ریاست کے ملازم اور چارپائی میں زیادہ فرق نہیں
اسپیشل فیچر
چارپائی کی مثال ریاست کے ملازم سے دے سکتے ہیں۔ یہ ہر کام کے لیے ناموزوں ہوتا ہے اس لیے ہر کام پر لگا دیا جاتا ہے۔ ایک ریاست میںکوئی صاحب ’’ولایت پاس‘‘ ہوکر آئے۔ ریاست میں کوئی آسامی نہ تھی جو ان کو دی جاسکتی۔ آدمی سوجھ بوجھ کے تھے راجہ صاحب کے کانوں تک یہ بات پہنچا دی کہ کوئی جگہ نہ ملی تو وہ لاٹ صاحب سے طے کر آئے ہیں۔ راجہ صاحب ہی کی جگہ پر اکتفا کریں گے۔ ریاست میں ہلچل مچ گئی۔ اتفاق سے ریاست کے سول سرجن رخصت پر گئے ہوئے تھے۔ یہ ان کی جگہ پر تعینات کردیے گئے۔ کچھ دنوں بعد سول سرجن صاحب واپس آئے تو انجینئر صاحب پر فالج گرا۔ ان کی جگہ ان کو دے دی گئی۔ آخری بار یہ خبر سنی گئی کہ وہ ریاست کے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس ہوگئے تھے اور اپنے ولی عہد کو ریاست کے ولی عہد کا مصاحب بنوا دینے کی فکر میں تھے۔یہی حالت چار پائی کی ہے فرق صرف یہ ہے کہ ان ملازم صاحب سے کہیں زیادہ کار آمد ہوتی ہے! فرض کیجیے آپ بیمار ہیں سفر آخرت کا سامان میسر ہو یا نہ ہو اگر چار پائی آپ کے پاس ہے تو دنیا میں آپ کو کسی اور چیز کی حاجت نہیں۔ دوا کی پڑیا تکیے کے نیچے۔ جوشاندہ کی دیگچی سرہانے رکھی ہوئی۔ بڑی بیوی طبیب چھوٹی بیوی خدمت گزار۔ چارپائی سے ملا ہوا بول وبراز کا برتن۔ چارپائی کے نیچے میلے کپڑے، مچھر، بھنگے گھر یا محلے کے دو ایک بچے جن میں ایک آدھ زکام خسرے میں مبتلا! اچھے ہوگئے تو بیوی نے چارپائی کھڑی کرکے غسل کرادیا اور نہ آپ کے دشمن اسی چار پائی پر لب گور لائے گئے۔ہندوستانی گھرانوں میں چار پائی ڈرائنگ روم، سونے کا کمرہ، غسل خانہ، قلعہ، خانقاہ، خیمہ، دواخانہ، صندوق، کتاب گھر، شفاخانہ۔ سب کی حیثیت کبھی کبھی بہ یک وقت ورنہ وقت وقت پر حاصل رہتی ہے۔ کوئی مہمان آیا۔ چار پائی نکالی گئی۔ اس پر ایک نئی دری بچھادی گئی جس کے تہہ کے نشان ایسے معلوم ہوں گے جیسے کسی چھوٹی سی اراضی کو مینڈوں اور نالیوں سے بہت سے مالکوں میں بانٹ دیا گیا ہے اور مہمان صاحب مع اچکن، ٹوپی، بیگ بغچی کے بیٹھ گئے۔ اور تھوڑی دیر کے لیے یہ معلوم کرنا دشوار ہوگیا کہ مہمان بیوقوف ہے یا میزبان بد نصیب! چار پائی ہی پر ان کا منہ ہاتھ دھلوایا اور کھانا کھلایا جائے گا اور اسی چار پائی پر یہ سور ہیں گے۔ سو جانے کے بعد ان پر سے مچھر مکھی اس طرح اڑائی جائے گی جیسے کوئی پھیری والا اپنے خوانچہ سے جھاڑو نما مور چھل سے مکھیاں اُڑارہا ہوا۔(رشید احمد صدیقی کی کتاب مضامین رشید سے انتخاب)