چیونٹی تقریباً دنیا کے ہر حصے میں پائی جاتی ہے۔ یہ حشرات الارض کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور آج اس کی 12ہزار سے زائد اقسام موجود ہیں۔ ان کو ان کے سر پر لگے دو اینٹیناز اور مخصوص جسمانی ساخت کی بدولت بآسانی پہچاناجا سکتا ہے۔ چیونٹیاں انتہائی منظم بستیاں بناتی ہیں، جو حجم اور رقبے کے لحاظ سے کافی بڑی ہوتی ہیں۔ جس میں نر اور مادہ کو ضرورت کے مطابق ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں۔ جس میں نگرانی سے لے کر مزدوری تک ہر طرح کے کام شامل ہیں۔بعض اقسام کی چیونٹیاں اپنے سے کئی گنا زیادہ وزن اٹھا سکتی ہیں۔چیونٹیوں کا شمار دنیا کے مشقت کرنے والی مخلوقات میں ہوتا ہے۔ ان کی بعض نسلیں ایسی بھی موجود ہیں جن کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ زیادہ تر چیونٹیاں پانی میں 20 سے 24 گھنٹے تک زندہ رہ سکتی ہیں۔ نیز کچھ چیونٹیاں ایسی بھی ہیں جن کو نئی نسل پیدا کرنے کیلئے نر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چیونٹیاں سونگنے کیلئے اپنے انٹینوں کا استعمال کرتی ہیں ۔چیونٹیوں کی کالونی ملکہ کے دم سے چلتی ہے اور ایک ملکہ کی عمر 30 سال تک ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس مادہ ورکر چیونٹیاں ایک سے تین سال زندہ رہتی ہیں جبکہ نر چیونٹیوں کی عمر کچھ ہفتوں تک ہی ہوتی ہے۔ ان کی پسندیدہ خوراک میٹھا ہے خاص کر شکّر۔چیونٹیوں کی ایک فوج ایک ہفتے میں زیر زمین وسیع شہر تعمیر کر سکتی ہے۔ لہٰذا ایک بستی کی صورت میں مل کر کام کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ انتہائی متاثر کن کارنامے انجام دے سکتی ہیں۔ گہری زمین کے اندر چیونٹیوں کے گھرکثیر خانوں سے بنتے ہیں جو سرنگوں سے منسلک ہوتے ہیں۔ ہر خانے کا مختلف کام ہوتا ہے، کچھ خوراک کا ذخیرہ کرنے کیلئے ہوتے ہیں، باقی جگہ مصروف مزدور چیونٹیوں کیلئے ہوتی ہے۔ ملکہ چیونٹی ایک مرکزی خانے میں رہتی ہے ، جہاں وہ اپنے انڈے دیتی ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ گروہ کی صورت میں رہنے والی چیونٹیاں جن کا شمار قدرت کے قدیم ترین اور قابل معاشروں میں ہوتا ہے، یہ اجتماعی طور پر اپنے دشمنوں کو یاد رکھتی ہیں۔ جب ایک چیونٹی کسی دوسرے گروہ سے آنے والے بن بلائے مہمان سے لڑائی کرتی ہے تو وہ اس کی بو کو یاد رکھتی ہے ۔سائنسی جریدے میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق چیونٹیوں کی کئی اقسام میں بطورِ معاشرہ رہنے کیلئے کیمیائی مادّے نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حشرات اپنے ساتھ رہنے والے دوسرے ساتھیوں کو ان کی خاص کیمیائی علامت سے پہچانتے ہیں جو ایک ہی بل میں رہنے والے تمام حشرات کے جسم پر پائی جاتی ہے۔حشرات ایسے مداخلت کار کو سونگھ کر بھی پہچان جاتے ہیں جو حملے کی نیت سے وہاں آتا ہے۔یہ تحقیق آسٹریلیا میں میلبورن یونیورسٹی کی ٹیم نے کی جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ چیونٹیاں لڑائی کے بعد اپنے دشمنوں کو یاد رکھ پاتی ہیں یا نہیں۔محققین نے گرم علاقوں کی معمار چیونٹیوں کا مشاہدہ کیا جو درختوں میں گھر بناتی ہیں۔ ان کے ایک بل میں پانچ لاکھ سے زائد چیونٹیاں رہتی ہیں۔محققین نے چیونٹیوں کے درمیان ''پہچان‘‘کو جانچنے کیلئے انہیں دوسرے گروہ کے مداخلت کاروں سے لڑائی کرنے دی۔جانچ کے کئی مرحلوں کے بعد ایک بل سے ایک چیونٹی کو مخالف گروہ کے چیونٹی کے ساتھی تجرباتی میدان میں چھوڑا گیا۔ اسی طرح پندرہ مرتبہ چیونٹیوں کا آمنا سامنا کروانے کے بعد سائنسدانوں نے چیونٹیوں سے ایک مصنوعی حملہ کروایا۔انہوں نے بیس چیونٹیوں کو مخالف چیونٹیوں کے بل کے قریب چھوڑ دیا۔محققین نے تحقیق میں لکھا ہے کہ ان مداخلت کاروں پر بل کی رہائشی چیونٹیوں نے روایتی انداز میں حملہ کر دیا۔مداخلت کار چیونٹیوں کے خلاف دفاع کرنے والی چیونٹیوں کا ردِ عمل بہت زیادہ مشتعل تھا کیونکہ ان ہی میں سے بعض چیونٹیاں تجرباتی جانچ کے دوران مداخلت کاروں سے لڑ چکی تھیں۔تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر مارک ایلگر نے بی بی سی نیچر کو بتایا کہ ایک گروہ میں رہنے والی تمام چیونٹیاں کسی ایک ساتھی کے تجربے کی بنیاد پر بھی کسی کے بارے میں ردِ عمل ظاہر کردیتی ہیں۔ انہوں نے اسے مجموعی یا گروہی دانشمندی قرار دیا۔چیونٹیوں سے متعلق سورہ نمل کی آیت نمبر 17 اور 18میں اللہ کا ارشاد ہے کہ: ''اور سلیمانؑ نکلے اپنے پورے لشکر کو لے کر جس میں انسان،جن اورتمام جانورتھے،فوج بندی کیے ہوئے جانے لگے۔یہاں تک کہ وہ گزرے وادی نمل سے،جو چیونٹیوں کی وادی تھی،ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹی سے کہا اے چیونٹیوں اپنے گھروں میں گھس جاؤ،کہیں تمہیں سلیمان اور اس کی فوجیں نہ پیس ڈالیں ،اور انہیں خبر بھی نہ ہو،اور سلیمان علیہ السلام نے جب اس چیونٹی کی بات سنی تو مسکرائے اوراپنے لشکر کا رخ موڑ لیا‘‘۔چیونٹیاں حضرت سلیمان علیہ السلام سے بات کرتی تھیں اور اللہ نے سلیمان علیہ السلام کو ان کی بات سمجھنے کی صلاحیت بھی دی تھی۔جو بات قرآن نے چودہ سو سال پہلے بتائی،آج کی جدید سائنس مختلف تجربات کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ چیونٹیاں ایک زبردست معاشی سسٹم میں رہتی ہیں اور اتنے مشکل سسٹم سے بات کرتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔سائنس نے بتایا کہ چیونٹیاں آواز سے بات نہیں کرتیں بلکہ ڈیٹا منتقل کر کے بات کرتی ہیں اور ان کاطریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے منہ سے ایک مواد نکالتی ہیں اور سامنے والی چیونٹی کے منہ پر چپکا دیتی ہیں۔ دوسری چیونٹی اس سے سارا پیغام ڈی کوڈ کر کے سمجھ لیتی ہے۔اس لئے آپ نے اکثردیکھا ہوگا کہ چیونٹیاں چلتے چلتے رک کر دوسری چیونٹی کے منہ سے منہ لگا کرآگے چلی جاتی ہیں،یہ وہ عمل ہوتا ہے جس میں وہ ڈیٹا منتقل کرتی ہیں۔جدید تحقیق میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ چیونٹیاں آپس میں نہ صرف بات کرتی ہیں بلکہ ایک زبردست نظام کے تحت زندگی بھی گزارتی ہیں۔ بارش سے پہلے چیونٹیاں اپنے گھر کے باہرگول چکر لگانا شروع کر دیتی ہیں اور مٹی کے پہاڑ بنا لیتی ہیں،تاکہ بارش کا پانی ان کے گھر میں نہ آسکے۔انہیں وقت سے پہلے بارش کا اس لئے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان میں قدرتی طور پر سینسر موجود ہوتا ہے جسے ''ہائیڈرو فولک‘‘ کہتے ہیں۔جب ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہوجاتا ہے تو چیونٹیوں میں موجود یہ سنسر اسے محسوس کرتا ہے اور چیونٹیوں کے دماغ کو بارش کے متعلق پیغام پہنچاتا ہے۔اس لئے چیونٹیاں بارش سے پہلے ہی اپنے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام کر لیتی ہیں۔محکمہ موسمیات بھی اسی عمل کو دھراتے ہوئے ہوا میں نمی کا تناسب نوٹ کرتے ہیں اور پھر بتاتے ہیں کہ بارش کے کیا امکانات ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنہوں نے قرآن کو سمجھا اور اس پر عمل کیا ان لوگوں نے درختوں کے نیچے بیٹھ کرنہ صرف زمین کا حجم بتایا بلکہ یہ بھی بتایا کہ انسان پرندوں کی مانند کیسے پرواز کر سکتا ہے۔اگر ہم قرآن میں غوروفکر کریں تو ایسی ایجادات کر سکتے ہیں کہ نسل انسانی حیران رہ جائے۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے کہ''اس میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں‘‘۔