مذاکرات کا تیسرا دور نتیجہ خیز ہوگا؟:وزیر اعلیٰ پنجاب کا نئی نسل سے مکالمہ!

حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور آج پارلیمنٹ ہائوس میں ہونے جا رہا ہے۔ فریقین کی جانب سے اختلافات اور تحفظات کے باوجود مذاکرات جاری رہنا اور مسائل کے سیاسی حل کیلئے کوششیں خوش آئند ہیں۔
مذکورہ مذاکرات کی اہمیت کی ایک بڑی وجہ یہ تاثر بھی ہے کہ ان کے پیچھے بھی کوئی مذاکراتی عمل جاری ہے۔ بانی پی ٹی آئی اور ان کی اہلیہ کے خلاف 190ملین پاؤنڈ کیس میں اسلام آباد کی نیب عدالت کا فیصلہ مؤخر ہونے کو بھی اسی تناظر میں دیکھاجارہا ہے۔ یہ فیصلہ پیر کے روز سنایا جانا تھا اب یہ کل جمعہ کے روز سنایا جائے گا۔اس طرح آنے والے دو روز پی ٹی آئی اور اس کے بانی کے حوالے سے اہم ہیں۔ مذاکراتی عمل کے حوالے سے ایک عام رائے یہ ہے کہ پس پردہ بھی کوششیں اور کاوشیں جاری ہیں اور مقصد یہ ہے کہ ملک میں سیاسی تنائو اور ٹکرائوختم ہو اورمعاشی حوالے سے اور دہشت گردی کے سدباب کیلئے کوششوں میں بہتری دکھائی دے۔ حکومت کی جانب سے معاشی اصلاحات اور اقدامات کے باوجود ملک میں سیاسی ٹھہرائو نظر نہیں آ تا ۔اس کا کسی کو فائدہ یا نقصان ہے اس حوالے سے دو آراء ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کا اصل نقصان ملک کو ہے یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف معاشی میثاق پر اتفاق پر زور دیتے نظر آتے ہیں۔حکومت اور پی ٹی آئی کا آج کا اجلاس اس حوالے سے اہم ہے کہ اس میں پی ٹی آئی اپنے مطالبات پیش کرے گی۔ پی ٹی آئی کی جانب سے اعلان کردہ نکات میں بانی پی ٹی آئی سمیت جماعت کے ذمہ داران اور کارکنوں کی رہائی کے علاوہ 9مئی اور 26مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ بھی شامل ہے، تاہم بانی پی ٹی آئی کی جانب سے اپنی رہائی کو مذاکرات کا حصہ نہ بنانے کے اعلان کے بعد دیکھنا ہوگا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے کیا مطالبات سامنے آتے ہیں۔ اب تک ان کا زور نو مئی اور 26 مئی کے واقعات پر جوڈیشنل کمیشن کے قیام پر ہے لیکن اس حوالے سے حکومت خود کو بااختیار نہیں سمجھتی۔ مذاکراتی کمیٹی کے رکن رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ہم اس حوالے سے فیصلہ اسٹیبلشمنٹ کو اعتماد میں لیکر کریں گے۔ البتہ مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی 31جنوری کی دھمکی اپنی جگہ لیکن ہمیں مذاکراتی عمل کو آگے لے جانا ہے۔31جنوری کی ڈیڈ لائن پی ٹی آئی کیلئے ضروری ہو گی، ہمارے نزدیک ان مذاکرات کو بامقصد اور نتیجہ خیز بنانا ہے۔ عرفان صدیقی کہتے کہ یہ مذاکراتی عمل 31جنوری تک محدود نہیں رہے گا، یہ چلے گا اور ہماری کمیٹی قائم رہے گی،لہٰذا مذکورہ صورتحال کے پیش نظر ایک بات تو واضح ہے کہ فریقین اپنے تحفظات کے باوجود مذاکرات جاری رکھنا چاہتے ہیں اور اس حوالے سے دونوں سنجیدہ ہیں اور ان کی سنجیدگی کی ایک بڑی وجہ مذاکراتی عمل کے پیچھے چلنے والے معاملات بھی ہیں ۔دوسرا یہ کہ حکومت کو بہرحال پی ٹی آئی کیلئے ریلیف کا بندوبست کرنا ہوگا۔ مذاکرات کی نتیجہ خیزی کا انحصار دو طرفہ طرز عمل پر ہوگا البتہ 9مئی اور 26نومبر کے واقعات پر کمیشن پر پیش رفت ممکن نظر نہیں آتی ۔اس پر حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر فیصلہ کی پوزیشن میں نہیں، لہٰذا بڑا سوال تو یہی ہے کہ اگر مذکورہ مذاکراتی عمل کے نتیجہ میں پی ٹی آئی کو کوئی ریلیف نہیں ملتا تو پھر وہ مذاکراتی عمل کا حصہ رہے گی؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر معمولی بات تو موجودہ حالات میں پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات پر اصرار ہے اور وہ شدید ترین تحفظات کے باوجود مذاکرات کی بات کرتے نظر آ رہے ہیں،اس کا مطلب ہے کہ ان مذاکرات کے پیچھے ان کے پاس کوئی نہ کوئی یقین دہانی ہے ۔ اسی بنا پر وزیر دفاع خواجہ آصف ان مذاکرات کو دھوکہ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے اس ماحول میں مذاکرات کے ممکن ہونے پر سوال اٹھایا اور کہا کہ پی ٹی آئی جنہیں بااختیار سمجھتی ہے تو پھر ان سے مذاکرات کر لے۔
حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمت میں کمی کیلئے بھی اقدامات جاری ہیں ۔لگتا ہے کہ حکومت کو احساس ہوچکا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ سے نہ صرف صنعتی عمل متاثر ہوا بلکہ یہ عوام کیلئے بھی اجیرن تھا اور خود وزیراعظم شہبازشریف بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کے اثرات پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان میں کمی کا عزم ظاہر کرتے نظر آ رہے تھے۔ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں 15آئی پی پیز سے نئے معاہدوں کی منظوری کے باعث 1.4کھرب کی بچت کی خوشخبری سنائی گئی اور کہا گیا کہ اس سے فی یونٹ 10 سے12 روپے کی کمی ہو گی۔ مذکورہ اجلاس میں پاک چین آئی پی پیز معاہدہ ختم کرنے کی منظوری بھی دی گئی اور اس سے اہم بات یہ کہ سرکاری آئی پی پیز کو کیپسٹی پیمنٹ پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا گیا کہ ان کا کیا کام ہے کہ وہ یہ پیمنٹ لیں کہ وہ سرکار کی ملکیت میں ہیں۔ان اقدامات سے بجلی کی قیمت میں یقینا کمی آئے گی ۔ حکومت کو بجلی کے بلوں میں ایک ہزار کے فکس ٹیکس کا نوٹس بھی لینا چاہئے۔ اب تو بجلی کے ساتھ گیس کے بلوں نے بھی اضافی بوجھ لاد دیا ہے۔ بجلی اور گیس کے بل جب تک عوام کی دسترس میں نہیں آتے ان کی زندگیوں میں اطمینان نہیں آ سکے گا۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف صوبہ بھر کی یونیورسٹیز میں جا کر نئی نسل سے مکالمہ کرتی نظر آ رہی ہیں۔ اس کا مقصد نوجوان نسل کے جذبات کوسمجھنا اور ان کے مسائل کا ازالہ ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں مستحق طلبا و طالبات کو سکالر شپ دیئے جا رہے ہیں۔ یہ ایک اچھا رجحان ہے مگر اصل اور بنیادی بات یہ ہے کہ اس امر کا تجربہ کیا جائے کہ نوجوانوں میں غصہ اور ردعمل کیونکر پیدا ہوا، کس نے پیدا کیا اور اس کے مقاصد کیا تھے؟ نئی نسل کسی بھی قوم اور ملک کا اثاثہ ہوتی ہے اور ترقی یافتہ اقوام بام ترقی پر اسی سے پہنچی ہیں کہ انہوں نے اپنے معاشروں میں تعلیم کے فروغ اور تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے اور نوجوان نسل کیلئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا بندوبست کیا ۔ نوجوان نسل قومی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ آج کی بڑی ضرورت نوجوان نسل کو تکنیکی ایجوکیشن خصوصاً آئی ٹی سے منسلک کرنے کی ہے ۔ حکومت نوجوانوں میں امید اور آس پیدا کرنے میں کامیاب رہی تو یقیناً اس کے نتائج ملک کے سیاسی معاشی مستقل کیلئے اہم ہوں گے اور تعلیم کے شعبہ میں مربوط حکمت عملی پاکستان کے معاشی مستقل کی ضامن بنے گی۔