ابراہیم جلیس:افسانہ و مزاح نگاری کا منفرد نام
ابراہیم جلیس ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہیں قدرت نے اتنی صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے کہ وہ صرف ایک شعبے ہی نہیں بلکہ کئی دوسرے شعبوں میں بھی اپنے فن کے جوہر دکھاتے ہیں۔ ابراہیم جلیس کی ادبی اور صحافتی خدمات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ ابراہیم جلیس کا اصل نام ابراہیم حسین تھا۔ وہ 22اگست 1924ء کو بنگلور (بھارت) میں پیدا ہوئے۔قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان پاکستان آ گیا۔ انہوں نے 1940ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ انہوں نے پہلی نوکری بھارت میں سول سپلائی ڈیپارٹمنٹ میں کی لیکن جلد ہی انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور مقامی اخبارات اور جرائد کیلئے لکھنے لگے۔ 1941ء میں ان کا افسانہ ''رشتہ‘‘ دہلی کے جریدے''ساقی‘‘ میں شائع ہوا۔ انہوں نے ممبئی میں ''مووی کیپٹل انڈیا‘‘ میں قسمت آزمائی کی اور وہ مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کے ہاں ٹھہرے تھے۔
1946ء میں وہ لاہور سے شائع ہونے والے بچوں کے جریدے''ساتھی‘‘سے وابستہ ہو گئے۔ اس کے بعد روزنامہ''امروز‘‘ میں کام کیا۔ یہاں احمد ندیم قاسمی اور ابن انشا ان کے رفقائے کار تھے۔ 1951ء میں انہوں نے چین کا دورہ کیا اور واپس آکر ''نئی دیوارِ چین‘‘ کے نام سے سفر نامہ لکھا۔1955ء میں ابراہیم جلیس کراچی چلے گئے ،وہاں کے مقامی جریدے میں ان کا کالم ''وغیرہ وغیرہ‘‘ شائع ہوتا تھا۔ 1976ء میں ابراہیم جلیس نے پیپلزپارٹی کے ترجمان اخبار میں مدیر کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ پھر انہوں نے اپنا ہفت روزہ ''عوامی عدالت‘‘ شروع کیا۔ ابراہیم جلیس نے کچھ فلموں کے سکرپٹ اور مکالمے بھی لکھے جن میں ''تہذیب‘‘ اور ''احساس‘‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ یہ دونوں فلمیں سپرہٹ ہوئیں۔
جب اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ سنجیدہ ادب تخلیق کرنے والا ایک ادیب مزاحیہ ادب کیسے تخلیق کر سکتا ہے؟ یہ اس حقیقت کا غماز ہے کہ ایک تخلیق کار کے فن کی ایک سے زیادہ جہتیں ہو سکتی ہیں اور وہ بڑی کامیابی سے تمام جہتوں میں اپنے فن کے نقوش چھوڑ سکتا ہے۔
انہیں اپنے ایک افسانے کی اشاعت پر پابند سلاسل بھی ہونا پڑا۔اپنی کتاب ''جیل کے دن جیل کی راتیں‘‘ میں انہوں نے اپنی زندگی کے تجربات کو بیان کیا ہے کہ کس طرح انہیں ان کی ''ترقی پسندی‘‘ کی سزا دی گئی۔ اگرچہ ابراہیم جلیس کو 1944ء میں شائع ہونے والے ان کے افسانوں کی کتاب ''زرد چہرے‘‘ سے شہرت مل چکی تھی لیکن پھر ''چالیس کروڑ بھکاری‘‘ نے ان کی مقبولیت میں بہت اضافہ کیا۔
ابراہیم جلیس کی نثر بڑی اثر انگیز تھی جو دل کے تاروں کو چھو لیتی تھی۔انہوں نے بے شمار لوگوں کو اپنی تصنیفات سے متاثر کیا۔ آج بھی ان کے بے شمار قدر دان موجود ہیں۔ وہ نئے لکھنے والوں کیلئے ایک مثال ہیں لیکن ان لکھنے والوں کیلئے جو صداقت کی شمعیں جلانا چاہتے ہیں۔
26اکتوبر 1977ء کو یہ بے مثل افسانہ نگار اور ناول نگار کراچی میں انتقال کر گیا۔ ان کی وفات کے بعد1989ء میں انہیں'' تمغۂ حسن کارکردگی‘‘ دیا گیا۔ ابراہیم جلیس کی داستان زیست اس لحاظ سے قابل رشک ہے کہ انہوں نے حق و صداقت کے چراغ جلائے اور نہ صرف ادب بلکہ صحافت کو بھی نئی بلندیاں عطا کیں۔ ان کا نام زندہ رہے گا۔
بیگم کھال میں رہو
ایک کلرک کی نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ جاڑوں کا زمانہ تھا۔ دلہن نے شوہر سے فرمائش کی کہ مجھے ایک فرکوٹ خرید دو۔ بیوی نئی نئی تھی اور وہ اتفاق سے تنخواہ کا بھی دن تھا۔ شوہر فرمائش کو ٹال نہ سکا۔ وہ بازار میں فرکوٹ کی دکان پر پہنچے۔ بیوی نے کسی جانور کی کھال کا ایک کوٹ پسند کیا۔ کوٹ کے دام ایک سو چالیس روپے اور شوہر کی تنخواہ ایک سو پچاس روپے!لیکن شوہر کے وقار کا سوال تھا اس لئے اس نے انکار نہ کیا۔ دام ادا کرکے کوٹ خرید لیا۔
بیوی نے خوش ہوکر کہا، ''اجی، تم کتنے اچھے ہو۔ لیکن نہ جانے کیوں مجھے اس وقت اس جانور پر بھی افسوس ہو رہا ہے جس کی اس کوٹ کیلئے کھال کھینچی گئی‘‘۔شوہر نے ایک ٹھنڈی آہ بھرکر کہا، ''اس ہمدردی کیلئے میں تمہارا شکر گزار ہوں‘‘ ۔شوہر نے اپنی بیوی کا شکریہ تو ادا کر دیا لیکن بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ ہم اس شوہر کو بڑا خوش قسمت سمجھتے ہیں کہ قدرت نے اسے ایسی بیوی دی ہے جو جانور یا شوہر یا پھر دونوں کی ''کھال کھینچنے‘‘ پر اظہار افسوس تو کرتی ہے۔ ہمارے آپ کی بیویاں تو اتنی زبانی ہمدردی کا اظہار بھی نہیں کرتیں!
اپنی بیویوں کی طرف ذرا آنکھ اٹھاکر تو دیکھئے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے انھیں ''دباغت‘‘ کے سوائے اور کوئی کام آتا ہی نہیں ہے جس بیوی کو دیکھو وہ شوہر کی کھال کھینچنے میں مصروف ہے۔ روز یہ لاؤ،وہ لاؤ۔ اگر ''یہ وہ‘‘ نہ لاؤ تو بس بیٹھی ''بال کی کھال‘‘ نکالنا شروع کردیتی ہیں۔ اجی میرے ابا کو میری امّاں نے بڑا منع کیا تھا کہ ''ان‘‘ سے میرا بیاہ نہ کرو۔ قلاش اور پھکڑ لوگ ہیں، تمہاری بیٹی ہمیشہ ان کے گھر میں بھوکی ننگی رہے گی۔ مفلسی بیٹا کی ''کھال‘‘ ادھیڑ کررکھ دے گی۔ لیکن ابّا جی آدمی بڑے ضدی تھے۔ وہ کہتے تھے کہ لڑکے کی صرف خاندانی شرافت دیکھنی چاہیئے۔ ''کھال دیکھنی چاہیئے۔ مال نہیں دیکھنا چاہیئے۔‘‘ (اقتباس)
تصنیفات
٭...چالیس کروڑ بھکاری
٭...جیل کے دن جیل کی راتیں
٭...نیکی کر تھانے جا، ہنسے اور پھنسے
٭...زرد چہرے کالا چور
٭...نئی دیوار چین ٭...رشتہ
٭...چور بازار(ناول)٭... الٹی قبر