پہاڑ کیسے بنے؟

تحریر : طوبی سعید


زمین کے وہ حصے جو سمندر کی سطح سے تین ہزار فٹ سے زیادہ اونچے ہیں، پہاڑ کہلاتے ہیں۔ بعض پہاڑ ہماری زمین کے ساتھ ہی وجود میں آئے، یعنی کروڑوں سال پہلے جب زمین بنی تو اس پر بعض مقامات پر ٹیلے سے بن گئے جو رفتہ رفتہ بلند ہوتے گئے۔ بعض پہاڑ زمین بننے کے بہت عرصے بعد بنے۔ یہ ان چٹانوں سے بنے ہیں جو زمین کے اندر تھیں۔ جب یہ چٹانیں زمین کی حرارت سے پگھلیں تو ان کا لاوا زمین کا پوست( چھلکا) پھاڑ کر اوپر آ گیا اور پھرٹ ھنڈا ہو کر پہاڑ بن گیا۔

پہاڑوں کو دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے یہ ہمیشہ سے ایسے ہی ہیں۔ نہ گھٹتے ہیں، نہ بڑھتے ہیں لیکن حقیقت یہ نہیں ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پہاڑوں میں تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں اور یہ گھٹتے بڑھتے رہتے ہیں لیکن ان تبدیلیوں کا عرصہ اتنا لمبا ہوتا ہے کہ ہم ان کا اندازہ نہیں کر سکتے۔

دنیا کے بعض پہاڑوں کی بلندی کم ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی چوٹیوں پر برف گرتی اور پھر پگھلتی ہے، جس سے چٹانیں گھستی اور ٹوٹتی پھوٹتی رہتی ہیں۔ جب پگھلی ہوئی برف کا پانی بہہ کر نیچے ندی نالوں میں جاتا ہے تو اپنے ساتھ چٹانوں کے ٹوٹے ہوئے پتھروں اور ذروں کو بھی بہا کر لے جاتا ہے۔ اس سے پہاڑ کی بلندی کم ہو جاتی ہے۔

بعض پہاڑ اونچے ہو رہے ہیں۔ ایسے پہاڑ زیادہ تر آتش فشاں (جوالا مکھی) ہیں۔ جب ان کے نیچے کا لاوا ابل کر باہر نکلتا ہے تو میں سے ان کی بلندی زیادہ ہو جاتی ہے۔

پاکستان میں کوئی آتش فشاں پہاڑ نہیں ہے۔ لندن( برطانیہ) اور نیویارک( امریکا) کے قریب بھی کوئی آتش فشاں پہاڑ نہیں ہے اور نہ آئندہ کبھی ہونے کی امید ہے لیکن دنیا کے بعض علاقے ایسے ہیں جہاں قریب قریب کئی آتش فشاں پہاڑ ہیں۔ وسطی امریکہ کا وہ علاقہ جو بحرالکاہل کے نزدیک ہے، وہاں سب سے زیاہ آتش فشاں پہاڑ ہیں۔ ایسے بحرالکاہل کے چاروں طرف بھی بہت سے آتش فشاں پہاڑ ہیں۔ ان میں سے کچھ مردہ یعنی ٹھنڈے ہو چکے ہیں اور کچھ اب بھی زندہ ہیں اور پھٹتے رہتے ہیں۔

بحرالکاہل کے آس پاس آتش فشاں پہاڑ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اس سمندر کے چاروں طرف زمین کا پوست کم زور ہے اور اب تک پختہ نہیں ہوا ہے۔(دوسرے علاقوں کی زمین کا پوست پختہ ہو چکا ہے) آتش فشاں اس جگہ بنتے ہیں جہاں زمین کا پوست کم زور ہوتا ہے اور زمین کے اندر کی پگھلی ہوئی چٹانیں یعنی لاوا اسے توڑ کر باہر آ جاتا ہے جہاں زمین کا پوست پختہ اور مضبوط ہوتا ہے، وہاں آتش فشاں نہیں بنتے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭