”اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی“
اسپیشل فیچر
٭ خواجہ میر درد کے ہاں ایک خاص محفل ہوا کرتی تھی۔ اس میں خواجہ صاحب اپنے والد کی تصنیف ”نالہ عندلیب“ اور اپنے کلام کا کچھ حصہ بیان کیا کرتے تھے۔ ایک بار سودا سے ملاقات ہوئی، خواجہ صاحب نے آنے کی دعوت دی، سودا چہک کر بولے: صاحب! مجھے یہ نہیں بھاتا کہ سو کوّے کائیں کائیں کریں اور بیچ بازار ایک پدّا بیٹھ کر چوں چوں کرے۔ ٭ پنڈت رتن ناتھ سرشار کا ”فسانہ آزاد“ اودھ کے اخبار میں قسط وار چھپتا تھا اور اس کی وجہ سے ان کے خریدار بھی بہت تھے۔ منشی نول کشور اس کے مالک تھے۔ اتفاق سے سرشار صاحب نے لکھ دیا کہ فوجی نے قرولی مار کر خودکشی کر لی۔ منشی جی نے پڑھا تو گھبرائے، سرشار صاحب کو بلایا اور کچھ دے کر کچھ پلا کر خوش کر لیا۔ دوسرے روز سرشار صاحب نے لکھ دیا:”یہ بھی فوجی کی ایک ادا تھی، جب انہیں کفنایا جا رہا تھا تو وہ قہقہہ مار کر اٹھ بیٹھے۔“٭ حضرت داغ شعر کہہ رہے تھے۔ ان کی روانی اور برجستگی دیکھ کر مظفر خان بارق نے کہا ”خدا جانے آپ کس طرح شعر کہتے ہیں، ذرا سی دیر نہیں ہوتی اور آپ شعر کہہ دیتے ہیں۔“داغ نے پوچھا: ”بھئی تم شعر کس طرح کہتے ہو؟“بارق نے جواب دیا: ہم تو کسی خاص وقت پلنگ پر لیٹ کر حقہ سامنے رکھ کر فکر سخن کیا کرتے ہیں۔ کبھی اس طرف کروٹ لی، کبھی اس طرف، کبھی لیٹے، کبھی بیٹھے، تب کہیں کوئی شعر نکلتا ہے۔“ یہ سن کر استاد داغ نے کہا: ”تم شعر نہیں کہتے بلکہ جنتے ہو۔“٭ ایک دن دربار لگا تھا، استاد ذوق موجود تھے۔ ایک شہزادہ آیا اور بادشاہ کے کان میں آہستہ سے کچھ کہہ کے چلا گیا۔ حکیم احسن اللہ نے عرض کیا ”یہ آنا کیا تھا اور جانا کیا تھا“ بادشاہ کے منہ سے نکلا ”اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے“ اور پھر استاد کی طرف دیکھنے لگے، استاد ذوق نے فوراً شعر مکمل کر دیا۔ لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے اپنی خوشی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے٭ جرآت اندھے شاعر تھے۔ ایک دن بیٹھے ہوئے فکر سخن کر رہے تھے کہ انشا چلے آئے، انہیں محو پایا تو پوچھا: ”حضرت! کس سوچ میں ہیں؟“جرآت نے کہا: ”کچھ نہیں بس ایک مصرعہ ہوا ہے، شعر مکمل کرنے کی سوچ رہا ہوں۔“ انشا نے عرض کیا: ”کچھ ہمیں بھی پتہ چلے۔“جرآت نے کہا: ”نہیں! تم گرہ لگا کر اسے مجھ سے چھین لو گے۔“ آخر بڑے اصرار کے بعد بتایا، مصرعہ یہ تھا: ”اس زلف پہ پھبتی شب دیجور کی سوجھی۔“انشائ نے فوراً گرہ لگائی: ”اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی“جرآت لاٹھی اٹھا کر انشائ کی طرف لپکے، دیر تک انشائ آگے آگے اور جرآت پیچھے پیچھے ٹٹولتے ہوئے بھاگتے رہے۔ (”اہل قلم کی شوخیاں“ سے انتخاب۔ عطش درانی کی مرتب کردہ یہ کتاب مکتبہ میری لائبریری، لاہور سے چھپی)