پاکستانی مزدور اور فکر اقبالؒ

تحریر : ڈاکٹر مختار احمد


’’ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا‘‘ وہ پاکستان کے مزدوروں کے حقوق کی بجا آوری کا خواب دیکھ رہے تھے

برصغیر میں اقبال ؒسے پہلے کسی فکری شاعر نے مزدور اور مظلوم طبقات کے بارے میں ایک مربوط، متعین اور منظم فکر کے طور پر بہت کم لکھا ہے۔کسی کے ہاں ایک شعر،کسی کے ہاں دو یا زیادہ سے زیادہ دو چار نظمیں نظر آ سکتی ہیں۔ اقبال ؒ وہ واحد عظیم المرتبت فکری شاعر ہیں جنہوں نے مزدور کے پسینے کو اپنے اشعار میں جذب کر کے اسے مشکِ نافہ بنا دیا ہے۔ ان کی دردمندی میں محنت کی مہک اور مزدور کے لہو کی باس موجود ہے۔ معروف ترقی پسند دانشور سجاد ظہیر لکھتے ہیں:’’اقبالؒ ایک پسماندہ، نو آبادیاتی معاشرے میں پیدا ہوئے لیکن انہوں نے عالمی استعمار کے خلاف جس انقلابی وژن سے کام لیا اور جس تخلیقی انداز سے نو آبادیاتی نظام کے خلاف آواز بلند کی، وہ ایشیائی اقوام کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے‘‘۔

اقبالؒ نے مغرب سے مرعوب ہونے کی بجائے اس کے کھوکھلے پن کا سراغ لگایا۔ شاخِ نازک پر آشیانہ بنانے والوں کے سامنے اس کی ناپائیداری کا کھلم کھلا اعلان کیا۔ اگر ہم ارتقائی لحاظ سے اقبالؒ کے ہاں غم مزدور یا مظلوم لوگوں کی حالت زار کانقشہ دیکھنا چاہیں تو 1901ء میں ’’ نالہ یتیم‘‘ سے اس کا آغاز ہوتا ہے۔ اس نظم میں پوشیدہ کرب 1901ء ہی میں ’’علم الاقتصاد‘‘ کی صورت میں ایک ٹھوس نثری احتجاج بن جاتا ہے۔ اس میں اقبالؒ اس درد اور احساسِ زیاں کی عکاسی کرتے ہیں جو اس وقت کے مزدوروں اور کسانوں بلکہ پورے ہندوستان پر مسلط تھا۔

 آگے چلئے تو ایک عہد آفریں رسالے ’’مخزن‘‘ (1904-5ء) میں ان کا ایک بصیرت افروز مضمون ملتا ہے۔ اس میں کشتگان جبر اور اسیران استحصال کی زبوں حالی پر اظہار خیال کیا گیا ہے۔ لکھتے ہیں ’’یہ قوم اب وقت کے تقاضوں سے غافل اور افلاس کی تیز تلوار سے مجروح ہو کر ایک بے معنی توکل کا عصا ٹیکے کھڑی ہے۔ میں صنعت و حرفت کو قوم کی سب سے بڑی دولت خیال کر تا ہوں۔ میری نگاہ میں اس بڑھئی کے کھردرے ہاتھ ان نرم و نازک ہاتھوں کی نسبت بہتر، خوبصورت اور مفید ہیں جنہوں نے قلم کے سوا کسی چیز کا بوجھ محسوس نہیں کیا‘‘۔

بندۂ مزدور کے اوقات کی تلخی کم کرنے کیلئے اقبالؒ نے نہ صرف شعر و ادب کو استعمال کیا بلکہ عملی جدّوجہد بھی کی۔ اس سلسلے میں قائد اعظم ؒکو خطوط بھی لکھے اور مسئلے کے حل کیلئے اُبھارا۔ وہ جس پاکستان کا مطالبہ کر رہے تھے اس میں مزدروں اور محنت کشوں کے حقوق کے زبردست حامی تھے۔ قائد اعظمؒ بھی اپنی کئی تقاریر میںمزدوروں کو محنت کا صلہ دینے پر زور دیتے تھے۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو پاکستان میں کسی کو بھی محنت کشوں کے حقوق غضب کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ ہمیں یاد ہے کہ جب 1926ء میں اقبالؒ پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تو کسانوں پر لگائے جانے والے ناروا لگان کی سخت مخالفت کی اور دیہاتی عورتوں کیلئے طبّی سہولتوں کا مطالبہ کیا۔

علامہ محمد اقبالؒ نے اپنی شاعری کے عہد کے آغاز میں بارگاہ خداوندی میں ایک دعا مانگی تھی جس کا عنوان تھا ’’بچے کی دعا‘‘، اس کا ایک شعر ملاحظہ ہو!

ہو مرا کام غریبوں کی حمایت کرنا

درد مندوں سے، ضعیفوں سے محبت کرنا

اقبالؒ ان لوگوں سے پیار کرتے جو اللہ کے بندوں سے پیار کرتے اور مزدور، کسان اور غرباء ہی تو پیار کے لائق ہیں۔ یورپ سے واپس آنے کے بعد، اسی خیال کو نظم ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں ایک اور انداز سے بیان کیا ہے۔

امراء نشۂ دولت میں ہیں غافل ہم سے

زندہ ہے ملتِ بیضا غرباء کے دم سے 

اسی زمانے میں ایک اور معرکۃ الآرا نظم ’’شمع و شاعر‘‘ میں بھی استعاراتی انداز میں مظلوموں اور مجبوروں کی کم نصیبی کا ذکر ملتا ہے!

آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا

دانہ  ُتو ، کھیتی بھی ُتو، باراں بھی ُتو، حاصل بھی ُتو

یہاں ’’دہقان‘‘ سے مراد زوال پذیر مسلمان بھی ہو سکتا ہے اور عام دہقان مزدور بھی۔ اقبالؒ نے یہی اسلوب نظم ’’بڈھے بلوچ کی نصیحت ‘‘ میں بھی برتا ہے۔

موسم اچھا ، پانی وافر،مٹی بھی زرخیز 

جس نے اپنا کھیت نہ سینچا، وہ کیسا دہقان

یہاں یہ بتا دینا مناسب ہو گا کہ فکر اقبالؒ میں مزدور سے مراد صرف اینٹیں اور گارا ڈھونے والے محنت کش ہی نہیں ہیں بلکہ یہ لفظ وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس میں وہ تمام محنت کش طبقات شامل ہیں جو اجرت کی بنیاد پر کام کرتے ہیں اور آجر اور اجیر کے متعین مفہوم میں شامل ہیں۔

 ایک اور قابلِ غور بات یہ ہے کہ اقبالؒ کا بندہ مزدور، اس کے باقی نظام فکر کا ایک حصہ ہے۔ وہ جہاں بندۂ مزدور ہے وہاں وہ بندۂ مومن کا پرتو بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ نانِ جویں پر گزارا کرتا ہے۔ 1910ء میں اقبال ؒنے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اصحابِ فکر و نظر اور طلباء کے سامنے ایک خطبہ پیش کیا۔ عنوان تھا ’’ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر‘‘۔ اس میں وہ وطن کی غربت اور افلاس پر لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

’’سب سے اہم عقیدہ اس مسلمان کے سامنے جو قومی کام کرنے کیلئے اپنے آپ کو وقف کرتا ہے، یہ ہے کہ وہ کیونکر اپنی قوم کی اقتصادی حالت کو سدھارے۔ اس کا فرض ہے کہ ہندوستان کی تمام اقتصادی حالت پر نظرِ غائر ڈال کر ان اسباب کا پتا لگائے جنہوں نے ملک کی یہ حالت کر دی ہے‘‘۔ کلامِ اقبالؒ میں بندۂ مزدور کے حوالے سے ایک واضح جھلک نظم ’’خضر راہ‘‘ میں بھی ملتی ہے۔ اس نظم میں اقبالؒ کی فکری تمازت شعلہ آفریں ہو جاتی ہے اور یہ موضوع جامعیت اور آفاقیت حاصل کر لیتا ہے۔

 ’’پیام مشرق‘‘ ہی کی ایک اوراہم نظم ’’نوائے مزدور‘‘ ہے جسے خلیفہ عبدالخکیم نے محنت کشوں کا پیغامِ انتقام کہا ہے۔ فکرِ اقبالؒ میں بندۂ مزدور کا مقام اس قدر بلند ہے کہ اقبال ؒکا کلام مزدور تحریک کا منشور کہا جا سکتا ہے۔

 ڈاکٹر مختار احمد شعبہ تعلیم سے وابستہ ہیں،

 ان کے معلوماتی مٗضامین ادبی جریدوں 

کی زینت بنتے رہتے ہیں

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement

یادرفتگاں: علامہ نیازفتح پوری کی ذہنی و فکری وسعت

وہ ایک جدید صوفی کے روپ میں نظر آتے ہیںجس نے اسلام کی رُوح تلاش کرنے کی دیانتداری کیساتھ کوشش کی ادب کی مختلف اصناف پر طبع آزمائی کرکے انہوں نے ہر پہلو کو سجایا اوراپنے آ پ کو کسی ایک خاص صنف کا پابند نہیں کیا

تنقید اور کہانی کی منطق

کہانی کا خاتمہ یا انجام قابل قبول بھی اور موثر ہونا چاہئے ،بڑی بات یہ ہے کہ وہ دلوں میں اپنے سنج ہونے کا یقین پیدا کر سکے کہانی کی منطق ہر موقع اور محل پر ضرورت اور اہمیت کے پیش نظر نئی صورتیں اختیار کرتی ہے

پاکستان کا مشن ورلڈ کپ!

آئی سی سی مینز ٹی 20ورلڈکپ شروع ہونے میں صرف 13روز باقی رہ گئے ہیں اور اس دوران پاکستان کرکٹ ٹیم نے انگلینڈ کے خلاف چار میچز پر مشتمل انٹرنیشنل ٹی 20 سیریز بھی کھیلنی ہے۔ امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں مشن ورلڈکپ سے قبل گرین شرٹس کو 3 انٹرنیشنل سیریز کھیلنے کا موقع ملا، ہوم گرائونڈ پر نیوزی لینڈ کیخلاف پانچ میچوں پر مشتمل ٹی 20 سیریز کھیلی۔

بہادر گلفام اور مون پری

گلفام کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا۔وہ بہت ہی رحمدل اور بہادر لڑکا تھا اور ہمہ وقت دوسروں کی مدد کرنے کیلئے تیار رہتا تھا۔

چھپائی کی ایجاد

چھپائی کی ایجاد سے پہلے کتابیں ایک بہت ہی بیش قیمت اور کم نظر آنے والی شے تھیں۔تب کتاب کو ہاتھوں سے لکھا جاتا تھا اور ایک کتاب کو مکمل کرنے میں مہینوں لگ جاتے تھے،لیکن آج چھپائی کی مدد سے ہم صرف چند گھنٹوں میں ہزاروں کتابیں چھاپ سکتے ہیں۔

ذرامسکرائیے

پولیس’’ تمہیں کل صبح پانچ بجے پھانسی دی جائے گی‘‘ سردار: ’’ہا… ہا… ہا… ہا…‘‘ پولیس: ’’ ہنس کیوں رہے ہو‘‘؟سردار : ’’ میں تو اٹھتا ہی صبح نو بجے ہوں‘‘۔٭٭٭