عرب دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ نما

عرب دنیا کا سب سے بڑا جزیرہ نما

اسپیشل فیچر

تحریر : خاورنیازی


شاید بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جنہیں ''جزیرہ‘‘ اور ''جزیرہ نما‘‘ کا فرق پتہ نہ ہو۔ بہرحال آپ کی یاد کو تازہ کرنے کیلئے بتاتے چلیں کہ جزیرہ چاروں طرف پانی سے گھرا قطعۂ زمین ہوتا ہے جبکہ جزیرہ نما، تین اطرف پانی سے گھرا ہوتا ہے جبکہ چوتھی طرف خشکی ہوتی ہے۔
کرۂ ارض پر سب سے بڑا جزیرہ نما ''خطہ عرب‘‘ ہے جسے ایک زمانے میں جزیرہ العرب یا عربستان بھی کہا جاتا رہا ہے۔یہ جزیرہ نما تین براعظموں یورپ ، افریقہ اور ایشیاء کے سنگم پر واقع ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ جزیرہ نما ان خطوں سے خشکی اور سمندری دونوں راستوں سے جڑا ہوا ہے۔اس جزیرہ نما کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا کل رقبہ تقریباً 31 لاکھ مربع کلومیٹر بنتا ہے جو بالحاظ ہجم براعظم یورپ کے کل رقبے کے ایک تہائی کے برابر ہے۔ اس کے مغرب میں بحر احمر، مشرق میں خلیج عربی خلیج فارس اور جنوب میں بحیرہ عرب واقع ہیں۔ اگر آپ جزیرہ نما عرب کے نقشے پر نظر دوڑائیں تو یہ ایک بے ترتیب مستطیل کی شکل نظر آئے گا۔ جس کے شمالی حصے میں سر زمین فلسطین، شام کا صحرائی علاقہ اور عراق کے کچھ علاقے نظر آئیں گے جبکہ اس کے مشرقی اطراف دریائے دجلہ اور فرات کے درمیان وادی میسوپیٹیما اور خلیج فارس کے کچھ علاقے نظر آتے ہیں۔اسی طرح اس کے جنوبی حصے میں بحیرہ ہند اور خلیج عدن واقع ہیں۔
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےﷺ کی بعثت کے وقت عرب کے شمال مغرب میں سلطنت روم کی حدودملتی تھیں ، جبکہ شمال مشرق میں سلطنت فارس اور عرب کے مشرق میں الحیرہ کی بادشاہت قائم تھی۔ اگر بات دنیا کے موجودہ نقشے کی، کی جائے تو جزیرہ نما عرب کو ایک عظیم صحرائی پٹی کا ایک ایسا حصہ سمجھا جاتا ہے جو بحیرہ اوقیانوس سے شمال مغربی افریقہ کے ساحل کے قریب سے ہوتے ہوئے جنوب مغربی ہندوستان کے صحرائے تھر تک پھیلا ہوا ہے۔
جغرافیائی صورت حال
زمانۂ قدیم میں لوگ مکہ مکرمہ کو ''ناف ارض‘‘ یعنی زمین کا مرکز کہا کرتے تھے۔یہ لقب بلا سبب نہیں تھا بلکہ خطۂ عرب کو اپنے محل وقوع اور تجارتی اعتبار سے بھی مرکزیت حاصل تھی۔
جغرافیائی لحاظ سے جزیرہ نما عرب اور صحرائے شام ایک ہی سلسلے کی ایک ایسی کڑی دکھائی دیتے ہیں جو شمال میں بغیر کسی سرحدی لکیر کے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ البتہ ان دونوں خطوں کے درمیان یہاں ایک تصوراتی لکیر مغرب میں خلیج عقبہ سے مشرق میں وادی دجلہ وفرات تک ہے ، جسے عرب کی شمالی سرحد سمجھا جاتا ہے جبکہ صدیوں سے یہاں آباد لوگ سعودی عرب اور کویت کی شمالی سرحدوں کو بھی عرب کہ حد سمجھتے ہیں۔
ارضیاتی علوم اور ماہرین آثارقدیمہ کہتے ہیں جزیرہ نما عرب، دراصل جنوب مغربی ایشیا کی ایک ارضیاتی تشکیل ہے، قدیم جوراسک دور (145.5ملین سال سے199.6 ملین سال قبل کا دور) میں ہی بحر ہند کے گہرے سمندر اور خلیج فارس کی۔پٹی نے عرب کو خطۂ ہند اور خطۂ فارس سے جدا کر کے ایک جزیرہ نما کی شکل دے دی تھی۔اس دور کی پہاڑی تشکیل آج بھی عمان کی ساحلی پٹی پر موجود ہے۔
تہذیب و تمدن
جزیرہ نما عرب بنیادی طور پر ایک وسیع و عریض صحرا، لق و دق اور بے آب و گیاہ ریتلے چٹیل میدانوں،پہاڑوں اور بیابانوں پر مشتمل ایک تہذیب کا نام تھا۔ جس میں آپ کو کہیں کہیں بہت کم سرسبز و شاداب لہلہاتے کھیت جبکہ مغربی اور جنوبی سمت بلند و بالا پہاڑی سلسلے بھی سر اٹھائے نظر آتے ہیں۔یہ خطہ دنیا بھر میں اپنے گرم ترین درجۂ حرارت کی الگ ہی شہرت رکھتا تھا کیونکہ حد نگاہ ہزاروں میل پھیلے ریت کے صحرائی سلسلے کے علاوہ یہاں کچھ نظر نہیں آتا تھا ۔مورخین کے مطابق شاید یہاں کا سخت اور خشک موسم اور آب وہوا کی وجہ سے عربوں کے علاوہ یہاں باہر سے کوئی اور آ کر آباد ہونا پسند ہی نہیں کرتا تھا۔ ابتدائی ادوار میں یہاں کے لوگ صحرائی خانہ بدوش کہلاتے تھے۔جس کی وجہ سے کبھی کسی ریاست نے عرب کے ان صحرائی لوگوں پر زیادہ توجہ ہی نہیں دی۔دوسری وجہ یہ بھی تھی کہ یہاں غربت نے بھی پنجے گاڑھے ہوئے تھے،جس کی وجہ سے یہاں ترقی اور خواندگی کا نام و نشان تک نہ تھا۔
اس خطے میں یہی وہ پراسرار صحرا ہیں جہاں ان کی خاک تلے ہزاروں سالوں سے اپنے وقتوں کی شاندار تہذیبیں دفن ہی نہیں بلکہ دنیا کیلئے نشان عبرت بن چکی ہیں۔جن میں عرب بائدہ کے قبائل(قدیم ترین عرب قبائل )، عاد ، ثمود ، طسم، جدیس، عمالقہ اور جرہم جیسی بڑی قومیں شامل ہیں جنہیں گردش دوراں نے نیست و نابود کر ڈالا تھا۔
مورخین کے مطابق یہ ایک حقیقت ہے کہ اسلام سے پہلے کی عرب تہذیب و تمدن نے انسانی تہذیب کی ترقی اور نشوونما میں کوئی کردار ادا نہیں کیا تھا۔اس کے مقابلے میں اس زمانے میں یونان کی تہذیب انسانی اقدار کی نشوونما میں اہم کردار ادا کررہی تھی۔
مورخین اس حقیقت پر بھی متفق ہیں کہ اسلام سے پہلے عرب میں جہالت کا دور دورہ تھا۔ عرب کلچر اور ثقافت کو جہالت کی دنیا سے نکالنے میں اسلام کا کردار مرکزی حیثیت رکھتا ہے ۔دراصل اسلام سے پہلے کے عرب میں قبائلی سماج تھا ، ہر قبیلے کا اپنا بت تھا اور ہر قبیلہ اپنے اپنے بتوں کی پوجا کیا کرتا تھا۔جہالت کا یہ عالم تھا کہ ہر قبیلہ اکثر دوسرے قبیلے سے برسر پیکار رہتا تھا جس کی وجہ سے ان قبائل میں اتحاد یا اتفاق کا تصور نہ ہونے کے سبب یہ علاقہ ایک لمبے عرصے تک مکمل ریاست کی شکل اختیار نہ کر سکا۔
خطہ عرب میں تجارت کی شروعات
رفتہ رفتہ عربوں نے تجارت کو رواج دیا اور پھر تجارت ہی اس خطے کا سب سے بڑا ذریعۂ معاش بن گیا۔ قدیم عرب قبائل خشک اور بے آب و گیاہ صحرا کے باسی تھے اس لئے وہ محدود معاشی اور تجارتی وسائل رکھتے تھے۔جس کیلئے انہیں دور دراز علاقوں کا سفر اختیار کرنا پڑتا تھا۔ عربوں کے بارے مشہور ہے کہ یہ تجارت کیلئے کرہ ٔارض کے ہر اس حصے تک گئے جہاں تک ان کی رسائی ممکن ہو سکتی تھی۔یہ زمینی اور بحری دونوں راستوں سے سفر کیا کرتے تھے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ بحرہ روم کی بحری تجارت مکمل طور پر عربوں کے ہاتھ میں تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کی تجارت چین ، سری لنکا ، ہندوستان ، مصر ، یونان اور افریقہ تک پھیل چکی تھی۔
قدیم زمانے کے حوالے سے تاریخ کی کتابوں میں عربوں کی تجارت کا ذکر متعدد جگہوں پر ملتا ہے۔ عربوں کی تجارت کا سراغ حضرت عیسی علیہ السلام کے دور سے بھی پہلے کے ادوار میں ملتا ہے۔ایک قدیم روایت کے مطابق 2096 قبل مسیح میں جن تاجروں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے بھائیوں سے خرید کر مصر کے رئیس کے ہاتھ فروخت کیا تھا وہ عرب کے اسماعیلی قبائل کے تاجروں کا قافلہ تھا جن کا تعلق مدین سے تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
نزلہ اور زکام کے وائرس کی زندگی!

نزلہ اور زکام کے وائرس کی زندگی!

دسمبر کے آخری دنوں میں شروع ہونے والی سخت سردی نے کم و بیش پورے ملک کو تاحال لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ اس موسم میں سب سے بڑا حملہ نزلہ(فلو)، زکام(کولڈ) اور سانس کی بیماریوں کا ہوتا ہے۔ مختلف طرح کے وائرس کیلئے یہ ''اچھا‘‘ موسم ہوتا ہے اور یہ مختلف طریقوں سے ایک سے دوسرے انسان میں داخل ہو کر وبائی بیماریاں پھیلاتے ہیں۔ یہ اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ عام آنکھ انہیں دیکھ نہیں پاتی لہٰذا ان کی تفصیلات جاننے کیلئے ہمیں خوردبین جیسے آلات اور ماہرین پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔بہرحال ذرائع ابلاغ اور نصاب سے ملنے والی معلومات سے بیشتر افراد جانتے ہیں کہ وائرس طرح طرح کی بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ زکام اور نزلہ میں فرقکئی بار یوں ہوتا ہے کہ صبح سویرے اٹھتے ہی آپ کا واسطہ اپنی بہتی ناک اور جسمانی درد سے پڑتا ہے۔آپ کو زکام ہے یا نزلہ؟ اس سوال کا جواب پانے کیلئے ان دونوں کے مابین فرق جاننا اہم ہے۔ نزلے کی نسبت زکام نظامِ تنفس کا چھوٹا مرض ہے۔ زکام سے آپ چند دن برا محسوس کرتے ہیں، البتہ نزلے سے آپ چند دنوں تک خاصے بیمار رہتے ہیں۔ نزلے سے صحت کے سنجیدہ مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں جن میں نمونیا شامل ہے۔ زکام کی درجہ بدرجہ نمو کچھ یوں ہوتی ہے۔ عموماً آغاز گلے کی سوزش سے ہوتا ہے جو ایک یا دو دنوں میں دور ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ناک سے منسلک علامات ظاہر ہوتی ہیں جن میں ناک کا بہنا اور اس میں رکاوٹ شامل ہیں۔ چوتھے یا پانچویں دن کھانسی ہوسکتی ہے۔ زکام کی صورت میں بالغوں کی نسبت بچوں میں بخار ہونے کا امکان خاصا زیادہ ہوتا ہے۔ زکام میں ناک سے ابتدا میں پانی جیسا مواد بہتا ہے جو بعد میں سخت ہو جاتا ہے۔ زکام میں ہلکی تھکاوٹ بھی ہوتی ہے۔نزلے کی علاماتنزلے کی علامات زکام سے نہ صرف شدید ہوتی ہیں بلکہ زیادہ تیزی سے لپیٹ میں لیتی ہیں۔ اس میں گلے کی سوزش، بخار، سر درد، پٹھوں میں درد اور ٹیسیں، ناک کی نالی میں رکاوٹ، شدید تھکاوٹ اور کھانسی شامل ہیں۔ سوائن فلو کی علامات میں قے اور اسہال بھی شامل ہیں۔ نزلے کی بیشتر علامات دو سے پانچ دنوں میں درجہ بدرجہ شدید ہوتی ہیں لیکن عموماً ایک ہفتے سے کم وقت میں ان میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ پیچیدگی کی صورت میں بالخصوص بچوں اور بوڑھوں کو نمونیا ہو سکتا ہے۔ یہ مسئلہ پھیپھڑوں اور دل کی بیماریوں میں مبتلا افراد کونسبتاً جلدہوتا ہے۔ نزلہ اور زکام دونوں کے وائرس بیمار فرد کے نظام تنفس سے نکلنے والے چھوٹے چھوٹے قطروں میں باہر نکلتے ہیں۔یہ دوسرے فرد کے جسم میں ناک کی بلغمی جھلی، آنکھوں اورمنہ سے داخل ہوتے ہیں۔ آپ جب بھی اپنا ہاتھ ان مقام پر لگاتے ہیں جہاں بیمار فرد نے اپنے وائرس چھوڑے ہوں تو یہ آپ کو لگ جاتے ہیں اور پھر آپ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ہاتھوں کو صاف رکھنا بہت اہم ہے۔ ان کی منتقلی کو روکنے کے لیے یہ جاننا بھی اہم ہے یہ کتنی دیر زندہ رہتے ہیں۔ ہم روزانہ بہت سی ایسی چیزوں کو چھوتے ہیں جن پر وائرس پائے جاتے ہیں۔ یہ موبائل فون، دروازے کا ہینڈل یا کرسی پر ہو سکتے ہیں۔ یہ فضا میں کسی کی سانسوں سے نکل کر آپ میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ وائرس باہر کتنی دیر زندہ رہ سکتے ہیں۔ اس کا انحصار بنیادی طور پر تین عوامل پر ہوتا ہے، وائرس کس قسم کے ہیں، وہ کس جگہ یا چیز پر ہیں اور ان کے اردگرد کا ماحول کیسا ہے، مثلاً وہ گرم ہے، سرد ہے، نمدارہے یا سورج کی تمازت والا ہے۔ زکام کے وائرسزکام پیدا کرنے والے وائرس مختلف طرح کے ہوتے ہیں۔ یہ وائرس بعض اوقات کسی عمارت میں یعنی اِن ڈور ایک ہفتے سے زیادہ زندہ رہ سکتے ہیں۔ عام طور پر وائرس بے مسام چیزوںپر، جن میں سے پانی نہیں گزرتا، زیادہ عرصہ زندہ رہتے ہیں۔ ان میں سٹین لس سٹیل اور پلاسٹک شامل ہیں۔ مساموں والی چیزوں مثلاً دھاگے سے بنی چیزوں پر ان کی زندگی نسبتاً مختصر ہوتی ہے۔ کسی سطح پر زکام کے وائرس اگرچہ کئی دنوں تک زندہ رہ سکتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ان کی بیمار کرنے کی صلاحیت تیزی سے کم ہوتی ہے۔ یہ عموماً 24 گھنٹے سے زیادہ نہیں رہ پاتے۔ زکام پیدا کرنے والے زیادہ تر وائرس ہاتھوں پر مختصر وقت کیلئے زندہ رہتے ہیں۔ بعض کی زندگی تو چند منٹ ہوتی ہے البتہ ''رینووائرس‘‘ جو عام زکام کا سبب بنتے ہیں، ایک گھنٹے بعد بھی ہاتھوں کے ذریعے انفیکشن کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ زکام پیدا کرنے والا ایک اور ''سِن سِشول وائرس‘‘ یا آر ایس وی بچوں کو شدید بیمار کرنے کی استعداد رکھتا ہے اور یہ باورچی خانے کے تختوں اور دروازوں کے ہینڈل وغیرہ پر چھ گھنٹے تک زندہ رہ سکتاہے۔ یہ کپڑوں پر 30 سے 45 منٹ اور جِلد پر 20 منٹ تک زندہ رہ سکتا ہے۔ نزلہ کے وائرس ایک سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہونے اور انفیکشن پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والے نزلہ یا فلو کے وائرس سخت سطح پر 24 گھنٹے زندہ رہ سکتے ہیں۔ انفیکشن پھیلانے والے فلو وائرس بافتوں پر صرف 15 منٹ زندہ رہ سکتے ہیں۔ فضا میں معلق ننھے منے قطروں میں یہ کئی گھنٹے زندہ رہ سکتے ہیں، جب درجۂ حرارت کم ہوتا ہے تو فضا میں ان کی بقا طویل ہو جاتی ہے۔ بچوں میں کروپ کھانسی، جس میں کھانسی اور سانس لینے کے ساتھ آواز آتی ہے، کا سبب بننے والا پارین فلوئنزا وائرس سخت سطح پر 10 گھنٹے اور نرم سطح پر چار گھنٹے زندہ رہ سکتے ہیں۔  

آکٹوپس تین دل ، نیلے خون اور آٹھ ٹانگوں والا جانور

آکٹوپس تین دل ، نیلے خون اور آٹھ ٹانگوں والا جانور

ہمارا یہ کرہ ارض اس قدر وسیع و عریض ہے کہ اس میں بسنے والی مخلوقات کا مکمل شمار ممکن ہی نہیں۔یہ کرہ عمومی طور پر خشکی اور بحری طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے۔ خشکی کا حصہ 30فیصد جبکہ باقی 70 فیصد کو پانی نے گھیرا ہوا ہے۔ اگرچہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کر لی ہے لیکن سائنس دان خشکی پر بسنے والی مخلوق جس میں انسانوں کے علاوہ کیڑے مکوڑے اور چرند پرند وغیرہ شامل ہیں، کی گنتی کا صحیح اندازہ لگانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں جبکہ باقی70 فیصد حصہ جو سمندروں پر مشتمل ہے اس بارے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک اس کے صرف 5 فیصد رازوں بارے کامیابی حاصل کر سکے ہیں۔سمندروں میں کس قدر مخلوق بستی ہے انسان اس بارے ابھی بہت حد تک لاعلم ہے۔ دنیا بھر کے ماہرین اور سائنس دان حشرات الارض اور اس سے جڑی دوسری مخلوقات بارے دن رات کھوج لگانے میں لگے رہتے ہیں اس لئے ہر روز دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں کسی نئی مخلوق کے وجود کا ظہور ہورہا ہوتا ہے۔ لیکن آکٹوپس کرہ ارض کے ان چند آبی جانداروں میں سے ایک ہے جس کے بارے عالمی طور پر سب سے زیادہ تحقیق کی گئی ہے۔ آکٹوپس کب وجود میں آئے؟ یونیورسٹی آف برسٹل کے پروفیسر ڈاکٹر جیکب ونتھر کہتے ہیں ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسانوں اور آکٹوپس کے اجداد کے آثار 56 کروڑ سال پہلے موجود تھے۔ اسی طرح کی ایک تحقیق آسٹریلیا کی سڈنی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر گاڈ فرے سمتھ نے کی ہے،وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اور آکٹوپس کے مشترکہ آخری اجداد 60 کروڑ سال پہلے تک رہتے تھے‘‘۔ماہرین ارضیات بنیادی طور پر قدیم ادوار کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ، ان میں '' جراسک دور‘‘ چھ کروڑ پچاس لاکھ سال قبل تک قائم رہا۔ ماہرین کے مطابق اس دور میں ڈائنو سار اور آکٹوپس اور اس قبیل کے دوسرے جانور عروج پر تھے۔ ان تحقیقات کے بعد اس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ آکٹوپس اس روئے زمین کی سب سے قدیم مخلوق میں سے ایک تھے۔عادات و اطوار سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 50 کروڑ سے 60 کروڑ سال پہلے وجود میں آنے والا جانور آکٹوپس، زمین کے اوّلین ذہین ترین جانوروں میں سے ایک تھا۔ آکٹوپس میں ایک خاصا بڑا دماغ پایا جاتا ہے جس میں نصف ارب دماغی خلیات ( نیورونز ) پائے جاتے ہیں۔ انسانوں ،کتوں اور دیگر جانوروں کے برعکس سب سے زیادہ دماغی خلیات ان کے بازوں میں پائے جاتے ہیں۔آکٹوپس میں موقع محل اور ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی زبردست صلاحیت پائی جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آکٹوپس کا شمار اس کرہ ارض کے انوکھے اور پیچیدہ ترین جانوروں میں ہوتا ہے۔ انوکھے یوں کہ اس جانور کی آٹھ ٹانگیں ، تین دل اور ان کے خون کا رنگ کا نیلا ہوتا ہے۔ چنانچہ آٹھ ٹانگوں کی وجہ سے یہ عرف عام میں ''ہشت پا‘‘ بھی کہلاتا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ اس کا شمار غیر فقاری جانوروں میں ہوتا ہے یعنی ان کے جسم میں کوئی ہڈی نہیں ہوتی۔ جسم میں ہڈی نہ ہونے کے سبب یہ اپنے آپ کو کسی بھی سانچے میں ڈھالنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتا ہے۔ آکٹوپس دوسرے ہم عصر اور ہم نسل جانوروں کی نسبت زیادہ ہوشیار اور متحرک ہوتے ہیں۔عمومی طور پر آکٹوپس سیاہ ، نارنجی ، مٹیالے اور بھوری رنگت والے ہوتے ہیں لیکن قدرت نے ان کی بعض اقسام کو بوقت ضرورت کئی کئی رنگ تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی عطا کر رکھی ہے۔ آکٹوپس کی نیلے رنگ کی ایک نایاب نسل کا سراغ بھی ملا ہے جو انتہائی زہریلا ہوتا ہے ، جس کے کاٹنے سے انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔اس نسل کاسراغ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے کچھ علاقوں میں ملا ہے۔ آکٹوپس گوشت خور جانور ہے، انہیں زندہ رہنے کیلئے دن میں دو سے تین مرتبہ کھانا درکار ہوتا ہے۔ مچھلی، کیکڑے، جھینگے اور دیگر چھوٹے آبی جانور ان کی عمومی خوراک کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ بڑے پیچیدہ دماغ کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کی ذہانت میں اب کوئی دو رائے نہیں ہے کیونکہ جدید سائنس میں یہ ثابت ہو چکا ہے۔ یہ اپنے دفاع کیلئے سیپیاں اور کھوپرے کا خول استعمال کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ جب انہیں ایکوریم میں قید کیا گیا تو سائنس دانوں نے نوٹ کیا کہ یہ اپنی ذہانت کی وجہ سے اپنا راستہ نکال کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ بعض اوقات تو یہ جالوں میں اپنے لئے رکھی گئی خوراک کو بھی لے اڑتے دیکھے گئے۔ بطور خوراک تیزی سے بڑھتا رجحان دنیا بھر میں آکٹوپس کے بطور خوراک تیزی سے بڑھتے رجحان کو ماہرین ماحولیات نے جہاں ایک طرف اس کی نسل کشی سے تعبیر کیا ہے، وہیں اسے ایک ظالمانہ فعل بھی قرار دیا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایشیا سے لے کر امریکہ تک آکٹوپس کے بطور خوراک استعمال کی مانگ میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔جنوبی کوریا میں پچھلے چند سالوں سے زندہ آکٹوپس کھانے کا رجحان تیزی سے بڑھتا دیکھا گیا ہے۔ جس کے باعث دنیا بھر میں سالانہ ساڑھے تین لاکھ ٹن آکٹوپس کا شکار کیا جاتا ہے جو پچھلی سات دہائیوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ تعداد ہے۔ اس کے شکار سے جہاں دن بدن آکٹوپس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں دوسری طرف ان کی قیمتوں میں اضافے سے غیر قانونی شکار کے رجحان میں تیزی بھی دیکھی جا رہی ہے۔ عالمی طور پر آکٹوپس کی بڑھتی مانگ اور سمندروں میں کم ہوتی ان کی تعداد کے سبب اب دنیا بھر میں ان کی مصنوعی افزائش کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔اگرچہ ان کا لاروا زندہ چیزیں کھاتا ہے اور ایک مخصوص ماحول میں پرورش پا سکتا ہے لیکن میکسیکو ، آسٹریلیا ، جاپان اور سپین بین الاقوامی طلب پورا کرنے کیلئے دن رات ان کی افزائش میں اضافے کیلئے کوشاں ہیں۔

آج کا دن

آج کا دن

برج خلیفہ کا افتتاح4جنوری2010ء کو دبئی میں قائم دنیا کی سب سے بلند عمارت برج خلیفہ کا افتتاح کیا گیا اور اسے عام عوام کے لئے کھول دیا گیا۔افتتاح سے قبل اسے برج دبئی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔اس کی اونچائی 829.8میٹر ہے۔اس کی تعمیر کا آغاز2004ء میں ہوا اور بیرونی حصہ پانچ سال بعد2009ء میں مکمل ہوا۔اس کا بنیادی ڈھانچہ مضبوط کنکریٹ کا ہے اور عمارت کا کچھ حصہ سٹیل سے بھی تعمیر کیا گیا ہے۔برج خلیفہ کو تعمیر کرنے کا مقصد دبئی کو بین الاقوامی شناخت فراہم کرنا تھا تاکہ دنیا بھر کے سیاح اس عمارت کو دیکھنے کے لئے دبئی کا رخ کریں۔سکھر ٹرین حادثہسکھر ریل حادثہ 4 جنوری 1990ء کو صوبہ سندھ میں سکھر کے قریب سانگی گاؤں میں پیش آیا۔ اس خوفناک حادثے میں 307 لوگ جاں بحق ہوئے۔ اس حادثے کو پاکستان کا تاریخ کا بدتریں ٹرین حادثہ سمجھا جاتا ہے۔بہاؤالدین زکریا ایکسپریس ملتان سے کراچی کیلئے سفر کر رہی تھی۔اس کا سفر800کلومیٹر طویل تھا اور ٹرین میں کل1408افراد کی گنجائش موجود تھی جبکہ ٹرین میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار تھے۔ٹرین کے ساتھ 16بوگیوں کو منسلک کیا گیا تھا۔ اسے سکھر کے قریب سانگی گاؤں سے سیدھا گزرنا تھا لیکن غلط طریقے سے سیٹ کئے گئے ریل پوائنٹس کی وجہ سے یہ ایک سائیڈ پر چلی گئی جہاں پر پہلے سے 55کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہوئے مال بردار ٹرین سے ٹکرا گئی۔اس حادثے میں بہاؤالدین زکریا کی اگلی تین بوگیاں مکمل طورپر تباہ ہو گئی تھیں۔جبکہ دیگر دو کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا۔اس حادثے میں تقریباً700افراد شدید زخمی بھی ہوئے۔تحقیقات میں ریلوے کا عملہ ذمہ دار پایا گیا۔ سانگی سٹیشن پر ڈیوٹی پر موجود عملے پر قتل عام کا الزام عائد کیا گیا۔سپرٹ روور''سپرٹ‘‘ جسے MER-1 یا MER-2 بھی کہا جاتا ہے ایک مریخ روبوٹک روور تھا جو 2004ء سے2010ء تک فعال رہا۔''سپرٹ روور مریخ پر6سال77دن تک کام کرتا رہا۔یہ جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے زیر اہتمام ناسا کے مارس ایکسپلوریشن مشن کا ہی ایک حصہ تھا۔سپرٹ روور4جنوری2004ء کو مریخ کی سطح پر کامیابی کے ساتھ اترا۔اس خلائی جہاز کا نام امریکی خلائی ادارے ناسا کے زیر اہتمام طلبہ کے مضمون نویسی کے مقابلے کے ذریعے رکھا گیا۔یہ روور2009ء میں ایک ریت کے ڈھیر میں پھنس گیا جس کی وجہ سے اس کی بیٹری چارجنگ میں بہت مشکلات پیش آئیں۔ زمین پر موجود کنٹرول روم کے ساتھ اس کا آخری رابطہ 22 مارچ2010ء کو ہوا لیکن اس وقت تک یہ اپنا مشن مکمل کر چکا تھا۔ اس نے ناسا کے منصوبہ سازوں کی توقع سے کئی گنا زیادہ مؤثر انداز میں کام کیا۔ٹرپل الائنسٹرپل الائنس ایک دفاعی معاہدہ تھا جس پر 4 جنوری 1717ء کو ڈچ ریپبلک، فرانس اور برطانیہ کے درمیان بوربن سپین کے خلاف دستخط کئے گئے تاکہ1713ء سے1715ء تک ہونے والے امن کے یوٹریکٹ معاہدے کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جاسکے۔تینوں ریاستوں کو سپین کے یورپ میں سپر پاور بننے پر تشویش تھی۔ اسی تشویش کے نتیجے میں عسکریت پسندی ہوئی اور شہریوں کو بہت زیادہ تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔اس معاہدے نے سپین اور دیگر یورپی ریاستوں کو بھی مشتعل کیا ۔ یہ معاہدہ اتحاد کے اگلے ہی سال رومی شہنشاہ چارلس ششم کے الحاق کے بعد کواڈرپل الائنس میں تبدیل ہو گیا۔ 

’’ویلکم 2025ء‘‘نئے سال سے جڑی رسومات

’’ویلکم 2025ء‘‘نئے سال سے جڑی رسومات

سال نو، نیا سال یا نئے سال کا دن، اس دن کو کہا جاتا ہے جس دن کسی تقویم یا کیلنڈر میں نئے سال کا آغاز ہوتا ہے۔ عصر حاضر میں گریگوری کیلنڈر یا انگریزی کیلنڈر عام ہے، اس لیے یہ یکم جنوری کو منایا جاتا ہے۔ دیگر کیلنڈرز میں الگ الگ نئے سال بھی منائے جاتے ہیں۔نئے سال کو لوگ اس ا ُمید پر مناتے ہیں کہ آنے والے دن گزشتہ برس کی نسبت اچھے گزریں گے۔چیننئے سال کی خوشیاں منانے کیلئے ہمارے ہاں جو فضول خرچی ہوتی ہے، اس سے غریب بچوں کیلئے کتابیں خریدی جاسکتی ہیں،کسی کو ایک وقت کا کھانا کھلایا جاسکتا ہے، غربت اور مہنگائی کے اس دور میںکسی سفید پوش فیملی کی مدد کی جاسکتی ہے ۔جو لوگ جشن مناتے ہیں، ان کو یہ معلوم ہی نہیں کہ غربت کس بلا کا نام ہے۔بے شک نئے سال کی خوشی منانی چاہیے ،لیکن یہ یاد رکھیں ایک سال ہماری زندگی سے کم ہوا ہے۔بقول شاعرغافل تجھے گھڑیا ل یہ دیتا ہے منادیگردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹادیدنیا بھر میں نئے سال کی آمد پر ہر جگہ خوشیاں منائی جاتی ہیں تاہم ممالک میں نئے سال کی آمد سے کچھ رسوم و رواج وابستہ یہ رسمیں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بھی ادا کی جاتی ہیں۔نئے سال کو چین میں ''جشن بہاراں‘‘ بھی کہا جاتا ہے جو شمسی اور قمری کلینڈر کے حساب سے ہوتا ہے۔ نئے سال شروع ہوتے ہی چین میں خصوصی تقاریب منعقد کی جاتی ہیں جو جنوری کے آخر اور فروری کے وسط میںشروع ہوتی ہیں۔ خصوصی تقاریب شروع ہوتے ہی چین کے لوگ اپنے گھروں کو صاف کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، جمع ہونے والی گرد کو گھر کے پچھلے دروازے سے باہر پھینکتے ہیں۔برازیلبرازیل میں نئے سال کی پہلی صبح سمندر میں سفید پھول چھوڑے جاتے ہیں، جس کا مقصد فرضی دیوی ''یمانجہ‘‘ کو نئے سال کا تحفہ پیش کرنا ہوتا ہے۔ایسا کرنے والوں کا ماننا ہے کہ نئے سال پر دیوی کو یاد رکھنے سے پورا سال مسائل اور مصیبتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔جنوبی افریقہجنوبی افریقہ میں نئے سال کی آمد ہوتے ہی لوگ پرانے فرنیچر کو گھروں کی کھڑکیوں سے باہر پھینک دیتے ہیں۔ جوہانسبرگ میں بلند و بالا عمارتوں میں رہائش پذیر گھرانے بھی یہی عمل کرتے ہیں، جس کے باعث نیو ائیر کے موقع پر ہر سال سیکٹروں افراد زخمی بھی ہوتے ہیں اور ہرسال پولیس و امدادی اداروں کو طلب کرنا پڑتا ہے۔ڈنمارک ڈنمارک میں نیا سال شروع ہوتے ہی لوگ اپنے گھر کے برتن (پلیٹیں) توڑ کر پڑوسی کے گھر پر پھینکتے ہیں۔ اس کام میں دونوں پڑوسیوں کی رضا مندی بھی شامل ہوتی ہے۔ اس عمل کا مقصد بھی پورے سال مسائل سے بچنا ہوتا ہے۔سپینسپین اور لاطینی امریکا میں 31 دسمبر کی رات کو انگور کھانے کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے اور جیسے ہی یکم جنوری کی تاریخ شروع ہوتی ہے اس کام کو ختم کردیا جاتا ہے۔ ایسا کرنے والے لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ عمل کرنے سے پورے سال خوراک کے حصول میں مدد ملتی ہے۔لاطینی امریکہلاطینی امریکہ کے کئی ممالک میں نئے سال کی آمد ہوتے ہی لوگ رات کو خالی سوٹ کیس گھر کے کونے میں رکھ دیتے ہیں جبکہ بعض افراد خالی سوٹ کیس کو گھروں میں گھماتے بھی ہیں ۔جس کا مقصد نئے سال میں رزق اور سفر کی بہترین مواقع حاصل کرنا ہوتا ہے۔ایکواڈورنیا سال شروع ہوتے ہی لوگ رات کے درمیانی پہر اپنے گھروں سے باہر نکلتے ہیں اور ایک پتلے کو نذآتش کرتے ہیں۔ جس کا مقصد پرانی سال کی تلخ یادوں کا خاتمہ اور نئے سال میں مصیبتوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوتا ہے۔بیلا روسنیا سال شروع ہوتے ہی کنواری لڑکیاں ایک میدان میں دائرے کی صورت میں اپنے سامنے مکئی کے دانے رکھ کر بیٹھ جاتی ہیں پھر اس کے درمیان ایک مرغا چھوڑا جاتا ہے اور وہ جس لڑکی کے سامنے جاکر مکئی چگتا ہے، اسے نئے سال میں دلہن بننے کی ایڈوانس مبارک باد دی جاتی ہے۔رومانیہ رومانیہ میں کرسمس اور نئے سال کی آمد کے درمیان کسی بھی وقت ریچھ کی کھال پہن کر رقص کرنے کی رسم ادا کی جاتی ہے، جس کا مقصد پورے سال نحوست سے محفوظ رہنا ہے۔   

آج کا دن

آج کا دن

اقوام متحدہ کا اعلامیہاقوام متحدہ کا اعلامیہ وہ اہم معاہدہ تھا جس نے دوسری عالمی جنگ کے اتحادیوں کے درمیان رسمی تعلقات کو بحال کیا ۔ 1942ء اور 1945ء کے درمیان 47قومی حکومتوں نے اس پر دستخط کئے۔ یکم جنوری1942ء کو آرکیڈ کانفرنس کے دوران اتحادی''بگ فور‘‘ برطانیہ، ریاستہائے متحدہ امریکہ،روس اور چائنا نے ایک مختصر دستاویز پر دستخط کئے جو بعد میں اقوام متحدہ کے اعلامیے کے نام سے مشہور ہوا۔ ایک روز بعد اس پر دیگر 22 ممالک کے نمائندوں نے اس پر دستخط کئے جن میں آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ بھی شامل تھے۔اقوام متحدہ کا یہ اعلامیہ (UNO) کی بنیاد بن گیا جس پر 26جون1945ء کو 50ممالک نے دستخط کئے۔یورو کرنسی کا آغازیورو کا نام سرکاری طور پر 16 دسمبر 1995ء کو میڈرڈ میں اپنایا گیا تھا۔ یورو کو عالمی مالیاتی منڈیوں میں یکم جنوری 1999ء کو ایک اکاؤنٹنگ کرنسی کے طور پر متعارف کرایا گیا۔ یورو سکے اور بینک نوٹ یکم جنوری 2002ء کو گردش میں آئے، اس کے بعد یہ یورپی یونین اور اس کے ارکان کی روز مرہ آپریٹنگ کرنسی بن گیا اور مارچ 2002ء تک اس نے سابقہ کرنسیوں کو مکمل طور پر تبدیل کر دیا۔ آج یورو کو دنیا کی طاقتور ترین کرنسیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کا قیام ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن (WTO) ایک بین الحکومتی تنظیم ہے جو بین الاقوامی تجارت کو منظم اور سہولت فراہم کرتی ہے۔اقوام متحدہ کے نظام میں مؤثر تعاون کے ساتھ حکومتیں تنظیم کا استعمال بین الاقوامی تجارت کو کنٹرول کرنے والے قوانین کو قائم کرنے،ان پر نظر ثانی کرنے اور ان کو نافذ کرنے کیلئے کرتی ہیں۔ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن نے باضابطہ طورپریکم جنوری1995ء کو اپنے آپریشنز کا آغاز کیا۔ جس کے بعد اس نے 1994ء کے ماراکش معاہدے کے مطابق 1948ء میں قائم ہونے والے ٹیرف اور تجارت کے عمومی معاہدے (GATT) کی جگہ لے لی۔یورپی یونین کی توسیع1995ء میں یورپی یونین کی توسیع کی گئی جس کے نتیجے میں آسٹریا، فن لینڈ اور سویڈن نے یورپی یونین سے الحاق کیا۔یہ یورپی یونین کی چوتھی توسیع تھی اور یہ یکم جنوری 1995ء کو نافذ ہوئی۔یہ تمام ریاستیں یورپی فری ٹریڈ ایسوسی ایشن کی سابقہ رکن ریاستیں تھیں لیکن روایتی طور پر یورپی یونین میں شامل ہونے میں دیگر ممالک کی نسبت زیادہ دلچسپی رکھتی تھیں۔ناروے نے بھی دیگر تینوں ریاستوںکے ساتھ یورپی یونین میں شامل ہونے کیلئے معاہدے پر دستخط کئے لیکن ، 1994ء کے قومی ریفرنڈم میں ناروے کے ووٹروں نے رکنیت کو مسترد کر دیا ۔  

کافی۔۔۔جادوئی مشروب کی سرگزشت

کافی۔۔۔جادوئی مشروب کی سرگزشت

دنیا میں روزانہ دو ارب 25 کروڑ کپ کافی پی جاتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ دنیا میں سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔دنیا کی سماجی تاریخ پر کافی کے انمٹ اثرات ہیں۔ کہیں اس کا تعلق سماجی انقلاب سے ملتا ہے اور کہیں ترک تعلق اور اپنے آپ میں مگن ہونے کے ساتھ۔ یہ دونوں صورتیں اگرچہ متضاد ہیں مگر ان میں ایک طرز مشترک ہے ‘ کافی۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ کافی کی تاریخ کیا ہے اور یہ کن ادوار سے ہوتی ہوئی ہم تک پہنچی ۔ اس تحریر میں ہم اسی کا جائزہ لیں گے اور دنیا میں کافی کی سرگزشت اور روایت کو کھوجنے کی کوشش کریں گے۔کافی کی حقیقت ،ایتھوپیا کا افسانہایتھوپیا کوکافی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ اگر آپ نے کی کافی کی سرگزشت کو گوگل کیا ہے تو آپ کو یہ مشہور کہانی ضرور ملے گی کہ کس طرح ایتھوپیا میں کلدی نامی ایک چرواہے نے 800 عیسوی کے قریب کافی تلاش کی تھی۔کہتے ہیں کہ وہ اپنی بکریوں کے ساتھ تھا کہ اس نے انہیں عجیب و غریب سی حرکتیں کرتے ہوئے دیکھا۔ وہ ایک درخت سے کچھ بیر جیسا پھل کھانے کے بعد توانا اور پرجوش ہو گئی تھیں۔کلدی نے خود بھی ان بیروں کا ذائقہ چکھا توخود بھی توانا محسوس کرنے لگا۔کلدی ان بیروں کو ایک راہب کے پاس لے کرگیا۔راہبوں نیاسے 'شیطان کا کام‘ قرار دے دیااور اُن بیروں کو آگ میں پھینک دیا۔ ایسا کرتے ہوئے بھینی بھینی اور خوش ذائقہ خوشبو آنے لگی تو ان بیروں کو آگ سے نکال کر انگاروں میں کچل دیا گیا۔ راہبوں نے کچلے ہوئے بیروں پر پانی چھڑکا توخوشبو کا احساس مزید زور پکڑ گیا تو راہب اس پانی کا ذائقہ چکھنے پر مجبور ہو گئے۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا کیونکہ یہ سفوف ملا پانی جو دراصل کافی تھا،راہبوں کو رات کی عبادتوں اور دعاؤں کیلئے بیدار رہنے میں مدد دے رہا تھا۔مگریہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایک حیرت انگیز افسانہ ہو کیونکہ کافی کی تاریخ کواورومو/گال(Oromo/Galla)کے خانہ بدوش قبیلے سے بھی ملایا جاتا ہے۔کافی کی تاریخ یمن سے شروع ؟کافی کی روایت میں یمن کے بارے بھی کچھ مشہور کہانیاں ہیں۔ کافی کی ابتدا کے بارے میں یمن کا سب سے مشہور افسانہ ایتھوپیا کی کہانی سے کچھ کچھ ملتا ہے۔وہ اس طرح کہ ایک یمنی صوفی ایتھوپیا کا سفر کر رہا تھا جہاں اسے کچھ بہت متحرک اور پرجوش پرندے دکھائی دیے جو ایک پودے سے پھل کھا رہے تھے۔ سفر کے تھکے ہوئے صوفی نے بھی ان بیروں کو کھانے کافیصلہ کیا اور اسے محسوس ہوا کہ ان سے خاصی توانا ئی ملتی ہے۔تاہم عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ کافی کی پھلیاں اصل میں ایتھوپیا سے یمن برآمد کی گئی تھیں۔ یمنی تاجر کافی کے پودوں کو اپنے وطن لائے اور وہاں ان کی کاشت شروع کی۔جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ کافی کی ابتدا ایتھوپیا میں ہوئی تھی، یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے 15 ویں صدی میں بحیرہ احمر کے پار شمال کی طرف یمن کی جانب اپنا راستہ بنایا اورپھر یہ یمنی علاقے میں بھی اگائی جانے لگی اور 16 ویں صدی تک یہ فارس، مصر، شام اور ترکی تک پہنچ چکی تھی۔یہ مشروب چوکنا رہنے میں مدد کرنے کیلئے اپنی خصوصیات کیلئے بے حد مقبول ہوا، جس سے لوگوں کو روحانی معاملات اور دعا ؤںمیں زیادہ وقت لگانے کی آسانی بھی ملی۔دنیا کا پہلا کافی ہاؤس 1475ء میں قسطنطنیہ(استنبول) میں کھولا گیا تھا۔ کافی روزانہ کے معمول کے طور پر گھر میں اور مہمان نوازی کیلئے پیش کی جانے لگی۔ بیرون ِخانہ لوگوں نے نہ صرف کافی پینے بلکہ گپ شپ، موسیقی ، شطرنج کھیلنے اور اطلاعات حاصل کرنے کیلئے کافی ہاؤسز کا دورہ کرنا شروع کر دیا۔ کافی ہاؤسز تیزی سے معلومات کے تبادلے اور حصول کا مرکز بن گئے۔ انہیں اکثر ''دانشمندوں کے مدرسے‘‘ کہا جاتا تھا۔کافی یورپ کیسے پہنچی ؟پھر کافی کی تاریخ کا رْخ بدلنا شروع ہوا۔دراصل اس مشروب نے یورپی مسافروں میں کافی مقبولیت حاصل کر لی تھی۔17 ویں صدی تک کافی نے یورپ کا راستہ بنا لیا تھا اور پورے یورپی براعظم میں تیزی سے مقبول ہو رہی تھی۔یورپی کافی کی تاریخ اٹلی سے شروع ہوتی ہیجہاں اسے سلطنت ِعثمانیہ سے درآمد کیا گیا تھا۔وینس کے تاجروں نے یورپی علاقوں میں کافی کی وسیع پیمانے پر مقبولیت میں اہم کردار ادا کیا اور 1645ء میں وینس میں پہلا یورپی کافی ہاؤس کھولا گیا۔ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی اور برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے انگلینڈ میں بھی کافی بہت مقبول ہوئی۔ انگلینڈ میں پہلا کافی ہاؤس 1651ء میں آکسفورڈ میں کھولا گیا۔ یہ کافی ہاؤسز صرف مردوں کیلئے ہوا کرتے تھے جہاں وہ کاروبار اور خبروں پر تبادلۂ خیال کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بہت سے کاروباری منصوبے اور آئیڈیاز لندن کے کافی ہاؤسز میں تخلیق ہوئے۔ اس کے بعد فرانس کے بادشاہ لوئس XIV کے دربار میں ترک سفیر سلیمان آغا نے 1669ء میں فرانس میں کافی متعارف کروائی۔ وہاں کافی کو ''جادوئی مشروب‘‘کا نام دیا گیا۔ دو سال بعد، 1671ء میں پاسکل نامی ایک آرمینیائی باشندے نے سینٹ گرمین کے میلے میں کافی کا ڈھابہ کھولا۔ اگلے 30 سالوں میں کافی آسٹریا، جرمنی، سپین اور باقی یورپ میں ثقافتی مشرو ب بن چکی تھی۔ کافی کا بحر اوقیانوس کو عبور کرنا ورجینیا کی کالونی کے بانی کیپٹن جان سمتھ نے 1607 میں جیمز ٹاؤن کے دیگر آباد کاروں کو کافی متعارف کروائی۔ تاہم پہلے اسے خوشدلی سے قبول نہیں کیا گیا اور اس کے مقابلے میں چائے کو ترجیح دی گئی۔1670 میں، ڈوروتی جونز بوسٹن میں کافی فروخت کرنے کا لائسنس حاصل کرنے والی پہلی دکاندار تھیں۔ 1700 کی دہائی کے وسط تک بہت سے شراب خانوں کو بھی کافی ہاؤس کہا جاتا تھا لیکن چائے اب بھی لوگوں کا پسندیدہ مشروب تھی۔ چائے پر زوال اُس وقت آ یا جب برطانیہ کے خلاف بغاوت کی وجہ سے اسے پینا غیر محب وطن ہونے کی علامت سمجھا جانے لگا اور چائے سمندر میں پھینکی جانے لگی۔ اس کے بعد کافی تیزی سے مقبول ہوئی۔''نئی دنیا‘‘ کا گرم مرطوب موسم کافی کی کاشت کیلئے آئیڈئیل خیال کیاگیا اور کافی کے پودے تیزی سے پورے وسطی امریکہ میں پھیل گئے۔امریکہ میں کافی کی پہلی فصل کی چنائی 1726 میں ہوئی۔لاطینی امریکی ممالک میں بھی کافی کی کاشت کیلئے مثالی حالات تھے، جیسا کہ دھوپ اور بارش کا اچھا توازن اور مرطوب درجہ حرارت۔ اٹھارہویں صدی کے وسط تک لاطینی امریکہ کے ممالک جنگلات کو صاف کر کے کافی اگانے والے کچھ سرکردہ ممالک بن گئے۔ آج بھی برازیل دنیا کا سب سے بڑا کافی پروڈیوسر ہے۔(محمد علی تاریخی موضوعات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کے مضامین مختلف جرائد اور ویب سائٹوں پر شائع ہوتے ہیں)