صدارتی الیکشن میں ایک روزباقی، ہیرس اورٹرمپ کے درمیان سخت مقابلہ متوقع
واشنگٹن : (ویب ڈیسک ) امریکہ کے صدارتی انتخابات میں صرف ایک دن باقی رہ گیا ہے، نائب صدر اور ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس اورسابق صدرڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان سخت مقابلہ ہے ۔
امریکی صدارتی انتخاب کے آخری مرحلے میں الٹی گنتی شروع ہوگئی ، کانٹے کے مقابلے والی ریاستوں کی بات کی جائے یا بقیہ ریاستوں کی، وہاں یہ ابہام موجود ہے کہ امریکہ کے اگلے صدر کے انتخاب کی دوڑ میں کون آگے رہے گا۔
پانچ نومبر کو ہونے والی پولنگ سے قبل ساڑھے سات کروڑ سے زائد امریکی ووٹرز بذریعہ میل یا پولنگ اسٹیشن پر جا کر ووٹ کا حق استعمال کر چکے ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی آف فلوریڈا میں قائم کیے گئے الیکشن لیب کے ڈیٹا کے مطابق 4 کروڑ 10 لاکھ لوگوں نے پولنگ اسٹیشنز پر جا کر اپنا ووٹ دیا جب کہ 3 کروڑ 40 لاکھ لوگوں نے پوسٹل بیلٹ یاای میل ووٹنگ کے ذریعے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
امریکہ کی بعض ریاستوں میں اتوار کو بھی ابتدائی ووٹنگ جاری رہی اور پیر (آج ) بھی ووٹرز وقت از وقت ووٹ ڈالنے کا حق استعمال کریں گے۔
گزشتہ روز نارتھ کیرولینا میں ووٹنگ کی شرح 55 فیصد ، جارجیا میں 50 اور ٹینیسی میں 49 فیصد ووٹ کاسٹ ریکارڈ کیاگیا، ٹیکساس اور فلوریڈا میں 47،47 فیصد ووٹرز نے حق رائے دہی استعمال کیا۔
جوں جوں صدارتی انتخاب کیلئے پولنگ کا وقت قریب آ رہا ہے، دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان ایک دوسرے پرلفظی گولہ باری جاری ہے ۔
امریکی صدارتی امیدوار اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پنسلوینیا میں انتخابی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تمام امریکیوں کیلئے امید کا پیغام لے کر آیا ہوں، منگل کو آپ کے ووٹ سے مہنگائی کا خاتمہ کروں گا، کملا ہیرس نے ملک کو توڑ دیا، ہم اسے ٹھیک کریں گے، سابق امریکی صدر نے ریاست شمالی کیرولائنا میں جیت کا دعویٰ کر دیا۔
ڈیموکریٹک کی صدارتی امیدوار کملا ہیرس نے مشی گن کے چرچ میں خطاب میں جوابی وار کرتے ہوئے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آئے تو ملک غیر مستحکم ہوجائے گا، 5 نومبر آنے میں باقی وقت مشکل ہوگا، آئیں اپنے مستقبل کا اگلا باب لکھیں، ان 2 دنوں میں ہمارے پاس قسمت کا فیصلہ کرنے کا موقع ہے۔
سات سوئنگ ریاستوں میں کس کی برتری
امریکی صدارتی انتخابات میں 7 ریاستوں، ایریزونا، جارجیا، مشیگن، نیواڈا، شمالی کیرولینا، پینسلوینیا اور وسکونسن کا کردار اہم ہوگا، ڈیموکریٹ امیدوار کملا ہیرس اور ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان سخت مقابلے کا امکان ہے ، ان ریاستوں میں سے بھی جو امیدوار چار یا اس سے زائد ریاستوں میں کامیابی حاصل کر لے گا، وہ ملک کا 47واں صدر ہوگا۔
دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے ویک اینڈ پر سوئنگ ریاستوں میں ایسے ووٹرز کے پاس پہنچنے کی کوشش کی جو اب تک اپنے ووٹ کے فیصلے کے بارے میں حتمی فیصلہ نہیں کر سکے ہیں۔
امریکی انتخابی سیاست میں سوئنگ ریاستیں ان ریاستوں کو کہا جاتا ہے جہاں کسی بھی امیدوار کی کامیابی کے بارے میں یقین سے کچھ نہ کہا جا سکے۔ ایسی ریاستوں میں ان ووٹرز کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جو آخری وقت تک یہ فیصلہ نہیں کر پاتے کہ انہیں کس امیدوار کو ووٹ دینا ہے۔
سوئنگ ریاستوں میں سے مشی گن میں امیدواروں کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہو گا ، کملا ہیرس مشی گن میں سرگرم جبکہ ٹرمپ کی پنسلوینیا، نارتھ کیرولائنا اور جارجیا میں دوڑ دھوپ جاری ہے جہاں انہیں توقع ہے کہ کاملا ہیرس کے مقابلے میں انہیں زیادہ ووٹ مل سکتے ہیں۔
رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق ہیرس یا ٹرمپ 43 ریاستوں میں کافی حد تک یا آسانی کے ساتھ برتری رکھتے ہیں، جہاں سے انہیں 200 یا اس سے زیادہ الیکٹورل ووٹ مل سکتے ہیں، ان میں سے کسی ایک ریاست میں اپ سیٹ کو چھوڑ کر انتخابی نتیجے کا انحصار بقیہ سات سوئنگ اسٹیٹس کے نتائج پر ہو گا۔
عرب میڈیا کے مطابق حال ہی میں کیے جانیوالے امریکی جریدوں کے ایک سروے میں ریاست پنسلیونیا میں ٹرمپ اور کملا 48 فیصد ووٹ لے کر برابر مقابلے میں ہیں ، اسی دوران 538 نیشنل پولزٹریکر کے مطابق ہیرس کو ٹرمپ پر ایک پوائنٹ کی برتری حاصل ہے ۔
امریکی سروے AtlasIntel s latest poll کے مطابق ان سوئنگ ریاستوں میں ووٹرز کا کہنا ہے کہ 49 فیصد شہری ڈونلڈ ٹرمپ کو ووٹ دینا چاہتے ہیں ، سروے پول میں بتایا گیا ہے کہ ری پبلکنز کے ٹرمپ کو ڈیموکریٹس کی کملا ہیرس پر 1.8 ووٹ کی برتری حاصل ہے ۔
مختلف رائے شماریوں میں کملا ہیرس کو اگرچہ صرف 1 پوائنٹ کی برتری ہے، تاہم اُس میں غلطی کا امکان بھی موجود ہے۔
اگر گزشتہ تین امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کو دیکھا جائے تو 2016،2012 اور 2020 میں مختلف ریاستوں میں مختلف جماعتیں فاتح رہیں۔
2016 میں ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے فلوریڈا، اوہائیو اور مشیگن جیسی اہم ریاستیں جیت کر بڑی کامیابی حاصل کی جبکہ 2020 میں جو بائیڈن نے پنسلوانیا، ایریزونا اور جارجیا جیسی سوئنگ سٹیٹس میں کامیابی حاصل کی۔
اہم شخصیات کی حمایت
امریکا کے معدد بزنس ٹائیکونز، شوبز ستاروں سمیت معروف شخصیات ڈونلڈ ٹرمپ اور کملا ہیرس کی حمایت میں پیش پیش ہیں اور اپنے اپنے پسندیدہ امیدوار کی کامیابی کے لیے لابنگ کررہے ہیں۔
مسلم ووٹرز کا رجحان
مسلم ووٹرز اس انتخابی عمل میں بھرپور شرکت کر رہے ہیں، جس کا ایک بڑا سبب غزہ کے بحران پر امریکی حمایت کے خلاف ردعمل بھی ہے لیکن ٹرمپ اور کملا کے درمیان مقابلہ سخت ہونے کے باوجود ایک فیصد مسلم اور پاکستانی ووٹرز ابھی تک کنفیوژن کا شکار ہیں۔
امریکا کی سب سے بڑی مسلم سول رائٹس اور وکالت کی تنظیم، کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR)، نے گزشتہ روز اپنے آخری انتخابی سروے کے نتائج جاری کیے ہیں۔کیئر کے مطابق، گرین پارٹی کی امیدوار جل اسٹائن اور نائب صدر کملا ہیرس کے درمیان مسلم ووٹرز کی حمایت تقریباً برابر ہے، جہاں جل اسٹائن کی حمایت 42.3 فیصد جبکہ ہیرس کو 41 فیصد حمایت حاصل ہے۔ دوسری جانب، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ مسلم کمیونٹی میں محض 10 فیصد حمایت کے ساتھ کافی پیچھے ہیں۔
امریکا میں صدر کا انتخاب
امریکہ میں صدارتی انتخاب ہر چار سال بعد ہوتا ہے، امریکی آئین کے مطابق ایک فرد دو مرتبہ سے زیادہ صدر کے عہدے پر فائز نہیں رہ سکتا، نومبر 2024 میں صدارتی انتخاب جیتنے والے امیدوار کی حکومت جنوری 2025 میں قائم ہو گی۔
امریکا میں 420 سیاسی جماعتیں ہیں جس میں قومی سطح پر 2 پارٹیاں ڈیموکریٹ اور ریپبلکن مدمقابل ہیں، ڈیموکریٹ پارٹی کا قیام 1828میں عمل میں لایا گیاجبکہ ریپبلکن پارٹی 1854میں قائم کی گئی ، امریکہ کی دونوں اہم سیاسی جماعتیں ری پبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹ پارٹی پرائمری اور کاکس نامی ووٹنگ سیریز کے ذریعے صدارتی امیدوار کو نامزد کرتی ہیں، جہاں جماعت کے اراکین انتخاب کرتے ہیں کہ صدارتی الیکشن میں کون ان کی پارٹی کی قیادت کرے۔
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جنھوں نے اس سے قبل جنوری 2017 میں 45ویں امریکی صدر کے طور پر حلف اٹھایا تھا رپبلکن پارٹی کے انتخابی عمل میں اپنی جماعت کے دیگر حریفوں پرواضح برتری حاصل کرنے بعد صدارتی امیدوار نامزد ہوئے۔
ڈیموکریٹس کی جانب سے امریکہ کی موجودہ نائب صدر کملا ہیرس، جولائی میں صدر بائیڈن کے صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونے کے بعد اس دوڑ میں شامل ہوئیں اور ان کی جماعت سے کسی نے بھی ان کے مقابلے میں حصہ نہیں لیا ۔
یہ بھی پڑھیں :امریکی صدارتی انتخابات 2024 سے متعلق دلچسپ حقائق پر ایک نظر
2024 کے امریکی انتخابات میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کا منشور ایک بار پھر ملکی مسائل پرہی مبنی ہے ، ڈیمو کریٹس کا زور معیشت کی بحالی، ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے اور سماجی انصاف کے مسائل پر ہے، جبکہ ری پبلکنز کا منشور معیشت کو فروغ دینے، کم ٹیکس، اور بارڈر سکیورٹی کو مضبوط بنانے پر مرکوز ہے۔
اس کے علاوہ کچھ آزاد امیدوار بھی اس صدارتی دوڑ میں شامل ہیں، ان میں سب سے نمایاں شخصیت رابرٹ ایف کینیڈی جونیئر تھے، جو امریکہ کے سابق صدر جان ایف کینیڈی کے بھتیجے ہیں تاہم اگست کے آخر میں انھوں نے اپنی صدارتی مہم معطل کرتے ہوئے ٹرمپ کی حمایت کا اعلان کیا اور ٹرمپ نے صدر بننے کی صورت میں انھیں کابینہ میں شامل کرنے کا اعلان کیا ہے۔۔
امریکہ کے صدارتی انتخابات کے نتائج کا فیصلہ نیشنل پاپولر ووٹ نہیں بلکہ الیکٹورل کالجز کے ذریعے ہوتا ہے ، ہر ریاست میں الیکٹورل ووٹ کی تعداد آبادی پر منحصر ہے لہذا قومی سطح پر انتخابی نتیجے کا انحصار بڑی ریاستوں پر بھی ہوتا ہے، صدارتی الیکشن جیتنے کے لیے کسی بھی امیدوار کو 538 الیکٹورل ووٹ میں سے 270 درکار ہیں۔
زیادہ تر امریکی شہری جن کی عمر 18 برس یا اس سے زیادہ ہے، وہ صدارتی الیکشن میں ووٹ دینے کے اہل ہوتے ہیں ، شمالی ڈکوٹا کے علاوہ تمام ریاستوں میں لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے پہلے خود کو رجسٹر کرنا ہوتا ہے، ہر ریاست کا ووٹر رجسٹریشن کا اپنا عمل اور ڈیڈ لائن ہوتی ہے، بیرون ملک مقیم امریکی شہری فیڈرل پوسٹ کارڈ ایپلیکیشن (ایف سی پی اے) مکمل کر کے خود کو رجسٹر کرا سکتے ہیں۔
اگرچہ تمام تر نگاہیں اس بات پر ہوں گی کہ امریکہ کا اگلا صدر کون بنتا ہے تاہم ووٹرز کانگریس اراکین کا انتخاب بھی کریں گے، کانگریس ایوان نمائندگان پر مشتمل ہے، جس کی 435 نشستوں پر الیکشن ہوتے ہیں جبکہ سینٹ کی 100نشستوں پر بھی مقابلہ ہوتا ہے۔
فی الحال ایوان میں ریپبلکنز کی اکثریت ہے، یہ ایوان ملک کے مالی اخراجات سے متعلق منصوبوں کی منظوری دیتا ہے جبکہ سینیٹ میں ڈیموکریٹس کی تعداد زیادہ ہے جو اہم حکومتی تقرریوں کے بارے میں اپنا ووٹ دیتے ہیں۔
عام طور پر فاتح کا اعلان الیکشن کی رات کر دیا جاتا ہے تاہم سنہ 2020 میں ووٹوں کی گنتی میں کچھ دن لگ گئے تھے، اگر انتخابی نتائج کی صورت میں صدر تبدیل ہو رہا ہو تو الیکشن کے بعد کے دورانیے کو ’ٹرانزیشن‘ یعنی منتقلی کا وقت کہا جاتا ہے۔
اس دوران نئی آنے والی انتظامیہ کو کابینہ میں وزرا کی تقرری اور نئی مدت کے لیے منصوبہ بندی کرنے کا وقت ملتا ہے، نئے منتخب ہونے والے صدر جنوری میں باضابطہ طور پر ایک تقریب میں اپنے عہدے کا حلف اٹھاتے ہیں، جس کا انعقاد واشنگٹن ڈی سی میں کیپیٹل ہل کی عمارت کی سیڑھیوں پر کیا جاتا ہے۔