں قصہ اور بھی ہے
میرے پٹ جانے سے اس کا کیا ہو گا نقصان
مجھ سے بہتر اس کے پاس اک مہرہ اور بھی ہے
سانسوں کا یہ کھیل نہیں رکنے کا یاد رہے
اس دروازے کے پیچھے دروازہ اور بھی ہے
مرنا کسے قبول ہے لیکن جب یہ سوچتا ہوں
اس دنیا سے آگے اظہرؔ دنیا اور بھی ہے
آج کا مطلع
سمٹنے کی ہوس کیا تھی بکھرنا کس لیے ہے
وہ جینا کس کی خاطر تھا یہ مرنا کس لیے ہے