سال 2024: مہنگائی تاریخی بلندی سے نیچے آگئی، ثمرات عوام تک نہ پہنچے
اسلام آباد: (مدثر علی رانا) رواں برس مہنگائی تاریخ کی بلند ترین شرح کو چھو کر ساڑھے 6 سال کی کم ترین سطح پر آگئی لیکن مہنگائی میں کمی کے ثمرات عوام تک نہ پہنچ سکے۔
حکومتی اعدادوشمار کے مطابق سال کا آغاز ہوا تو سالانہ مہنگائی کی شرح 28.3 فیصد اور ہفتہ وار شرح 44.6 فیصد تھی، سال کے دوران مہنگائی بڑھنے کی شرح ہر آنے والے ہفتے اور مہینے کیساتھ کم ہوتی رہی۔
وفاقی و صوبائی وزراء مہنگائی میں کمی کے دعوے تو کرتے رہے لیکن بدقسمتی سے مارکیٹوں میں اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں کمی نہ ہوسکی۔
وفاقی وزرا کے دعوؤں کے مطابق سال 2024 گزشتہ ساڑھے 6 برسوں میں سستا ترین سال رہا جس دوران مہنگائی آسمان سے زمین پر آ گئی، ادارہ شماریات بھی حکومتی دعوؤں کو ربر سٹمیپ کرتا رہا۔
ادارہ شماریات کے مطابق جنوری میں مہنگائی بڑھنے کی شرح 28 اعشاریہ 3 فیصد تھی جو دسمبر میں کم ہو کر سنگل ڈیجٹ یعنی محض ساڑھے 6 فیصد تک محدود ہو چکی ہے جبکہ ہفتہ وار مہنگائی جو جنوری میں 44 اعشاریہ 6 فیصد تھی وہ ایک سال سے بھی کم عرصہ میں 3 اعشاریہ 7 فیصد پر آ گئی۔
دوسری جانب ادارہ شماریات کے اعداد و شمار ہی حکومتی دعووں کی نفی کرتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
ادارہ شماریات کے اعدادوشمار کے مطابق جنوری 2024 میں آلو 60 روپے فی کلو تھا جو سال کے اختتام یعنی دسمبر میں دو گنا ہو کر 120 روپے فی کلو ہو گیا، دال چنا 257 روپے سے بڑھ کر 380 روپے فی کلو، دال مونگ 299 روپے سے 387 روپے فی کلو پر پہنچ گئی ۔
اسی طرح مٹن 1727 روپے سے بڑھ کر 1960 روپے اور لہسن 582 روپے سے بڑھ کر 679 روپے فی کلو ہو گیا ہے، جنوری میں فی لٹر آئل کی قیمت 501 روپے تھی جو اب 566 روپے ہو چکی ہے۔
نان فوڈ آئٹمز کا بھی جائزہ لیں تو سال بھر میں ایل پی جی کا گھریلو سلنڈر 3355 روپے سے بڑھ کر 3447 روپے پر پہنچ چکا ہے، جلانے کی لکڑی 1160 روپے سے بڑھ کر 1268 روپے فی من تک فروخت کی جارہی ہے، اس کے علاوہ کپڑے اور جوتےبھی مہنگی ہونے والی اشیاء میں شامل ہیں، سال بھر میں محض پیاز اور ٹماٹر کی قیمتیں ہی کم ہوئیں۔
مہنگائی میں کمی کے حکومتی دعوؤں اور ادارہ شماریات کے اعداد و شمار کا ہیر پھیر اپنی جگہ مگر عوام ان دعوؤں پر یقین کرنے کو بالکل تیار نہیں، ان تمام زمینی حقائق کے باوجود حکومتی وزرا آج بھی بضد ہیں کہ معیشت کی سمت درست ہو گئی اور عوام کو ریلیف کے ثمرات ملنا شروع ہو چکے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مہنگائی کی شرح کم ہو رہی ہے تو اس کے ثمرات عام آدمی تک کیوں نہیں پہنچ رہے؟ سال 2024 تو عوام نے مہنگائی کے پنجوں میں جکڑے گزار دیا لیکن عوام آج بھی منتظر ہیں کہ کب حکومتی ریلیف کے وعدے پورے ہوں اور شہریوں کو کچھ ریلیف ملے۔