ذہنی صحت، عالمی تشویش کا مسئلہ

ذہنی صحت، عالمی تشویش کا مسئلہ

اسپیشل فیچر

تحریر : محمد علی


عالمی ادارہ صحت (WHO) اور اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (UNICEF) کے مطابق دنیا بھر میں 10 تا 19 سال کے ہر سات میں سے ایک بچہ ذہنی مسائل کا شکار ہے ۔ان مسائلمیں اعصابی خلل اور ذہنی دباؤ نمایاں ہیں۔ان بچوں میں ایک تہائی ذہنی مسائل 14 سال کی عمر سے پہلے اور نصف مسائل 18 سال کی عمر سے قبل ظاہر ہوتے ہیں۔اقوام متحدہ کے ان اداروں کی مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بچوں اور نوعمر افراد کو فراہم کی جانے والی ذہنی صحت کی خدمات میں بہتری کے لیے تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ حکومتوں کو اس معاملے میں ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہوں گے۔رپورٹ کے مطابق بچوں اور نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں سے پوری طرح کام لینے کے قابل بنانے کے لیے ان اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں بچوں کو ذہنی صحت کے علاج معالجے کی سہولیات تک خاطر خواہ رسائی حاصل نہیں۔ ذہنی صحت سے متعلق تشویشناک علامات کا سامنا کرنے والے بیشتر بچوں کو طبی سہولیات کی عدم دستیابی، مہنگے علاج اور ایسے امراض سے جڑی بدنامی کے باعث طبی مدد نہیں مل پاتی۔ عالمی ادارہ صحت میں ذہنی و دماغی صحت اور منشیات کے استعمال کی روک تھام کے شعبے کی ڈائریکٹر Dévora Kestel کا کہنا ہے کہ تمام بچوں کو ان کی عمر کے اعتبار سے مستند علاج کی فراہمی یقینی بنانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔رپورٹ میں دنیا بھر کے ایسے لاکھوں بچوں کی جانب بھی توجہ دلائی گئی ہے جو ذہنی مسائل کا شکار ہونے کے باعث اپنے خاندانوں کی موجودگی کے باوجود الگ تھلگ کر دیے جاتے ہیں۔ ایسا کرنا ان کے انسانی حقوق کی پامالی ہے اور طبی و سماجی حوالے سے اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ذہنی مسائل میں مبتلا بچوں اور نوعمر افراد کو ان کے خاندانوں اور معاشروں میں ہی رکھ کر ان کی پرورش کرنا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ان کی تعلیم، سماجی تعلقات اور مجموعی ترقی و بہبود کو بھی جاری رہنا چاہیے۔عالمی ادارہ صحت نے2022ء میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ دنیا میں تقریباً ایک ارب افراد ذہنی امراض کی کسی نہ کسی قسم میں مبتلا ہیں۔اور اس ایک ارب میں ہر ساتواں فرد نو عمر ہے۔ ذہنی صحت کے مریضوں کی علاج کی سہولت تک رسائی میں یہ بات بہت اہم ہے کہ اس مریض کا تعلق کسی امیر ملک سے ہے یا غریب ملک سے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق زیادہ آمدنی والے ممالک میں نفسیاتی بیماری کے شکار ہر 10 میں سے 7 افراد علاج کروا لیتے ہیں لیکن کم آمدنی والے ممالک میں یہ شرح 100 میں12 افراد کی ہے۔ڈپریشن کے کیسز میں صورتحال زیادہ ڈرامائی ہے کیونکہ زیادہ آمدنی والے ممالک ڈپریشن کے23 فیصد کیسز میں مناسب علاج فراہم کرتے ہیں لیکن کم اور کم درمیانی آمدنی والے ممالک میں یہ صرف تین فیصد ہے۔
ذہنی عوارضYears lived with disability (YLDs) کی ایک بنیادی وجہ ہے۔یہ پیمانہ کسی بیماری یا معذوری کی وجہ سے مکمل صحت کے بغیر گزارے ہوئے زندگی کے عرصے کی پیمائش کرتا ہے۔شیزوفرینیاجو کہ 200 میں سے تقریباً ایک بالغ شخص میں ہوتا ہے،ذہنی صحت کاایک بنیادی مسئلہ ہے۔شیزوفرینیا یا دیگر ذہنی عارضوں میں مبتلا افراد دیگر قابل علاج بیماریوں میں مبتلا افراد کی نسبت اوسطاً 10 سے 20 سال پہلے مر جاتے ہیں۔
ذہنی صحت کے مسائل اور پاکستان
ذہنی صحت کے مسائل پاکستان میں صحت کے پیچیدہ مسائل دنیا کی اوسط سے زیادہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں تقریباً پانچ کروڑ افراد مختلف اقسام کے ذہنی مسائل کا شکار ہے۔یہاں بھی ان میں نوجوانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اڑھائی کروڑ افراد کو نفسیاتی امداد کی ضرورت ہے، تاہم ذہنی صحت کے امراض کی سکریننگ اور علاج کے لیے مختص وسائل بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔ WHO کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ افراد کے لیے صرف 0.19 ماہر نفسیات دستیاب ہیں، یہ تعداد ڈبلیو ایچ او کے مشرقی بحیرہ روم کے علاقے اور پوری دنیا میں سب سے کم تعداد میں سے ایک ہے۔

پھیلاؤ
عالمی ادارہ صحت کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں تقریباً پانچ کروڑ افراد ذہنی عارضوں کا شکار ہیں۔
علاج
پاکستان میں ذہنی امراض میں مبتلا افراد میں سے صرف 10 فیصد ہی علاج کرواتے ہیں۔
ماہر نفسیات
پاکستان میں دنیا میں سب سے کم تعداد میں ماہر نفسیات ہیں، یہاں ایک لاکھ افراد پر صرف 0.19 ماہر نفسیات ہیں۔
جنس
خواتین میں دماغی صحت کا مسئلہ زیادہ ہے۔ عام ذہنی امراض شہری علاقوں میں 25 فیصد ، دیہی علاقوں میں 72 فیصد تک ہیں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
ابراہیم جلیس:افسانہ و مزاح نگاری کا منفرد نام

ابراہیم جلیس:افسانہ و مزاح نگاری کا منفرد نام

ابراہیم جلیس ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہیں قدرت نے اتنی صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے کہ وہ صرف ایک شعبے ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے شعبوں میں بھی اپنے فن کے جوہر دکھاتے ہیں۔ ابراہیم جلیس کی ادبی اور صحافتی خدمات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ابراہیم جلیس کا اصل نام ابراہیم حسین تھا۔ وہ 22اگست 1924ء کو بنگلور (بھارت) میں پیدا ہوئے۔قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان پاکستان آ گیا۔ انہوں نے 1940ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ انہوں نے پہلی نوکری بھارت میں سول سپلائی ڈیپارٹمنٹ میں کی لیکن جلد ہی انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور مقامی اخبارات اور جرائد کیلئے لکھنے لگے۔ 1941ء میں ان کا افسانہ ''رشتہ‘‘ دہلی کے جریدے''ساقی‘‘ میں شائع ہوا۔ انہوں نے ممبئی میں ''مووی کیپٹل انڈیا‘‘ میں قسمت آزمائی کی اور وہ مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کے ہاں ٹھہرے تھے۔1946ء میں وہ لاہور سے شائع ہونے والے بچوں کے جریدے''ساتھی‘‘سے وابستہ ہو گئے۔ اس کے بعد روزنامہ''امروز‘‘ میں کام کیا۔ یہاں احمد ندیم قاسمی اور ابن انشا ان کے رفقائے کار تھے۔ 1951ء میں انہوں نے چین کا دورہ کیا اور واپس آکر ''نئی دیوارِ چین‘‘ کے نام سے سفر نامہ لکھا۔1955ء میں ابراہیم جلیس کراچی چلے گئے ،وہاں کے مقامی جریدے میں ان کا کالم ''وغیرہ وغیرہ‘‘ شائع ہوتا تھا۔ 1976ء میں ابراہیم جلیس نے پیپلزپارٹی کے ترجمان اخبار میں مدیر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ پھر انہوں نے اپنا ہفت روزہ ''عوامی عدالت‘‘ شروع کیا۔ ابراہیم جلیس نے کچھ فلموں کے سکرپٹ اور مکالمے بھی لکھے جن میں ''تہذیب‘‘ اور ''احساس‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ دونوں فلمیں سپرہٹ ہوئیں۔ جب اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ سنجیدہ ادب تخلیق کرنے والا ایک ادیب مزاحیہ ادب کیسے تخلیق کر سکتا ہے؟ یہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ ایک تخلیق کار کے فن کی ایک سے زیادہ جہتیں ہو سکتی ہیں اور وہ بڑی کامیابی سے تمام جہتوں میں اپنے فن کے نقوش چھوڑ سکتا ہے۔ انہیں اپنے ایک افسانے کی اشاعت پر پابند سلاسل بھی ہونا پڑا۔اپنی کتاب ''جیل کے دن جیل کی راتیں‘‘ میں انہوں نے اپنی زندگی کے تجربات کو بیان کیا ہے کہ کس طرح انہیں ان کی ''ترقی پسندی‘‘ کی سزا دی گئی۔ اگرچہ ابراہیم جلیس کو 1944ء میں شائع ہونے والے ان کے افسانوں کی کتاب ''زرد چہرے‘‘ سے شہرت مل چکی تھی لیکن پھر ''چالیس کروڑ بھکاری‘‘ نے ان کی مقبولیت میں بہت اضافہ کیا۔ ابراہیم جلیس کی نثر بڑی اثر انگیز تھی جو دل کے تاروں کو چھو لیتی تھی۔انہوں نے بے شمار لوگوں کو اپنی تصنیفات سے متاثر کیا۔ آج بھی ان کے بے شمار قدر دان موجود ہیں۔ وہ نئے لکھنے والوں کیلئے ایک مثال ہیں لیکن ان لکھنے والوں کیلئے جو صداقت کی شمعیں جلانا چاہتے ہیں۔26اکتوبر 1977ء کو یہ بے مثل افسانہ نگار اور ناول نگار کراچی میں انتقال کر گیا۔ ان کی وفات کے بعد1989ء میں انہیں'' تمغۂ حسن کارکردگی‘‘ دیا گیا۔ ابراہیم جلیس کی داستان زیست اس لحاظ سے قابل رشک ہے کہ انہوں نے حق و صداقت کے چراغ جلائے اور نہ صرف ادب بلکہ صحافت کو بھی نئی بلندیاں عطا کیں۔ ان کا نام زندہ رہے گا۔بیگم کھال میں رہوایک کلرک کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ جاڑوں کا زمانہ تھا۔ دلہن نے شوہر سے فرمائش کی کہ مجھے ایک فرکوٹ خرید دو۔ بیوی نئی نئی تھی اور وہ اتفاق سے تنخواہ کا بھی دن تھا۔ شوہر فرمائش کو ٹال نہ سکا۔ وہ بازار میں فرکوٹ کی دکان پر پہنچے۔ بیوی نے کسی جانور کی کھال کا ایک کوٹ پسند کیا۔ کوٹ کے دام ایک سو چالیس روپے اور شوہر کی تنخواہ ایک سو پچاس روپے!لیکن شوہر کے وقار کا سوال تھا اس لئے اس نے انکار نہ کیا۔ دام ادا کرکے کوٹ خرید لیا۔ بیوی نے خوش ہوکر کہا، ''اجی، تم کتنے اچھے ہو۔ لیکن نہ جانے کیوں مجھے اس وقت اس جانور پر بھی افسوس ہو رہا ہے جس کی اس کوٹ کیلئے کھال کھینچی گئی‘‘۔شوہر نے ایک ٹھنڈی آہ بھرکر کہا، ''اس ہمدردی کیلئے میں تمہارا شکر گزار ہوں‘‘ ۔شوہر نے اپنی بیوی کا شکریہ تو ادا کر دیا لیکن بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ہم اس شوہر کو بڑا خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ قدرت نے اسے ایسی بیوی دی ہے جو جانور یا شوہر یا پھر دونوں کی ''کھال کھینچنے‘‘ پر اظہار افسوس تو کرتی ہے۔ ہمارے آپ کی بیویاں تو اتنی زبانی ہمدردی کا اظہار بھی نہیں کرتیں! اپنی بیویوں کی طرف ذرا آنکھ اٹھاکر تو دیکھئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے انھیں ''دباغت‘‘ کے سوائے اور کوئی کام آتا ہی نہیں ہے جس بیوی کو دیکھو وہ شوہر کی کھال کھینچنے میں مصروف ہے۔ روز یہ لاؤ،وہ لاؤ۔ اگر ''یہ وہ‘‘ نہ لاؤ تو بس بیٹھی ''بال کی کھال‘‘ نکالنا شروع کردیتی ہیں۔ اجی میرے ابا کو میری امّاں نے بڑا منع کیا تھا کہ ''ان‘‘ سے میرا بیاہ نہ کرو۔ قلاش اور پھکڑ لوگ ہیں، تمہاری بیٹی ہمیشہ ان کے گھر میں بھوکی ننگی رہے گی۔ مفلسی بیٹا کی ''کھال‘‘ ادھیڑ کررکھ دے گی۔ لیکن ابّا جی آدمی بڑے ضدی تھے۔ وہ کہتے تھے کہ لڑکے کی صرف خاندانی شرافت دیکھنی چاہیئے۔ ''کھال دیکھنی چاہیئے۔ مال نہیں دیکھنا چاہیئے۔‘‘ (اقتباس)تصنیفات ٭...چالیس کروڑ بھکاری ٭...جیل کے دن جیل کی راتیں٭...نیکی کر تھانے جا، ہنسے اور پھنسے٭...زرد چہرے کالا چور٭...نئی دیوار چین ٭...رشتہ٭...چور بازار(ناول)٭... الٹی قبر 

بخارا:تاریخ کے بے پناہ خزینوں سے مالا مال شہر

بخارا:تاریخ کے بے پناہ خزینوں سے مالا مال شہر

جب پہلی دفعہ ہم سمر قند سے بخارا کیلئے عازِم سفر ہوئے تو سہ پہر کا وقت تھا۔ سفر بذریعہ سڑک تھا۔ جب بخارا میں داخل ہوئے تو رات کی تاریکی نے شہر کو اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔ قیام کیلئے ہوٹل کی تلاش شروع کر دی۔ ہمیں غیر مقامی دیکھ کر ہوٹل کے میزبانوں نے یومیہ کرایہ کی غیر ملکیوں والی لسٹ نکا لی اور ہمیں 80 سے 120 ڈالر کا ریٹ بتایا۔ ایک تو ہم سفر کی تھکان سے نڈھال تھے دوسرے اتنے اونچے ریٹ نے ہمارے رہے سہے ہوش بھی اُڑا دیئے۔ کچھ مقامی لوگ بھی ہمارے محوِ سفر تھے ہم نے اُن کو آگے کر دیا اور کہا کہ ہم تاشقند میں کافی عرصہ سے قیام پذیر ہیں اور تاشقند ائیر پورٹ پر ہی اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ ہم سے بیگانوں والا سلوک روانہ رکھا جائے۔ پھر ایک ہوٹل نے بڑی تگ و دو کے بعد ہمیں مقامی کرنسی سوم (SYM ) میں یومیہ کرایہ طے کرنے کے بعد ہوٹل کے اندر داخلے کی اجازت دی اور ہم نے خدا کا شکرادا کیا۔رات کی تاریکی میں ہمیں بخارا میں تاشقند شہر کی سی چکا چوند نظر تو نہ آئی لیکن دن کے وقت شہر کے گلی کوچوں اور بازاروں میں گھومنے کا اتفاق ہوا توپتہ چلا کہ یہ شہر تاریخ کے بے پناہ خزینوں سے مالا مال ہے۔ سمر قند سے بخارا کا فاصلہ 263 کلو میٹرہے۔ بخارا ازبکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے۔ آبادی پونے تین لاکھ ہے۔ اس کے انٹرنیشنل ائیر پورٹ سے تاشقند کے علاوہ اشک آباد، ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ کو بھی فلائیٹس جاتی ہیں۔ سطح سمندر سے اس شہر کی بلندی 750 فٹ ہے اور بخارا صوبہ (ولایت) بخارا کا دارالخلافہ بھی ہے۔ وسطی ایشیا کے چند شہروں کا وجود تاریخ کا اٹوٹ انگ معلوم ہوتا ہے۔ ایسے لگتا ہے اگر یہ شہر روئے زمین پر موجود نہ ہوتے توشاید دُنیا کی تاریخ نا مکمل رہ جاتی۔ ان شہروں میں تاشقند، سمر قند، بخارا اور خیوا نہایت اہم شہر ہیں۔ قرونِ وسطیٰ میں سارے براعظموں میں براعظم ایشیا اہم حیثیت رکھتا تھا۔ براعظم ایشیا میں وسطی ایشیا اور وسطی ایشیا میں یہ شہر جن کا سطورِ بالا میں ذکر کیا گیا ہے۔ انھی شہروں میں سے ایک شہر بخارا ہے۔ بخارا کی اہمیت کے کئی پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ یہ شہر ماضی میں دُنیا کے مشہور حکمرانوں اور حملہ آوروں کی یلغار کا نشانہ بنتا رہا۔ اسی شہر میں سے دُنیائے اسلام کے نامور مبلّغ، محدّث، سکالر اور عالم فاضل نابغہ روزگار شخصیات نے جنم لیا۔ امام اسماعیل البخا ریؒ اور بو علی سینا کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔ ماضی میں جس دور میں شاہراہِ ریشم پر یورپ سے چین تک تجارتی قافلے رواں دواں رہتے تھے، بخارا کا شہر دُنیا کے تاجروں کیلئے ایک جنکشن کی حیثیت رکھتا تھا اور بخارا کو مدینتہ التجاّر کہا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ بخارا علم و تہذیب کا ایک بہت بڑا مرکز تھا۔ مدارس اور سیکڑوں مساجد سے پانچوں اوقات اذانیں گونجتی رہتی تھیں۔ بخارا کے قالین اور غالیچے آج بھی تمام دُنیا میں مشہور ہیں۔ عالمی ادارے یونیسکو (UNESCO ) نے اس شہر کو 1993ء میں عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کیااور 1993ء میں ہی بخارا کو لاہور شہر کا جڑواں قرار دیا گیا۔بخارا میں سیکڑوں عمارات نہایت خوبصورت ہیں۔ جن میں کلیان مینار جو 150 فٹ بلند ہے زمین سے اس کی گولائی کا قطر 29.5 فٹ اور اوپر تک جاتے جاتے اس مینار کا قطر 19.5 فٹ رہ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کلیان مسجد الغ بیگ کے دور میں 1514 ء میں تعمیر ہوئی۔ یہ مسجد سمر قند کی مسجد بی بی خانم کے سائز کی ہے۔ میر عرب مدرسہ شیبانی حکمرانوں کے دور میں اُن کے معتمد ِخاص شیخ عبداﷲ یمنی کی نگرانی میں تعمیر ہوا۔ 709 ء میں عربوں نے اس شہر پر غلبہ حاصل کیا۔ مدرسہ ککلد اش آج سے چار پانچ صدی قبل تعمیر ہوا۔ جس میں اُس وقت اردگرد کے علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں طلبا زیر تعلیم رہتے تھے۔ اس مدرسے کی عمارت کی بناوٹ، خوبصورتی اور فن ِتعمیر ہنر مندوں کی اعلیٰ مہارت کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ بخارا شہر میں تعمیر کیے گئے چار مینار شہر کی خوبصورتی میں گرا نقدر اضافہ کا باعث ہیں۔ یہ مینار ایک بہت بڑے باغ میں تعمیر کیے گئے تھے۔ یہ چار مینار بالکل ہمارے لاہور کی چوبرجی کی طرز کے بنائے ہوئے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ چوبرجی کے مینارحوادث زمانہ سے گرِ چکے ہیں، جن کی دوبارہ تعمیر کی سعادت کسی بھی حکومت کے حصہ میں ابھی تک نہیں آئی۔ لیکن اس کے مقابلہ میں بخارا کے چار مینار اپنے اردگرد کے ماحول اور شہر کی تزئین و آرائش میں بے پناہ اضافہ کا سبب ہیں۔ بخارا کو باغوں کا شہر (Garden City ) بھی کہا جاتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں مدفون کئی بزرگوں کا تعلق بخارا ہی سے تھا۔ جن کی اولاد ہمارے پاکستان کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہے۔ جو اپنے آپ کو بخارا شہر کی نسبت سے بخاری کہلواتے ہیں۔

آج کا دن

آج کا دن

اسرائیل اردن معاہدہ26اکتوبر1994ء کو اسرائیل اور اردن کے درمیان46 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے بعد ایک امن معاہدہ ہوا۔اس معاہدے پر اسرائیل کے وزیر اعظم یتزاک رابن اور اردن کے وزیر اعظم عبدالسلام مجالی نے دستخط کئے ۔ معاہدے پر دستخط کرنے کی تقریب میں صدر کلنٹن نے بھی شرکت کی۔ دونوں ممالک کے درمیان امن قائم کرنے کے علاوہ اس معاہدے نے زمین اور پانی کے تنازعات کو بھی حل کیا۔ سیاحت اور تجارت میں وسیع تعاون فراہم کرنے کی بھی یقین دہانی کرائی گئی اور دونوں ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ ایک دوسرے پر حملے کیلئے کسی تیسرے ملک کو اپنی اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہنگری کا انقلاب26اکتوبر1956کو ہنگری میں ایک انقلاب کی شروعات ہوئی۔انقلاب کے دوران مظاہرین اور سوویت فوجیوں کی بداپیسٹ کی گلیوں میں شدید جھڑپیں ہوئیں۔ایک اندازے کے مطابق اس انقلاب کے دوران3سے 5ہزار افراد ہلاک ہوئے اور ان کی لاشیں کئی روز تک گلیوں اور سڑکوں پر پڑی رہیں۔مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ اقتصادی اصلاحات کی جائیں اور سوویت فوج کو ان کے ٹینکوں سمیت وہاں سے نکالا دیا جائے۔بداپیسٹ کے نو منتخب وزیراعظم نے متعدد مرتبہ پر امن رہنے کی اپیل کی لیکن ان کی درخواست کو مظاہرین کی جانب سے نظرا نداز کر دیا گیا۔ کیلیفورنیا کی آگکیلیفورنیا کی آگ جو ''سیڈر فائر‘‘ کے نام سے مشہور ہے ،یہ جنوبی کیلیفورنیا میں 15مقامات پر لگنے والی آگ میں سے ایک تھی۔آگ کا یہ سلسلہ سانتا ایناونڈزسے شروع ہوا جس نے تقریباً2 لاکھ80ہزار278ایکٹر رقبہ اور1232 مکانات کو جلا کر راکھ کر دیا۔ایک ہفتے کے دوران 15افراد ہلاک ہوئے،اس آگ کو کیلیفورنیا کی تاریخ کی سب سے خوفناک آتشزدگی سمجھا جاتا ہے۔اسی دوران جنوبی کیلیفورنیا کے اردگرد12سے زیادہ جنگلات میں آگ بھڑک اٹھی جس میں '' اولڈ فائر‘‘ بھی شامل ہے جس کی وجہ سے 6افراد ہلاک ہوئے۔تحقیقات سے پتا چلا کہ آتشزدگی کا آغاز انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے ہوا نہ کہ قدرتی طور پر۔

سندھ ساگر کے ساتھ

سندھ ساگر کے ساتھ

اباسین دریا کو ہم نے ہر روپ میں کئی رنگ بدلتے دیکھا ، دسمبر میں سکڑ چکے دریا کی ہیبت میں کمی آئی اور نہ ہی برف باری کے موسم اسے منجمد کر سکے ۔ سال ہا سال سے دریائے سندھ ہمیں ملتا رہا اور ہر بار نئے رنگ اور تازہ روپ میں ہمارا استقبال کرتا رہا ۔ ہم نے میدانی علاقوں میں اسے دیکھا تو حیرت سے گنگ رہ گئے ، پل غازی گھاٹ سے اس دریا کے کچھ رنگ پوشیدہ رہے مگر طغیانی کی شدت میں کمی نہ آئی۔ یہ دریا سکردو کی تنگ چٹانی دیواروں سے گزرا تو کسی تنگ ذہن جاگیردار کی مانند بپھرا ہوا ملا ، یہی دریا جب کچورا موڑ اور سکردو کی گمبا بستی کے پہلو میں پھیلے ریتلے پاٹ میں دیکھا گیا تو وسعت کے باعث نرم اور دوست مزاج ہو چکا تھا ، بالکل کسی تعلیم یافتہ معتدل یار کی طرح ، جو درگزر اور مہربانی کا عادی ہو چکا ہوتا ہے ۔ دریاسندھ کی یہی محبت اور بدلتے روپ ہمیں مرول تک لے گئے ۔ مرول ٹاپ ہماری دسترس سے دور رہا ، وہی مرول جہاں سے پہلی بوند اس دریا کا ماخذ بنی اور پھر روایات جنم لینے لگیں ۔ کہانیوں کو کردار سونپے جانے لگے ۔ ثقافت پھوٹ پڑی اور جہاں سے یہ دریا گزرتا گیا ، داستان چھوڑتا گیا یہ اعجاز ہے حسن آوارگی کا جہاں بھی گئے داستاں چھوڑ آئے سویڈن کے مہم جوسیون ہیڈن نے لکھا تھا کہ میں یہاں سنگی خباب پر کھڑا دریائے سندھ کو زمین کی آغوش سے جنم لیتے دیکھ رہا ہوں ۔ وہ سیون ہیڈن ہی تھا جس نے 1907 ء میں دریائے سندھ کا منبع دریافت کرتے ہوئے انگریز مہم جوولیم مور کرافٹ کے نظریے کو غلط ثابت کیا تھا کہ سندھ دریا جھیل مانسرور سے نکلتا ہے۔ دریا سندھ 3180کلومیٹر کا سفر کر کے بحیر عرب میں جا ملتا ہے ۔ اپنے آغاز سے تربیلا تک 1100 کلو میٹر کا سفر کرتا ہوا دریا سندھ کالا باغ سے اپنے ڈیلٹا تک آٹھ سو میل کلو میٹرکا سفر کرتا ہے ۔ کبھی دریائے سندھ کا ڈیلٹا 3500 کلومیٹر تھا مگر اب سکڑ کر 240 کلومیٹر رہ گیا ہے ۔ ہر سال دریائے نیل کی نسبت دریائے سندھ میں دوگنا پانی آتا ہے اور یہ پانی تبت سے شروع ہو کر نانگا پربت سے آنے والے رائے کوٹ گلیشئر تک سینکڑوں ندی نالوں ، دریاوں اور آبشاروں کی شمولیت سے بڑھتا جاتا ہے ۔ دریاسندھ تبت سے شمال کی جانب بہہ کر بھارت میں داخل ہوتا ہے اور پھر بھارت سے جنوبی سمت بہتا ہوا پاکستان میں ۔ اپنے مقام آغاز کی بلندی 16000فٹ سے دریائے سندھ اترتا اترتا بحیرہ عرب کی سطح سے صرف دو سو فٹ بلند رہ جاتا ہے اور پھر آخر کار چھوٹی چھوٹی ندیوں کی مانند سمندر میں شامل ہوتا ہے۔سنگے خباب سے شروع ہوتا سفر دریائے سندھ کو تبت سے دم چک اور پھر یہیں سے کشمیر تک لے جاتا ہے ۔ تاشی گانگ کے مقام پر اس دریا کا پہلا معاون دریازنکساراس میں گرتا ہے ۔ وانخو گاں کے عقب سے گزر کر سندھ دریامرول ٹاپسے پاکستان میں داخل ہوتا ہے ۔ یہی وہ منزل ہے جہاں دریائے لداخ دریا سندھ کا حصہ بنتا ہے ۔ دریائے شیوک وہ پہلا بڑا دریا ہے جو چھومندو کے علاقے میں سندھ کا حصہ بنتا ہے۔ ریت کے میدانسفرنگاکے درمیان سے ہوتا ہوا یہ اباسین سکردو پہنچتا ہے۔ سکردو سے پہلے کے ٹو اور اسکولیسے آنے والا دریائے برالدو اور شگر باہم مل کر سندھ کی طغیانی بڑھاتے ہیں ۔ شاہراہ سکردو کے ساتھ ساتھ جب یہ دریا جگلوٹ پہنچتا ہے تو دریائے گلگت اپنا وجود دریا سندھ کے سپرد کر دیتا ہے، دریائے گلگت میں تب تک دریائے ہنزہ ، دریائے نگر ، شمشال نالہ ، دریائے غذر اور نلتر کے پانی شامل ہو چکے ہوتے ہیں ۔ یہاں سے ذرا آگے بونجی کے مقام پر دیوسائی ، راما ، منی مرگ اور برزل سے آنے والے ندی نالے دریائے استور بن کر سندھ کا حصہ بنتے ہیں ۔ رائے کوٹ کے مقام پر نانگا پربت کے برف پانی سندھ میں شامل ہوتے ہیں۔ چلاس سے گزر کر جب یہ دریا تربیلا کو تیس میل دور سے سلام پیش کرتا ہے تو اٹک سے کچھ پہلے دریائے کابل اپنے معاون دریاوں چترال اور سوات سمیت سندھ میں دھمال ڈالتے ہوئے اپنا آپ کھو دیتے ہیں ۔ یہ دریا پنجاب میں داخل ہوتا ہے تو دریائے ہیرو بھی اپنا پانی لئے دریائے سندھ کا منتظر ہوتا ہے۔ کالا چٹا پہاڑی سلسلے سے گزر کر خوشحال گڑھ کے قریب سائیں کوہاٹی اور ٹبری ندیوں کی سلامی وصول کرتا ہے ۔ پیر پھائی کے قریب دریائے سواں بھی سندھو سائیں کا منتظر ہوتا ہے۔ پنجند کے مقام پر پانچ دریا باہم ملتے ہیں جہاں دریائے چناب مٹھن کوٹ پہنچ کر سندھ میں غرق دریا ہو جاتا ہے۔ سکھر تک اپنا وجود اور وقار برقرار رکھتا ہوا دریائے سندھ ٹھٹھہ اور بدین کے قریب ندیاں بن کر بحیرہ عرب کے سپرد ہو جاتا ہے ۔سندھ دریا اس لئے بھی فطرت شناس لوگوں کیلئے دلچسپی کا مرکز ہے کہ اس میں جھیلوں ، وادیوں ، میدانوں ، آبشاروں، برف جزیروں اور دنیا کے دوسرے بڑے برفانی بلندیوں کا لمس شامل ہے ۔ اس دریا کے بنائے ہوئے قدرتی راستوں کے سبب پہاڑوں پر جو شہر آباد ہیں وہ اسی دریا کے بہاو کی وجہ سے ہیں ۔ اسی دریا کے سبب ہم وہاں تک پہنچ جاتے ہیں جہاں جانا فطرت سے پنجہ آزمائی کے مترادف ہے۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان کی سیاحت اور زراعت دریائے سندھ کے مرہون منت ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

فلپس پیٹرولیم دھماکہ23اکتوبر1989کو ہیوسٹن شپ چینل کے قریب ، پاساڈینا، ٹیکساس میں فلپس پیٹرولیم کمپنی کے ہیوسٹن کیمیکل کمپلکس میں دھماکوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔ابتدائی دھماکوں کی شدت ریکٹر سکیل پر3.5درج کی گئی اور اس کے نتیجے میں آگ پر قابو پانے میں10گھنٹے لگے۔دھماکے کی وجہ سے فائر ہائیڈرینٹس کے پائپ خراب ہو گئے جس کی وجہ سے ابتدائی طور پر آگ پر قابو نہیں پایا جا سکا۔پہلا دھماکاآتش گیر گیسوں کے اخراج کے نتیجے میں ہوا، یہ ایک قسم کا پلاسٹک تھا جو کھانے کے کنٹینر بنانے میں استعمال کیا جاتا تھا۔اس واقع میں23ملازمین ہلاک اور314شدید زخمی ہوئے۔آپریشن لائن بیکرآپریشن لائن بیکر ریاستہائے متحدہ امریکہ کی سیونتھ ائیر فورس اور نیوی ٹاسک فورس77 ائیر انڈکشن مہم کا کوڈ نام تھا جو ویتنام کی جنگ کے دوران 23 اکتوبر 1972ء تک شمالی ویتنام کے خلاف جاری رہی۔اس آپریشن کا مقصد ویتنام کو مدد فراہم کرنے والے سامان کی نقل و حمل کو روکنا یا سست کرنا تھا۔اس سامان کا استعمال پیپلز آرمی آف ویتنام کی افواج کی جانب سے حملہ کرنے کے لئے کیا جاتا تھا۔آپریشن لائن بیکر23اکتوبر کو اختتام پزیر ہو گیا لیکن اس کے بعد بھی شمالی ویتنام پر بمباری جاری رکھی گئی۔سار ریفرینڈمسار(Saar) قانون پر ریفرینڈم 23 اکتوبر1955ء کو سار پروٹیکٹوریٹ میں منعقد ہوا۔اس قانون نے اس علاقے کو ایک یورپی کمشنر کی سرپرستی میں ایک آزاد ریاست بنادیا۔اس کا تقرر مغربی یورپی یونین کے وزرا ء کی کونسل کی جانب سے کیا گیا۔اسی قانون کے تحت فرانس کے ساتھ اقتصادی اتحاد بھی قائم کیا گیا لیکن رائے دہندگان نے اس کو مسترد کر دیا جس سے اس بات کا اشارہ بھی ملا کہ وہ مغربی جرمنی کے ساتھ دوبارہ متحد ہو سکتے ہیں۔ 27 اکتوبر 1956 کو فرانس اور مغربی جرمنی نے سار کا معاہدہ طے کیا جس کے تحت سارلینڈ کو مغربی جرمنی میں شامل ہونے کی اجازت دی گئی اور سارلینڈ یکم جنوری 1957ء کو جرمنی کی ریاست بن گیا۔امریکن ائیر لائن حادثہامریکن ائیر لائن کی پرواز نمبر28ایک طے شدہ ڈومیسٹک پرواز تھی جو23اکتوبر1942ء کو امریکی فوج کی فضائیہ کے B-34بمبار کے ساتھ ٹکرانے کے بعدپام اسپرنگس، کیلیفورنیا، ریاستہائے متحدہ امریکہ کے قریب چینووادی میں گر کر تباہ ہو گئی۔B-34کو معمولی نقصان پہنچا اور اسے بحفاظت آرمی کے ہوائی اڈے پر اتار لیا گیا۔امریکی ائیر لائن میں سوار تمام مسافر اور عملہ اس حادثے میں ہلاک ہو گیا۔فوجی جہاز کے پائلٹ پر بعد میں قتل عام کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا لیکن کورٹ مارشل ٹرائل بورڈ نے اسے قصور وار نہیں پایا۔ 

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور بچے

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور بچے

ڈیجیٹل ٹیکنالوجی بچوں کے لیے بہت سے مواقع لے کر آئی ہے تاہم اس کی تیزرفتار ترقی، تبدیلی اور غیرمعمولی پہنچ سے بچوں کے لیے بہت سے خطرات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔بچوں کی سمگلنگ، جنسی استحصال اور بدسلوکی کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے،ان کی تصاویر اور ویڈیو کے غلط استعمال، جنسی بدسلوکی پر مبنی مواد کی تیاری، بلیک میلنگ اور بچوں کے خلاف بدسلوکی کا ارتکاب عام ہو گیا ہے۔بچوں کی سمگلنگ، جنسی استحصال اور بدسلوکی کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر ماما فاطمہ سنگھاتا کے مطابق ڈیپ فیک، تصاویر کو جعلسازی سے برہنہ دکھانے اور ان میں عمر کو گھٹا اور بڑھا کر ظاہر کرنے کی ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، مواد کو سرور کے بغیر براہ راست ایک دوسرے تک منتقل کرنے اور ویڈیو میں آواز کو تبدیل کرنے جیسے طریقوں سے بھی بچوں کا استحصال کیا جا رہا ہے۔اس مسئلے سے نمٹنے کے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو ٹیکنالوجی کے پھیلاؤ کے ساتھ یہ صورتحال مزید بگڑ جانے کا اندیشہ ہے۔ اس کے نتیجے میں بچوں کے حقوق کی پامالی کے واقعات بڑھ جائیں گی اور غیرمحفوظ اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے والے بچے اس سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ بین الاقوامی ڈیجیٹل معاہدہ آن لائن دنیا میں سبھی لوگوں اور خاص طور پر بچوں کو تحفظ دینے کے لیے حکومتوں، ٹیکنالوجی کمپنیوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے اقدامات کے حوالے سے عالمگیر عزم کو تقویت دیتا ہے۔ یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے چائلد لائٹ گلوبل چائلڈ سیفٹی انسٹیٹیوٹ کے محققین کی ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ ایک سال کے دوران دنیا بھر میں بغیر مرضی کے لی گئی اور جنسی نوعیت کی 30 کروڑ سے زائد تصاویر کے آن لائن شیئر کئے جانے کے واقعات ہوئے۔چائلڈ لائٹ انسٹیٹیوٹ کے چیف ایگزیکٹو Paul Stanfield کے مطابق بچوں کا استحصالی مواد اتنا زیادہ ہے کہ نگران تنظیموں اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کو ایسی کوئی نہ کوئی فائل ہر سیکنڈ میں مل رہی ہے۔یہ مسئلہ ایک عالمی وبا کی شکل اختیارکر چکا ہے جو ایک طویل عرصے سے چھپا ہوا تھا۔ یہ ہر ملک میں ہے اور مسلسل پھیل رہا ہے اور اس کے لیے خلاف ایک عالمی ردعمل درکار ہے۔ بچوں کو آن لائن استحصال سے محفوظ رکھنے کیلئے کیا کریں؟والدین کے لیے پہلا مشورہ یہ ہے کہ چوکنا رہیں اور شروع میں ہی مسئلے پر توجہ دیں۔اس کے لیے گھر کی سطح پر ڈیجیٹل تحفظ کے متعلق گفتگو کو ترجیحی بنیادوں پر شروع کرنا ضروری ہے۔ اپنے بچوں کا بھروسا حاصل کریں اور انہیں آن لائن خطرات سے آگاہ کریں۔ اگر بچے بڑے ہو رہے ہیں تو بھی گفتگو کے اس عمل کو نہ روکیں۔ بچوں کو سننے پر توجہ دیں مگر اس معاملے پر گفتگو کو جاری رکھیں کیونکہ یہ اعتماد کی بنیاد بنتی ہے۔اور سب سے اہم یہ کہ شرم اور جھجھک کو دور کردیں۔ بچہ اکثر اسی وقت خود کو بہت مشکل حالات میں پاتا ہے جب وہ بالکل اکیلا محسوس کرتا ہے۔والدین کو علم ہونا چاہیے کہ آن لائن مجرموں کا ایک طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ وہ بچے کو الگ تھلگ کرتے ہیں تاکہ وہ خاموش رہے۔وہ اسے بلیک میل کریں گے، والدین اور سماجی خوف دلائیں گے۔ آپ کو ایسی صورتحال میں اپنے بچوں کا ساتھ دینا ہو گا۔یاد رکھیں کہ شرم اور بے عزتی وہ سب سے اہم وجہ ہے جن کے سبب آن لائن جنسی استحصال کے شکار بچے مدد نہیں لے پاتے۔ لیکن یہ واضح ہے کہ ایسی صورتحال میں بچے نہیں بلکہ اصل مجرم تو وہ لوگ ہیں جنہوں نے بچوں کی مرضی کے بغیر ان کی تصاویر انٹرنیٹ پر ڈالیں اور پھر دھمکیاں دیں۔ ہمیں اپنے بچوں کی حفاظت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔