عہد کی پابندی دینداری کی علامت

تحریر : مولانا محمد یوسف خان


’’جس میں امانت نہیں اس کا ایمان (کامل) نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس کا دین (کامل) نہیں‘‘( البیہقی فی شعب الایمان) ’’ جب کسی نے اپنے بھائی سے آنے کا وعدہ کیا اور اس کی نیت یہی تھی کہ وعدہ پورا کرے گا، کسی وجہ سے وہ مقررہ وقت پر نہیں آیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں‘‘ (جامع ترمذی)

 حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ بہت کم ایسا ہوا کہ رسول اللہﷺ نے ہمیں خطبہ دیا اور یہ ارشاد نہ فرمایا ہو کہ ’’جس میں امانت نہیں اس کا ایمان (کامل) نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس کا دین (کامل) نہیں‘‘(رواہ البیہقی فی شعب الایمان)۔ اللہ تعالیٰ نے جس دین کامل کو رسول اللہ ﷺ کے ذریعہ انسانوں تک پہنچایا ہے اس میں ایمان کے بعد جن باتوں پر بہت زیادہ تاکید بیان کی گئی ہے وہ اچھے اخلاق اختیار کرنا ہے اور برے اخلاق سے حفاظت کرنا ہے۔

انسان کی زندگی میں اخلاق کی بڑی اہمیت ہے اگر انسان کے اخلاق اچھے ہوں تو اس کی اپنی زندگی بھی قلبی سکون اور خوشگواری سے گزرے گی اور دوسروں کیلئے بھی اس کا وجود رحمت اور چین کا باعث ہو گا اور اگر انسان کے اخلاق برے ہوں تو وہ خود بھی زندگی کے لطف و مسرت سے محروم رہے گا اور جن لوگوں سے اس کا واسطہ اور تعلق ہو گا ان کی زندگیاں بھی بدمزہ اور تلخ ہوں گی۔ یہ تو خوش اخلاقی اور بداخلاقی کے دنیا کی زندگی میں ظاہر ہونے والے نتائج ہیں جن کا ہر انسان اپنی روز مرہ زندگی میں مشاہدہ کر رہا ہے لیکن مرنے کے بعد آنے والی ابدی زندگی میں اچھے اور برے اخلاق کے اور زیادہ اہم نتائج نکلنے والے ہیں۔ خوش اخلاقی کا نتیجہ ارحم الراحمین کی رضا اور جنت ہے اور بداخلاقی کا انجام خداوند قہار کا غضب اور جہنم کی آگ ہے۔ ان ہی اخلاقی خوبیوں میں سے ایک خوبی عہد کی پابندی ہے۔ جس کے بارے میں سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 34 میں فرمایا: ’’اور تم عہد کو پورا کیا کرو بے شک عہد کے بارے میں قیامت کے دن پوچھا جائے گا‘‘۔

اس بارے میں تین الفاظ بولے جاتے ہیں وعدہ، عہد اور معاہدہ۔وعدہ اور عہد دونوں عربی زبان کے الفاظ ہیں، دونوں کا معنی تقریباً ایک جیسا ہے یعنی قول و قرار کسی بات کو پختہ کر کے لے کر لینا لیکن اردو زبان میں ان دونوں لفظوں کے استعمال میں بھی فرق بھی کر لیا جاتا ہے اگر کسی بات کو عام انداز میں ذکر کر دیا جائے تو وعدہ کرنا کہتے ہیں اور بہت ہی پختہ کر دیا جائے تو عہد کہتے ہیں۔ اور جب دو انسانوں یا دو قوموں کے درمیان کوئی بات طے ہو جائے تو اسے معاہدہ کہتے ہیں۔ کبھی یہ فرق بھی کیا جاتا ہے کہ اگر ایک شخص یک طرفہ قول و قرار کر لے تو اسے وعدہ کہتے ہیں اور دوطرف سے قول وقرار ہو تو اسے عہد کہتے ہیں عہد دو طرح کے ہیں ایک وہ عہد جو بندے اور اللہ کے درمیان ہو۔ جیسے  ازل میں بندہ کا یہ عہد کہ بیشک اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے، اس عہد کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسان پر اللہ کی اطاعت لازم ہو جاتی ہے۔ یہ عہد تو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر انسان نے ازل میں کیا ہے اور پھر دنیا میں وجود میں آنے کے بعد مومن کا عہد جو اس نے کلمہ شہادت کے اقرار کے ذریعہ کیا ہے، اس معاہدہ پر عمل کرنا بہر صورت واجب ہے۔ دوسری قسم عہد کی وہ ہے جو ایک انسان دوسرے انسان سے کرتا ہے اس میں تمام تجارتی معاہدات، سیاسی معاہدے اور دوسرے تمام معاہدوں کی صورتیں شامل ہیں۔ اس قسم کے تمام عہد اگر ان میں اسلامی تعلیمات یعنی احکام شرعیہ کے خلاف کوئی بات نہ ہو تو ان کا پورا کرنا بھی واجب ہوتا ہے۔ اگر اس عہد میں کوئی خلاف شرع بات ہو یا غیر شرعی کام کا عہد کیا ہو تو دوسرے فریق کو اطلاع کر کے اس معاہدہ کو ختم کر دینا واجب ہے۔ اگر کوئی سے دو فریق کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا معاہدہ کرلیں پھر ایک فریق معاہدہ پر عمل نہ کرے تو عدالت میں دعویٰ دائر کر کے معاہدہ پر عمل کرایا جا سکتا ہے۔

اگر کوئی شخص کسی سے یک طرفہ وعدہ کر لیتا ہے کہ میں آپ کو فلاں چیز دوں گا یا فلاں وقت آپ سے ملوں گا یا آپ کا فلاں کام کر دوں گا۔ اس کا پورا کرنا بھی انسان کے ذمہ واجب ہوتا ہے بسا اوقات وعدہ کو بھی عہد کے مفہوم میں داخل سمجھا جاتا ہے لیکن پھر بھی وہ فرق موجود رہے گا کہ اگر یک طرفہ وعدہ یا عہد ہو تو اسے عدالت کے ذریعہ جبراً پورا نہیں کروایا جا سکتا جب کہ دو طرفہ معاہدہ میں عدالت سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔

یکطرفہ عہد یا وعدہ کی پابندی بھی شرعاًلازمی ہے۔ اگر کوئی شخص بلا عذر شرعی عہد کی پابندی نہ کرے وہ شرعی طور پر گنہگار ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں جواب دہ ہو گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ اور تم عہد کو پورا کرو بے شک عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا‘‘۔ سورۃ المومن کے آغاز میں مومنین کی فلاح و کامیابی کے جو اصول بیان فرمائے ان میں ایک اصول آیت نمبر 8 میں فرمایا: ’’اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا خیال رکھتے ہیں‘‘۔ 

طبرانی میں حضرت علیؓاور حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا العدۃ دین یعنی وعدہ بھی ایک طرح کا قرض بنتا ہے۔ لہٰذا اگرکسی کو کچھ دینے کا یا کسی کا کام کرنے کا عہد کیا جائے تو پھر اسے پورا کرنا اپنے اوپر فرض کی طرح سمجھنا چاہیے۔

عہد کرتے ہوئے اس بات کی نیت ضرور کرنی چاہیے کہ میں عہد کی پابندی کروں گا اگر یکطرفہ عہد کرتے وقت نیت پابندی کرنے کی ہو لیکن پھر کسی وجہ سے عہد اور وعدہ پورا نہ کر سکے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ گنہگار نہیں ہو گا۔

حضرت زید بن ارقمؓ سے ابو داؤد اور ترمذی میں روایت منقول ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:  ’’ جب کسی شخص نے اپنے بھائی سے آنے کا وعدہ اور عہد کیا اور اس کی نیت یہی تھی کہ وہ وعدہ پورا کرے گا لیکن کسی وجہ سے وہ مقررہ وقت پر نہیں آیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں‘‘۔البتہ جس شخص سے عہد کیا ہو اس سے معذرت کر لی جائے تا کہ اس شخص کا اعتماد بحال رہے) لیکن عہد کرتے ہوئے بڑی یقین دہانی کرادی جائے اور اگر عین اس وقت دل میں نیت یہ ہو کہ اسے پورا نہیں کرنا، تو یہ بہت بڑی خیانت ہے۔ حضرت سفیان بن اسید حضرمیؓ سے ارشاد نبوی منقول ہے، ترجمہ: ’’فرمایا کہ یہ بہت ہی بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے کوئی بات کرو، وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو حالانکہ تم جھوٹ بول رہے ہو‘‘۔ 

رسول اکرمﷺ نے تو بچوں کے ساتھ کیے گئے عہد کی پابندی کرنے کی بھی تعلیم دی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عامرؓ اپنے بچپن کا واقعہ بتاتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ ہمارے گھر میں تشریف فرما تھے کہ میری والدہ نے مجھے کہا ’’ ادھر آؤ میں تمہیں کچھ دوں گی‘‘۔ رسول اللہﷺ نے پوچھا تم نے اسے کیا چیز دینے کا ارادہ کیا ہے میری ماں نے کہا ایک کھجور دینے کا ارادہ کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:   ترجمہ: ’’ اگر تم اس کو کچھ نہ دیتی تو تمہارے نامہ اعمال میں ایک جھوٹ لکھا جاتا‘‘۔ معلوم ہوا کہ بچوں سے بھی بد عہدی کی اجازت نہیں جبکہ عموماً معاشرہ میں اس بات کو معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ عہد کی پابندی ایمانی تقاضا ہے اس لیے کہ وعدہ خلافی کو رسول اللہ ﷺ نے منافق کی نشانیوں میں شمار فرمایا ہے۔ جب معاشرے میں عہد کی پابندی کا خیال رکھا جاتا ہوتو پھر معاشرے میں افراد کا ایک دوسرے پر اعتماد قائم رہتا ہے۔ اور جب عہد شکنی عام ہو جائے تو پھر معاشرے میں باہمی اعتماد ختم ہو کر رہ جاتا ہے جبکہ زندگی کے اکثر معاملات کا انحصار اعتماد پر قائم ہے۔ اس لیے کسی سے عہد کرنے سے پہلے سوچ لیا جائے کہ میں پورا کر سکوں گا یا نہیں۔ اور پورا کرنے کی نیت بھی ہے یا نہیں اور پھر عہد کرنے کے ساتھ انشاء اللہ بھی کہہ دیا جائے۔

 اس کے بعد اگر عہد پورا کرنے میں رکاوٹ نظر آ رہی ہو تو کوشش کر کے مقررہ وقت سے پہلے معذوری اور عذر ظاہر کر دیا جائے تا کہ عین وقت پر دوسرے کو پریشان نہ ہونا پڑے اور اگر دوسرا شخص چاہے تو اس کام کیلئے متبادل انتظام بھی کرلے لیکن حیلے بہانے یا جھوٹ اور فریب سے کام لے کر عہد شکنی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اصل بات ظاہر کر کے عذر پیش کر دیا جائے۔ اگر کبھی عہد شکنی ہو جائے تو دوسرے انسان سے معافی مانگ لی جائے اور کسی نہ کسی طرح اس کو پہنچنے والی تکلیف کا ازالہ کر کے اس کے دل کو خوش کر دیا جائے تا کہ یہیں دنیا میں معاملہ اور حساب صاف ہو جائے اور آخرت میں عہد کا حساب نہ دینا پڑے۔ اللہ رب العزت ہمیں عہد کرنے سے پہلے سوچنے اور عہد کرتے وقت خلوص نیت اور بعد میں عہد کی پابندی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

قائد اعظم محمد علی جناحؒ اصول پسندی ان کا خاصہ تھی

حضرت قائد اعظم محمدعلی جناح ؒنے ایک زمانے میں خود کوپوری طرح قومی معاملات کیلئے وقف کر رکھا تھا۔ ساتھ ہی مسلمانوں کے مفادات بھی ہمیشہ ان کے پیش نظر رہتے تھے۔ تیسری دہائی کے خاتمے اور اور چوتھی دہائی کے آغاز کے ساتھ ہی یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں رہا تھا کہ لالہ لاجپت رائے (1865ء تا 1928ء ) مدموہن مالویہ (1861ء تا 1946ء ) جیسے سرکردہ ہندو مبلغ اور علمبردار نیشنلسٹ سیاست کی کیا کیا تاویلات اور تشریحات پیش کرتے تھے۔

عزم و استقلال کے پیکر محمد علی جناحؒ

برصغیر پاک و ہند کے ہلال آسمان پر جو نام لعلِ یمن و بدخشاں کی طرح منور ہے اسے قائد اعظم محمد علی جناح ؒکہتے ہیں۔ کائناتِ ماہ و انجم، ان کا نام سنتے ہی تبسم ریز ہو جاتے ہیں۔ ان کے عزم و استقلال اور جہد مسلسل کے سامنے سیارگان فلک کروٹیں بدلتے ہیں۔ قدرت نے محمد علی جناحؒ کو سوغاتِ فراست سے مالا ما ل فرمایا۔ ان کے شیریں لب دلوں کو مسخر کرتے رہے۔ عقل و خرد کی رفعتوں کے سامنے مخالف قوتیں سرنگوں ہو جاتی تھیں۔

اختر شیرانی آسمان شعروادب کا تابندہ ستارہ

اختر شیرانی کی شاعری کے بنیادی اوصاف میں نغمگی، رچائو،لطافت اور اختراع پسندی شامل ہیں، فطرت نگاری بھی بڑے شاندار انداز میں کی، بہترین نثر نگار بھی تھے

ماسااوکا شیکی جاپان کا عظیم شاعر

جاپانی ادب کے نقاد شیکی کا حوالہ ’’بابائے جدید ہائیکو‘‘کے طور پر دیتے ہیں

چیمپئنز ون ڈے کپ

پاکستان کرکٹ بورڈ نے چیمپئنز ون ڈے کپ کی پانچ ٹیموں کے کپتانوں کے ساتھ ساتھ 12 سے 29 ستمبر تک فیصل آباد میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹ کیلئے عارضی اسکواڈز کا اعلان بھی کر دیا ہے۔کپتانوں کا تقرر پانچ ٹیموں کے مینٹور نے کیا۔

یوم تحفظ ختم نبوتﷺ

عقیدہ ختم نبوت مسلمانوں کا قطعی اجماعی عقیدہ ہے، اس پر بیسیوں آیاتِ قرآنیہ اور سیکڑوں احادیث صحیحہ مقبولہ شاہدودالّ ہیں۔ قرآن مجید میں وارد لفظِ خاتم النبیین میں کسی قسم کی تاویل اور تخصیص کی گنجائش نہیں ہے۔ تاویل و تخصیص کرنے والا قرآن مجیدکی تکذیب کرتا ہے۔