ڈاکٹر محمد حمید اللہ سے ملاقات

ڈاکٹر محمد حمید اللہ سے ملاقات

اسپیشل فیچر

تحریر : ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی


ہم ہوٹل اکادیمیہ کے کمرا نمبر 5میں بالکل تیار اور منتظر بیٹھے تھے۔ 5بج کر چالیس منٹ پر مغرب کے کچھ ہی دیر بعد، ڈاکٹر حمید اللہ صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے انہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ محبت، اور احترام واشتیاق کی نظریں ان پر مرکوز تھیں۔ ایک دبلا پتلا اور دھان پان آدمی، اوورکوٹ، مفلر، جناح کیپ سے مماثل سیاہ ٹوپی، ڈاڑھی کے بال زیادہ تر سیاہ …ایک مایہ ناز شخصیت اور قابل فخر انسان، جس کی ساری زندگی خدمت اسلام اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لئے وقف رہی اور جو بایں پیرانہ سالی آج بھی جوانوں کی طرح، بلکہ ان سے کہیں بڑھ کر سرگرم عمل ہے۔ علیک سلیک ہوئی۔ چند خیر مقدمی جملوں کے بعد ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ زحمت کرکے یہاں پہنچے ۔ ڈاکٹر صاحب ثقل سماعت کے سبب اونچا سنتے ہیں مگر گفتگو آہستہ آہستہ اور دھیمے لہجے میں کرتے ہیں۔ خیر خیریت اور احوال پر سی کے بعد، ہمارے استفسارات پر ڈاکٹر صاحب نے بتایا:’’چالیس سال سے یہاں ہوں …میری شہریت فرانس کی نہیں، حیدرآباد کی بھی نہیں، بے وطن ہوں۔ میرے پاس کسی ملک کا پاسپورٹ نہیں۔ بس ٹریولنگ پیپرز ہیں، جو فرانسیسی حکومت نے دیئے ہیں، ان پر سفر کرتا ہوں۔‘، سوال:’۔فرانس کی شہریت کے لئے آپ نے کبھی مطالبہ نہیں کیا ؟‘‘جواب:’’نہیں، معلوم نہیں کیوں ؟ لیکن بہرحال کبھی نہیں کیا۔‘‘ فرانس میں اسلام اور نومسلموں کا ذکر چل نکلا۔ کہنے لگے:’’جی ہاں، بلامبالغہ میرے ہاتھ پر سیکڑوں لوگوں نے اسلام قبول کیا ہوگا۔ ان میں ہرطبقے کے لوگ ہیں۔ طلبہ، پروفیسر، عالم فاضل لوگ، کچھ سفیر بھی ، نانبائی بھی اور اگر آپ یقین کریں تو پیرس میں بعض پادری اور نن بھی مسلمان ہوئے ہیں۔ الحمدللہ ان میں ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہمارے مسلمان ہونے کا اعلان نہ کیا جائے اور اگر ضرورت ہوتو بلا اجازت ہمارا نام نہ دیں۔ ‘‘ مرزاصاحب:’’کیا ان کے بچے بھی مسلمان ہوجاتے ہیں؟‘‘جواب: ’’جی ہاں، ان کا فورنیم بھی ہوتا ہے، جو اسلامی ہوتا ہے یعنی عبداللہ، عبدالرحیم وغیرہ، لیکن ایسا کم ہوتا ہے۔ ویسے میں کہتا ہوں کہ بچے ماں باپ کے نگران نقال مقلد ہوتے ہیں۔ اگر ماں باپ اسلام پر عمل کرتے ہیں تو بچے ازخود تقلید کرتے ہیں۔ ان کے بہکنے کا امکان کم ہوتا ہے، لیکن اگر ماں باپ خود عمل نہ کرتے ہوں اور چاہیں کہ بچے اولیاء اللہ بن جائیں تو …‘‘’’کیا آپ کبھی علامہ اقبال سے بھی ملے؟‘‘ڈاکٹر حمید اللہ: ’’پہلی بار لاہور آیا تھا تو اقبال زندہ تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ حالت یہ تھی کہ وہ لیٹے رہتے تھے۔ نئے ملاقاتی آتے۔ سلام کرتے، کچھ دیر بعد چلے جاتے۔ اجازت کا کوئی سوال نہ تھا۔ دربار عام تھا۔ اسی طرح میں بھی ایک دوست کے ساتھ ان کے ہاں گیا۔‘‘ پروفیسر محمد منور: ’’ڈاکٹر صاحب یہ کون سے سنہ کی بات ہے؟37ء کی بات ہوگی ؟‘‘ڈاکٹر حمیداللہ:’’بہت پرانی بات ہے۔ 1932ء کی بات ہوگی۔ اس وقت صحیح طورپر یاد نہیں ہے۔‘‘ پروفیسر محمد منور:’’ان سے کوئی بات ہوئی؟‘‘ڈاکٹر حمیداللہ:’’بس مختصر سی، میں نے کہا :مجھے قانون سے دلچسپی ہے، فیکلٹی آف لاکا طالب علم ہوں تو کہنے لگے: یہ بڑی اہم چیز ہے، اس میں تلاش اور کوشش جاری رکھو۔ اس وقت ان کے پاس کچھ اور دوست اور رفیق بھی موجود تھے۔ منشی طاہر دین بھی تھے۔‘‘ اسی زمانے میں ڈاکٹر حمید اللہ نے جگن ناتھ آزاد کی نعتوں کا فرانسیسی ترجمہ کیا تھا۔ گفتگو میں اس کا ذکر بھی آیا۔ راقم نے پوچھا:’’ڈاکٹر صاحب، یہ ترجمہ آپ نے خود کیا یا فرمائش پر؟‘‘ڈاکٹر حمیداللہ:’’فرمائش نہیں، بلکہ مجھے خود خواہش تھی۔ میں نے ترجمہ کیا۔ اجازت لی۔‘‘ پروفیسر محمد منور :’’جگن ناتھ آزاد بھی قرطبہ میں آئے ہوئے تھے، وہیں انہوں نے بتایا کہ میری نعت کا ترجمہ ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے فرانسیسی میں کیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر حمید اللہ:’’جی ہاں، رسول اللہؐ کے بارے میں ان کی نظم مجھے پسند آئی۔‘‘(پوشیدہ تری خاک میں… از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ذہنی صحت، عالمی تشویش کا مسئلہ

ذہنی صحت، عالمی تشویش کا مسئلہ

عالمی ادارہ صحت (WHO) اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (UNICEF) کے مطابق دنیا بھر میں 10 تا 19 سال کے ہر سات میں سے ایک بچہ ذہنی مسائل کا شکار ہے ۔ان مسائلمیں اعصابی خلل اور ذہنی دباؤ نمایاں ہیں۔ان بچوں میں ایک تہائی ذہنی مسائل 14 سال کی عمر سے پہلے اور نصف مسائل 18 سال کی عمر سے قبل ظاہر ہوتے ہیں۔اقوام متحدہ کے ان اداروں کی مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں اور نوعمر افراد کو فراہم کی جانے والی ذہنی صحت کی خدمات میں بہتری کے لیے تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ حکومتوں کو اس معاملے میں ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔رپورٹ کے مطابق بچوں اور نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں سے پوری طرح کام لینے کے قابل بنانے کے لیے ان اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں بچوں کو ذہنی صحت کے علاج معالجے کی سہولیات تک خاطر خواہ رسائی حاصل نہیں۔ ذہنی صحت سے متعلق تشویشناک علامات کا سامنا کرنے والے بیشتر بچوں کو طبی سہولیات کی عدم دستیابی، مہنگے علاج اور ایسے امراض سے جڑی بدنامی کے باعث طبی مدد نہیں مل پاتی۔ عالمی ادارہ صحت میں ذہنی و دماغی صحت اور منشیات کے استعمال کی روک تھام کے شعبے کی ڈائریکٹر Dévora Kestel کا کہنا ہے کہ تمام بچوں کو ان کی عمر کے اعتبار سے مستند علاج کی فراہمی یقینی بنانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔رپورٹ میں دنیا بھر کے ایسے لاکھوں بچوں کی جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے جو ذہنی مسائل کا شکار ہونے کے باعث اپنے خاندانوں کی موجودگی کے باوجود الگ تھلگ کر دیے جاتے ہیں۔ ایسا کرنا ان کے انسانی حقوق کی پامالی ہے اور طبی و سماجی حوالے سے اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ذہنی مسائل میں مبتلا بچوں اور نوعمر افراد کو ان کے خاندانوں اور معاشروں میں ہی رکھ کر ان کی پرورش کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ان کی تعلیم، سماجی تعلقات اور مجموعی ترقی و بہبود کو بھی جاری رہنا چاہیے۔عالمی ادارہ صحت نے2022ء میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ دنیا میں تقریباً ایک ارب افراد ذہنی امراض کی کسی نہ کسی قسم میں مبتلا ہیں۔اور اس ایک ارب میں ہر ساتواں فرد نو عمر ہے۔ ذہنی صحت کے مریضوں کی علاج کی سہولت تک رسائی میں یہ بات بہت اہم ہے کہ اس مریض کا تعلق کسی امیر ملک سے ہے یا غریب ملک سے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق زیادہ آمدنی والے ممالک میں نفسیاتی بیماری کے شکار ہر 10 میں سے 7 افراد علاج کروا لیتے ہیں لیکن کم آمدنی والے ممالک میں یہ شرح 100 میں12 افراد کی ہے۔ڈپریشن کے کیسز میں صورتحال زیادہ ڈرامائی ہے کیونکہ زیادہ آمدنی والے ممالک ڈپریشن کے23 فیصد کیسز میں مناسب علاج فراہم کرتے ہیں لیکن کم اور کم درمیانی آمدنی والے ممالک میں یہ صرف تین فیصد ہے۔ذہنی عوارضYears lived with disability (YLDs) کی ایک بنیادی وجہ ہے۔یہ پیمانہ کسی بیماری یا معذوری کی وجہ سے مکمل صحت کے بغیر گزارے ہوئے زندگی کے عرصے کی پیمائش کرتا ہے۔شیزوفرینیاجو کہ 200 میں سے تقریباً ایک بالغ شخص میں ہوتا ہے،ذہنی صحت کاایک بنیادی مسئلہ ہے۔شیزوفرینیا یا دیگر ذہنی عارضوں میں مبتلا افراد دیگر قابل علاج بیماریوں میں مبتلا افراد کی نسبت اوسطاً 10 سے 20 سال پہلے مر جاتے ہیں۔ذہنی صحت کے مسائل اور پاکستانذہنی صحت کے مسائل پاکستان میں صحت کے پیچیدہ مسائل دنیا کی اوسط سے زیادہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً پانچ کروڑ افراد مختلف اقسام کے ذہنی مسائل کا شکار ہے۔یہاں بھی ان میں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اڑھائی کروڑ افراد کو نفسیاتی امداد کی ضرورت ہے، تاہم ذہنی صحت کے امراض کی سکریننگ اور علاج کے لیے مختص وسائل بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ WHO کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ افراد کے لیے صرف 0.19 ماہر نفسیات دستیاب ہیں، یہ تعداد ڈبلیو ایچ او کے مشرقی بحیرہ روم کے علاقے اور پوری دنیا میں سب سے کم تعداد میں سے ایک ہے۔پھیلاؤعالمی ادارہ صحت کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں تقریباً پانچ کروڑ افراد ذہنی عارضوں کا شکار ہیں۔ علاجپاکستان میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد میں سے صرف 10 فیصد ہی علاج کرواتے ہیں۔ ماہر نفسیاتپاکستان میں دنیا میں سب سے کم تعداد میں ماہر نفسیات ہیں، یہاں ایک لاکھ افراد پر صرف 0.19 ماہر نفسیات ہیں۔ جنسخواتین میں دماغی صحت کا مسئلہ زیادہ ہے۔ عام ذہنی امراض شہری علاقوں میں 25 فیصد ، دیہی علاقوں میں 72 فیصد تک ہیں۔ 

سندھ ساگر کے ساتھ

سندھ ساگر کے ساتھ

اباسین دریا کو ہم نے ہر روپ میں کئی رنگ بدلتے دیکھا ، دسمبر میں سکڑ چکے دریا کی ہیبت میں کمی آئی اور نہ ہی برف باری کے موسم اسے منجمد کر سکے ۔ سال ہا سال سے دریائے سندھ ہمیں ملتا رہا اور ہر بار نئے رنگ اور تازہ روپ میں ہمارا استقبال کرتا رہا ۔ ہم نے میدانی علاقوں میں اسے دیکھا تو حیرت سے گنگ رہ گئے ، پل غازی گھاٹ سے اس دریا کے کچھ رنگ پوشیدہ رہے مگر طغیانی کی شدت میں کمی نہ آئی۔ یہ دریا سکردو کی تنگ چٹانی دیواروں سے گزرا تو کسی تنگ ذہن جاگیردار کی مانند بپھرا ہوا ملا ، یہی دریا جب کچورا موڑ اور سکردو کی گمبا بستی کے پہلو میں پھیلے ریتلے پاٹ میں دیکھا گیا تو وسعت کے باعث نرم اور دوست مزاج ہو چکا تھا ، بالکل کسی تعلیم یافتہ معتدل یار کی طرح ، جو درگزر اور مہربانی کا عادی ہو چکا ہوتا ہے ۔ دریاسندھ کی یہی محبت اور بدلتے روپ ہمیں مرول تک لے گئے ۔ مرول ٹاپ ہماری دسترس سے دور رہا ، وہی مرول جہاں سے پہلی بوند اس دریا کا ماخذ بنی اور پھر روایات جنم لینے لگیں ۔ کہانیوں کو کردار سونپے جانے لگے ۔ ثقافت پھوٹ پڑی اور جہاں سے یہ دریا گزرتا گیا ، داستان چھوڑتا گیا یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے سویڈن کے مہم جوسیون ہیڈن نے لکھا تھا کہ میں یہاں سنگی خباب پر کھڑا دریائے سندھ کو زمین کی آغوش سے جنم لیتے دیکھ رہا ہوں ۔ وہ سیون ہیڈن ہی تھا جس نے 1907 ء میں دریائے سندھ کا منبع دریافت کرتے ہوئے انگریز مہم جوولیم مور کرافٹ کے نظریے کو غلط ثابت کیا تھا کہ سندھ دریا جھیل مانسرور سے نکلتا ہے۔ دریا سندھ 3180کلومیٹر کا سفر کر کے بحیر عرب میں جا ملتا ہے ۔ اپنے آغاز سے تربیلا تک 1100 کلو میٹر کا سفر کرتا ہوا دریا سندھ کالا باغ سے اپنے ڈیلٹا تک آٹھ سو میل کلو میٹرکا سفر کرتا ہے ۔ کبھی دریائے سندھ کا ڈیلٹا 3500 کلومیٹر تھا مگر اب سکڑ کر 240 کلومیٹر رہ گیا ہے ۔ ہر سال دریائے نیل کی نسبت دریائے سندھ میں دوگنا پانی آتا ہے اور یہ پانی تبت سے شروع ہو کر نانگا پربت سے آنے والے رائے کوٹ گلیشئر تک سینکڑوں ندی نالوں ، دریاوں اور آبشاروں کی شمولیت سے بڑھتا جاتا ہے ۔ دریاسندھ تبت سے شمال کی جانب بہہ کر بھارت میں داخل ہوتا ہے اور پھر بھارت سے جنوبی سمت بہتا ہوا پاکستان میں ۔ اپنے مقام آغاز کی بلندی 16000فٹ سے دریائے سندھ اترتا اترتا بحیرہ عرب کی سطح سے صرف دو سو فٹ بلند رہ جاتا ہے اور پھر آخر کار چھوٹی چھوٹی ندیوں کی مانند سمندر میں شامل ہوتا ہے۔سنگے خباب سے شروع ہوتا سفر دریائے سندھ کو تبت سے دم چک اور پھر یہیں سے کشمیر تک لے جاتا ہے ۔ تاشی گانگ کے مقام پر اس دریا کا پہلا معاون دریازنکساراس میں گرتا ہے ۔ وانخو گاں کے عقب سے گزر کر سندھ دریامرول ٹاپسے پاکستان میں داخل ہوتا ہے ۔ یہی وہ منزل ہے جہاں دریائے لداخ دریا سندھ کا حصہ بنتا ہے ۔ دریائے شیوک وہ پہلا بڑا دریا ہے جو چھومندو کے علاقے میں سندھ کا حصہ بنتا ہے۔ ریت کے میدانسفرنگاکے درمیان سے ہوتا ہوا یہ اباسین سکردو پہنچتا ہے۔ سکردو سے پہلے کے ٹو اور اسکولیسے آنے والا دریائے برالدو اور شگر باہم مل کر سندھ کی طغیانی بڑھاتے ہیں ۔ شاہراہ سکردو کے ساتھ ساتھ جب یہ دریا جگلوٹ پہنچتا ہے تو دریائے گلگت اپنا وجود دریا سندھ کے سپرد کر دیتا ہے، دریائے گلگت میں تب تک دریائے ہنزہ ، دریائے نگر ، شمشال نالہ ، دریائے غذر اور نلتر کے پانی شامل ہو چکے ہوتے ہیں ۔ یہاں سے ذرا آگے بونجی کے مقام پر دیوسائی ، راما ، منی مرگ اور برزل سے آنے والے ندی نالے دریائے استور بن کر سندھ کا حصہ بنتے ہیں ۔ رائے کوٹ کے مقام پر نانگا پربت کے برف پانی سندھ میں شامل ہوتے ہیں۔ چلاس سے گزر کر جب یہ دریا تربیلا کو تیس میل دور سے سلام پیش کرتا ہے تو اٹک سے کچھ پہلے دریائے کابل اپنے معاون دریاوں چترال اور سوات سمیت سندھ میں دھمال ڈالتے ہوئے اپنا آپ کھو دیتے ہیں ۔ یہ دریا پنجاب میں داخل ہوتا ہے تو دریائے ہیرو بھی اپنا پانی لئے دریائے سندھ کا منتظر ہوتا ہے۔ کالا چٹا پہاڑی سلسلے سے گزر کر خوشحال گڑھ کے قریب سائیں کوہاٹی اور ٹبری ندیوں کی سلامی وصول کرتا ہے ۔ پیر پھائی کے قریب دریائے سواں بھی سندھو سائیں کا منتظر ہوتا ہے۔ پنجند کے مقام پر پانچ دریا باہم ملتے ہیں جہاں دریائے چناب مٹھن کوٹ پہنچ کر سندھ میں غرق دریا ہو جاتا ہے۔ سکھر تک اپنا وجود اور وقار برقرار رکھتا ہوا دریائے سندھ ٹھٹھہ اور بدین کے قریب ندیاں بن کر بحیرہ عرب کے سپرد ہو جاتا ہے ۔سندھ دریا اس لئے بھی فطرت شناس لوگوں کیلئے دلچسپی کا مرکز ہے کہ اس میں جھیلوں ، وادیوں ، میدانوں ، آبشاروں، برف جزیروں اور دنیا کے دوسرے بڑے برفانی بلندیوں کا لمس شامل ہے ۔ اس دریا کے بنائے ہوئے قدرتی راستوں کے سبب پہاڑوں پر جو شہر آباد ہیں وہ اسی دریا کے بہاو کی وجہ سے ہیں ۔ اسی دریا کے سبب ہم وہاں تک پہنچ جاتے ہیں جہاں جانا فطرت سے پنجہ آزمائی کے مترادف ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کی سیاحت اور زراعت دریائے سندھ کے مرہون منت ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

فلپس پیٹرولیم دھماکہ23اکتوبر1989کو ہیوسٹن شپ چینل کے قریب ، پاساڈینا، ٹیکساس میں فلپس پیٹرولیم کمپنی کے ہیوسٹن کیمیکل کمپلکس میں دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ابتدائی دھماکوں کی شدت ریکٹر سکیل پر3.5درج کی گئی اور اس کے نتیجے میں آگ پر قابو پانے میں10گھنٹے لگے۔دھماکے کی وجہ سے فائر ہائیڈرینٹس کے پائپ خراب ہو گئے جس کی وجہ سے ابتدائی طور پر آگ پر قابو نہیں پایا جا سکا۔پہلا دھماکاآتش گیر گیسوں کے اخراج کے نتیجے میں ہوا، یہ ایک قسم کا پلاسٹک تھا جو کھانے کے کنٹینر بنانے میں استعمال کیا جاتا تھا۔اس واقع میں23ملازمین ہلاک اور314شدید زخمی ہوئے۔آپریشن لائن بیکرآپریشن لائن بیکر ریاستہائے متحدہ امریکہ کی سیونتھ ائیر فورس اور نیوی ٹاسک فورس77 ائیر انڈکشن مہم کا کوڈ نام تھا جو ویتنام کی جنگ کے دوران 23 اکتوبر 1972ء تک شمالی ویتنام کے خلاف جاری رہی۔اس آپریشن کا مقصد ویتنام کو مدد فراہم کرنے والے سامان کی نقل و حمل کو روکنا یا سست کرنا تھا۔اس سامان کا استعمال پیپلز آرمی آف ویتنام کی افواج کی جانب سے حملہ کرنے کے لئے کیا جاتا تھا۔آپریشن لائن بیکر23اکتوبر کو اختتام پزیر ہو گیا لیکن اس کے بعد بھی شمالی ویتنام پر بمباری جاری رکھی گئی۔سار ریفرینڈمسار(Saar) قانون پر ریفرینڈم 23 اکتوبر1955ء کو سار پروٹیکٹوریٹ میں منعقد ہوا۔اس قانون نے اس علاقے کو ایک یورپی کمشنر کی سرپرستی میں ایک آزاد ریاست بنادیا۔اس کا تقرر مغربی یورپی یونین کے وزرا ء کی کونسل کی جانب سے کیا گیا۔اسی قانون کے تحت فرانس کے ساتھ اقتصادی اتحاد بھی قائم کیا گیا لیکن رائے دہندگان نے اس کو مسترد کر دیا جس سے اس بات کا اشارہ بھی ملا کہ وہ مغربی جرمنی کے ساتھ دوبارہ متحد ہو سکتے ہیں۔ 27 اکتوبر 1956 کو فرانس اور مغربی جرمنی نے سار کا معاہدہ طے کیا جس کے تحت سارلینڈ کو مغربی جرمنی میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی اور سارلینڈ یکم جنوری 1957ء کو جرمنی کی ریاست بن گیا۔امریکن ائیر لائن حادثہامریکن ائیر لائن کی پرواز نمبر28ایک طے شدہ ڈومیسٹک پرواز تھی جو23اکتوبر1942ء کو امریکی فوج کی فضائیہ کے B-34بمبار کے ساتھ ٹکرانے کے بعدپام اسپرنگس، کیلیفورنیا، ریاستہائے متحدہ امریکہ کے قریب چینووادی میں گر کر تباہ ہو گئی۔B-34کو معمولی نقصان پہنچا اور اسے بحفاظت آرمی کے ہوائی اڈے پر اتار لیا گیا۔امریکی ائیر لائن میں سوار تمام مسافر اور عملہ اس حادثے میں ہلاک ہو گیا۔فوجی جہاز کے پائلٹ پر بعد میں قتل عام کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا لیکن کورٹ مارشل ٹرائل بورڈ نے اسے قصور وار نہیں پایا۔ 

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور بچے

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور بچے

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی بچوں کے لیے بہت سے مواقع لے کر آئی ہے تاہم اس کی تیزرفتار ترقی، تبدیلی اور غیرمعمولی پہنچ سے بچوں کے لیے بہت سے خطرات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔بچوں کی سمگلنگ، جنسی استحصال اور بدسلوکی کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے،ان کی تصاویر اور ویڈیو کے غلط استعمال، جنسی بدسلوکی پر مبنی مواد کی تیاری، بلیک میلنگ اور بچوں کے خلاف بدسلوکی کا ارتکاب عام ہو گیا ہے۔بچوں کی سمگلنگ، جنسی استحصال اور بدسلوکی کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر ماما فاطمہ سنگھاتا کے مطابق ڈیپ فیک، تصاویر کو جعلسازی سے برہنہ دکھانے اور ان میں عمر کو گھٹا اور بڑھا کر ظاہر کرنے کی ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، مواد کو سرور کے بغیر براہ راست ایک دوسرے تک منتقل کرنے اور ویڈیو میں آواز کو تبدیل کرنے جیسے طریقوں سے بھی بچوں کا استحصال کیا جا رہا ہے۔اس مسئلے سے نمٹنے کے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے ساتھ یہ صورتحال مزید بگڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس کے نتیجے میں بچوں کے حقوق کی پامالی کے واقعات بڑھ جائیں گی اور غیرمحفوظ اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے بچے اس سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ بین الاقوامی ڈیجیٹل معاہدہ آن لائن دنیا میں سبھی لوگوں اور خاص طور پر بچوں کو تحفظ دینے کے لیے حکومتوں، ٹیکنالوجی کمپنیوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اقدامات کے حوالے سے عالمگیر عزم کو تقویت دیتا ہے۔ یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے چائلد لائٹ گلوبل چائلڈ سیفٹی انسٹیٹیوٹ کے محققین کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران دنیا بھر میں بغیر مرضی کے لی گئی اور جنسی نوعیت کی 30 کروڑ سے زائد تصاویر کے آن لائن شیئر کئے جانے کے واقعات ہوئے۔چائلڈ لائٹ انسٹیٹیوٹ کے چیف ایگزیکٹو Paul Stanfield کے مطابق بچوں کا استحصالی مواد اتنا زیادہ ہے کہ نگران تنظیموں اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسی کوئی نہ کوئی فائل ہر سیکنڈ میں مل رہی ہے۔یہ مسئلہ ایک عالمی وبا کی شکل اختیارکر چکا ہے جو ایک طویل عرصے سے چھپا ہوا تھا۔ یہ ہر ملک میں ہے اور مسلسل پھیل رہا ہے اور اس کے لیے خلاف ایک عالمی ردعمل درکار ہے۔ بچوں کو آن لائن استحصال سے محفوظ رکھنے کیلئے کیا کریں؟والدین کے لیے پہلا مشورہ یہ ہے کہ چوکنا رہیں اور شروع میں ہی مسئلے پر توجہ دیں۔اس کے لیے گھر کی سطح پر ڈیجیٹل تحفظ کے متعلق گفتگو کو ترجیحی بنیادوں پر شروع کرنا ضروری ہے۔ اپنے بچوں کا بھروسا حاصل کریں اور انہیں آن لائن خطرات سے آگاہ کریں۔ اگر بچے بڑے ہو رہے ہیں تو بھی گفتگو کے اس عمل کو نہ روکیں۔ بچوں کو سننے پر توجہ دیں مگر اس معاملے پر گفتگو کو جاری رکھیں کیونکہ یہ اعتماد کی بنیاد بنتی ہے۔اور سب سے اہم یہ کہ شرم اور جھجھک کو دور کردیں۔ بچہ اکثر اسی وقت خود کو بہت مشکل حالات میں پاتا ہے جب وہ بالکل اکیلا محسوس کرتا ہے۔والدین کو علم ہونا چاہیے کہ آن لائن مجرموں کا ایک طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ بچے کو الگ تھلگ کرتے ہیں تاکہ وہ خاموش رہے۔وہ اسے بلیک میل کریں گے، والدین اور سماجی خوف دلائیں گے۔ آپ کو ایسی صورتحال میں اپنے بچوں کا ساتھ دینا ہو گا۔یاد رکھیں کہ شرم اور بے عزتی وہ سب سے اہم وجہ ہے جن کے سبب آن لائن جنسی استحصال کے شکار بچے مدد نہیں لے پاتے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ ایسی صورتحال میں بچے نہیں بلکہ اصل مجرم تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے بچوں کی مرضی کے بغیر ان کی تصاویر انٹرنیٹ پر ڈالیں اور پھر دھمکیاں دیں۔ ہمیں اپنے بچوں کی حفاظت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 

پودینہ کم خرچ،یالا نشین!

پودینہ کم خرچ،یالا نشین!

پودینہ ایسا صحت افزا پودا ہے جو صرف بیرونی خوبصورتی میں ہی اضافہ نہیں کرتا بلکہ جسم کے اندرونی نظام کیلئے بھی انتہائی فائدے مند ہے۔ویسے تو پودینے کے بہت فوائد ہیں لیکن ہم آج آپ کو اس پودے کے ایسے فوائد بتا رہے ہیں جو آپ کیلئے حیران کن ہوں گے۔پودینہ کی چائے پودینے کی چائے دوائی کے لحاظ سے بہت مفید ہے۔ اس کا استعمال بد ہضمی، کھانسی، زکام میں کیا جاتا ہے۔یہ تھکاوٹ ختم کرتی ہے۔ گیس کی شکایت میں مفید ہے ۔ بہت لذیذ اور خوشبو دار ہوتی ہے۔ نظام ہضم کی اصلاح کرتی ہے۔ متلی کی صورت میں تھوڑا سا لیموں کا رس ملا لیں۔ پودینہ کی چائے سانس کی نالی کی سوجن، برونکائٹس ، درد سر اور کھانسی زکام میں مفید ہے۔ سانس میں ناگوار بو کی شکایت ختم ہو جاتی ہے۔ جی متلاناجن لوگوں کو جی متلانے یا قے آنے کی شکایت ہو جائے وہ پودینہ دس پتے اور چھوٹی الائچی دو عدد کے ساتھ پانی میں جوش دے کر چھان کر پی لیں ، شکایت جاتی رہے گی ۔ روغنی اور دیر ہضم ثقیل اشیا کے استعمال کے بعد ٹھنڈی بوتلوں کی جگہ پودینہ اور لیموں کی چائے مفید ہے۔ بد ہضمیاگر آپ مرچ مصالحے سے بھر پور یا روغنی غذا کھانے کے بعد اس کے ساتھ پودینے کے چند پتے کھا لیں تو کھانا باآسانی ہضم ہوجاتا ہے اور سینے پر جلن یا بھاری پن کی شکایت نہیں ہوتی۔طبی ماہرین کے مطابق پودینہ جراثیم کش، بدہضمی اور آنتوں کے ورم سے نجات دلاتا ہے۔ بد ہضمی کی صورت میں پودینہ کا رس پانی میں ملا کر پینے سے فائدہ ہوتا ہے۔ تناؤ میں کمی لانے کا سببپودینے کے پتوں میں طاقتور اڈاپٹوجینک پایا جاتا ہے کو تناؤ کے ردعمل کو کنٹرول کرتا ہے، اس کے علاوہ یہ سردرد میں بھی نہایت مفید ہے۔ کچھ تحقیقی رپورٹس میں دریافت ہوا کہ مینتھول سے آدھے سر کے درد کی شدت میں کمی لائی جاسکتی ہے۔یورک ایسڈ میں کمی کا سببجسم میں یورک ایسڈ کی مقدار اس وقت بڑھ جاتی ہے جب ہم اپنی خوراک میں بہت زیادہ پیورین سے بھرپور چیزیں شامل کرنے لگتے ہیں، جس کی وجہ سے گردے جسم سے اضافی یورک ایسڈ نکالنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔جسم میں یورک ایسڈ بڑھنے سے ہاتھ پاؤں میں درد ہونے لگتا ہے اور بعض اوقات سوجن بھی ہوجاتی ہے، ایسے میں پودینے کے پتوں کا پانی نہایت اکسیر ثابت ہوتا ہے۔پودینہ کا شربتپودینہ کی بڑی گڈی دھو لیں۔ اس کے بعد ایک کپ شکر اور پانچ عدد لیموں کا رس نچوڑ لیں اور اس آمیزے کو دو گھنٹہ تک اسی طرح رکھا رہنے دیں۔ پھر جگ میں بھر لیں اور برف ڈال کر اس میں ادرک کا سرکہ 20گرام اور پودینہ کی چند پتیاں ڈال کر پیس لیں یہ نہایت خوش ذائقہ شربت ہو گا جو دل و دماغ کے لئے مفید ہے۔ جلد کو تازہ رکھتا ہےاگر پودینے اور لیموں کا پانی ملا کر روز پیا جائے تو جلد ترو تازہ رہتی ہے اور اس میں چمک بھی آجاتی ہے کیونکہ اس پودے میں بیرونی خوبصورتی کے کئی فوائد موجود ہیں۔ 

22اکتوبر ہکلاہٹ سے آگاہی کا عالمی دن

22اکتوبر ہکلاہٹ سے آگاہی کا عالمی دن

پا کستان سمیت دنیا بھر میں زبان میں آج ہکلاہٹ یا لکنت (Stuttering) لکنت سے آگاہی کا عالمی دن منایا جائے گا۔ اس دن کے منانے کا مقصد عوام کو زبان کی لکنت یا ہکلاہٹ کے شکار افراد کی پریشانی کا احساس دلانا ہے۔دنیا بھر میں اس وقت تقریباً سات کروڑ افراد لکنت یا ہکلاہٹ کا شکار ہیں۔ یہ مرض پیدائشی بھی ہو سکتا ہے اور بعض نفسیاتی مسائل کے باعث مخصوص حالات میں بھی سامنے آسکتا ہے۔ بعض افراد کسی پریشان کن صورتحال میں ہکلانے لگتے ہیں تاہم یہ صورتحال جزوی ہو سکتی ہے۔ لکنت یا ہکلاہٹ کے عالمی دن کے موقع پر مختلف نجی و طبی اداروں کے زیر اہتمام مختلف تقریبات کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے معاشرتی سطح پر شعور اجاگر کیا جاتا ہے کہ یہ مرض نہیں ہے لیکن فرض کریں یہ مرض ہے تو بھی اس مریض کودوسروں کی جانب سے مذاق اڑائے جانے کی وجہ سے کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔لکنت کا شکار اکثر افراد خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہوجاتے ہیں جو اُن کیلئے زندگی میں کئی مسائل کا باعث بنتا ہے۔ زبان میں لکنت یا ہکلاہٹ ایک ایسا مرض ہے جس کی عموماً کوئی خاص وجہ نہیں ہوتی۔ ہکلاہٹ اتنا عام مرض نہیں لیکن اس کے شکار افراد گفتگو کے دوران کسی ایک حرف کی آواز کو بار بار دُہراتے ہیں، ایک حرف پر اڑ جاتے ہیں۔ وہ حرف ادا نہیں ہو پاتا تو زور لگاتے ہیں۔ لکنت کا مریض کسی لفظ میں موجود ایک حرف ادا نہیں کر پاتے اور بڑی مشکل سے اپنا جملہ مکمل کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس مرض کی تین اقسام ہیں: ڈویلپمنٹل، نیوروجینک اور سائیکو جینک۔ پہلی قسم ہکلاہٹ کی سب سے عام قسم ہے جو زیادہ تر بچوں میں اس وقت ہوتی ہے جب وہ بولنا سیکھتے ہیں۔ اس کا علاج اس وقت بچوں کی مدد کر کے کیا جا سکتا ہے بجائے اس کے کہ بچے کا مذاق اڑایا جائے۔ دوسری قسم نیورو جینک ہے جس کا تعلق بولنے میں مدد دینے والے خلیات کی خرابی سے ہے۔ اس کا علاج ماہر یا ڈاکٹر کی زیر نگرانی ہونا چاہیے۔سائیکو جینک مختلف دماغی یا نفسیاتی امراض اور پیچیدگیوں کی وجہ سے جنم لیتی ہے یعنی یہ مرض پیدائشی بھی ہوسکتا ہے اور نفسیاتی مسائل کے باعث مخصوص حالات میں بھی سامنے آسکتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ہکلاہٹ کا تعلق بول چال سے منسلک خلیوں کی کمزوری سے ہوسکتا ہے۔ نوجوانوں یا بڑی عمر کے افراد میں عموماً اس مسئلہ کی وجہ فالج کا دورہ یا دماغ کی چوٹ ہوتا ہے۔ جس وجہ سے وہ اس مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔اس کا علاج کیا ہے؟ سب سے پہلے تو مریض کے اندر خود اعتمادی کا پیدا ہونا لازم ہے اس کیلئے اسے اس کی آگاہی فراہم کی جائے کہ دنیا میں لوگ کس کس طرح کی بیماریوں کا شکار ہیں اس کے بعد مریض کے اندر یہ اعتماد و یقین پیدا کیا جائے کہ یہ مرض قابل علاج ہے۔ جب بھی آپ اپنے آس پاس کسی شخص کو ہکلاہٹ کا شکار دیکھیں تو اس کا مذاق نہ اڑائیں اور اپنے بچوں کو بھی اس کی تربیت دیں۔ہکلاہٹ پر قابو پانے کے لیے مختلف اسپیچ تھراپی کی جاتی ہیں جن میں سانسوں کی آمد و رفت اور گفتگو کو مختلف انداز میں ادا کیا جاتا ہے۔ یہ تھراپی کسی مستند معالج کے مشورے اور نگرانی میں کی جاسکتی ہے۔یہ مستند علاج ہے۔اس سے مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔مریض کے گنگنانے، زور زور سے پڑھنے اور کھل کر بات کرنے سے وقتی طور پر ہکلاہٹ میں کمی آ سکتی ہے۔ فی الوقت زبان کی لکنت سے بچنے کا طریقہ تو دریافت نہیں ہو پا یا ہے، البتہ اس کے علاج کے لیے مختلف اقسام کے طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔ علاج کی نوعیت انسان کی عمر، تبادلہ خیال کرنے کے مقاصد اور دیگر عوامل پر منحصر ہوتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ابتدائی عمر میں ہی اگر بچوں کی اس تکلیف کا علاج کرلیا جائے تو انہیں آگے چل کر اس مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔