ڈاکٹر محمد حمید اللہ سے ملاقات

ڈاکٹر محمد حمید اللہ سے ملاقات

اسپیشل فیچر

تحریر : ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی


ہم ہوٹل اکادیمیہ کے کمرا نمبر 5میں بالکل تیار اور منتظر بیٹھے تھے۔ 5بج کر چالیس منٹ پر مغرب کے کچھ ہی دیر بعد، ڈاکٹر حمید اللہ صاحب تشریف لے آئے۔ میں نے انہیں پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ محبت، اور احترام واشتیاق کی نظریں ان پر مرکوز تھیں۔ ایک دبلا پتلا اور دھان پان آدمی، اوورکوٹ، مفلر، جناح کیپ سے مماثل سیاہ ٹوپی، ڈاڑھی کے بال زیادہ تر سیاہ …ایک مایہ ناز شخصیت اور قابل فخر انسان، جس کی ساری زندگی خدمت اسلام اور مسلمانوں کی فلاح وبہبود کے لئے وقف رہی اور جو بایں پیرانہ سالی آج بھی جوانوں کی طرح، بلکہ ان سے کہیں بڑھ کر سرگرم عمل ہے۔ علیک سلیک ہوئی۔ چند خیر مقدمی جملوں کے بعد ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ زحمت کرکے یہاں پہنچے ۔ ڈاکٹر صاحب ثقل سماعت کے سبب اونچا سنتے ہیں مگر گفتگو آہستہ آہستہ اور دھیمے لہجے میں کرتے ہیں۔ خیر خیریت اور احوال پر سی کے بعد، ہمارے استفسارات پر ڈاکٹر صاحب نے بتایا:’’چالیس سال سے یہاں ہوں …میری شہریت فرانس کی نہیں، حیدرآباد کی بھی نہیں، بے وطن ہوں۔ میرے پاس کسی ملک کا پاسپورٹ نہیں۔ بس ٹریولنگ پیپرز ہیں، جو فرانسیسی حکومت نے دیئے ہیں، ان پر سفر کرتا ہوں۔‘، سوال:’۔فرانس کی شہریت کے لئے آپ نے کبھی مطالبہ نہیں کیا ؟‘‘جواب:’’نہیں، معلوم نہیں کیوں ؟ لیکن بہرحال کبھی نہیں کیا۔‘‘ فرانس میں اسلام اور نومسلموں کا ذکر چل نکلا۔ کہنے لگے:’’جی ہاں، بلامبالغہ میرے ہاتھ پر سیکڑوں لوگوں نے اسلام قبول کیا ہوگا۔ ان میں ہرطبقے کے لوگ ہیں۔ طلبہ، پروفیسر، عالم فاضل لوگ، کچھ سفیر بھی ، نانبائی بھی اور اگر آپ یقین کریں تو پیرس میں بعض پادری اور نن بھی مسلمان ہوئے ہیں۔ الحمدللہ ان میں ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں ہمارے مسلمان ہونے کا اعلان نہ کیا جائے اور اگر ضرورت ہوتو بلا اجازت ہمارا نام نہ دیں۔ ‘‘ مرزاصاحب:’’کیا ان کے بچے بھی مسلمان ہوجاتے ہیں؟‘‘جواب: ’’جی ہاں، ان کا فورنیم بھی ہوتا ہے، جو اسلامی ہوتا ہے یعنی عبداللہ، عبدالرحیم وغیرہ، لیکن ایسا کم ہوتا ہے۔ ویسے میں کہتا ہوں کہ بچے ماں باپ کے نگران نقال مقلد ہوتے ہیں۔ اگر ماں باپ اسلام پر عمل کرتے ہیں تو بچے ازخود تقلید کرتے ہیں۔ ان کے بہکنے کا امکان کم ہوتا ہے، لیکن اگر ماں باپ خود عمل نہ کرتے ہوں اور چاہیں کہ بچے اولیاء اللہ بن جائیں تو …‘‘’’کیا آپ کبھی علامہ اقبال سے بھی ملے؟‘‘ڈاکٹر حمید اللہ: ’’پہلی بار لاہور آیا تھا تو اقبال زندہ تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی تھی۔ حالت یہ تھی کہ وہ لیٹے رہتے تھے۔ نئے ملاقاتی آتے۔ سلام کرتے، کچھ دیر بعد چلے جاتے۔ اجازت کا کوئی سوال نہ تھا۔ دربار عام تھا۔ اسی طرح میں بھی ایک دوست کے ساتھ ان کے ہاں گیا۔‘‘ پروفیسر محمد منور: ’’ڈاکٹر صاحب یہ کون سے سنہ کی بات ہے؟37ء کی بات ہوگی ؟‘‘ڈاکٹر حمیداللہ:’’بہت پرانی بات ہے۔ 1932ء کی بات ہوگی۔ اس وقت صحیح طورپر یاد نہیں ہے۔‘‘ پروفیسر محمد منور:’’ان سے کوئی بات ہوئی؟‘‘ڈاکٹر حمیداللہ:’’بس مختصر سی، میں نے کہا :مجھے قانون سے دلچسپی ہے، فیکلٹی آف لاکا طالب علم ہوں تو کہنے لگے: یہ بڑی اہم چیز ہے، اس میں تلاش اور کوشش جاری رکھو۔ اس وقت ان کے پاس کچھ اور دوست اور رفیق بھی موجود تھے۔ منشی طاہر دین بھی تھے۔‘‘ اسی زمانے میں ڈاکٹر حمید اللہ نے جگن ناتھ آزاد کی نعتوں کا فرانسیسی ترجمہ کیا تھا۔ گفتگو میں اس کا ذکر بھی آیا۔ راقم نے پوچھا:’’ڈاکٹر صاحب، یہ ترجمہ آپ نے خود کیا یا فرمائش پر؟‘‘ڈاکٹر حمیداللہ:’’فرمائش نہیں، بلکہ مجھے خود خواہش تھی۔ میں نے ترجمہ کیا۔ اجازت لی۔‘‘ پروفیسر محمد منور :’’جگن ناتھ آزاد بھی قرطبہ میں آئے ہوئے تھے، وہیں انہوں نے بتایا کہ میری نعت کا ترجمہ ڈاکٹر حمیداللہ صاحب نے فرانسیسی میں کیا ہے۔‘‘ ڈاکٹر حمید اللہ:’’جی ہاں، رسول اللہؐ کے بارے میں ان کی نظم مجھے پسند آئی۔‘‘(پوشیدہ تری خاک میں… از ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
Advertisement
بابائے طب بقراط سے جڑی جھوٹی کہانیاں

بابائے طب بقراط سے جڑی جھوٹی کہانیاں

وبائیں انسانی آبادی کو صدیوں سے اپنا ہدف بنا رہی ہیں۔ یہ کئی قدیم سلطنتوں کی تباہی کا سبب بنیں اور انہوں نے کئی اہم شہروں کو برباد اور ویران کر دیا۔ علم محدود ہونے کی وجہ سے دورقدیم کا انسان انہیں پوری طرح سمجھ نہیں پایا اور اس نے انہیں بہت سی مافوق الفطرت چیزوں سے منسوب بھی کیا۔ کسی انسان سے بھی بعض اوقات ایسی باتیں منسوب کر لی جاتی ہیں جن کا حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔ ہزاروں سال قبل بقراط نے اپنے علم، مشاہدے، تجربے اور سخت محنت سے دریافت کر لیا تھا کہ کچھ بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جو کسی علاقے میں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں اور اس طرح ایک شخص سے دوسرے کو بہت جلدی متاثر کر دیتی ہیں۔ ایسی بیماریوں میں طاعون، جسے کالی موت بھی کہا جاتا تھا بلکہ اب بھی کہا جاتا ہے، بہت ہی تیزی سے پھیلتی ہے اور ایک دن میں ہزاروں، لاکھوں انسانوں کی موت کا باعث بن سکتی ہے۔ اسی طرح ہیضہ، چیچک، جذام، خناق اور متعدی بخار وغیرہ وبائی امراض کے زمرے میں آتے ہیں۔ بقراط نے ان وبائی امراض کو دریافت کر کے ان کے علاج بھی تجویز کیے۔ بقراط ایک ذہین اور بابغہ روزگار طبیب تھا۔ اس نے طبی دنیا میں زبردست انقلاب برپا کیا اور اس کے طریقہ علاج اور ضابطہ اخلاق نے دائمی شہرت حاصل کی۔ بقراط کی ذاتی زندگی کے متعلق بہت سی کہانیاں منسوب ہیں، ان میں سے زیادہ تر کہانیاں سچی نہیں ہیں کیونکہ تاریخی حوالے سے ان کی کوئی شہادت نہیں ملتی۔ بقراط نے شاندار زندگی بسر کی اور وہ اپنی زندگی میں ہی ''بقراط عظیم‘‘ کہلایا جبکہ اس کی زندگی سے کئی غیرمعمولی کہانیاں وابستہ کر دی گئی ہیں۔ بقراط کے متعلق ایک غیر معمولی کہانی وابستہ ہے کہ جب ایتھنز میں طاعون کی وبا پھیل گئی تو بقراط نے پورے شہر میں آگ کے بڑے بڑے الاؤ جلا کر شہر سے طاعون کی بیماری کے جراثیموں کو ختم کر دیا یعنی ڈِس انفیکٹ کر دیا جبکہ تاریخی حوالے سے ایسے کوئی شواہد نہیں ملتے۔ بقراط سے منسوب ایک دوسری کہانی ہے کہ مقدونیہ کا بادشاہ پریڈیکس ایک ایسی بیماری میں مبتلا تھا کہ اس بیماری کی سمجھ کسی طبیب کو نہ آتی تھی۔ بقراط نے اس کی نبض پر ہاتھ رکھ کر بتا دیا کہ بادشاہ محبت کی بیماری (لَو سِکنس) میں مبتلا ہے اور اس طرح بادشاہ کی مطلوبہ محبوبہ سے شادی کر کے اس کو تندرست کر دیا۔ اس کہانی کے بھی کوئی تاریخی شواہد نہیں ہیں بلکہ یہ کہانی بقراط سے بلاوجہ منسوب کر دی گئی ہے۔ تیسری کہانی ایران کے شہنشاہ کے متعلق ہے کہ شہنشاہ آردشیر نے بقراط کو ایران بلوایا، بہت سا مال و دولت بقراط کو بھجوایا کہ وہ ایران آ کر ایرانی شہریوں کا علاج کرے لیکن اس نے ایران کے شہنشاہ کی درخواست کو ٹھکرا دیا اور ایران نہ گیا۔ یہ کہانی بھی تاریخی شواہد سے خالی ہے اور اس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے۔ چوتھی کہانی جو بقراط سے منسوب کی جاتی ہے اس کا تعلق عظیم سائنس دان اور فلسفی ڈیماکریٹس سے ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈیماکریٹس کو عادت تھی کہ وہ ہر کسی کے ساتھ ہنس کر بات کیا کرتا تھا اور اسے ہنسنے کی بیماری تھی۔ ڈیماکریٹس کو کسی نے مشورہ دیا کہ تم جا کر بقراط سے اپنی بے تکی ہنسی کا علاج کراؤ۔ ڈیماکریٹس جب بقراط کے پاس گیا تو بقراط نے اس کو ایسا سنجیدہ کر دیا کہ وہ ہنسنے کے بجائے اداس رہنے لگا۔ اس حد تک تو بات صحیح ہے کہ ڈیماکریٹس کو آج بھی ہنستا ہوا فلسفی یا لافنگ فلاسفر کہا جاتا ہے لیکن اس نے کبھی بقراط سے اپنی ہنسی کا علاج کروایا ہو، ایسی کوئی شہادت تاریخ میں نہیں ملتی جبکہ ہنسنا اور خوش رہنا کوئی بیماری ہی نہیں ہے۔ پانچویں کہانی بقراط کی موت کے بعد اس کی قبر سے منسوب ہے۔ جالینوس جو کہ بقراط کا بہت زیادہ مداح اور شارح ہے، اس نے بیان کیا ہے کہ بقراط کی قبر پر شہد کا چھتا تھا، جو کوئی مریض خواہ کسی بھی مرض میں مبتلا ہوتا، اس شہد کے چھتے سے شہد کھا لیتا تو اس کی بیماری فوراً ختم ہو جاتی۔ اس کہانی کے بھی کوئی تاریخی شواہد نہیں ملتے بلکہ یہ کہانی عقیدت کے طور پر بقراط سے وابستہ کر دی گئی ہے۔ چھٹی کہانی بھی اس کی موت کے بعد اس سے منسوب کی گئی۔ جالینوس نے اس کہانی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ بقراط نے اپنی موت سے کچھ دیر پہلے ہاتھی دانت کا خوبصورت بند ڈبہ اپنے شاگردوں کو دیا اور وصیت کی کہ اس ڈبے کو بھی اس کی میت کے ساتھ قبر میں دفن کر دیا جائے۔ وہ ہاتھی دانت کا بنا ہوا ڈبہ بھی اس کی قبر میں اس کے ساتھ دفن کر دیا گیا۔ ایک عرصہ گزر جانے کے بعد اتفاق سے قیصر روم کا گزر بقراط کی قبر کے قریب سے ہوا۔ اس وقت قبر بہت ہی خستہ حال ہو چکی تھی۔ قیصرروم کو جب بتایا گیا کہ یہ قبر عظیم طبیب بقراط کی ہے تو قیصر روم نے حکم دیا کہ قبر کو دوبارہ بقراط کے شایانِ شان تعمیر کیا جائے۔ جب قبر کی تعمیر کے لیے بنیادیں کھودی جا رہی تھیں تو کھدائی کرنے والے کوایک خوبصورت منقش ہاتھی دانت کا ڈبہ ملا جو کہ بند تھا۔ جب وہ ہاتھی دانت کا بنا ہوا ڈبہ قیصر روم کو دکھایا گیا تو اس نے اسے کھولنے کا حکم دیا۔ جب ڈبہ کھولا گیا تو اس میں ایک کتاب تھی، جس میں 25 ایسے امراض لکھے ہوئے تھے جن کے بارے میں معلوم ہو جاتا تھا کہ مریض کتنے دنوں کے بعد مرجائے گا۔ یہ کہانی بھی بے معنی ہے اور تاریخی لحاظ سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ بقراط کے متعلق ایک کہانی اس کے پہلے سوانح نگار سورانوس نے بھی بیان کی ہے۔ سورانوس کا کہنا ہے کہ یونان میں ایک شفائی مندر (ہِیلنگ ٹمپل) تھا۔ اس مندر کو بقراط نے ایک دن آگ لگوا دی اور وہاں سے چلا گیا۔ یہ مندر کنڈوس میں واقع بھی۔ جبکہ بقراط ایک دوسرا سوانح نگار ٹیزیٹزس (Tzetzes) کہتا ہے کہ یہ بقراط کا آبائی مندر تھا اور اس کے اپنے شہر کوس میں واقع تھا لیکن دونوں نے اس مندر کو آگ لگانے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی۔ بقراط کے متعلق یہ تمام کہانیاں اس کو ایک لیجنڈ بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں جبکہ بقراط کے شاندار کام جو کہ انسانیت کی فلاح کے لیے ہیں، اس کو عظیم بنانے کے لیے کافی ہیں۔

طب کا نوبیل انعام

طب کا نوبیل انعام

2023ء کیلئے ''میڈیسن‘‘ (طب) کا نوبیل انعام امریکہ سے تعلق رکھنے والے دو سائنسدانوں کو دینے کا اعلان کیا گیاہے۔ ہنگری نژاد امریکی بائیو کیمسٹ کاتالین کاریکو (katalin Kariko)اور ڈریو ویسمین (Drew Weissman) کو کووڈ 19 کی وباء سے لڑنے کیلئے ایم آر این اے ویکسین تیار کرنے میں مدد فراہم کرنے پر نوبیل انعام سے نوازا گیاہے۔دونوں نوبیل انعام یافتگان سائنسدانوں کی دریافتیں 2020ء کے اوائل میں شروع ہونے والی وباء ''کووڈ19‘‘ کے خلاف مؤثر ویکسین ''mRNA‘‘تیار کرنے کیلئے اہم تھیں۔ اپنے اوّلین نتائج کے ذریعے، جس نے بنیادی طور پر ہماری سمجھ کو تبدیل کر دیا ہے کہ ایم آر این اے ہمارے مدافعتی نظام کے ساتھ کس طرح تعامل کرتا ہے۔ انعام یافتگان نے جدید دور میں انسانی صحت کو لاحق سب سے بڑے خطرات میں سے ایک کے دوران ویکسین کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا۔یہ دونوں امریکہ کی پنسلوانیا یونیورسٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور برسوں سے ایم آر این اے ٹیکنالوجی پر کام کر رہے تھے۔ان کے تحقیقی کام کے باعث کووڈ 19 کی وباء کے دوران ریکارڈ وقت میں زندگی بچانے والی ویکسینز تیار کرنے میں مدد ملی۔کاتالین کاریکو 1955ء میں ہنگری میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1982ء میں Szeged کی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور 1985ء تک ہنگری اکیڈمی آف سائنسز میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تحقیق کی۔ اس کے بعد انہوں نے ٹیمپل یونیورسٹی فلاڈیلفیا اور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس، بیتھسڈا میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کی تحقیق کی۔ 1989ء میں انہیں پنسلوانیا یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر مقرر کیا گیا، جہاں وہ 2013ء تک رہیں۔ اس کے بعد، وہ بائیو این ٹیک آر این اے فارماسیوٹیکلز میں نائب صدر اور بعد میں سینئر نائب صدر بن گئیں۔ 2021ء سے، وہ سیجڈ یونیورسٹی میں پروفیسر اور یونیورسٹی آف پنسلوانیا میں پیریل مین اسکول آف میڈیسن میں ایڈجینٹ پروفیسر ہیں۔ڈریو ویس مین 1959ء میں لیکسنگٹن، میساچوسٹس، امریکہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1987ء میں بوسٹن یونیورسٹی سے ایم ڈی، پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے ہارورڈ میڈیکل اسکول میں بیت اسرائیل ڈیکونس میڈیکل سینٹر اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ میں پوسٹ ڈاکٹریٹ ریسرچ میں اپنی کلینیکل ٹریننگ کی۔ 1997ء میں ویس مین نے پنسلوانیا یونیورسٹی میں پیرل مین اسکول آف میڈیسن میں اپنا تحقیقی گروپ قائم کیا۔ وہ ویکسین ریسرچ میں رابرٹس فیملی پروفیسر اور پین انسٹی ٹیوٹ برائے آر این اے انوویشن کے ڈائریکٹر ہیں۔یہ دونوں 1990ء کی دہائی کے آخر میں ایک تحقیق کے دوران ملے تھے اور اس کے بعد انہوں نے مل کر ایم آر این اے ٹیکنالوجی کو مختلف امراض کے علاج کے طور پر جانچنے کیلئے کام شروع کیا۔2005ء میں ان کی پہلی تحقیق شائع ہوئی جس میں بتایا گیا کہ ایم آر این اے کو تبدیل کرکے جسمانی مدافعتی نظام کو مؤثر طریقے سے متحرک کرنا ممکن ہے۔انہوں نے بتایا کہ ایم آر این اے پر مبنی ویکسینز ٹھوس مدافعتی ردعمل کو متحرک کر سکتی ہیں اور اتنی اینٹی باڈیز تیار کرتی ہیں جو مخصوص امراض پر حملہ آور ہوتی ہیں۔کووڈ کی وباء کے موقع پر ان دونوں سائنسدانوں کے تحقیقی کام کو مختلف کمپنیوں نے استعمال کیا تاکہ لوگوں کو کورونا وائرس سے تحفظ فراہم کر سکیں اور دسمبر 2020ء میں اوّلین ایم آر این اے ویکسین متعارف کرائی گئی۔وبائی مرض سے پہلے ویکسینویکسی نیشن کسی خاص پیتھوجن کے خلاف مدافعتی ردعمل کی تشکیل کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ یہ بعد میں نمائش کی صورت میں بیماری کے خلاف جنگ میں جسم کو ایک سر آغاز دیتا ہے۔ مارے گئے یا کمزور وائرسوں پر مبنی ویکسینز طویل عرصے سے دستیاب ہیں، جن کی مثال پولیو، خسرہ، اور زرد بخار کے خلاف ویکسینز ہیں۔ 1951ء میں، میکس تھیلر کو پیلے بخار کی ویکسین تیار کرنے پرطب میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔حالیہ دہائیوں میں سالماتی حیاتیات میں پیشرفت کی بدولت، پورے وائرس کی بجائے انفرادی وائرل اجزاء پر مبنی ویکسین تیار کی گئی ہیں۔ وائرل جینیاتی کوڈ کے کچھ حصے جو عام طور پر وائرس کی سطح پر پائے جانے والے پروٹین کو انکوڈنگ کرتے ہیں، پروٹین بنانے کیلئے استعمال ہوتے ہیں جو وائرس کو روکنے والے اینٹی باڈیز کی تشکیل کو متحرک کرتے ہیں۔ اس کی مثالیں ہیپاٹائٹس بی وائرس اور ہیومن پیپیلوما وائرس کے خلاف ویکسین ہیں۔ متبادل طور پر، وائرل جینیاتی کوڈ کے کچھ حصوں کو ایک بے ضرر کیریئر وائرس، ایک ''ویکٹر‘‘ میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔ یہ طریقہ ایبولا وائرس کے خلاف ویکسینز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ جب ویکٹر ویکسینز لگائی جاتی ہیں تو منتخب کردہ وائرل پروٹین ہمارے خلیوں میں پیدا ہوتا ہے، جو ہدف بنائے گئے وائرس کے خلاف مدافعتی ردعمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔پورے وائرس، پروٹین اور ویکٹر پر مبنی ویکسین تیار کرنے کیلئے بڑے پیمانے پر سیل کلچر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وسائل سے بھرپور عمل پھیلنے اور وبائی امراض کے جواب میں تیزی سے ویکسین کی تیاری کے امکانات کو محدود کرتا ہے۔ لہٰذا محققین نے طویل عرصے سے سیل کلچر سے آزاد ویکسین ٹیکنالوجیز تیار کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن یہ چیلنج ثابت ہوا۔mRNA ویکسینز: ایک امیدہمارے خلیوں میں، ڈی این اے میں انکوڈ شدہ جینیاتی معلومات کو '' میسنجر آر این اے‘‘ (mRNA) میں منتقل کیا جاتا ہے، جو پروٹین کی پیداوار کیلئے ایک ٹیمپلیٹ کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ 1980ء کی دہائی کے دوران، سیل کلچر کے بغیر '' ایم آر این اے‘‘ تیار کرنے کے موثر طریقے متعارف کروائے گئے، جسے ''وٹرو ٹرانسکرپشن ‘‘کہا جاتا ہے۔ اس فیصلہ کن قدم نے کئی شعبوں میں سالماتی حیاتیات کی ایپلی کیشنز کی ترقی کو تیز کیا۔ ویکسین اور علاج معالجے کے مقاصد کیلئے mRNA ٹیکنالوجیز کے استعمال کے خیالات بھی سامنے آئے، لیکن ان میں کچھ رکاوٹیں سامنے آئی ہیں۔ ان وٹرو ٹرانسکرپٹڈ ایم آر این اے کو غیر مستحکم اور ڈیلیور کرنے کیلئے چیلنج سمجھا جاتا تھا، جس میں ایم آر این اے کو ختم کرنے کیلئے نفیس کیریئر لیپڈ سسٹم کی ترقی کی ضرورت ہوتی ہے۔ مزید برآں، وٹرو میں تیار کردہ ایم آر این اے نے سوزش کے رد عمل کو جنم دیا۔ لہٰذا، کلینیکل مقاصد کیلئے ایم آر این اے ٹیکنالوجی کی ترقی کیلئے جوش و خروش ابتدائی طور پر محدود تھا۔

آج کا دن

آج کا دن

ترکی اور یونان کے درمیان جنگ بندی 3 اکتوبر1922ء کو اناطولیہ میں یونانی فوج کی شکست کے بعد ترکی، برطانیہ، فرانس اور اٹلی کے درمیان مودانیہ کانفرنس کا آغاز ہوا۔ جس کے آٹھ روز بعد ترکی اور یونان کے درمیان جنگ بندی ہوئی۔ یونان نے ترکی کے مطالبات کو قبول کیا اور جنگ سے پہلے کی سرحدوں پر واپس آگیا۔یہ جنگ1919ء میں شروع ہوئی تھی۔لنگیاڈس قتل عام1943ء میں آج کے دن نازیوں کی جانب سے ایک قتل عام کیا گیا جس میں فرسٹ ماؤنٹین ڈویژن نے حصہ لیا، اسے ''لنگیاڈس کا قتل عام‘‘ کہا جاتا ہے۔ شمال مغربی یونان میں لنگیاڈس کے قریب ایک جرمن افسر قتل ہو گیا۔ جس کے بعد نازیوں نے ایک آپریشن شروع کیا جس میں بڑی تعداد میں لوگوں کو قتل کیا گیا۔ قتل کئے جانے والوں میں زیادہ تعداد بچوں، خواتین اور بزرگوں کی تھی۔آپریشن ہریکین''آپریشن ہریکین‘‘ برطانوی ایٹم ڈیوائس کا پہلا ٹیسٹ تھا جو 3 اکتوبر 1952ء کو مغربی آسٹریلیا کے ٹریموئل جزیرے میں کیا گیا۔ آپریشن ہریکین کی کامیابی سے برطانیہ، امریکہ اور سوویت یونین کے بعد تیسری ایٹمی طاقت بن گیا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران، برطانیہ نے جوہری ہتھیاروں کے منصوبے کا آغاز کیا تھا، جسے ''ٹیوب الائے‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔اٹلی میں کشتی حادثہ3 اکتوبر 2013ء کو لیبیا سے تارکین وطن کو اٹلی لے جانے والی ایک کشتی اطالوی جزیرے کے قریب ڈوب گئی۔ کشتی لیبیا سے روانہ ہوئی جس میں سوار بہت سے لوگوں کا تعلق اریٹیریا، صومالیہ اور گھانا سے تھا۔ اطالوی کوسٹ گارڈ کی بروقت کارروائی سے 155 افرادکو زندہ بچا لیا گیا۔ اس حادثہ میں میں مرنے والوں کی تصدیق شدہ تعداد 359 تھی جن میں سے بہت سے لوگوں کی لاشیں نہیں مل سکیں۔تحقیقات کے مطابق کشتی میں ضرورت سے زیادہ لوگوں کو بٹھانا حادثے کی وجہ بنا۔  

قلعہ بلتت باپ کی بیٹی سے محبت کی نشانی

قلعہ بلتت باپ کی بیٹی سے محبت کی نشانی

برصغیر پاک و ہند کی تاریخ کو یہ انفرادیت حاصل رہی ہے کہ یہاں کے بادشاہ اور حکمران اپنے پیاروں کیلئے محل، قلعے اور یادگار عمارتیں تعمیر کیا کرتے تھے جو ان کی محبت اور عقیدت کی علامت ہوا کرتے تھے۔ تاریخ پاک و ہند ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں تاج محل، نور محل قابل ذکر ہیں۔ قیام پاکستان سے بھی پہلے رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں بھی ایک ایسی عمارت کا ذکر ملتا ہے جو لاہور میں رنجیت سنگھ حکومت کے ایک فرانسیسی جنرل الارڈ نے اپنی ایک سکھ بیوی بانو پانڈے، جسے فرانسیسی میں ''پان دائے‘‘ کہتے تھے کی محبت میں اس کی زندگی ہی میں فرانسیسی شہر سینٹ ٹروپاز کے ساحل پر واقع ایک ''سٹیٹ آف دا آرٹ‘‘ محل تعمیر کرایا تھا۔ یہ محل اپنی تعمیر اور محل وقوع کی وجہ سے ایک شاہکار سمجھا جاتا تھا۔ اس محل کی خوبصورتی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنرل الارڈ کی موت کے بعد الارڈ فیملی نے اسے ایک پرتعیش فائیو سٹار ہوٹل میں بدل دیا تھا۔ جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس کا شمار اب بھی دنیا کے مہنگے ترین ہوٹلوں میں ہوتا ہے۔ یہاں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ جنرل الارڈ تو اب بھی لاہور میں دفن ہیں لیکن ان کی چہیتی بیوی پان دائے فرانس میں ابدی نیند سو رہی ہے۔اسی طرح پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں واقع ایک ایسے تاریخی قلعے کا ذکر ملتا ہے جو یہاں کے ایک حکمران نے اپنی ایک چہیتی بیٹی کی خواہش پر اس کے سسرال میں تعمیر کرا کر دیا تھا۔ اب گلگت بلتستان ایک الگ صوبے کی شناخت سے جانا جاتا ہے جبکہ تاریخی اعتبار سے بلتستان کئی سو سال قبل تبت کا حصہ ہوا کرتا تھا یہ اس زمانے کی بات ہے جب لداخ بھی تبت کے زیر اثر ہوا کرتا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بلتستان کو مقامی طور پر اب بھی ''چھوٹا تبت‘‘ کہا جاتا ہے۔قلعہ بلتت کب اور کیسے بناآج سے لگ بھگ آٹھ سو سال پہلے وادی ہنزہ کے حکمران شہزادہ ایاشو ثانی، جو ایاشو خاندان کے چوتھے ولی عہد تھے کی شادی بلتستان کے حکمران راجہ ابدال کی بیٹی شاہ خاتون سے طے پائی تو شہزادی کی رہائش کیلئے قلعہ بلتت کا انتخاب ہوا۔ قلعہ بلتت کی تاریخ بارے دو قسم کی آرا پائی جاتی ہیں، ایک یہ کہ یہ قلعہ بادشاہ راجہ ابدال نے اپنی بیٹی شاہ خاتون کو جہیز میں بنوا کر دیا تھا۔ دوسری روایت یہ ہے کہ ''قلعہ بلتت‘‘ تو آج سے گیار سو سال پہلے سے تعمیر شدہ تھا لیکن یہ نہ صرف رہائشی اعتبار سے محدود تعمیرات بلکہ ایک منزلہ عمارت پر مشتمل تھا۔ شہزادی کی خواہش کے پیش نظر راجہ ابدال نے اپنی چہیتی بیٹی کی خواہش پر جہیز کے ساتھ ہی کاریگروں کی ایک ٹیم بھی وادی ہنزہ روانہ کی تاکہ شہزادی کی خواہش کے عین مطابق قلعہ بلتت کی ازسر نو تعمیر اور توسیع کی جا سکے۔ واقفان حال کے مطابق شہزادی شاہ خاتون بعد میں ہنزہ کی رانی بھی بنیں۔اس قلعہ کی تعمیر بارے سینہ بہ سینہ کئی روایات منسوب ہیں جو وہاں کے باسی اور تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے بیان کرتے ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ قلعہ لگ بھگ آٹھ سو سال پہلے تعمیر کیا گیا تھا جبکہ ایک روایت یہ ہے کہ اس کی تعمیر گیارہ سو سالہ پرانی ہے۔ تاہم تجزیہ دان اس عرصہ کو اس لئے مستند مانتے ہیں کہ چند سال پہلے قلعہ بلتت بارے جو ''کاربن ڈیٹنگ‘‘ تحقیق ہوئی تھی اس سے یہ پتہ چلا ہے کہ اس تعمیرسے پہلے بھی یہاں کوئی تعمیر تھی۔ ماہرین کے مطابق اس تحقیق سے اس قیاس کو اور بھی تقویت ملتی ہے جس کے مطابق قلعہ کی تعمیر جو بنیادی طور پر ایک منزلہ تھی لگ بھگ گیارہ سوسال قدیم ہے جبکہ اس کی توسیع جو شہزادی کی شادی کے بعد ہوئی تھی، وہ اب تین منزلوں پر مشتمل ہے۔کچھ لوک روایات سے پتہ چلا ہے کہ بلتستان سے آنے والے ماہرین تعمیرات یہ عہد لے کر بھیجے گئے تھے کہ انہیں ہر صورت شہزادی کی خواہشات کے مطابق ایک آرام دہ محل کم سے کم وقت میں تعمیر کرنا ہے۔ جس کیلئے انہوں نے دن رات ایک کر کے ریکارڈ مدت میں یہ محل تعمیر کیا تھا۔بلتستان کا تاریخی اعتبار سے تبت سے گہرا تعلق رہا ہے۔ اسی لئے ان دونوں علاقوں کے تہذیب و تمدن، طرز رہائش اور رسم و رواج میں خاصی مماثلت نظر آتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ قلعہ بلتت اور تبت کے شہر لاسا میں واقع دلائی مامہ کی سابقہ رہائش گاہ ''پوٹالہ محل‘‘ میں حیران کن حد تک مماثلت پائی جاتی ہے۔ ان دونوں محلوں کو دیکھ کر لگتا ہے جیسے ان کو ایک ہی ماہر تعمیرات نے تعمیر کیا ہو، حالانکہ پوٹالہ محل، بلتت قلعہ کی تعمیر کے لگ بھگ چار سو سال بعد تعمیر ہوا تھا۔ ان دونوں محلوں میں ایک اور چیز مشترک ہے کہ دونوں پہاڑ کی بلند ترین چوٹیوں پر تعمیر ہوئے تھے۔ مورخین اس کی وجہ دشمن کے حملوں سے بچاؤ قرار دیتے ہیں۔اس قلعہ میں ہے کیا؟دریائے ہنزہ کے دوسری جانب نظر دوڑائیں تو بلند و بالا پہاڑوں کے دامن اپنی پوری آب و تاب سے نظر آنے والی پرشکوہ تین منزلہ یہ عمارت دراصل ''قلعہ بلتت‘‘ کی عمارت ہے۔ اس قلعہ کے 62 دروازے اور 53 کمرے ہیں۔ اس قلعہ کو جا بجا لکڑی کے روایتی کاموں سے سجایا گیا ہے۔ بڑی بڑی کھڑکیاں، کشادہ دریچے، برآمدوں کے ستون اور گیلریاں ماہر کاریگروں کے لکڑی سے بنے نقش و نگار ان کے فن کمال کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں۔اس قلعہ کی پہلی منزل چاروں طرف سے کھلی ہے، دوسری منزل میں ایک مہمان خانہ اور شاہی دربار موجود ہے۔ اس بڑے سے ہال نما دربار میں ہنزہ کے حکمران دربار لگایا کرتے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس منزل پر شاہی دربار کو سیاحوں کیلئے جوں کا توں اب بھی محفوظ رکھا گیا ہے اور سیاحوں کو یہاں بیٹھنے کی اجازت اب بھی نہیں ہے۔تیسری منزل پر حکمرانوں کے رہائشی کمرے بنے ہوئے ہیں اور یہیں پر ایک بڑا سا سوراخ فریادیوں کیلئے آج بھی نظر آتا ہے۔ جہاں نیچے کھڑے ہو کر فریادی پہلے بادشاہ کی خدمت میں نذرانہ پیش کرتے جو عام طور پر اجناس کی شکل یا خشک میوہ جات کی صورت میں ہوا کرتا تھا۔ سب سے نچلی منزل پر گودام اور کھانے پینے کی اشیاء ذخیرہ کرنے کیلئے بہت سارے کمرے بنائے گئے تھے جبکہ اس کے تہہ خانے کو بطور جیل استعمال کیا جاتا تھا۔اس قلعہ کی خوبصورتی کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اگر چاندنی رات کے دوران اس قلعہ کا دورہ کیا جائے تو وادی ہنزہ کے سحر انگیز منظر کے علاوہ سامنے بلند و بالا راکا پاشی پہاڑ نظر آتا ہے جو پہلی نظر میں دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ قلعہ کے بارے کچھ اور1945ء تک یہ قلعہ ہنزہ کے حکمرانوں کی رہائش کے طور پر استعمال ہوتا آیا ہے جبکہ 1990ء میں ہنزہ کے آخری حکمران کے بیٹے نے قلعے کو باقاعدہ طور پر ''بلتت ہیریٹج ٹرسٹ‘‘ کے حوالے کر دیا۔اس کے بعد آغا خان ٹرسٹ نے امریکہ اور ناروے حکومت کے تعاون سے 1996ء میں اس کی بحالی کا کام شروع کیا۔ 2004ء میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے اس کو بحالی کے بہترین ایوارڈ سے نوازا۔ قلعہ میں موجود میوزیم میں اس قلعے اور اس خطے سے جڑے نوادرات کے علاوہ مختلف ادوار کے حکمرانوں اور رانیوں کے ملبوسات، اسلحہ، آلات موسیقی اور لوہے کے برتن رکھے ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں کے باورچی خانہ میں قدیم دور کے لوہے کے برتنوں میں ہر ماہ چاند کی چودہ تاریخ کو سیاحوں کو معاوضے کے عوض شاہی دسترخوان پر روائتی کھانے پیش کئے جاتے ہیں۔ 

یادرفتگاں:عمر شریف  : کامیڈی کے بے تاج بادشاہ

یادرفتگاں:عمر شریف : کامیڈی کے بے تاج بادشاہ

بے ساختگی اور برجستگی میں کمال رکھنے والے عمر شریف کو دنیا سے رخصت ہوئے 2سال بیت گئے، آج ان کی برسی ہے۔ ہاکی کی کمنٹری ہو یا محمد علی کی پیروڈی، عزیز میاں قوال کی قوالی کا انداز ہو یا اسٹیج ڈرامہ، کسی شو کی میزبانی ہو یا سمندر پار کوئی ایوراڈ شو، عمر شریف اپنی شاندار کامیڈی سے لوگوں کو ہنساتے ہنساتے لوٹ پوٹ کرنے کا فن خوب جانتے تھے۔ عمر شریف کی اداکاری سے بے ساختہ قہقہوں کا طوفان سا آجاتا تھا۔ ٹی وی، اسٹیج ایکٹر، فلم ڈائریکٹر، کمپوزر، شاعر، مصنف، پروڈیوسر یہ تمام صلاحیتیں ان کی شخصیت کی پہچان بنیں۔ اسٹیج کی تاریخ ان کے ذکر کے بغیر ادھوری ہے۔ انہوں نے اپنے فن کے ذریعے دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کیا۔ انہیں ''کنگ آف کامیڈی‘‘ کا خطاب بھی دیا گیا۔ اگر ہم عمر شریف کو پاکستانی کامیڈی کی پہچان اور برصغیر کا سب سے بڑا کامیڈین کہیں تو بالکل غلط نہ ہو گا۔عمر شریف کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں 19 اپریل 1960ء کوپیدا ہوئے۔ محمد عمر نامی یہ بچہ 4سال کی عمر میں یتیم ہوگیا۔ 14 برس کی عمر میں انہوں نے اسٹیج ڈراموں سے اپنے کریئر کا آغاز کیا اور کامیابی کی سیڑھیاں کچھ اس انداز میں چڑھنا شروع کیں کہ پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا۔ عمر شریف نے تھیٹر، اسٹیج، فلم اور ٹی وی میں اپنی جاندار اور بے مثال اداکاری کے جوہر دکھائے لیکن ان کی بنیادی وجہ شہرت مزاحیہ اسٹیج ڈرامے ہیں۔ کامیڈی کنگ کا اصل نام محمد عمر تھا لیکن انہوں نے 1974ء میں اسٹیج ڈراموں میں کام کا آغاز کرنے کے بعد ڈرامے میں استعمال ہونے والا نام ''عمر ظریف‘‘ رکھا۔عمر شریف منور ظریف کو اپنا استاد مانتے تھے۔ وہ منور ظریف سے اتنا متاثر تھے کہ کئی مرتبہ اس خواہش کا اظہار کر چکے تھے کہ '' میں چاہتا ہوں مرنے کے بعد جس شخص سے میری سب سے پہلے ملاقات ہو وہ منور ظریف ہوں‘‘۔ بعدازاں ہالی وڈ فلم ''لائورنس آف عریبیہ‘‘ میں ہالی وڈ کے مصری اداکار عمر شریف کی اداکاری سے اس قدر متاثر ہوئے کے اپنے نام کے ساتھ شریف لگا لیا۔اسٹیج ڈراموں کے بے تاج بادشاہ نے 1980ء میں آڈیو کیسٹ پر سٹیج ڈرامے ریلیز کرنے کا ٹرینڈ متعارف کرایا جو پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت میں بھی مقبول ہوئے۔عمر شریف نے 50سے زائد اسٹیج ڈراموں میں کام کیا۔ان کے مقبول ڈراموں میں 1989 میں ریلیز ہونے والا مشہور مزاحیہ ڈرامہ ''بکرا قسطوں پر‘‘ ، ''بڈھا گھر پر ہے‘‘، ''میری بھی تو عید کرا دے‘‘، ''ماموں مذاق مت کرو‘‘ نمایاں ہیں۔ ڈرامہ '' بکرا قسطوں پر‘‘ سے انہیں بے پناہ شہرت ملی۔ اس ڈرامے کے پانچ پارٹ پیش کئے گئے۔ عمر شریف نے اسٹیج اور ٹی وی کے ساتھ سینما سکرین پر بھی اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ان کے کریڈٹ پر 35 فلمیں ہیں۔ ان کی 1992ء میں عیدالاضحی کے موقع پر ریلیز ہونے والی فلم ''مسٹر 420‘‘کو زبردست کامیابی ملی۔ اس فلم کے ہیرو، ڈائریکٹر اور مصنف وہ خود تھے جبکہ اداکارہ شکیلہ قریشی اور روبی نیازی نے ان کے مقابل مرکزی کردار نبھائے۔ مزاح سے بھرپور اس فلم نے گولڈن جوبلی منائی۔اس فلم پر انہیں بہترین اداکار اور ڈائریکٹر کے نیشنل ایوارڈز سے نوازا گیا جبکہ 4 نگار ایوارڈ بھی ملے۔عمر شریف ایک سال میں 4نگار ایوارڈ حاصل کرنے والے پاکستان کے واحد فنکار تھے۔ان کی دیگر مقبول فلموں میں ''مسٹر چارلی‘‘، ''بہروپیہ‘‘، ''چلتی کا نام گاڑی‘‘، ''چاند بابو‘‘، ''کھوٹے سکے‘‘، ''ہتھکڑی‘‘، ''لاٹ صاحب‘‘، ''پھول اور مالی‘‘،''جھوٹے رئیس‘‘، ''پیدا گیر‘‘، ''ڈاکو چور سپاہی‘‘، ''خاندان‘‘، ''نہلے پہ دہلا‘‘، ''مس فتنہ‘‘، ''غنڈا راج‘‘، ''سب سے بڑا روپیہ‘‘ شامل ہیں۔فلمی کریئر میں عمر شریف نے 3 بار گریجویٹ ایوارڈ حاصل کیا۔عمر شریف بے ساختگی، برجستگی اور بے باکی میں کمال رکھتے تھے۔ وہ بلا کے ذہین تھے اور بات سے بات نکالنے میں انہیں ید طولیٰ حاصل تھا۔ عمر شریف نے مختلف ٹیلی ویژن شوز بھی کئے۔ انہوں نے اداکاری اور میزبانی کے ساتھ ساتھ متعدد پروگراموں میں بطور جج بھی شرکت کی جس میں بھارت کا مقبول ترین پروگرام ''دی گریٹ انڈین لافٹر چیلنج‘‘ سرفہرست ہے۔عمر شریف نے 3 شادیاں کیں، ان کی پہلی بیوی کا نام دیبا تھا۔ دوسری شادی اداکارہ شکیلہ قریشی سے ہوئی جو 80ء کی دہائی کی معروف ٹیلی ویژن ادکارہ تھیں۔ تیسری شادی سٹیج اداکارہ زریں غزل سے 2005ء میں کی۔عمر شریف دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور بائی پاس آپریشن بھی کروا چکے تھے لیکن زندگی کے آخری برسوں میں انہیں گردوں کی بیماری نے بھی آ لیا تھا اور گردوں میں خطرناک انفیکشن کی وجہ سے انہیں شدیت مشکلات کا سامنا تھا۔ انہیں علاج کی غرض سے بذریعہ ایئر ایمبولینس امریکہ لے جایا جا رہا تھا، راستے میں ان کا پہلا سٹاپ جرمنی تھا جہاں ان کی طبیعت زیادہ ناساز ہونے کی وجہ سے ان کو ایئر ایمبولینس سے اتار لیا گیا اور ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ ہسپتال میں طبیعت زیادہ ناساز ہوئی اور دونسلوں کو اپنی مزاحیہ اداکاری سے محظوظ کرنے والا فنکار اس جہاں فانی سے کوچ کرگیا۔ پاکستان کی شوبز انڈسٹری میں عمر شریف بہت دراز قد کے مالک تھے۔ انڈسٹری کے ہر حلقے سے تعلق رکھنے والے لوگ عمر شریف کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ عمر شریف نے اپنی معیاری اداکاری اور فیملی کامیڈی پر کئی ایوارڈز اپنے نام کئے۔ 5دہائیوں تک لوگوں کے دلوں پر راج کرنے والے عمر شریف کو حکومت پاکستان کی جانب سے فن کی دنیا میں بے مثل حدمات سر انجام دینے اور بین الااقوامی طور پر پاکستان کا نام روشن کرنے پر ''تمغہ امتیاز‘‘ سے بھی نوازا گیا۔  

ارسطو کانظریہ آئین

ارسطو کانظریہ آئین

ارسطو نے اپنی تصنیف ''سیاسیات‘‘ کے پانچویں حصے میں انقلابات کی وجوہات اور اس کی روک تھام پر بحث کی ہے۔ اس حصہ میں ارسطو کی سیاسی بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ ارسطو نے یونانی شہری ریاستوں کے 57 دستوروں کا مطالعہ کیا ہے۔ ارسطو کے نظریہ انقلاب کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں حکمرانوں، طرزِ جمہوریت کے حاکموں، اشرافیہ کے حاکموں، بادشاہوں اور جابروں کیلئے عملی ہدایات موجود ہیں کہ کس طرح اقتدار کو بحال رکھا جائے۔ دوسرے حصے میں اچھی اور مضبوط حکومت کی فلسفیانہ بنیادوں پر خوب بحث کی ہے۔ ارسطو کے نزدیک انقلاب کا مفہوم اگر ریاست کے مروجہ آئین میں تبدیلی ہو تو یہ انقلاب ہے۔ ارسطو کے نزدیک آئینی تبدیلی خواہ وہ چھوٹی ہو یا بڑی انقلاب ہے۔ اگر ریاستی قانون نہ بھی بدلے مگر اقتدار ایک شخص سے دوسرے کے پاس چلا جائے تو ارسطو کے نزدیک یہ بھی انقلاب ہی ہے۔ ارسطو کے نزدیک انقلاب کی وجوہات انقلاب کی پہلی اوربڑی وجہ انسان کی ہوسِ مساوات ہے۔ مساوات دو طرح کی ہوتی ہیں، مطلق اور متناسب۔ عوام کی اکثریت ہمیشہ اسی تاک میں رہتی ہے کہ وہ بھی خاص لوگوں کی طرح مراعات حاصل کرے۔کچھ افراد متناسب مساوات کے حق میں ہوتے ہیں کہ کوئی انہیں مراعات میں برتری دے۔ اس عام اصول سے ہم بادشاہت، اشرافیہ، حکومت اور جمہوریت کے تمام نظاموں کے آپس میں ٹکرائو اور قیام کی وضاحت کر سکتے ہیں۔ (دوئم) انقلاب کے جراثیم ہمیں یکطرفہ انصاف میں بھی ملتے ہیں۔ ارسطو کے مطابق لوگ اس وقت انقلاب برپا کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں جب انہیں ان کا حق نہ ملے۔ درحقیقت انقلاب کی وجوہات تلاش کرنے پر انسانی ذہن میں ملتی ہیں۔ ارسطو انقلاب کی خاص وجوہات کی ایک طویل فہرست پیش کرتا ہے۔(1) لالچ، (2)اعزازات حاصل کرنے کی آفاقی ہوس گیری، (3) کس شخص یا ٹولی کے ہاتھ مطلق اختیارات کا ہونا تاکہ وہ رعایا پر دہشت بٹھا سکے، (4) غیر شائستگی، (5) ہوس فتح گیری،(6) بعض لوگوں کو غیر معمولی اہمیت دینا،(7) ریاست کے کسی حصے میں غیر متناسب توسیع،(8) انتخابی سازشیں، (9) غیر وفادار شہریوں کو عوامی شعبے سونپنے میں بے احتیاطی، (10) معمولی تبدیلیوں کو نظر انداز کرنا، (11) مختلف نسلوں اور قبیلوں کی باہمی نااتفاقی اور دشمنیاں، (12) مختلف ریاستی عناصر کا باہمی اختلاف، (13) خاندانی تنازعات، (14) انصاف اور قانون کے متعلق مختلف الرائے، (15)غیر ملکی لوگوں کو آنے کی کھلی آزادی، (16)تشدداور فریب۔مختلف ریاستوں میں انقلابات کی وجوہاتیہاں مختلف قسم کے قوانین میں تبدیلیوں کی وجوہات بیان کی ہیں اور مختلف طرز حکومت کے بدلنے کے اسباب پر خوب بحث کی ہے۔ جس طرح جمہوری طرز میں رہنما اشتعال انگیز تقریریں کرکے لوگوں کے جذبات بھڑکاتے ہیں اور انقلاب کا موجب بنتے ہیں۔ یہی اقتدار بگڑ کر جابرانہ نظام بن جاتا ہے یا چندسری نظام حکومت میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کی بھی دو اقسام آمرانہ حکومت اور دوسرا حکمران طبقہ کی باہمی نااتفاقی؟ اشرافیہ میں انقلاب کا سبب حکومت کا دائرہ محدود کرنا ہے جہاں تک کہ ملے جلے قانون کا تعلق ہے۔ انقلاب کا سبب ان نظام ہائے حکومت کے حصول کی ناموزوں استواری ہے۔ اشرافیہ امراء کے حد سے تجاوز ہو جانے سے چندسری حکومت اور غریب طبقہ کی حد سے زیادہ حوصلہ افزائی دستوری حکومت کو جمہوری بنا دیتی ہے۔ استحکام ریاست صرف متناسب مساوات اور ہر ایک کو اس کا حق دینے سے ہی ممکن ہے۔ارسطو کے نزدیک جابر حکمرانوں کا غیر متناسب رویہ لوگوں کے ذہنوں میں بغض پیدا کرتا ہے، کسی شریف آدمی کی بے عزتی اسے بغاوت پر مجبور کر سکتی ہے ۔انقلاب سے بچنے کے طریقے ارسطو نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ''سیاسیات‘‘ میں حکمرانوں کو بتایا ہے کہ انہیں انقلابات سے بچنے کیلئے ناانصافی سے بچنا چاہئے ۔ارسطو نے نصیحت کی ہے کہ حکمران ریاست میں پائیدار امن کیلئے ہر طبقہ کے افراد سے انصاف کریں اور ناانصافی کوروکیں۔ ریاست کا دستور افراد کی رائے کے مطابق ہونا چاہئے۔ دستور کے مطابق عوام کی تعلیم کا انتظام کرنا ریاست کے حکمرانوں کا فرض ہے۔ جب عوام تعلیم یافتہ ہوں گے تو خود بخود اپنے آپ کو قانون کے مطابق مناسب جگہوں پر متعین کرلیں گے اور انقلاب کے امکانات کم ہو جائیں گے۔ حکمران کو چاہیے کہ وہ عوام میں قانون کا احترام پیدا کرے۔ معمولی تبدیلی کو نظر انداز نہ کیجئےریاست کے افراد میں کسی معمولی نوعیت کی تبدیلی کو بھی حکمران نظر انداز نہ کریں۔معمولی طرز کی تبدیلی بھی بڑی تبدیلی میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ عوام حوصلہ پا کر شدت اختیار کر سکتے ہیں۔ ریاست کے اقتدار پر صرف چند لوگ ہی قابض نہ ہوں کیونکہ درمیانی طبقہ اکثریت میں ہوتا ہے اس لیے درمیانی طبقہ کے منتخب افراد کو بھی ریاست کے اقتدار میں شامل کرنا ضروری ہے۔ ورنہ درمیانی اکثریتی طبقہ مایوسی کی حالت میں ریاست میں انقلاب برپا کر سکتا ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ تمام عوام پر مناسب توجہ دیں کیونکہ عوام کی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں نظر انداز نہ کیا جائے۔ اگران پر مناسب توجہ نہ دی گئی تو وہ حکمرانوں کے خلاف انقلاب برپا کر دیں گے۔