آکٹوپس تین دل ، نیلے خون اور آٹھ ٹانگوں والا جانور
ہمارا یہ کرہ ارض اس قدر وسیع و عریض ہے کہ اس میں بسنے والی مخلوقات کا مکمل شمار ممکن ہی نہیں۔یہ کرہ عمومی طور پر خشکی اور بحری طور پر دو حصوں میں تقسیم ہے۔ خشکی کا حصہ 30فیصد جبکہ باقی 70 فیصد کو پانی نے گھیرا ہوا ہے۔ اگرچہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے بہت ترقی کر لی ہے لیکن سائنس دان خشکی پر بسنے والی مخلوق جس میں انسانوں کے علاوہ کیڑے مکوڑے اور چرند پرند وغیرہ شامل ہیں، کی گنتی کا صحیح اندازہ لگانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے ہیں جبکہ باقی70 فیصد حصہ جو سمندروں پر مشتمل ہے اس بارے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک اس کے صرف 5 فیصد رازوں بارے کامیابی حاصل کر سکے ہیں۔سمندروں میں کس قدر مخلوق بستی ہے انسان اس بارے ابھی بہت حد تک لاعلم ہے۔
دنیا بھر کے ماہرین اور سائنس دان حشرات الارض اور اس سے جڑی دوسری مخلوقات بارے دن رات کھوج لگانے میں لگے رہتے ہیں اس لئے ہر روز دنیا کے کسی نہ کسی کونے میں کسی نئی مخلوق کے وجود کا ظہور ہورہا ہوتا ہے۔ لیکن آکٹوپس کرہ ارض کے ان چند آبی جانداروں میں سے ایک ہے جس کے بارے عالمی طور پر سب سے زیادہ تحقیق کی گئی ہے۔
آکٹوپس کب وجود میں آئے؟
یونیورسٹی آف برسٹل کے پروفیسر ڈاکٹر جیکب ونتھر کہتے ہیں ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسانوں اور آکٹوپس کے اجداد کے آثار 56 کروڑ سال پہلے موجود تھے۔ اسی طرح کی ایک تحقیق آسٹریلیا کی سڈنی یونیورسٹی کے ایک پروفیسر گاڈ فرے سمتھ نے کی ہے،وہ کہتے ہیں کہ ہمارے اور آکٹوپس کے مشترکہ آخری اجداد 60 کروڑ سال پہلے تک رہتے تھے‘‘۔
ماہرین ارضیات بنیادی طور پر قدیم ادوار کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کرتے ہیں ، ان میں '' جراسک دور‘‘ چھ کروڑ پچاس لاکھ سال قبل تک قائم رہا۔ ماہرین کے مطابق اس دور میں ڈائنو سار اور آکٹوپس اور اس قبیل کے دوسرے جانور عروج پر تھے۔ ان تحقیقات کے بعد اس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ آکٹوپس اس روئے زمین کی سب سے قدیم مخلوق میں سے ایک تھے۔
عادات و اطوار
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ 50 کروڑ سے 60 کروڑ سال پہلے وجود میں آنے والا جانور آکٹوپس، زمین کے اوّلین ذہین ترین جانوروں میں سے ایک تھا۔ آکٹوپس میں ایک خاصا بڑا دماغ پایا جاتا ہے جس میں نصف ارب دماغی خلیات ( نیورونز ) پائے جاتے ہیں۔ انسانوں ،کتوں اور دیگر جانوروں کے برعکس سب سے زیادہ دماغی خلیات ان کے بازوں میں پائے جاتے ہیں۔
آکٹوپس میں موقع محل اور ماحول کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالنے کی زبردست صلاحیت پائی جاتی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آکٹوپس کا شمار اس کرہ ارض کے انوکھے اور پیچیدہ ترین جانوروں میں ہوتا ہے۔ انوکھے یوں کہ اس جانور کی آٹھ ٹانگیں ، تین دل اور ان کے خون کا رنگ کا نیلا ہوتا ہے۔ چنانچہ آٹھ ٹانگوں کی وجہ سے یہ عرف عام میں ''ہشت پا‘‘ بھی کہلاتا ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ اس کا شمار غیر فقاری جانوروں میں ہوتا ہے یعنی ان کے جسم میں کوئی ہڈی نہیں ہوتی۔ جسم میں ہڈی نہ ہونے کے سبب یہ اپنے آپ کو کسی بھی سانچے میں ڈھالنے کی صلاحیت سے مالا مال ہوتا ہے۔ آکٹوپس دوسرے ہم عصر اور ہم نسل جانوروں کی نسبت زیادہ ہوشیار اور متحرک ہوتے ہیں۔
عمومی طور پر آکٹوپس سیاہ ، نارنجی ، مٹیالے اور بھوری رنگت والے ہوتے ہیں لیکن قدرت نے ان کی بعض اقسام کو بوقت ضرورت کئی کئی رنگ تبدیل کرنے کی صلاحیت بھی عطا کر رکھی ہے۔ آکٹوپس کی نیلے رنگ کی ایک نایاب نسل کا سراغ بھی ملا ہے جو انتہائی زہریلا ہوتا ہے ، جس کے کاٹنے سے انسان کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔اس نسل کاسراغ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے کچھ علاقوں میں ملا ہے۔
آکٹوپس گوشت خور جانور ہے، انہیں زندہ رہنے کیلئے دن میں دو سے تین مرتبہ کھانا درکار ہوتا ہے۔ مچھلی، کیکڑے، جھینگے اور دیگر چھوٹے آبی جانور ان کی عمومی خوراک کا حصہ ہوتے ہیں۔ یہ بڑے پیچیدہ دماغ کے مالک ہوتے ہیں۔ ان کی ذہانت میں اب کوئی دو رائے نہیں ہے کیونکہ جدید سائنس میں یہ ثابت ہو چکا ہے۔ یہ اپنے دفاع کیلئے سیپیاں اور کھوپرے کا خول استعمال کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ جب انہیں ایکوریم میں قید کیا گیا تو سائنس دانوں نے نوٹ کیا کہ یہ اپنی ذہانت کی وجہ سے اپنا راستہ نکال کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ بعض اوقات تو یہ جالوں میں اپنے لئے رکھی گئی خوراک کو بھی لے اڑتے دیکھے گئے۔
بطور خوراک تیزی سے بڑھتا رجحان
دنیا بھر میں آکٹوپس کے بطور خوراک تیزی سے بڑھتے رجحان کو ماہرین ماحولیات نے جہاں ایک طرف اس کی نسل کشی سے تعبیر کیا ہے، وہیں اسے ایک ظالمانہ فعل بھی قرار دیا ہے۔ ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایشیا سے لے کر امریکہ تک آکٹوپس کے بطور خوراک استعمال کی مانگ میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔جنوبی کوریا میں پچھلے چند سالوں سے زندہ آکٹوپس کھانے کا رجحان تیزی سے بڑھتا دیکھا گیا ہے۔ جس کے باعث دنیا بھر میں سالانہ ساڑھے تین لاکھ ٹن آکٹوپس کا شکار کیا جاتا ہے جو پچھلی سات دہائیوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ تعداد ہے۔ اس کے شکار سے جہاں دن بدن آکٹوپس کی مانگ میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں دوسری طرف ان کی قیمتوں میں اضافے سے غیر قانونی شکار کے رجحان میں تیزی بھی دیکھی جا رہی ہے۔
عالمی طور پر آکٹوپس کی بڑھتی مانگ اور سمندروں میں کم ہوتی ان کی تعداد کے سبب اب دنیا بھر میں ان کی مصنوعی افزائش کا رجحان پروان چڑھ رہا ہے۔اگرچہ ان کا لاروا زندہ چیزیں کھاتا ہے اور ایک مخصوص ماحول میں پرورش پا سکتا ہے لیکن میکسیکو ، آسٹریلیا ، جاپان اور سپین بین الاقوامی طلب پورا کرنے کیلئے دن رات ان کی افزائش میں اضافے کیلئے کوشاں ہیں۔