لاس اینجلس ہرنیا فیشن جہاں سے جنم لیتا ہے
1769ء کا ذکر ہے کہ حکومت سپین نے ایک پادری Father Juan Crespi کی سربراہی میں کیلی فورنیا کے علاقے میں ایک مہماتی ٹیم روانہ کی۔ اس ٹیم کا گزر ایک خوبصورت دریا پر ہوا۔ ان کو یہ دریا اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اس دریا کے کنارے خیمے گاڑ دیئے اورانہوں نے اس دریا کا نام ''دی ریور آف اوور لیڈی، دی کوئین آف دی اینجلز‘‘رکھ دیا۔غالباً انہوں نے سینٹ میری سے خاص انسیت کی بناء پر یہ نام دیا تھا۔
4 ستمبر 1781ء کو 44 افراد پر مشتمل کچھ خاندان اس دریا کے کنارے آباد ہوئے اور انہوں نے دریا کے نام کی مناسبت سے اس جگہ کا نام ''دی ٹائون آف اوور لیڈی، دی کوئین آف دی اینجلز‘‘رکھ دیا۔ بے شک یہ ایک لمبا نام تھا۔ آہستہ آہستہ یہ نام مختصر ہو کر لاس اینجلس(Los Angeles) ہوگیا، جس کے پہلے لفظ ''لاس‘‘ کا معنی ہے شہر اور دوسرے لفظ اینجلس کا مطلب فرشتہ ہے۔ اس دن سے اس شہر کی آبادی میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا گیا۔
ابتدائی دور میں یہ شہر سپین کے کنٹرول میں رہا اور 1781ء ہی میں ایک سپینی گورنر نے اس شہر کی باقاعدہ بنیاد رکھی۔ پھر 1821ء میں میکسیکو نے سپین سے آزادی حاصل کرلی۔ سپین اور یورپ کے دوسرے حصوں میں آئے مہاجروں کو یہ علاقہ بہت پسند آیا۔ کیونکہ اس علاقے کی آب و ہوا کافی حد تک بحرہ روم کی آب و ہوا سے مماثلت رکھتی تھی۔ میکسیکو کی امریکہ سے لڑائی کے بعد ایک معاہدے تحت یہ شہر اپریل 1850ء میں امریکہ کے کنٹرول میں آگیا اور صرف پانچ ماہ بعد امریکہ نے اس شہر کو کیلی فورنیا کی ریاست میں شامل کرلیا۔
لاس اینجلس دنیا کا ایک بڑا تجارتی مرکز ہے۔ نئے سے نیا فیشن سب سے پہلے یہاں جنم لیتا ہے۔ ٹیکنالوجی، تعلیم، کلچر، میڈیا، انٹرٹینمنٹ، بزنس، پٹرولیم، زراعت اور اس شہر میں ہونے والی سائنسی ترقی کو اگر کہیں اکٹھا کر دیا جائے تو لاس اینجلس کا شہر معرض وجود میں آتا ہے۔ یہ ایک فطری اصول ہے کہ جب مضبوط بنیادیں مل جائیں تو ان بنیادوں کے اوپر فلک بوس عمارتیں کھڑی کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہی کچھ لاس اینجلس کے ساتھ ہوا۔ یہاں پر فلم انڈسٹری کی ابتدا کیا ہوئی کہ دنوں اور مہینوں میں لاس اینجلس میں ترقی کا ایسا خاموش انقلاب آیا کہ یہ شہر پورے امریکہ میں دوسرا بڑا شہر بن کر ابھرا اور آج یہ شہر جنوبی امریکہ کا دل کہلاتا ہے اور عالمی رینکنگ کے مطابق ٹوکیو اور نیویارک کے بعد یہ دنیا کا تیسرا امیر ترین شہر ہے۔ امیر شہروں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آنے والا یہ شہر امریکہ کی ایک بڑی ریاست کیلیفورنیا میں بھی سب سے بڑا شہر شمار ہوتا ہے۔
چوں چوں کا مربہ اس وقت لاس اینجلس میں بسنے والے دنیا کے تقریباً 160 ملکوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف اوقات میں بہتر رزق کی تلاش میں اپنے اپنے ملکوں کو خیرباد کہہ کر یہاں اس شہر میں آباد ہوتے گئے۔ دراصل 1848ء میں کیلی فورنیا میں سونے کی دریافت نے دنیا کے کئی لوگوں کو اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر یہاں آباد ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ یہ مہاجر قسمت آزمائی کیلئے دنیا کے کونے کونے سے آ کر یہاں آباد ہوتے گئے اور آج اس شہر میں سپینیش، لاطینی امریکہ، افریقہ، ایشیا سے کورین، ویتنامی، روسی، چینی اور فرانس، جرمنی، آئرش، جاپان، انڈیا، ایران اور یورپ کے ہر ملک سے آئے لوگ آباد ہیں۔ یہاں پر 96زبانیں بولی جاتی ہیں اور مقامی ریڈیو اور ٹی وی چینلز سے 15 مختلف زبانوں سے باقاعدہ پروگرام نشر ہوتے ہیں۔
ہر ملک کے اپنے کلچر کے علاوہ ایک Culture Mixed بھی نظر آتا ہے۔ میکسیکو سٹی کے بعد لاس اینجلس میکسیکن آبادی کا دوسرا بڑا شہر ہے جس میں اتنی تعداد میں میکسیکن لوگ آباد ہیں۔ سفید فام امریکی 35 فیصد، سیاہ فام 15فیصد اور ایشین 10 فیصد ہیں۔ جن میں چینی اور جاپانی نسل کے لوگوں کی کثیر تعداد بھی شامل ہے۔
اس شہر میں سب سے زیادہ مہاجر آباد ہیں اور کہا جاتا ہے کہ لاس اینجلس میں رہنے والوں میں 35فیصد لوگ لاس اینجلس سے باہر پیدا ہوئے ہیں۔ لاس اینجلس میں سیاہ فام اور لاطینی نسل کے لوگ زیادہ تر شہر کے مرکزی حصہ میں اپارٹمنٹس میں رہائش پذیر ہیں جبکہ ایشین، چائنا ٹائون، لٹل ٹوکیو اور کورین ٹائون میں آباد ہیں۔ ان کے مقابلہ میں سفید فام لوگ امریکہ کے دوسرے شہروں کی طرح شہر سے باہر مضافات یعنی بیورلے ہلز، ویسٹ وڈ اور سانتا مانیکا میں آباد ہیں اور مزے کی بات ہے کہ ہر کمیونٹی کے لوگ اپنے اپنے کلچر کو آزادانہ اپنائے ہوئے ہیں۔
لاس اینجلس میں امریکہ کے شمالی علاقوں کے مقابلے میں دھوپ وافر مقدار میں پڑتی ہے۔ دھوپ کی سالانہ اوسط 329 دن ہے۔ پورے سال میں اوسطاً 15انچ بارش برستی ہے۔ گرمیوں کے موسم میں درجہ حرارت 16سے 28ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔