عظیم مسلمان سائنسدان ابو عباس احمد بن محمد کثیر فرغانی

عظیم مسلمان سائنسدان ابو عباس احمد بن محمد کثیر فرغانی

اسپیشل فیچر

تحریر : اسد بخاری


زمین کے محیط کی پیمائش کرنے والوں کی جماعت کا ممبر تھا۔ طغیانی ناپنے کا آلہ ایجاد کیا،دھوپ گھڑی پیش کی۔ علم ہیئت میں بھی کمال رکھتا تھا۔ جوامع العلوم کتاب مرتب کی۔ اس کتاب کے ترجمے ہو چکے ہیں۔
احمد کثیر فرغانی علم ہیئت کا ماہر، کامیاب سول انجینئر اور اچھا صناع تھا۔احمد کثیر شہر فرغانہ( ترکستان میں پیدا ہوا) ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بغداد آ گیا۔ تعلیم مکمل کی اور مطالعہ میں مصروف ہو گیا۔ یہاں کے علمی ماحول میں اس کے جوہر کھلے۔ اس نے بہت اچھی استعداد پیدا کرلی۔ مامون الرشید کا زمانہ تھا۔ مامون نے اس کی علمی صلاحیتوں کے سبب بڑی قدر کی۔
بغداد علم و فن کا مرکز بن گیا تھا۔ ہر علم و فن کے قابل ترین لوگ وہاں موجود تھے۔ مامون الرشید علمی ذہن و دماغ رکھتا تھا۔ اس کے ذہن میں آیا کہ زمین کے محفظ کی صحیح صحیح پیمائش کی جائے، چنانچہ اس نے انجینئروں کی ایک جماعت مقرر کی، اس جماعت نے غور و فکر کے بعد کچھ اصول اور قاعدے بنائے اور طریق کار متعین کئے ماہرین کی اس جماعت کا صدر احمد کثیر فرغانی تھا۔ شہر کوفہ کے شمال میں ایک وسیع میدان اس کام کے لئے موزوں سمجھا گیا۔ اس میدان کو دشت بخار کہتے تھے۔ اس میدان میں دو مقامات رقہ اور تدرُ کو منتخب کیا گیا۔ جملہ آلات اور سامان وہاں مہیا کر دیا گیا۔
زمین کے محیط یعنی گھیر کی صحیح پیمائش کے لئے طریقہ کار یہ طے کیا گیا کہ پہلے اصطرلاب اور سُدس اور دیگر آلات کی مدد سے قطب تارے کی بلندی زاویے کے ذریعے معلوم کی جائے۔ پھر ایک مقررہ فاصلے تک آگے بڑھ کر قطب تارے کی بلند کی پیمائش کی جائے اور اب دونوں کے فرق کو معلوم کر لیا جائے۔ اس طرح زمین کے محیط کی پیمائش معلوم ہو جائے گی۔
ماہرین نے پیمائش شروع کی اور حساب کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ زمین کا گھیر 25009 میل ہے۔ مامون الرشید بہت خوش ہوا۔ بیت الحکمتہ کے ممبروں میں فرغانی بھی تھا۔ اسے بھی کام کا کافی موقع ملا۔
موجودہ زمانے میں جب کہ ہر طرح کی سہولتیں ہیں، نئے نئے آلات ہیں، زمین کے محیط یعنی گھیر کو 24858میل مانا جاتا ہے۔ مسلم دور کی پیمائش اور آج اس نئے دور کی پیمائش میں بقدر15 میل کا فرق ہے۔ یعنی کل غلطی صرف 6فیصد پائی جاتی ہے یہ غلطی کوئی غلطی نہیں ہے۔
فرغانی کو صناعی میں بھی کمال حاصل تھا، اس نے کئی اہم چیزیں ایجاد کیں۔
طغیانی ناپنے کا آلہ: اس آلہ کے ذریعے دریا کے پانی کا صحیح اندازہ ہو جاتا تھا اور معلوم ہو جاتا تھا کہ سیلاب آنے والا ہے یا نہیں۔ یہ آلہ دریا میں نصب کر دیا جاتا تھا۔
دھوپ گھڑی:دوسری چیز جو بہت ضروری تھی وہ دھوپ گھڑی تھی جس سے دن میں وقت کا صحیح اندازہ ہو جاتا تھا۔
فرغانی نے کئی کتابیں مرتب کیں، مشہور کتاب اس کی '' جوامع علم النجوم‘‘ ہے۔ اس کتاب کا پہلالاطینی ترجمہ بارہویں صدی عیسوی میں شائع ہوا۔ پھر دوسرا ترجمہ جرمنی میں 1537ء میں چھپا، اور تیسرا ترجمہ فرانس کے دانشوروں نے 1546ء میں شائع کیا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
چیونٹیاں آپس میں کیسے بات کرتی ہیں؟

چیونٹیاں آپس میں کیسے بات کرتی ہیں؟

چیونٹی تقریباً دنیا کے ہر حصے میں پائی جاتی ہے۔ یہ حشرات الارض کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور آج اس کی 12ہزار سے زائد اقسام موجود ہیں۔ ان کو ان کے سر پر لگے دو اینٹیناز اور مخصوص جسمانی ساخت کی بدولت بآسانی پہچاناجا سکتا ہے۔ چیونٹیاں انتہائی منظم بستیاں بناتی ہیں، جو حجم اور رقبے کے لحاظ سے کافی بڑی ہوتی ہیں۔ جس میں نر اور مادہ کو ضرورت کے مطابق ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں۔ جس میں نگرانی سے لے کر مزدوری تک ہر طرح کے کام شامل ہیں۔بعض اقسام کی چیونٹیاں اپنے سے کئی گنا زیادہ وزن اٹھا سکتی ہیں۔چیونٹیوں کا شمار دنیا کے مشقت کرنے والی مخلوقات میں ہوتا ہے۔ ان کی بعض نسلیں ایسی بھی موجود ہیں جن کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ زیادہ تر چیونٹیاں پانی میں 20 سے 24 گھنٹے تک زندہ رہ سکتی ہیں۔ نیز کچھ چیونٹیاں ایسی بھی ہیں جن کو نئی نسل پیدا کرنے کیلئے نر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چیونٹیاں سونگنے کیلئے اپنے انٹینوں کا استعمال کرتی ہیں ۔چیونٹیوں کی کالونی ملکہ کے دم سے چلتی ہے اور ایک ملکہ کی عمر 30 سال تک ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس مادہ ورکر چیونٹیاں ایک سے تین سال زندہ رہتی ہیں جبکہ نر چیونٹیوں کی عمر کچھ ہفتوں تک ہی ہوتی ہے۔ ان کی پسندیدہ خوراک میٹھا ہے خاص کر شکّر۔چیونٹیوں کی ایک فوج ایک ہفتے میں زیر زمین وسیع شہر تعمیر کر سکتی ہے۔ لہٰذا ایک بستی کی صورت میں مل کر کام کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ انتہائی متاثر کن کارنامے انجام دے سکتی ہیں۔ گہری زمین کے اندر چیونٹیوں کے گھرکثیر خانوں سے بنتے ہیں جو سرنگوں سے منسلک ہوتے ہیں۔ ہر خانے کا مختلف کام ہوتا ہے، کچھ خوراک کا ذخیرہ کرنے کیلئے ہوتے ہیں، باقی جگہ مصروف مزدور چیونٹیوں کیلئے ہوتی ہے۔ ملکہ چیونٹی ایک مرکزی خانے میں رہتی ہے ، جہاں وہ اپنے انڈے دیتی ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ گروہ کی صورت میں رہنے والی چیونٹیاں جن کا شمار قدرت کے قدیم ترین اور قابل معاشروں میں ہوتا ہے، یہ اجتماعی طور پر اپنے دشمنوں کو یاد رکھتی ہیں۔ جب ایک چیونٹی کسی دوسرے گروہ سے آنے والے بن بلائے مہمان سے لڑائی کرتی ہے تو وہ اس کی بو کو یاد رکھتی ہے ۔سائنسی جریدے میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق چیونٹیوں کی کئی اقسام میں بطورِ معاشرہ رہنے کیلئے کیمیائی مادّے نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حشرات اپنے ساتھ رہنے والے دوسرے ساتھیوں کو ان کی خاص کیمیائی علامت سے پہچانتے ہیں جو ایک ہی بل میں رہنے والے تمام حشرات کے جسم پر پائی جاتی ہے۔حشرات ایسے مداخلت کار کو سونگھ کر بھی پہچان جاتے ہیں جو حملے کی نیت سے وہاں آتا ہے۔یہ تحقیق آسٹریلیا میں میلبورن یونیورسٹی کی ٹیم نے کی جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ چیونٹیاں لڑائی کے بعد اپنے دشمنوں کو یاد رکھ پاتی ہیں یا نہیں۔محققین نے گرم علاقوں کی معمار چیونٹیوں کا مشاہدہ کیا جو درختوں میں گھر بناتی ہیں۔ ان کے ایک بل میں پانچ لاکھ سے زائد چیونٹیاں رہتی ہیں۔محققین نے چیونٹیوں کے درمیان ''پہچان‘‘کو جانچنے کیلئے انہیں دوسرے گروہ کے مداخلت کاروں سے لڑائی کرنے دی۔جانچ کے کئی مرحلوں کے بعد ایک بل سے ایک چیونٹی کو مخالف گروہ کے چیونٹی کے ساتھی تجرباتی میدان میں چھوڑا گیا۔ اسی طرح پندرہ مرتبہ چیونٹیوں کا آمنا سامنا کروانے کے بعد سائنسدانوں نے چیونٹیوں سے ایک مصنوعی حملہ کروایا۔انہوں نے بیس چیونٹیوں کو مخالف چیونٹیوں کے بل کے قریب چھوڑ دیا۔محققین نے تحقیق میں لکھا ہے کہ ان مداخلت کاروں پر بل کی رہائشی چیونٹیوں نے روایتی انداز میں حملہ کر دیا۔مداخلت کار چیونٹیوں کے خلاف دفاع کرنے والی چیونٹیوں کا ردِ عمل بہت زیادہ مشتعل تھا کیونکہ ان ہی میں سے بعض چیونٹیاں تجرباتی جانچ کے دوران مداخلت کاروں سے لڑ چکی تھیں۔تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر مارک ایلگر نے بی بی سی نیچر کو بتایا کہ ایک گروہ میں رہنے والی تمام چیونٹیاں کسی ایک ساتھی کے تجربے کی بنیاد پر بھی کسی کے بارے میں ردِ عمل ظاہر کردیتی ہیں۔ انہوں نے اسے مجموعی یا گروہی دانشمندی قرار دیا۔چیونٹیوں سے متعلق سورہ نمل کی آیت نمبر 17 اور 18میں اللہ کا ارشاد ہے کہ: ''اور سلیمانؑ نکلے اپنے پورے لشکر کو لے کر جس میں انسان،جن اورتمام جانورتھے،فوج بندی کیے ہوئے جانے لگے۔یہاں تک کہ وہ گزرے وادی نمل سے،جو چیونٹیوں کی وادی تھی،ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹی سے کہا اے چیونٹیوں اپنے گھروں میں گھس جاؤ،کہیں تمہیں سلیمان اور اس کی فوجیں نہ پیس ڈالیں ،اور انہیں خبر بھی نہ ہو،اور سلیمان علیہ السلام نے جب اس چیونٹی کی بات سنی تو مسکرائے اوراپنے لشکر کا رخ موڑ لیا‘‘۔چیونٹیاں حضرت سلیمان علیہ السلام سے بات کرتی تھیں اور اللہ نے سلیمان علیہ السلام کو ان کی بات سمجھنے کی صلاحیت بھی دی تھی۔جو بات قرآن نے چودہ سو سال پہلے بتائی،آج کی جدید سائنس مختلف تجربات کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ چیونٹیاں ایک زبردست معاشی سسٹم میں رہتی ہیں اور اتنے مشکل سسٹم سے بات کرتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔سائنس نے بتایا کہ چیونٹیاں آواز سے بات نہیں کرتیں بلکہ ڈیٹا منتقل کر کے بات کرتی ہیں اور ان کاطریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے منہ سے ایک مواد نکالتی ہیں اور سامنے والی چیونٹی کے منہ پر چپکا دیتی ہیں۔ دوسری چیونٹی اس سے سارا پیغام ڈی کوڈ کر کے سمجھ لیتی ہے۔اس لئے آپ نے اکثردیکھا ہوگا کہ چیونٹیاں چلتے چلتے رک کر دوسری چیونٹی کے منہ سے منہ لگا کرآگے چلی جاتی ہیں،یہ وہ عمل ہوتا ہے جس میں وہ ڈیٹا منتقل کرتی ہیں۔جدید تحقیق میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ چیونٹیاں آپس میں نہ صرف بات کرتی ہیں بلکہ ایک زبردست نظام کے تحت زندگی بھی گزارتی ہیں۔ بارش سے پہلے چیونٹیاں اپنے گھر کے باہرگول چکر لگانا شروع کر دیتی ہیں اور مٹی کے پہاڑ بنا لیتی ہیں،تاکہ بارش کا پانی ان کے گھر میں نہ آسکے۔انہیں وقت سے پہلے بارش کا اس لئے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان میں قدرتی طور پر سینسر موجود ہوتا ہے جسے ''ہائیڈرو فولک‘‘ کہتے ہیں۔جب ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہوجاتا ہے تو چیونٹیوں میں موجود یہ سنسر اسے محسوس کرتا ہے اور چیونٹیوں کے دماغ کو بارش کے متعلق پیغام پہنچاتا ہے۔اس لئے چیونٹیاں بارش سے پہلے ہی اپنے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام کر لیتی ہیں۔محکمہ موسمیات بھی اسی عمل کو دھراتے ہوئے ہوا میں نمی کا تناسب نوٹ کرتے ہیں اور پھر بتاتے ہیں کہ بارش کے کیا امکانات ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنہوں نے قرآن کو سمجھا اور اس پر عمل کیا ان لوگوں نے درختوں کے نیچے بیٹھ کرنہ صرف زمین کا حجم بتایا بلکہ یہ بھی بتایا کہ انسان پرندوں کی مانند کیسے پرواز کر سکتا ہے۔اگر ہم قرآن میں غوروفکر کریں تو ایسی ایجادات کر سکتے ہیں کہ نسل انسانی حیران رہ جائے۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے کہ''اس میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں‘‘۔ 

لاس اینجلس ہرنیا فیشن جہاں سے جنم لیتا ہے

لاس اینجلس ہرنیا فیشن جہاں سے جنم لیتا ہے

1769ء کا ذکر ہے کہ حکومت سپین نے ایک پادری Father Juan Crespi کی سربراہی میں کیلی فورنیا کے علاقے میں ایک مہماتی ٹیم روانہ کی۔ اس ٹیم کا گزر ایک خوبصورت دریا پر ہوا۔ ان کو یہ دریا اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اس دریا کے کنارے خیمے گاڑ دیئے اورانہوں نے اس دریا کا نام ''دی ریور آف اوور لیڈی، دی کوئین آف دی اینجلز‘‘رکھ دیا۔غالباً انہوں نے سینٹ میری سے خاص انسیت کی بناء پر یہ نام دیا تھا۔ 4 ستمبر 1781ء کو 44 افراد پر مشتمل کچھ خاندان اس دریا کے کنارے آباد ہوئے اور انہوں نے دریا کے نام کی مناسبت سے اس جگہ کا نام ''دی ٹائون آف اوور لیڈی، دی کوئین آف دی اینجلز‘‘رکھ دیا۔ بے شک یہ ایک لمبا نام تھا۔ آہستہ آہستہ یہ نام مختصر ہو کر لاس اینجلس(Los Angeles) ہوگیا، جس کے پہلے لفظ ''لاس‘‘ کا معنی ہے شہر اور دوسرے لفظ اینجلس کا مطلب فرشتہ ہے۔ اس دن سے اس شہر کی آبادی میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ابتدائی دور میں یہ شہر سپین کے کنٹرول میں رہا اور 1781ء ہی میں ایک سپینی گورنر نے اس شہر کی باقاعدہ بنیاد رکھی۔ پھر 1821ء میں میکسیکو نے سپین سے آزادی حاصل کرلی۔ سپین اور یورپ کے دوسرے حصوں میں آئے مہاجروں کو یہ علاقہ بہت پسند آیا۔ کیونکہ اس علاقے کی آب و ہوا کافی حد تک بحرہ روم کی آب و ہوا سے مماثلت رکھتی تھی۔ میکسیکو کی امریکہ سے لڑائی کے بعد ایک معاہدے تحت یہ شہر اپریل 1850ء میں امریکہ کے کنٹرول میں آگیا اور صرف پانچ ماہ بعد امریکہ نے اس شہر کو کیلی فورنیا کی ریاست میں شامل کرلیا۔لاس اینجلس دنیا کا ایک بڑا تجارتی مرکز ہے۔ نئے سے نیا فیشن سب سے پہلے یہاں جنم لیتا ہے۔ ٹیکنالوجی، تعلیم، کلچر، میڈیا، انٹرٹینمنٹ، بزنس، پٹرولیم، زراعت اور اس شہر میں ہونے والی سائنسی ترقی کو اگر کہیں اکٹھا کر دیا جائے تو لاس اینجلس کا شہر معرض وجود میں آتا ہے۔ یہ ایک فطری اصول ہے کہ جب مضبوط بنیادیں مل جائیں تو ان بنیادوں کے اوپر فلک بوس عمارتیں کھڑی کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہی کچھ لاس اینجلس کے ساتھ ہوا۔ یہاں پر فلم انڈسٹری کی ابتدا کیا ہوئی کہ دنوں اور مہینوں میں لاس اینجلس میں ترقی کا ایسا خاموش انقلاب آیا کہ یہ شہر پورے امریکہ میں دوسرا بڑا شہر بن کر ابھرا اور آج یہ شہر جنوبی امریکہ کا دل کہلاتا ہے اور عالمی رینکنگ کے مطابق ٹوکیو اور نیویارک کے بعد یہ دنیا کا تیسرا امیر ترین شہر ہے۔ امیر شہروں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آنے والا یہ شہر امریکہ کی ایک بڑی ریاست کیلیفورنیا میں بھی سب سے بڑا شہر شمار ہوتا ہے۔چوں چوں کا مربہ اس وقت لاس اینجلس میں بسنے والے دنیا کے تقریباً 160 ملکوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف اوقات میں بہتر رزق کی تلاش میں اپنے اپنے ملکوں کو خیرباد کہہ کر یہاں اس شہر میں آباد ہوتے گئے۔ دراصل 1848ء میں کیلی فورنیا میں سونے کی دریافت نے دنیا کے کئی لوگوں کو اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر یہاں آباد ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ یہ مہاجر قسمت آزمائی کیلئے دنیا کے کونے کونے سے آ کر یہاں آباد ہوتے گئے اور آج اس شہر میں سپینیش، لاطینی امریکہ، افریقہ، ایشیا سے کورین، ویتنامی، روسی، چینی اور فرانس، جرمنی، آئرش، جاپان، انڈیا، ایران اور یورپ کے ہر ملک سے آئے لوگ آباد ہیں۔ یہاں پر 96زبانیں بولی جاتی ہیں اور مقامی ریڈیو اور ٹی وی چینلز سے 15 مختلف زبانوں سے باقاعدہ پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ ہر ملک کے اپنے کلچر کے علاوہ ایک Culture Mixed بھی نظر آتا ہے۔ میکسیکو سٹی کے بعد لاس اینجلس میکسیکن آبادی کا دوسرا بڑا شہر ہے جس میں اتنی تعداد میں میکسیکن لوگ آباد ہیں۔ سفید فام امریکی 35 فیصد، سیاہ فام 15فیصد اور ایشین 10 فیصد ہیں۔ جن میں چینی اور جاپانی نسل کے لوگوں کی کثیر تعداد بھی شامل ہے۔ اس شہر میں سب سے زیادہ مہاجر آباد ہیں اور کہا جاتا ہے کہ لاس اینجلس میں رہنے والوں میں 35فیصد لوگ لاس اینجلس سے باہر پیدا ہوئے ہیں۔ لاس اینجلس میں سیاہ فام اور لاطینی نسل کے لوگ زیادہ تر شہر کے مرکزی حصہ میں اپارٹمنٹس میں رہائش پذیر ہیں جبکہ ایشین، چائنا ٹائون، لٹل ٹوکیو اور کورین ٹائون میں آباد ہیں۔ ان کے مقابلہ میں سفید فام لوگ امریکہ کے دوسرے شہروں کی طرح شہر سے باہر مضافات یعنی بیورلے ہلز، ویسٹ وڈ اور سانتا مانیکا میں آباد ہیں اور مزے کی بات ہے کہ ہر کمیونٹی کے لوگ اپنے اپنے کلچر کو آزادانہ اپنائے ہوئے ہیں۔لاس اینجلس میں امریکہ کے شمالی علاقوں کے مقابلے میں دھوپ وافر مقدار میں پڑتی ہے۔ دھوپ کی سالانہ اوسط 329 دن ہے۔ پورے سال میں اوسطاً 15انچ بارش برستی ہے۔ گرمیوں کے موسم میں درجہ حرارت 16سے 28ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

مشتری کے گرد تین سیاروں کی دریافت1610ء میں آج کے دن اطالوی ماہر فلکیات گلیلیو گلیلی نے مشتری کے گرد تین سیاروں کی دریافت کی تھی۔ جنہیں افسانوی کرداروں ''لو‘‘، ''یوروپا‘‘ اور ''گانیمیڈ‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ مشتری نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے، مشتری اتنا بڑا ہے کہ نظام شمسی کے باقی تمام سیارے اس کے اندر سما سکتے ہیں۔ مشتری کے اندر 1300 سے زیادہ زمینیں فٹ ہو سکتی ہیں۔زمین سے یہ رات کو آسمان میں نظر آنے والا دوسرا روشن ترین سیارہ ہے۔ مشتری سورج سے پانچواں سیارہ ہے۔ ہائیڈوجن بم امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین نے 7جنوری 1953ء کوہائیڈروجن بم تیار کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس منصوبے کے مکمل ہونے سے قبل بھی ایسا ہی اعلان کیا تھا۔ ہیری ٹرومین کا کہنا تھا کہ امریکہ نے ہائیڈروجن بم بنانے کا فیصلہ سوویت یونین کے 1949ء میں ایٹم بم کے متعلق دئیے گئے بیان کے بعد کیاتھا۔ امریکی صدر کے مطابق ہائیڈروجن بم بنانے کا مقصد امریکہ کے دفاع کو مضبوط بنانا ہے۔CQDریڈیو سگنلز کا افتتاح''CQD‘‘ریڈیو کے استعمال کیلئے اپنائے جانے والے پہلے ڈسٹریس سگنلز میں سے ایک تھا۔7جنوری1904ء کو مارکونی انٹرنیشنل میرین کمیونی کیشن کمپنی نے ''سرکلر 57‘‘ جاری کیا جس میں واضح طور پر بتایا گیا کہ کمپنی کی تنصیبات کیلئے یکم فروری''CQD‘‘بحری جہازوں کی طرف سے کسی ایمرجنسی یا مشکل کی صورت میں دی جانے والی کال ہو گی۔ کچھ عرصہ بعد اسی ڈسٹریس سگنل کو تبدیل کر کے مورس کوڈ کی شکل دے دی گئی اور دور جدید میں اسے'' SOS‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔امریکی صدر کلنٹن کا مواخذہ7جنوری1999ء کو امریکی صدر کلنٹن کے مواخذے کیلئے مقدمے کی سماعت کاآغاز ہوا۔ کلنٹن پر جھوٹ بولنے اور انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام تھا۔ بعد میں گواہوں سے چھیڑ چھاڑ اور طاقت کے غلط استعمال جیسے اقدامات کا بھی الزام لگایا گیا۔ کلنٹن پر پاؤلا جونز کی طرف سے ہراساں کرنے کے الزامات کا مقدمہ بھی چلایا گیا۔مواخذے کے مقدمے کی سماعت کے دوران، ہاؤس جوڈیشری کمیٹی نے مواخذے کے تین آرٹیکلز کی منظوری دی ۔ اس کے بعد کلنٹن نے امریکی عوام سے عوامی معافی مانگی ۔مانٹیل حادثہ7جنوری 1948ء کو کینٹکی ائیر نیشنل گارڈ کا پائلٹ 25سالہ کیپٹن تھامس ایف مانٹیل، فرینکلن کینٹکی ریاستہائے متحدہ امریکہ کے قریب اپنےP-51 Mustang لڑاکا طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ یہ حادثہ ایک نامعلوم فلائنگ آبجیکٹ ''UFO‘‘ کا پیچھا کرنے کے دوران پیش آیا۔ یہ واقعہ ابتدائیUFOواقعات میں سب سے زیادہ مشہورتھا۔مانٹیل نے کافی اونچائی تک اس کا پیچھا کیا جہاز اس کے کنٹرول میں نہیں رہا اور گر کر تباہ ہو گیا۔   

رومانوی شہر  وینس خطرات اور خدشات کی زد میں

رومانوی شہر وینس خطرات اور خدشات کی زد میں

وینس کو دیئے گئے مختلف نامآخر ایسا کیا منفرد اور خاص ہے کہ وینس دنیا بھر کے سیاحوں کی جنت اور رومانوی شہر کی شہرت رکھتا ہے ؟ سیاح ہی نہیں بلکہ خود اطالوی بھی اس شہر سے بہت پیار کرتے ہیں۔ تبھی تو انہوں نے پیار سے اسے کئی نام دے رکھے ہیں ، جیسے ''ایڈریاٹک کی ملکہ‘‘ ، ''محبت کرنے والوں کا شہر‘‘ ، ''سکون دینے والا شہر‘‘ ، ''رومانوی شہر ‘‘ وغیرہ۔اٹلی کے شمال مشرق میں واقع اس شہر کو لوگوں نے جہاں پیار کے کئی نام دے رکھے ہیں، وہیں پہچان کیلئے بھی اس شہر کو کئی ناموں سے جانا جاتا ہے مثلاً تیرتا ہوا شہر ، پلوں والا شہر ،پانی والا شہر ، ماسک والا شہر ، تالابوں والا شہر ، سیاحوں کا شہر وغیرہ۔ دنیا میں شاید ہی کسی اور شہر کے اتنے نام ہوں گے جتنے شہر وینس کو دئیے گئے ہیں۔ دنیا میں بہت کم ملک ایسے ہوں گے جن کی وجہ شہرت ان کے کسی شہر کی وجہ سے ہوتی ہو گی،ورنہ عمومی طور پر شہر اپنے ملکوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں ۔اٹلی کا ایسا ہی ایک شہر وینس ہے جسے نہ صرف سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے بلکہ اس سے زیادہ اس کی شناخت ایک رومان پرور شہر کے طور پر کی جاتی ہے۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ وینس بنیادی طور پر صوبہ وینیتو کا صدر مقام ہے۔ جس کی کل آبادی 2 لاکھ 70 ہزار کے قریب ہے لیکن وینس میٹروپولیٹن سٹی کی آبادی 50 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہ شہر ایک عرصے سے سالانہ دو سے تین کروڑ سیاحوں کی میزبانی کرتا آرہا ہے۔ ایک اندازے کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ 50 ہزار آبادی والے اس شہر میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً ڈیڑھ لاکھ سے دولاکھ سیاح وینس میں موجود رہتے ہوں گے؟۔118جزیرےوینس اپنی نہروں کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک مختلف شناخت رکھتا ہے۔ یہ شہر 118 جزیروں کی شکل میں ایک ''آرکیپیلاگو‘‘ ( آرکیپیلاگو ، جزائر کے ایک گچھے یا سلسلے کو کہتے ہیں )پر مشتمل ایک جزیرہ نما ہے ، جنہیں 150 نہروں نے آپس میں جوڑ رکھا ہے۔بیشتر جزیروں پر چھوٹے چھوٹے شہر آباد ہیں جو 400 کے قریب پلوں کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔''کار فری زون‘‘یہ شہر یورپ کاسب سے بڑا ''کار فری‘‘ علاقہ ہے جہاں کاروں، ٹرکوں اور گاڑیوں کے بغیر کام چلایا جاتا ہے۔ یہاں کے پلوں نے بنیادی طور پر مختلف محلوں کو آپس میں جوڑ رکھا ہے ، آپ جب ایک پل عبور کرتے ہیں تو آپ کو دوسرا محلہ نظر آتا ہے۔ ہر محلہ چھوٹی چھوٹی پتلی قدیم گلیوں پر مشتمل ہے جو اپنے ماضی کی خوبصورت ثقافت کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔یہاں کے محلوں کی ایک مخصوص بات یہ ہے کہ ہر محلے کے بیچ ایک کھلی جگہ ہوتی ہے جس میں ایک چرچ اور ندی کنارے سیاحوں کیلئے ہوٹل بھی موجود ہیں ۔ بلکہ اکثر محلوں میں بچوں کیلئے فٹ بال گراونڈ بھی بنائے گئے ہیں جہاں شام کے اوقات میں بچے مختلف کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔پرانا طرز تعمیر اور جدید سہولیات پرانی طرز کے چھوٹے اور تنگ دروازے ، بڑی بڑی کھڑکیاں ان کے ساتھ لٹکتی پرانے زمانے کی کنڈیاں اور بغیر پلاسٹر صدیوں پرانے بنے گھر یہاں کی ثقافت کی ترجمانی تو کرتے نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت یہ اندر سے جدید ضروریات زندگی سے آراستہ ہوتے ہیں۔اور شاید سب سے منفرد بات یہاں اکثر گھروں کے باہر پانی والی طرف بندھی وہ کشتی ہوتی ہے جو انہوں نے اپنی آمدورفت کیلئے ایسے باندھ رکھی ہوتی ہے جیسے ہمارے گھروں کے باہر یا گیراجوں میں کاریں کھڑی ہوتی ہیں۔وینس شہر کی کشش صرف پانی اور کشتیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ اپنے دور کا ایک ثقافتی شہر ہونے کے ناطے بے شمار تاریخی اور ثقافتی عمارات کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ان میں برج آف سائے ، ریا لٹو برج ، سینٹ مارکس اسکوائر ،اوپرا ہاوس ، بورانو جزیرہ ، اور سانتا مارا ڈیلا سلیوٹ قابل ذکر ہیں۔ مقامی آبادی سیاحوں سے نالاں کیوں ؟ دنیا کا خوبصورت اور رومانوی شہر جہاں سارا سال سیاحوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس لحاظ سے بھی یہ دنیا کا واحد شہر ہے جہاں دنیا بھر سے ہر لمحہ ، شہر کی اصل آبادی سے کئی گنا زیادہ سیاح موجود رہتے ہیںتو پھر آخرایسا اچانک کیا ہوا کہ وینس انتظامیہ کو شہر میں کچھ اس طرح کی پابندیوں کا اطلاق کرنا پڑا کہ ''ایک دن کیلئے آنے والے سیاحوں کا مفت داخلہ بند، یورپ کے سب سے لمبے اور چوڑے ''سپینش سٹیپس‘‘ نامی منفرد اور پرکشش زینوں پر بیٹھنے پر پابندی، املفی کے ساحلی علاقے پر سیاحوں کی بسوں کے داخلے پر پابندی ، ساحلی علاقے پورتوفینو میں سیلفی لینے پر پابندی ، کروز جہازوں کی وینس داخلے پر پابندی، اٹلی کے مشہور ساحلی علاقے چنکوئے تیرے میں قینچی چپل پہننے پر بھاری جرمانہ ہے۔ یہ اور اس جیسی متعدد پابندیوں کو سیاح اپنے لئے حوصلہ شکنی سے تعبیر کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ چند ماہ پہلے مقامی اخبارات میں ایک خبر شہ سرخیوں سے شائع ہوئی جس میں شہریوں کو سڑکوں پر بینر اٹھائے احتجاج کرتے دکھایا گیا تھا جو سیاحوں کی کثرت کی وجہ سے اس لئے سراپا احتجاج تھے جن کی وجہ سے ان کی زندگیاں تیزی سے مختلف مسائل کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ ان مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے یہاں کے شہری کہتے ہیں کہ وینس میں آنے والے سیاح اس دوران ضرورت زندگی کی ہر شے منہ مانگے داموں خرید کر مہنگائی کی نئی سے نئی بنیاد رکھتے چلے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بیشتر نوجوان سیاح قدیم گرجا گھروں کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر کھانا کھا کر خالی ڈبے ، بوتلیں اور دیگر کوڑا کرکٹ پانی میں یا سڑکوں پر پھینک کر چلے جاتے ہیں جو بالآخر شہر کے بے شمار پلوں والی نہروں کی تہہ میں ٹنوں کے حساب سے اکٹھا ہوتا رہتا ہے۔گزشتہ دنوں وینس شہر پر بنی ایک ڈاکومینٹری میں وینس کی نہروں کی تہہ سے کوڑا کرکٹ نکالنے کی ایک مہم کا احوال دکھایا جا رہا تھا۔اس مہم کے دوران درجنوں غوطہ خوروں نے یہاں کی نہروں کی تہہ سے جو کوڑا کرکٹ نکالا اس کا وزن 18 ٹن سے بھی زیادہ تھا۔اس مہم کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس کچرے میں زیادہ تعداد گاڑیوں کے ٹائروں کی تھی جو نہروں میں چلنے والی ہزاروں گنڈولا کشتیوں کیلئے رات کے وقت انہیں نہر کنارے باندھنے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ ٹائر اکثر رات کو رسوں سے الگ ہو کر پانی میں گر جاتے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔لاحق خطراتمقامی شہریوں کے یہ خدشات بلا سبب نہیں کیونکہ آج سے کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے بھی وینس کو لاحق خطرات کا اظہار کرتے ہوئے وینس کو خطرے سے دوچار عالمی ثقافتی مقامات کی فہرست میں شامل کرنے کا عندیہ دے دیا تھا ۔یونیسکو نے اپنی ایک رپورٹ میں اٹلی کے شہر وینس کو درپیش خطرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ '' وینس کو بہت زیادہ سیاحت ، حد سے زیادہ ترقی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر کی سطح میں اضافے کے سبب ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے ، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً زمین کے بڑھتے درجہ ٔ حرارت کے باعث سمندر کی سطح میں اضافے سے پانی میں گھرے وینس کو سیلاب کا بہت خطرہ ہے۔ وینس کی انتظامیہ کو ''وژن کی کمی‘‘ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے متنبہ کیا گیا ہے کہ انتظامیہ کی لاپرواہی سے اٹلی کا سب سے خوبصورت شہر مسائل کا گڑھ بنتا جا رہا ہے۔ آگے چل کر یونیسکو نے شہر کی بلند و بالا عمارات کی طرف وینس انتظامیہ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ یہ شہر کی خوبصورتی پر منفی اثر ڈالتی ہیں، انہیں شہر کے مرکزی حصے سے دور تعمیر کیا جانا چائیے تھا۔یونیسکو نے اپنی اسی رپورٹ میں وینس انتظامیہ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سان مارکو کینال اور دیگر ساحلوں پر بڑے بحری جہازوں کی آمد پر پابندی کا اطلاق ہونا چائیے تھا جو بہت زیادہ آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔وینس کے مسائل ایک طرف لیکن اس حقیقت سے بھی تو انکار ممکن نہیں کہ وینس کے باسیوں کا سیاحت کے علاوہ کوئی اور ذریعہ معاش بھی تو نہیں ہے۔ روایتی سواریاں''واپوریتو‘‘ اور ''گونڈولا‘‘شہر کے اندر آمدورفت کیلئے سب سے بڑا ذریعہ واٹر بسوں کا ہے جنہیں مقامی زبان میں ''واپوریتو‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بسیں شہر کے اندر پانی پر تیرتی ایسے نظر آتی ہیں جیسے بڑے شہروں میں عام بسیں سڑکوں پر چلتی نظر آتی ہیںجبکہ شہر کے مختلف علاقوں کو پلوں کے ذریعے آپس میں ملانے کیلئے پیدل راستے بھی بنائے گئے ہیں۔یہاں کی ایک خاص روائتی سواری ''گونڈولا‘‘ہے۔یہ ایک ثقافتی کشتی ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے استعمال ہوتی ہے لیکن اب یہ مقامی افراد سے زیادہ سیاحوں کی سواری کا روپ دھار چکی ہے جو یہاں کے مقامی ملاح جگہ جگہ لئے کھڑے نظر آتے ہیں۔  

چہل قدمی اور توانائی

چہل قدمی اور توانائی

باقاعدگی سے پیدل چلنے کے بہت سے فوائد ہیں۔ جسمانی سرگرمی کا یہ آسان اور سستا طریقہ ہے، نیز روزانہ مطلوبہ چہل قدمی سے یاسیت اور وزن میں اضافے کا خطرہ کم ہوتا ہے، ذہن اور ہڈیوں کی صحت میں بہتری کے ساتھ ساتھ زندگی کے مجموعی معیار میں اضافہ ہوتا ہے۔ حالیہ برسوں میں باقاعدہ جسمانی سرگرمیوں کیلئے روزانہ 10 ہزار قدم چلنے کا مشورہ بہت مقبول ہے۔ آخر 10 ہزار قدم ہی کیوں؟ کیا اس سے فٹنس کا حصول ممکن ہے؟ اس تحریر میں 10 ہزار قدم چلنے سے خرچ ہونے والے حراروں (کیلوریز) پر روشنی ڈالی گئی ہے۔بہت سے لوگوں کیلئے 10 ہزار قدم چلنا تقریباً پانچ میل (8.05 کلومیٹر) چلنے کے مساوی ہوتا ہے۔ جدید تحقیق بھی اس کی حمایت کرتی ہے کہ وزن کم کرنے اور مجموعی صحت کیلئے 10 ہزار قدم چلنا اچھا ہے۔باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) کی قدر وزن اور قد کی مناسبت سے حاصل کی جاتی ہے۔ آپ اپنا بی ایم آئی متعدد آن لائن ویب سائٹس پر وزن اور قد درج کر کے حاصل کر سکتے ہیں۔ 31.7 سے 44.9تک باڈی ماس انڈیکس رکھنے والے 35 بالغوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں شرکاء کو غذائی مشاورت فراہم کی گئی اور ساتھ ہی ان کے قدموں میں درجہ بہ درجہ 10 ہزار تک اضافہ کیا گیا۔ 6 ماہ کے بعد ان شرکاء کے بی ایم آئی میں 3.7 فیصد کمی ہو گئی۔ تاہم کہا جاسکتا ہے کہ اس کمی کی ذمہ دار صرف چہل قدمی نہیں اور اس میں غذائی مشاورت کا بھی کردار ضرور ہو گا۔ حیران کن طور پر یہ جاننا آسان نہیں کہ 10 ہزار قدم اٹھانے سے آپ کے کتنے حرارے خرچ ہوئے۔ دراصل ہر فرد کی مقدار میں فرق ہو سکتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسمانی سرگرمی کے نتیجے میں خرچ ہونے والے حراروں پر مختلف عوامل اثرانداز ہوتے ہیں۔ حراروں کی مقدار کے خرچ ہونے میں ایک بڑا عامل جسم کا سائز اور وزن ہے۔ چھوٹے جسم کی نسبت بڑے کو حرکت دینے کیلئے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ پتھریلی چٹان پر 5 میل چڑھتے ہیں تو ہر ایک منٹ میں آپ کے 7 سے زیادہ حرارے خرچ ہوں گے۔ اگر آپ 3 سے 4 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پہاڑی سے اترتے ہیں تو شاید ہر منٹ میں آپ 3.5 سے 7 حرارے خرچ کریںگے۔ ایک تحقیق کے مطابق 2 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے 10 ہزار قدم چلنے کی نسبت 4 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے سے اوسطاً 153 زیادہ حرارے خرچ ہوتے ہیں۔ ایک اور عامل جسے عموماً نظرانداز کر دیا جاتا ہے، جینیات ہے۔ 2 ہفتوں تک 8 جڑواں افراد کی جسمانی سرگرمی سے خرچ ہونے والے حراروں کی پیمائش کی گئی جس کے بعد محقق اس نتیجے پر پہنچے کہ روزمرہ زندگی میں حراروں کے خرچ میں جینیات 72 فیصد تک اثر ڈال سکتی ہے۔ علاوہ ازیں چوہوں پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ مستقل سرگرم رہنے والے اور زیادہ دوڑنے کی صلاحیت رکھنے والے چہل قدمی کے دوران اپنے پٹھوں کو زیادہ حرارت پہنچاتے ہیں۔ 10 ہزار قدم چلنے پر آپ کتنے حرارے خرچ کرتے ہیں، یہ جاننے کیلئے مدِنظر رکھے جاتے ہیں،وزن، ورزش کی شدت اور ورزش کا عرصہ۔ ان عوامل کے تحت ایک مساوات کے ذریعے چہل قدمی یا ورزش کے دوران خرچ ہونے والے حراروں کا پتا لگایا جا سکتا ہے، مساوات یہ ہے: خرچ ہونے والے حرارے فی منٹ = 0.0175 × ایم ای ٹی × وزن( کلوگرام میں)اس مساوات کو استعمال کرنے کیلئے آپ کو کچھ باتیں معلوم کرنا ہوں گی۔(1) ''ایم ای ٹی‘‘ (میٹابولک اکوئی ویلنٹ آف ٹاسک‘‘)۔ ایم ای ٹی اس شرح کی نمائندگی کرتا ہے جس میں کسی جسمانی سرگرمی کے دوران آپ حرارے خرچ کرتے ہیں۔ سرگرمیوں کی نوعیت کے اعتبار سے ایم ای ٹی مختلف ہوتی ہے۔ پیدل چلنے میں ایم ای ٹی 2 سے 10 تک ہو سکتی ہے جس پر رفتار اور پیدل چلنے والی سطح جیسے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ پہاڑی علاقے پر یا ریس کے دوران بائیسکل چلانے پر ایم ای ٹی 14 سے 16 اور کھانا پکاتے ہوئے2.5 ہوتی ہے۔ (2) کلوگرام میں اپنا وزن۔ اگر آپ کو اپنا وزن پاؤنڈ میں معلوم ہے تو اسے کلوگرام میں بدل لیں۔ اس کا سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ پاؤنڈ میں اپنے وزن کو 2.2 پر تقسیم کر لیں۔ (3) یہ نوٹ کریں کہ 10 ہزار قدم پیدل چلنے میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے۔ چونکہ اس مساوات میں فی منٹ کے لحاظ سے حراروں کا حساب رکھا جاتا ہے اس لیے آپ کل منٹوں سے ضرب دے کر 10 ہزار قدموں کے دوران خرچ ہونے والے حرارے پا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر اس میں 1.5 گھنٹے (90 منٹ) لگے ہیں تو آپ کی مساوات کچھ یوں ہو گی: خرچ ہونیوالے حرارے= 0.0175×ایم ای ٹی×کلوگرام میں وزن×90 (منٹ)4۔ جب آپ اپنا ایم ای ٹی، کلوگرام میں وزن اور 10 ہزار قدموں میں صرف ہونے والا وقت معلوم کر لیں گے تو آپ اس مساوات میں یہ ڈیٹا داخل کر کے مکمل اندازہ لگا سکیں گے۔ ذیل میں گراف سے مثالیں دی جا رہی ہیں کہ جسمانی وزن اور قدموں کی رفتار میں فرق سے حراروں کے خرچ ہونے پر کیسے فرق پڑتا ہے۔

حکایت رومیؒ آنسو

حکایت رومیؒ آنسو

ایک کتانزع کے عالم میں تھا اور اس کا مالک پاس بیٹھا آنسو بہا رہا تھا۔ فرط رنج سے اس کی ہچکی بندھی ہوئی تھی۔روتا جاتا اور کہتا جاتا کہ ''ہائے مجھ پر تو آسمان ٹوٹ پڑا،میں کیا کروں، کدھر جائوں ، کون سا جتن کروں کہ میرے پیارے کتے کی جان بچ جائے‘‘۔غرض کہ اسی طرح سے اونچی آواز سے رو رہا تھا۔ اتنے میں ایک فقیر ادھر سے گزر ا۔ کتے کے مالک کو یوں بے حال دیکھا تو پوچھ بیٹھا کہ ''بھائی خیر تو ہے، یوں گلا پھاڑ پھاڑ کر کیوں رو رہا ہے؟‘‘کتے کے مالک نے جواب دیا : '' کیا کہوں، کون میری فریاد سننے والا ہے، میرا یہ کتا جس پر نزع کا وقت طاری ہے، بڑے اوصاف والا ہے۔ چراغ لے کر بھی ڈھونڈو تو ایسا کتا نہ ملے گا۔ رات کو میرے مکان کی نگہبانی کرتا ہے، کیا مجال کہ کوئی پرندہ بھی ادھر پر مارے۔کتا کیا،اسے شیر کہو شیر، بڑی بڑی روشن آنکھوں والا ہیبت ناک ، اونچا قد، دوڑنے میں ہرن کو مات کر دے، اسے دیکھ کر چور اچکوں کی روح فنا ہو جاتی ہے۔ کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح شکار کے تعاقب میں نکلتا ہے، ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ بلا کا قانع، بے غرض اور وفادار۔ میں نے جو دے دیاوہی کھالیا‘‘۔ فقیر نے بے حد متاثر ہو کر چوچھا: ''تیرے کتے کو تکلیف کیا ہے؟ کیا کوئی مہلک زخم آ گیا ہے؟‘‘ کتے کے مالک نے جواب دیا : ''بھوک سے اس کا دم نکالا جا رہا ہے، اور کوئی بیماری نہیں۔ کئی دن ہو گئے ، اسے کچھ کھانے کو نہیں ملا‘‘۔ فقیر نے کہا : ''بھائی اب صبر کرو، اس کے سوا چارہ ہی کیا ہے، خدا کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں، اللہ تعالیٰ صبر کا پھل بھی دیتا ہے‘‘۔ اتنے میں فقیر کی نظر رونے والے کی کمر پر پڑی۔ جہاں کپڑے میں کوئی چیز بندھی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ فقیر نے پوچھا ''میاں! اس کپڑے میں کیا چیز لپیٹی ہوئی ہے ؟‘‘یہ میں نے کل کے لئے کچھ روٹیاں اور کھانے کا سامان رکھا ہوا ہے‘‘۔وہ بولا۔ فقیر حیرت زدہ رہ گیا۔ اس نے کہا : ''ارے ظالم ، کتا اتنا اچھا ہے تو اسے کیوں نہیں دیتا کھانے کو‘‘!وہ شخص کہنے لگا ''کتے سے مجھے اس حد تک محبت نہیں ہے کہ اپنی روٹی اسے دے دوں۔ روٹیاں بغیر پیسوں کے نہیں ملتیں۔ یہ جو آنسو اس کیلئے بہا رہاہوں، یہ میرے پاس مفت ہیں، فالتو ہیں، آنسو بہانے پر کوئی خرچ نہیں آتا، سو میں اس پے بہا رہاہوں‘‘۔فقیر بولا: ''لعنت ہو تیری اس عقل اور محبت پر۔ تیری مثال تو اس مشک کی سی ہے جس میں ہوا بھری ہوتی ہے۔ خاک تیرے سر پر، تیرے نزدیک روٹی کا ایک ٹکڑا آنسو سے زیادہ قیمتی ہے۔ ارے نامراد، آنسو تو وہ خون ہے جسے غم اور صدمے نے پانی بنا دیا ہے‘‘۔ ''ارے ظالم! خون کی قیمت خاک کے برابر کیسے ہو سکتی ہے‘‘۔ درس حیات: اگر تم ضرورت مند کی مدد کرنے کے قابل ہو تو اس کے لئے ہمدردی کے چند الفاظ بولنا کافی نہیں ہیں، بلکہ تم پر فرض ہے کہ اس کی مدد کرو۔