ادب میں تمثیل نگاری

تحریر : پروفیسرصابر علی


فنکار حسین اشیاء کے درمیان فطری تعلق،مشابہت اور یک رنگی کا بھی احساس کر لیتا ہے اور اس کے اظہار کیلئے وہ ایک کے پردے میں دوسرے کو پیش کرتا ہے

انسان نے جب سے بولنا سیکھا، داستان گوئی بھی اسی وقت سے شروع ہوئی اور اس کا داخلی اور خارجی زندگی کا شعور جیسے جیسے بڑھتا اور پھیلتا گیا قصہ گوئی کا اُفق بھی اسی قدر وسیع، رنگین اور لطیف ہوتا گیا۔ ابتداً اس نے اپنے ذاتی تجربوں کی بنیاد پر قوت واہمہ کے نئے خاکوں میں رنگ بھرے اور جو چیزیں اس کی قوت فہم کی گرفت سے باہر رہیں، ان کو ایک فوق العادت شکل دے کر اپنے تجربوں سے ہم آہنگ کیا، لیکن یہ افسانہ طرازیاں’’زیب داستان‘‘ سے آگے نہ بڑھ سکیں۔ ان میں کوئی تہہ داری نہیں تھی۔ ان کی معنوی سطح سپاٹ اور بے رنگ تھی۔ اس کے بعد اس کے ذہن نے اخلاقی تصورات اور سیاحت و کائنات کی متعدد گتھیوں کو جو اس کے ذاتی تجربے کی دسترس سے باہر تھیں، ایک قابل فہم طریقے سے پیش کرنے کا اسلوب تلاش کر لیا۔ ایسا اسلوب جو گہری معنویت کا حاصل تھا، یعنی جانوروں یا بیجان اشیاء کے ذریعے کسی اخلاقی نکتے کو دل و دماغ میں بٹھانے کا فن، قصہ گوئی کا یہ اسلوب قدیم فن داستان گوئی کا عام اسلوب تھا، پنچ تنتر کے قصے اور حکیم لقمان کی حکایات کے بیشتر حصے فیبل اور پیرابیل کے انداز پر ہیں، آگے بڑھ کر یہی انداز تمثیل نگاری کی صورت اختیار کر گیا۔

فنکار صرف حسیں چیزوں سے ہی متاثر نہیں ہوتا، بلکہ حسین اشیاء کے درمیان فطری تعلق، مشابہت اور یک رنگی کا بھی احساس کر لیتا ہے اور اس احساس کے اظہار کے لئے وہ ایک کے پردے میں دوسرے کو پیش کرتا ہے۔ خوبصورت چہرے کو پھول، جری کو شی، اور عاشق کو پروانہ کہہ کر اگر ایک طرف ان کی کسی صفت کی شدت کو ظاہر کرتا ہے تو دوسری طرف ان کی مشترک خصوصیات یا کسی ایک خصوصیت کی بنیاد پر ایک کو دوسرے کا نام دے دیتا ہے۔ گویا وہ حسن کی وہ تمام نیرنگیاں پیش نظر کردیتا ہے جو اس چیز میں چھپی ہوئی ہیں اور جن کو ادبی نظر سے دیکھنے والا نہیں دیکھ پاتا۔ یہ تشبیہ و تمثیل افہام و تفہیم کی مشکل راہ کو آسان کردیتے ہیں۔ اس کے علاوہ وضعی لفظ جذبے کو ظاہر کرنے کے بجائے، محض بیان کرتا ہے اور کالنگ ووڈ کے بقول:

’’بیان سے جذبات ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں‘‘

اس لئے جذبے کے اظہار بیان کی گرمی اور اسرار کو سمجھنے کے لئے تشبیہ و تمثیل بہتر اسلوب ثابت ہوئے ہیں۔ مشاہدۂ حق کے لئے بادہ و ساغر اور نازو غمزہ کے لئے دشنہ و خنجر کا استعمال مفہوم کوکو آسان تر کر دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ صوفیاء نے مراحل سلوک اور منازل عشق کی تشریح و تفہیم کے لئے مثالوں اور مشابہتوں کا دامن پکڑا اور سبھی مصنفین اور شعراء نے تمثیلوں اور تمثالوں کا سہارا لیا۔

انیس ناگی کہتے ہیں:

’’تجربات، حقائق اور معروضات کے درمیان ربط اور رشتے کی ضرورت شاعر کو استعارے کے استعمال کی ترغیب دیتی ہے۔ امیج محاکاتی استعارہ ہے، شاعر امیج کی تخلیق میں معروض کو تجربے کے سیاق و سباق سے گرفت میں لاتا ہے۔ شاعر کا تجربہ محسوسات اور مشاہدات کا مجموعہ ہوتا ہے اور حقیقت پر مبنی ہونے کے باوجود تخیلاتی اور غیر حقیقی ہوتا ہے۔ شاعر کے مافیہ کی معنویت امیج کی بدولت حقیقی دنیا سے مطابقت پیدا کرتی ہے۔ مجرد تصورات اور احساسات کا خارجی رابطہ تصویروں کی مدد سے قائم ہوتا ہے‘‘ مختلف روابط اور رشتوں کے ارتکاز کے سلسلے میں استعاروںاور علامتوں کا استعمال ہی کلام میں ابہام پیدا کرتا ہے۔ اسی لئے ملارمے کا یہ قول مشہور ہے کہ:’’نظم ایک معمے کی طرح کی چیز ہے، اس کو ہر شخص خود حل کرے‘‘اس نے یہ بھی کہا کہ:’’حقیقتوں کے پیچھے ایک پراسرار عالم اور ہے۔ شاعر کو چاہئے کہ اس عالم کی طلسمی کیفیتوں کو منکشف کرے‘‘۔

بوولپیئر کا خیال ہے کہ:

’’شاعری تفصیل نہیں ایماء ہے، شے نہیں، اس کی صفت ہے،اعتراف نہیں اشارہ ہے، اشیاء کا خارج نہیں، اس کے پیچھے پراسرار اور طلسمات سے لبریز کوائف ہیں، شاعر کو اس خارج کے پیچھے کی جستجو ہونی چاہئے‘‘۔

یہی وہ شے ہے جو کوائف اور محسوسات کو بیان کرنے کے بجائے ملائم و رموز کے پردے میں بیان کرواتی ہے، کبھی کبھی یہ بیان معمہ ہو جاتا ہے۔ باطنی تحریکوں کے سلسلے میں اس طرح کے نصیحت آمیز قصے ملتے ہیں۔ بندہ نواز گیسودراز کے شکار نامہ کے علاوہ مراٹھی کی صنف ’’ابہنگ‘‘ بھی اسی طرح کا چیستاں ہے۔ خود ’’وجودیت ایک باطنی تحریک ہے لیکن اس کا مقصد باطن کے ادراک کے ذریعہ تطہیر نفس نہیں بلکہ باطن کی کشمکشوں سے یہ نکتہ حاصل کرنا ہے کہ زندگی بے سود ہے، انسان تنہا ہے۔ اس کا کوئی اپنا نہیں، فطرت اس کی ہو سکتی تھی مگر وہ بھی اس کی نہیں‘‘۔

ڈائوازم بھی جوہر شے کی تنکیر کی قائل ہے دراصل اسی کشمکش، تنہائی اور مایوسی کی کیفیتوں میں ہر چیز کے انکار کی ایک ادبی تحریک ہے اس طرح کی ساری تحریکیں اور ازم جن میں احساس کی پیچیدگی کے ساتھ ساتھ ان کے اظہار میں بھی دقتیں پیش آتی رہتی ہیں۔ علامتوں اور تمثیلوں کا سہارا لیتے ہیں۔ اگر نہ لیں تو ان کا اظہار مشکل ہو جائے اور فن کار زیادہ حساس، دراک اور اخلاق ہوتا ہے اس کا دم گھٹ جائے۔ ایک مغربی نقاد کا کہنا ہے کہ ’’ادیب کی تمام تر عظیم تخلیقات تمثیلی ہیں اور اسی باعث ان کی قوت، گہرائی اور حسن میں اضافہ ہوا ہے‘‘۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

یادرفتگاں: علامہ نیازفتح پوری کی ذہنی و فکری وسعت

وہ ایک جدید صوفی کے روپ میں نظر آتے ہیںجس نے اسلام کی رُوح تلاش کرنے کی دیانتداری کیساتھ کوشش کی ادب کی مختلف اصناف پر طبع آزمائی کرکے انہوں نے ہر پہلو کو سجایا اوراپنے آ پ کو کسی ایک خاص صنف کا پابند نہیں کیا

تنقید اور کہانی کی منطق

کہانی کا خاتمہ یا انجام قابل قبول بھی اور موثر ہونا چاہئے ،بڑی بات یہ ہے کہ وہ دلوں میں اپنے سنج ہونے کا یقین پیدا کر سکے کہانی کی منطق ہر موقع اور محل پر ضرورت اور اہمیت کے پیش نظر نئی صورتیں اختیار کرتی ہے

پاکستان کا مشن ورلڈ کپ!

آئی سی سی مینز ٹی 20ورلڈکپ شروع ہونے میں صرف 13روز باقی رہ گئے ہیں اور اس دوران پاکستان کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف چار میچز پر مشتمل انٹرنیشنل ٹی 20 سیریز بھی کھیلنی ہے۔ امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں مشن ورلڈکپ سے قبل گرین شرٹس کو 3 انٹرنیشنل سیریز کھیلنے کا موقع ملا، ہوم گرائونڈ پر نیوزی لینڈ کیخلاف پانچ میچوں پر مشتمل ٹی 20 سیریز کھیلی۔

بہادر گلفام اور مون پری

گلفام کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔وہ بہت ہی رحمدل اور بہادر لڑکا تھا اور ہمہ وقت دوسروں کی مدد کرنے کیلئے تیار رہتا تھا۔

چھپائی کی ایجاد

چھپائی کی ایجاد سے پہلے کتابیں ایک بہت ہی بیش قیمت اور کم نظر آنے والی شے تھیں۔تب کتاب کو ہاتھوں سے لکھا جاتا تھا اور ایک کتاب کو مکمل کرنے میں مہینوں لگ جاتے تھے،لیکن آج چھپائی کی مدد سے ہم صرف چند گھنٹوں میں ہزاروں کتابیں چھاپ سکتے ہیں۔

ذرامسکرائیے

پولیس’’ تمہیں کل صبح پانچ بجے پھانسی دی جائے گی‘‘ سردار: ’’ہا… ہا… ہا… ہا…‘‘ پولیس: ’’ ہنس کیوں رہے ہو‘‘؟سردار : ’’ میں تو اٹھتا ہی صبح نو بجے ہوں‘‘۔٭٭٭