لاہور ہائیکورٹ کا بڑا فیصلہ، بجلی بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز غیر قانونی قرار

لاہور: (دنیا نیوز) لاہور ہائیکورٹ نے بجلی بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کو غیر قانونی قرار دے دیا۔

عدالت نے گھریلو صارفین کو 5 سو یونٹس تک سبسڈی دینے کا حکم دے دیا، عدالت نے وفاقی حکومت کو متبادل ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی بھی ہدایت کر دی۔

جسٹس علی باقر نجفی نے اظہر صدیق سمیت دیگر کی درخواستوں پر فیصلہ سنایا۔

فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سرچارج کیا ہے؟

وفاقی حکومت فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سرچارج  ریگولیشن آف جنریشن، ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹری بیوشن آف الیکٹرک ایکٹ 1997  کے تحت لیا جاتا ہے، اس قانون کی شق نمبر 31، ذیلی شق چار کے مطابق تمام بجلی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں اس بات کی پابند ہوں گی کہ وہ تیل کی قیمتوں میں تبدیلی کے مطابق ہر ماہ کے سات دن تک بلوں میں قیمتیں ایڈجسٹ کریں، اسی شق کے مطابق تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیاں وفاقی حکومت کو یہ سرچارج ادا کریں گی۔

صارفین سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سرچارج یونٹ کے حساب سے لیا جاتا ہے، مثال کے طور پر بجلی صارف نے دسمبر میں 100 یونٹس استعمال کیے اور بل ایک ہزار روپے آیا لیکن دسمبر میں ہی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا تو ڈسٹری بیوشن کمنپی اسی اضافے کے مطابق فی یونٹ کے حساب سے اس تبدیلی کو ایڈجسٹ کرے گی، اب وہی صارف جس کا بل دسمبر میں ایک ہزار تھا اور جنوری میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کا ریٹ فی یونٹ ایک روپے بڑھا، تو یہی اضافہ ان سے جنوری کے بل میں وصول کیا جائے گا۔

فیول پرائس ایڈجسمنٹ سرچارج کی مد میں فی یونٹ اضافے کا تعین نیپرا کرتا ہے اور اسی حساب سے متعلقہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو بذریعہ نوٹیفیکیشن آگاہ کیا جاتا ہے۔

اگر تیل کے قیمتوں میں اضافہ ہو جائے، تب تو یقیناً یہ زیادہ ہوتا ہے لیکن اگر قیمتیں کم ہوں تو اسی حساب سے صارفین کے بلوں میں سے سے منہا بھی کیا جاتا ہے۔

یہ سرچارج وفاقی حکومت طے کرتی ہے اور ڈسٹری بیوشن کمپینوں کو صرف بتایا جاتا ہے کہ اس حساب سے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ سرچارج کے تحت بل بنایا جائے، اس کے علاوہ ڈسٹری بیوشن کمپینوں کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔
 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں