آج کا دن

آج کا دن

اسپیشل فیچر

تحریر :


مشتری کے گرد تین سیاروں کی دریافت
1610ء میں آج کے دن اطالوی ماہر فلکیات گلیلیو گلیلی نے مشتری کے گرد تین سیاروں کی دریافت کی تھی۔ جنہیں افسانوی کرداروں ''لو‘‘، ''یوروپا‘‘ اور ''گانیمیڈ‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ مشتری نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے، مشتری اتنا بڑا ہے کہ نظام شمسی کے باقی تمام سیارے اس کے اندر سما سکتے ہیں۔ مشتری کے اندر 1300 سے زیادہ زمینیں فٹ ہو سکتی ہیں۔زمین سے یہ رات کو آسمان میں نظر آنے والا دوسرا روشن ترین سیارہ ہے۔ مشتری سورج سے پانچواں سیارہ ہے۔
ہائیڈوجن بم
امریکہ کے صدر ہیری ٹرومین نے 7جنوری 1953ء کوہائیڈروجن بم تیار کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اس منصوبے کے مکمل ہونے سے قبل بھی ایسا ہی اعلان کیا تھا۔ ہیری ٹرومین کا کہنا تھا کہ امریکہ نے ہائیڈروجن بم بنانے کا فیصلہ سوویت یونین کے 1949ء میں ایٹم بم کے متعلق دئیے گئے بیان کے بعد کیاتھا۔ امریکی صدر کے مطابق ہائیڈروجن بم بنانے کا مقصد امریکہ کے دفاع کو مضبوط بنانا ہے۔
CQDریڈیو سگنلز کا افتتاح
''CQD‘‘ریڈیو کے استعمال کیلئے اپنائے جانے والے پہلے ڈسٹریس سگنلز میں سے ایک تھا۔7جنوری1904ء کو مارکونی انٹرنیشنل میرین کمیونی کیشن کمپنی نے ''سرکلر 57‘‘ جاری کیا جس میں واضح طور پر بتایا گیا کہ کمپنی کی تنصیبات کیلئے یکم فروری''CQD‘‘بحری جہازوں کی طرف سے کسی ایمرجنسی یا مشکل کی صورت میں دی جانے والی کال ہو گی۔ کچھ عرصہ بعد اسی ڈسٹریس سگنل کو تبدیل کر کے مورس کوڈ کی شکل دے دی گئی اور دور جدید میں اسے'' SOS‘‘کے نام سے جانا جاتا ہے۔
امریکی صدر کلنٹن کا مواخذہ
7جنوری1999ء کو امریکی صدر کلنٹن کے مواخذے کیلئے مقدمے کی سماعت کاآغاز ہوا۔ کلنٹن پر جھوٹ بولنے اور انصاف میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام تھا۔ بعد میں گواہوں سے چھیڑ چھاڑ اور طاقت کے غلط استعمال جیسے اقدامات کا بھی الزام لگایا گیا۔ کلنٹن پر پاؤلا جونز کی طرف سے ہراساں کرنے کے الزامات کا مقدمہ بھی چلایا گیا۔مواخذے کے مقدمے کی سماعت کے دوران، ہاؤس جوڈیشری کمیٹی نے مواخذے کے تین آرٹیکلز کی منظوری دی ۔ اس کے بعد کلنٹن نے امریکی عوام سے عوامی معافی مانگی ۔
مانٹیل حادثہ
7جنوری 1948ء کو کینٹکی ائیر نیشنل گارڈ کا پائلٹ 25سالہ کیپٹن تھامس ایف مانٹیل، فرینکلن کینٹکی ریاستہائے متحدہ امریکہ کے قریب اپنےP-51 Mustang لڑاکا طیارے کے حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ یہ حادثہ ایک نامعلوم فلائنگ آبجیکٹ ''UFO‘‘ کا پیچھا کرنے کے دوران پیش آیا۔ یہ واقعہ ابتدائیUFOواقعات میں سب سے زیادہ مشہورتھا۔مانٹیل نے کافی اونچائی تک اس کا پیچھا کیا جہاز اس کے کنٹرول میں نہیں رہا اور گر کر تباہ ہو گیا۔

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
چائنہ کا دلکش تفریحی پارک ہربن آئس اینڈ سنوورلڈ

چائنہ کا دلکش تفریحی پارک ہربن آئس اینڈ سنوورلڈ

ہاربن انٹرنیشنل آئس اینڈ سنو فیسٹیول ایک سالانہ سرمائی تہوار ہے جو چین کے شہر ہاربن میں ایک مخصوص تھیم کے ساتھ منعقد ہوتا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے بڑا آئس اینڈ سنو فیسٹیول بن چکا ہے۔ اس تہوار میں مقبول تفریحی مقام ''آئس اینڈ سنو ورلڈ‘‘ شامل ہے۔ ابتدا میں اس فیسٹیول میں زیادہ تر چینی افراد شریک ہوتے تھے، لیکن اب یہ ایک بین الاقوامی فیسٹیول اور مقابلہ بن چکا ہے، جس نے تقریباً پونے دوکروڑ سیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور 28 ارب یوآن (4.4 ارب ڈالر) کی آمدنی حاصل کی۔ اس فیسٹیول میں دنیا کے سب سے بڑے برف کے مجسمے بنائے جاتے ہیں۔5جنوری سے شروع ہونے والا یہ فیسٹیول فروری کے آخر تک جاری رہتا ہے۔ اگرچہ شہر بھر میں آئس مجسمے نصب کیے جاتے ہیں، لیکن دو اہم نمائش گاہیں ہیں۔سن آئی لینڈ: یہ ایک تفریحی علاقہ ہے جو سونگھوا دریا کے قریب واقع ہے، جہاں دیوہیکل برف کے مجسمے بنائے جاتے ہیں۔ آئس اینڈ سنو ورلڈ: یہ رات کے وقت کھلتا ہے، جہاں سونگھوا دریا سے نکالی گئی 2 سے 3 فٹ موٹی برف کی سلیبوں سے مکمل سائز کی عمارتیں بنا کر انہیں مختلف رنگوں کی روشنیوں سے منور کیا جاتا ہے۔ یہ پارک عموماً دسمبر کے آخر میں سیاحوں کیلئے کھول دیا جاتا ہے۔ ہر سال اس پارک کو نئے ماڈل اور ڈیزائن کی عمارتوں اور مجسموں کے ساتھ دوبارہ تعمیر کیا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ پارک 8لاکھ مربع میٹر کے رقبے تک پھیل چکا ہے۔ہاربن شمال مشرقی چین میں واقع ہے اور یہاں سردیوں میں سائبیریا سے ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں۔ موسم گرما میں یہاں کا اوسط درجہ حرارت 21.2 ڈگری سینٹی گریڈ ہوتا ہے، جبکہ سردیوں میں منفی 16.8ڈگری سینٹی گریڈ تک گرتا ہے۔ سالانہ کم درجہ حرارت منفی 25ڈگری سینٹی گریڈ غیر معمولی نہیں ہے۔تاریخ اور اہمیتیہ تہوار 1963ء میں ہاربن کے روایتی آئس لالٹین شو سے وجود میں آیا تھا۔ یہ تہوار ثقافتی انقلاب کے دوران کئی سالوں تک معطل رہا، 5 جنوری 1985ء کوژاؤلن پارک میں اس کا دوبارہ آغاز کیا گیا ۔2001ء میں ہاربن آئس فیسٹیول کو ہیلونگجیانگ انٹرنیشنل سکی فیسٹیول کے ساتھ ضم کر دیا گیا اور اسے نیا باضابطہ نام ''ہاربن انٹرنیشنل آئس اینڈ سنو اسکلپچر فیسٹیول‘‘ دیا گیا۔2007ء میں اس تہوار میں کینیڈین تھیم پر مبنی ایک مجسمہ شامل کیا گیا، جو کینیڈین ڈاکٹر نارمن بیتھون کی یاد میں بنایا گیا تھا۔ اس مجسمے کو دنیا کے سب سے بڑے برفانی مجسمے کے طور پر گنیز ورلڈ ریکارڈ سے نوازا گیا۔ یہ مجسمہ 250 میٹر طویل اور 28 فٹ (8.5 میٹر) بلند تھا اور اس کی تعمیر میں 13ہزار مکعب میٹر سے زیادہ برف استعمال کی گئی۔ 2014ء میں، اس فیسٹیول نے اپنی 30ویں سالگرہ '' آئس سنو، چارمنگہاربن‘‘ کے تھیم کے ساتھ منائی۔ 20 دسمبر 2013ء سے 28 فروری 2014ء تک مختلف میلوں، مقابلوں اور نمائشوں کا انعقاد کیا گیا۔2015ء میں، 31 واں ہاربن آئس اینڈ سنو فیسٹیول 5 جنوری کو ''آئس سنو ہاربن، چارمنگ چائنا ڈریمز اراؤنڈ دی ورلڈ‘‘ کے تھیم کے ساتھ شروع ہوا۔ اس میں افتتاحی تقریب، آتش بازی، آئس لالٹینز، سالگرہ کی تقریبات، برفانی مجسموں کے مقابلے، نمائشیں، سرمائی تیراکی، سردیوں میں مچھلی پکڑنے، اجتماعی شادی کی تقریب، فیشن شوز، کنسرٹس اور آئس اسپورٹس گیمز شامل تھے، جو 22 دسمبر 2014ء سے مارچ 2015ء کے اوائل تک جاری رہے۔ 2019ء میں سب سے مقبول مقام ''ہاربن آئس اینڈ سنو ورلڈ‘‘6لاکھ مربع میٹر سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا تھا اور اس میں 100 سے زیادہ مجسمے شامل تھے۔ اس میں 12 ممالک کے فنکاروں نے سالانہ مقابلے میں حصہ لیا۔2020ء کا تہوار دنیا کے سب سے بڑے سرمائی جشن کے طور پر جانا جاتا ہے۔ اس برس مجسمے تقریباً 2 لاکھ 20ہزار مکعب میٹر آئس بلاکس سے بنائے گئے تھے۔2021ء میںکورونا کی وجہ سے یہ فیسٹیول مکمل گنجائش کے ساتھ منعقد نہیں ہو سکا۔ہاربن آئس اینڈ سنو ورلڈ سرمائی تفریح اور حیرت انگیز آئس آرٹ کے شائقین کے لیے ایک ناقابل فراموش تجربہ فراہم کرتا ہے۔ برف کو بلاکس میں کاٹنے کے لیے سوئنگ آرے استعمال کیے جاتے ہیں، جو سونگھوا دریا کی منجمد سطح سے نکالے جاتے ہیں۔ اس کے بعد آئس مجسمہ ساز بڑے پیمانے پر برفانی مجسمے تراشنے کے لیے چھینیوں، آئس پک اور مختلف اقسام کی آرے استعمال کرتے ہیں۔ یہ مجسمے، جو بہت پیچیدہ ڈیزائن کے حامل ہوتے ہیں، تہوار کے آغاز سے پہلے دن رات تیار کیے جاتے ہیں۔پارک میں موجود آئس مجسمے اور عمارتیں مختلف رنگوں کی روشنیوں سے مزین ہوتی ہیں، جو رات کے وقت ایک جادوئی منظر پیش کرتی ہیں۔آئس سلائیڈز، برفانی کھیل، اور بچوں اور بڑوں کے لیے مختلف تفریحی مقامات اس پارک کا حصہ ہیں۔

عظیم مسلم سائنسدان:ابوالحسن علی بن سہل ربن طبری

عظیم مسلم سائنسدان:ابوالحسن علی بن سہل ربن طبری

ابو الحسن علی بن سہل ربن طبری فن طب کا ماہر تھا۔ اس نے اپنے والد سے اس فن کی تعلیم حاصل کی، تکمیل کے بعد تجربات حاصل کئے اور پھر بغداد کے جملہ ہسپتالوں کا نگران مقرر ہوا۔ اس نے طبی انسائیکلوپیڈیا اوّل اوّل مرتب کی۔ اس نے تین کتابیں لکھی ہیں۔ پہلی کتاب ''فردوس الحکمت‘‘ ابجد کے اصولوں پر ہے۔ اس میں آب و ہوا ، موسم، صحت ، علم حیوانات پر عالمانہ بحث کی ہے۔ دوسری کتاب ''حفظ صحت‘‘ پر ہے، تیسری کتاب اس کی ''دین و دولت‘‘ ہے جو حسن اخلاق پر انسانوں کیلئے ہے۔870ء میں ان کا انتقال ہوا۔ابتدائی زندگی، تعلیم و تربیتعلی بن سہل طبری ایک جامع محقق تھے، خصوصاً علم طب میں انہیں کمال حاصل تھا۔علی بن سہل بن طبری، طبرستان(مرو، ایران) کا باشندہ تھا۔ اس کے والد قابل طبیب اور مشہور خوش نویس تھے۔ وہ بغداد آکر آباد ہو گئے۔ علی بن سہل نے اپنے والد سے تعلیم حاصل کی، اس نے خوش نویسی کا فن بھی سیکھا۔تعلیم کے بعد وہ مطالعے میں مصروف ہو گیا۔ اس نے فن طب کا مطالعہ کثرت سے کیا اور اس فن میں دست گاہ کاحل پیدا کیا۔ وہ بغداد کے سرکاری ہسپتالوں کا نگراں مقرر کیا گیا۔علی بن سہل نے اپنے شوق سے یونانی اور سریانی دونوں زبانیں سیکھیں۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق علی نے درس دینا شروع کیا چونکہ وہ کامل مہارت رکھتے تھے۔ اس لئے ان کے حلقہ درس میں فن طب کے طلبہ کثرت سے شریک ہونے لگے، اور وہ بہت مشہور ہو گئے۔بغداد علمی مرکز تھا، اس زمانے میں زکریا رازی طب کے مشہور ماہر بغداد آ گئے، وہ طب کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ریسرچ بھی کرنا چاہتے تھے،ان کی علی بن سہل سے ملاقات ہو گئی، زکریا رازی ان کے حلقہ درس میں چند روز بیٹھے۔ انہیں علی بن سہل کے درس دینے کا طریقہ پسند آیا اور پھر مستقل شرکت اختیار کرلی اور فن طب میں ریسرچ کرنے لگے۔ علی بن سہل کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ دنیا کے مشہور طبیب اور سائنسدان زکریا رازی کے استاد تھے۔علمی خدمات اور کارنامےعلی بن سہل ایک روشن دماغ، باکمال طبیب تھے۔ انہیںسرکاری ہسپتالوں میں نگران کے طور پر مقرر کیا گیا۔علی بن سہل نے اس طرح بہت کام کیا اور تجربہ حاصل کیا۔ انہیں ہسپتالوں کے نظم و ضبط پر قدرت ہو گئی، ہر قسم کے مریضوں کو دیکھنے کا موقع ملا۔ انہوں نے بڑی مستعدی سے مریضوں کا علاج کیا اور علاج میں نئے نئے طریقے اختیار کئے۔ وہ اپنے تجربات کو ڈائری میں لکھتے جاتے تھے۔ اور پھر مرتب کرکے کتابی صورت دے دی۔ اس کا نام ''فردوس الحکمت‘‘ ہے۔ یہ کتاب ابجد کے اصول پر مرتب کی گئی ، جیسا کہ آج کل انسائیکلو پیڈیا کا اصول ہے۔'' فردوس الحکمت‘‘ عربی میں جامع مستند اور ضخیم کتاب ہے۔ اس میں مصنف کی زندگی بھر کے تجربات کا نچوڑ ہے جو اس نے بے شمار مریضوں کو دیکھ کر اور علاج کے بعد لکھا تھا۔قابل مصنف نے آب و ہوا موسم، صحت، امراض نفسانی، علم تولید اور علم حیوانات پر عالمانہ انداز میں بحث کی ہے۔ ہر موضوع کو لیا ہے، اپنی افادیت کے سبب یہ کتاب ہمیشہ داخل درس رہی۔دوسری کتاب اس کی ''حفظ صحت‘‘ ہے اس میں صحت قائم رکھنے کے اصول اور قاعدے نہایت عمدگی سے بیان کئے گئے ہیں۔ایک اور کتاب '' دین و دولت‘‘ اس قابل مصنف نے مرتب کی جو اخلاقی تعلیم اور معلومات کا قابل قدر ذخیرہ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ علی بن سہل انسائیکلو پیڈیا کے موجد ہیں۔ وہ حفظ صحت کے اصول اور احتیاط کے قاعدے بتانے والے طبیب حاذق، علم الاخلاق کا مالک، سماجی زندگی کو عمدہ طریقے سے فروغ دینے والا اور دین اور دولت کو توازن کے ساتھ لے کر چلنے والے مصلح اور عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ 

آج کا دن

آج کا دن

اتحادی افواج کا جوابی حملہپہلی عالمی جنگ کے دوران 8 جنوری 1918ء کو فرانسیسی ، برطانوی اور اطالوی افواج پہلی عالمی جنگ کے دوران اٹلی میں دریائے پیائو کے کنارے جوابی حملے کی تیاری میں مصروف تھیں تاہم یہ جنگ کچھ عرصے کیلئے موخر ہوگئی۔ مارچ 1918ء میں جرمنوں نے ایک مرتبہ پھر دریائے پیائو کے مغربی محاذ پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی۔ اسے جرمن فوج کی جنگ جیتنے کی آخری کوششوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ 1918ء میں پیائو کی جنگ کے خاتمے کے بعد آسٹریا اور ہنگری کی فوجیں جو جرمنوں کے ساتھ لڑ رہی تھیں بکھرنا شروع ہو گئیں۔دریائے پیائو کے کنارے ہونے والی یہ جنگ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے کا آغاز تھا۔برطانیہ میں فوڈ راشننگ8جنوری1940ء کو برطانیہ نے مکھن اور چینی پر مشتمل فوڈ راشننگ متعارف کرائی۔ کچھ عرصے بعد چائے، جام، بسکٹ،پنیر، انڈے ،دودھ اور ڈبہ بند پھلوں کا راشن متعارف کرایا گیا۔ان سب اقدامات کے بعد بھی جب جنگ جاری رہی تو اور بھی کھانے اور غیر کھانے کی بہت سی اشیاء متعارف کرائی گئیں جن میں گوشت،پیٹرول، کپڑے اور یہاں تک کے صابن کو بھی راشن کارڈ میں شامل کیا گیا۔ اس کارڈ کا اجراء اس لئے بھی کیا گیا کیونکہ جنگی حالات کی وجہ سے ملک بھر میں اشیائے خورونوش کی قلت تھی اور حکومت اپنی نگرانی میں ان اشیاء کی تقسیم کو منصفانہ رکھنا چاہتی تھی۔1918ء کا امن معاہدہپہلی عالمی جنگ کے بعد امن کیلئے واشنگٹن کا14نکاتی منصوبہ امریکی صدر رووڈ روولسن کی طرف سے پیش کیا گیا۔ یہ تجویز ایک پلان پر مشتمل تھی جس میں قیام امن کے 14مختلف پہلو شامل تھے۔ اس فہرست میں سے ایک وہ ہے جو امن قائم کرنے والے ممالک کیلئے تجارت کی مساوات اور اس کی دیکھ بھال میں مدد سے متعلق تھا۔ اس فہرست کے ایجنڈے کے دیگر حصوں میں تمام نو آبادیاتی دعوئوں کی غیر جانبدارانہ ایڈجسٹمنٹ ، روسی علاقے کا انخلا ،بیلجیئم اور فرانس کے علاقوں اور اٹلی کی سرحدوں کی از سر نو ترتیب شامل تھی۔یوکرین مسافر طیارہ ایران میں تباہ2020ء میں آج کے روز یوکرین ایئر لائنز کا مسافر بردار طیارہ امام خمینی انٹرنیشنل ایئرپورٹ تہران سے ٹیک آف کے فوراً بعد گر کر تباہ ہو گیا۔ جہاز میں سوار تمام 176 افرادمارے گئے۔ تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ ہوائی جہاز طیارہ شکن میزائل کا نشانہ بنا جو اسلامی انقلابی گارڈ کور(IRGC) کی طرف سے داغا گیا۔ یہ واقعہ امریکہ کی طرف سے قاسم سلیمانی کے قتل کے پانچ دن بعد پیش آیا اور ایران کی جانب سے آپریشن شہید سلیمانی کا بدلہ لینے کے چند گھنٹے بعد۔ 

چیونٹیاں آپس میں کیسے بات کرتی ہیں؟

چیونٹیاں آپس میں کیسے بات کرتی ہیں؟

چیونٹی تقریباً دنیا کے ہر حصے میں پائی جاتی ہے۔ یہ حشرات الارض کے خاندان سے تعلق رکھتی ہے اور آج اس کی 12ہزار سے زائد اقسام موجود ہیں۔ ان کو ان کے سر پر لگے دو اینٹیناز اور مخصوص جسمانی ساخت کی بدولت بآسانی پہچاناجا سکتا ہے۔ چیونٹیاں انتہائی منظم بستیاں بناتی ہیں، جو حجم اور رقبے کے لحاظ سے کافی بڑی ہوتی ہیں۔ جس میں نر اور مادہ کو ضرورت کے مطابق ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں۔ جس میں نگرانی سے لے کر مزدوری تک ہر طرح کے کام شامل ہیں۔بعض اقسام کی چیونٹیاں اپنے سے کئی گنا زیادہ وزن اٹھا سکتی ہیں۔چیونٹیوں کا شمار دنیا کے مشقت کرنے والی مخلوقات میں ہوتا ہے۔ ان کی بعض نسلیں ایسی بھی موجود ہیں جن کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔ زیادہ تر چیونٹیاں پانی میں 20 سے 24 گھنٹے تک زندہ رہ سکتی ہیں۔ نیز کچھ چیونٹیاں ایسی بھی ہیں جن کو نئی نسل پیدا کرنے کیلئے نر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ چیونٹیاں سونگنے کیلئے اپنے انٹینوں کا استعمال کرتی ہیں ۔چیونٹیوں کی کالونی ملکہ کے دم سے چلتی ہے اور ایک ملکہ کی عمر 30 سال تک ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس مادہ ورکر چیونٹیاں ایک سے تین سال زندہ رہتی ہیں جبکہ نر چیونٹیوں کی عمر کچھ ہفتوں تک ہی ہوتی ہے۔ ان کی پسندیدہ خوراک میٹھا ہے خاص کر شکّر۔چیونٹیوں کی ایک فوج ایک ہفتے میں زیر زمین وسیع شہر تعمیر کر سکتی ہے۔ لہٰذا ایک بستی کی صورت میں مل کر کام کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ وہ انتہائی متاثر کن کارنامے انجام دے سکتی ہیں۔ گہری زمین کے اندر چیونٹیوں کے گھرکثیر خانوں سے بنتے ہیں جو سرنگوں سے منسلک ہوتے ہیں۔ ہر خانے کا مختلف کام ہوتا ہے، کچھ خوراک کا ذخیرہ کرنے کیلئے ہوتے ہیں، باقی جگہ مصروف مزدور چیونٹیوں کیلئے ہوتی ہے۔ ملکہ چیونٹی ایک مرکزی خانے میں رہتی ہے ، جہاں وہ اپنے انڈے دیتی ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ گروہ کی صورت میں رہنے والی چیونٹیاں جن کا شمار قدرت کے قدیم ترین اور قابل معاشروں میں ہوتا ہے، یہ اجتماعی طور پر اپنے دشمنوں کو یاد رکھتی ہیں۔ جب ایک چیونٹی کسی دوسرے گروہ سے آنے والے بن بلائے مہمان سے لڑائی کرتی ہے تو وہ اس کی بو کو یاد رکھتی ہے ۔سائنسی جریدے میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق چیونٹیوں کی کئی اقسام میں بطورِ معاشرہ رہنے کیلئے کیمیائی مادّے نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حشرات اپنے ساتھ رہنے والے دوسرے ساتھیوں کو ان کی خاص کیمیائی علامت سے پہچانتے ہیں جو ایک ہی بل میں رہنے والے تمام حشرات کے جسم پر پائی جاتی ہے۔حشرات ایسے مداخلت کار کو سونگھ کر بھی پہچان جاتے ہیں جو حملے کی نیت سے وہاں آتا ہے۔یہ تحقیق آسٹریلیا میں میلبورن یونیورسٹی کی ٹیم نے کی جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی تھی کہ چیونٹیاں لڑائی کے بعد اپنے دشمنوں کو یاد رکھ پاتی ہیں یا نہیں۔محققین نے گرم علاقوں کی معمار چیونٹیوں کا مشاہدہ کیا جو درختوں میں گھر بناتی ہیں۔ ان کے ایک بل میں پانچ لاکھ سے زائد چیونٹیاں رہتی ہیں۔محققین نے چیونٹیوں کے درمیان ''پہچان‘‘کو جانچنے کیلئے انہیں دوسرے گروہ کے مداخلت کاروں سے لڑائی کرنے دی۔جانچ کے کئی مرحلوں کے بعد ایک بل سے ایک چیونٹی کو مخالف گروہ کے چیونٹی کے ساتھی تجرباتی میدان میں چھوڑا گیا۔ اسی طرح پندرہ مرتبہ چیونٹیوں کا آمنا سامنا کروانے کے بعد سائنسدانوں نے چیونٹیوں سے ایک مصنوعی حملہ کروایا۔انہوں نے بیس چیونٹیوں کو مخالف چیونٹیوں کے بل کے قریب چھوڑ دیا۔محققین نے تحقیق میں لکھا ہے کہ ان مداخلت کاروں پر بل کی رہائشی چیونٹیوں نے روایتی انداز میں حملہ کر دیا۔مداخلت کار چیونٹیوں کے خلاف دفاع کرنے والی چیونٹیوں کا ردِ عمل بہت زیادہ مشتعل تھا کیونکہ ان ہی میں سے بعض چیونٹیاں تجرباتی جانچ کے دوران مداخلت کاروں سے لڑ چکی تھیں۔تحقیقی ٹیم کے سربراہ پروفیسر مارک ایلگر نے بی بی سی نیچر کو بتایا کہ ایک گروہ میں رہنے والی تمام چیونٹیاں کسی ایک ساتھی کے تجربے کی بنیاد پر بھی کسی کے بارے میں ردِ عمل ظاہر کردیتی ہیں۔ انہوں نے اسے مجموعی یا گروہی دانشمندی قرار دیا۔چیونٹیوں سے متعلق سورہ نمل کی آیت نمبر 17 اور 18میں اللہ کا ارشاد ہے کہ: ''اور سلیمانؑ نکلے اپنے پورے لشکر کو لے کر جس میں انسان،جن اورتمام جانورتھے،فوج بندی کیے ہوئے جانے لگے۔یہاں تک کہ وہ گزرے وادی نمل سے،جو چیونٹیوں کی وادی تھی،ایک چیونٹی نے دوسری چیونٹی سے کہا اے چیونٹیوں اپنے گھروں میں گھس جاؤ،کہیں تمہیں سلیمان اور اس کی فوجیں نہ پیس ڈالیں ،اور انہیں خبر بھی نہ ہو،اور سلیمان علیہ السلام نے جب اس چیونٹی کی بات سنی تو مسکرائے اوراپنے لشکر کا رخ موڑ لیا‘‘۔چیونٹیاں حضرت سلیمان علیہ السلام سے بات کرتی تھیں اور اللہ نے سلیمان علیہ السلام کو ان کی بات سمجھنے کی صلاحیت بھی دی تھی۔جو بات قرآن نے چودہ سو سال پہلے بتائی،آج کی جدید سائنس مختلف تجربات کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ چیونٹیاں ایک زبردست معاشی سسٹم میں رہتی ہیں اور اتنے مشکل سسٹم سے بات کرتی ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔سائنس نے بتایا کہ چیونٹیاں آواز سے بات نہیں کرتیں بلکہ ڈیٹا منتقل کر کے بات کرتی ہیں اور ان کاطریقہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے منہ سے ایک مواد نکالتی ہیں اور سامنے والی چیونٹی کے منہ پر چپکا دیتی ہیں۔ دوسری چیونٹی اس سے سارا پیغام ڈی کوڈ کر کے سمجھ لیتی ہے۔اس لئے آپ نے اکثردیکھا ہوگا کہ چیونٹیاں چلتے چلتے رک کر دوسری چیونٹی کے منہ سے منہ لگا کرآگے چلی جاتی ہیں،یہ وہ عمل ہوتا ہے جس میں وہ ڈیٹا منتقل کرتی ہیں۔جدید تحقیق میں یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ چیونٹیاں آپس میں نہ صرف بات کرتی ہیں بلکہ ایک زبردست نظام کے تحت زندگی بھی گزارتی ہیں۔ بارش سے پہلے چیونٹیاں اپنے گھر کے باہرگول چکر لگانا شروع کر دیتی ہیں اور مٹی کے پہاڑ بنا لیتی ہیں،تاکہ بارش کا پانی ان کے گھر میں نہ آسکے۔انہیں وقت سے پہلے بارش کا اس لئے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان میں قدرتی طور پر سینسر موجود ہوتا ہے جسے ''ہائیڈرو فولک‘‘ کہتے ہیں۔جب ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہوجاتا ہے تو چیونٹیوں میں موجود یہ سنسر اسے محسوس کرتا ہے اور چیونٹیوں کے دماغ کو بارش کے متعلق پیغام پہنچاتا ہے۔اس لئے چیونٹیاں بارش سے پہلے ہی اپنے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام کر لیتی ہیں۔محکمہ موسمیات بھی اسی عمل کو دھراتے ہوئے ہوا میں نمی کا تناسب نوٹ کرتے ہیں اور پھر بتاتے ہیں کہ بارش کے کیا امکانات ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ جنہوں نے قرآن کو سمجھا اور اس پر عمل کیا ان لوگوں نے درختوں کے نیچے بیٹھ کرنہ صرف زمین کا حجم بتایا بلکہ یہ بھی بتایا کہ انسان پرندوں کی مانند کیسے پرواز کر سکتا ہے۔اگر ہم قرآن میں غوروفکر کریں تو ایسی ایجادات کر سکتے ہیں کہ نسل انسانی حیران رہ جائے۔ اسی لئے تو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے کہ''اس میں عقل والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں‘‘۔ 

لاس اینجلس ہرنیا فیشن جہاں سے جنم لیتا ہے

لاس اینجلس ہرنیا فیشن جہاں سے جنم لیتا ہے

1769ء کا ذکر ہے کہ حکومت سپین نے ایک پادری Father Juan Crespi کی سربراہی میں کیلی فورنیا کے علاقے میں ایک مہماتی ٹیم روانہ کی۔ اس ٹیم کا گزر ایک خوبصورت دریا پر ہوا۔ ان کو یہ دریا اس قدر پسند آیا کہ انہوں نے اس دریا کے کنارے خیمے گاڑ دیئے اورانہوں نے اس دریا کا نام ''دی ریور آف اوور لیڈی، دی کوئین آف دی اینجلز‘‘رکھ دیا۔غالباً انہوں نے سینٹ میری سے خاص انسیت کی بناء پر یہ نام دیا تھا۔ 4 ستمبر 1781ء کو 44 افراد پر مشتمل کچھ خاندان اس دریا کے کنارے آباد ہوئے اور انہوں نے دریا کے نام کی مناسبت سے اس جگہ کا نام ''دی ٹائون آف اوور لیڈی، دی کوئین آف دی اینجلز‘‘رکھ دیا۔ بے شک یہ ایک لمبا نام تھا۔ آہستہ آہستہ یہ نام مختصر ہو کر لاس اینجلس(Los Angeles) ہوگیا، جس کے پہلے لفظ ''لاس‘‘ کا معنی ہے شہر اور دوسرے لفظ اینجلس کا مطلب فرشتہ ہے۔ اس دن سے اس شہر کی آبادی میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ ابتدائی دور میں یہ شہر سپین کے کنٹرول میں رہا اور 1781ء ہی میں ایک سپینی گورنر نے اس شہر کی باقاعدہ بنیاد رکھی۔ پھر 1821ء میں میکسیکو نے سپین سے آزادی حاصل کرلی۔ سپین اور یورپ کے دوسرے حصوں میں آئے مہاجروں کو یہ علاقہ بہت پسند آیا۔ کیونکہ اس علاقے کی آب و ہوا کافی حد تک بحرہ روم کی آب و ہوا سے مماثلت رکھتی تھی۔ میکسیکو کی امریکہ سے لڑائی کے بعد ایک معاہدے تحت یہ شہر اپریل 1850ء میں امریکہ کے کنٹرول میں آگیا اور صرف پانچ ماہ بعد امریکہ نے اس شہر کو کیلی فورنیا کی ریاست میں شامل کرلیا۔لاس اینجلس دنیا کا ایک بڑا تجارتی مرکز ہے۔ نئے سے نیا فیشن سب سے پہلے یہاں جنم لیتا ہے۔ ٹیکنالوجی، تعلیم، کلچر، میڈیا، انٹرٹینمنٹ، بزنس، پٹرولیم، زراعت اور اس شہر میں ہونے والی سائنسی ترقی کو اگر کہیں اکٹھا کر دیا جائے تو لاس اینجلس کا شہر معرض وجود میں آتا ہے۔ یہ ایک فطری اصول ہے کہ جب مضبوط بنیادیں مل جائیں تو ان بنیادوں کے اوپر فلک بوس عمارتیں کھڑی کرنا آسان ہوجاتا ہے۔ یہی کچھ لاس اینجلس کے ساتھ ہوا۔ یہاں پر فلم انڈسٹری کی ابتدا کیا ہوئی کہ دنوں اور مہینوں میں لاس اینجلس میں ترقی کا ایسا خاموش انقلاب آیا کہ یہ شہر پورے امریکہ میں دوسرا بڑا شہر بن کر ابھرا اور آج یہ شہر جنوبی امریکہ کا دل کہلاتا ہے اور عالمی رینکنگ کے مطابق ٹوکیو اور نیویارک کے بعد یہ دنیا کا تیسرا امیر ترین شہر ہے۔ امیر شہروں کی فہرست میں تیسرے نمبر پر آنے والا یہ شہر امریکہ کی ایک بڑی ریاست کیلیفورنیا میں بھی سب سے بڑا شہر شمار ہوتا ہے۔چوں چوں کا مربہ اس وقت لاس اینجلس میں بسنے والے دنیا کے تقریباً 160 ملکوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ لوگ مختلف اوقات میں بہتر رزق کی تلاش میں اپنے اپنے ملکوں کو خیرباد کہہ کر یہاں اس شہر میں آباد ہوتے گئے۔ دراصل 1848ء میں کیلی فورنیا میں سونے کی دریافت نے دنیا کے کئی لوگوں کو اپنے اپنے گھروں کو چھوڑ کر یہاں آباد ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ یہ مہاجر قسمت آزمائی کیلئے دنیا کے کونے کونے سے آ کر یہاں آباد ہوتے گئے اور آج اس شہر میں سپینیش، لاطینی امریکہ، افریقہ، ایشیا سے کورین، ویتنامی، روسی، چینی اور فرانس، جرمنی، آئرش، جاپان، انڈیا، ایران اور یورپ کے ہر ملک سے آئے لوگ آباد ہیں۔ یہاں پر 96زبانیں بولی جاتی ہیں اور مقامی ریڈیو اور ٹی وی چینلز سے 15 مختلف زبانوں سے باقاعدہ پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ ہر ملک کے اپنے کلچر کے علاوہ ایک Culture Mixed بھی نظر آتا ہے۔ میکسیکو سٹی کے بعد لاس اینجلس میکسیکن آبادی کا دوسرا بڑا شہر ہے جس میں اتنی تعداد میں میکسیکن لوگ آباد ہیں۔ سفید فام امریکی 35 فیصد، سیاہ فام 15فیصد اور ایشین 10 فیصد ہیں۔ جن میں چینی اور جاپانی نسل کے لوگوں کی کثیر تعداد بھی شامل ہے۔ اس شہر میں سب سے زیادہ مہاجر آباد ہیں اور کہا جاتا ہے کہ لاس اینجلس میں رہنے والوں میں 35فیصد لوگ لاس اینجلس سے باہر پیدا ہوئے ہیں۔ لاس اینجلس میں سیاہ فام اور لاطینی نسل کے لوگ زیادہ تر شہر کے مرکزی حصہ میں اپارٹمنٹس میں رہائش پذیر ہیں جبکہ ایشین، چائنا ٹائون، لٹل ٹوکیو اور کورین ٹائون میں آباد ہیں۔ ان کے مقابلہ میں سفید فام لوگ امریکہ کے دوسرے شہروں کی طرح شہر سے باہر مضافات یعنی بیورلے ہلز، ویسٹ وڈ اور سانتا مانیکا میں آباد ہیں اور مزے کی بات ہے کہ ہر کمیونٹی کے لوگ اپنے اپنے کلچر کو آزادانہ اپنائے ہوئے ہیں۔لاس اینجلس میں امریکہ کے شمالی علاقوں کے مقابلے میں دھوپ وافر مقدار میں پڑتی ہے۔ دھوپ کی سالانہ اوسط 329 دن ہے۔ پورے سال میں اوسطاً 15انچ بارش برستی ہے۔ گرمیوں کے موسم میں درجہ حرارت 16سے 28ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان رہتا ہے۔ 

رومانوی شہر  وینس خطرات اور خدشات کی زد میں

رومانوی شہر وینس خطرات اور خدشات کی زد میں

وینس کو دیئے گئے مختلف نامآخر ایسا کیا منفرد اور خاص ہے کہ وینس دنیا بھر کے سیاحوں کی جنت اور رومانوی شہر کی شہرت رکھتا ہے ؟ سیاح ہی نہیں بلکہ خود اطالوی بھی اس شہر سے بہت پیار کرتے ہیں۔ تبھی تو انہوں نے پیار سے اسے کئی نام دے رکھے ہیں ، جیسے ''ایڈریاٹک کی ملکہ‘‘ ، ''محبت کرنے والوں کا شہر‘‘ ، ''سکون دینے والا شہر‘‘ ، ''رومانوی شہر ‘‘ وغیرہ۔اٹلی کے شمال مشرق میں واقع اس شہر کو لوگوں نے جہاں پیار کے کئی نام دے رکھے ہیں، وہیں پہچان کیلئے بھی اس شہر کو کئی ناموں سے جانا جاتا ہے مثلاً تیرتا ہوا شہر ، پلوں والا شہر ،پانی والا شہر ، ماسک والا شہر ، تالابوں والا شہر ، سیاحوں کا شہر وغیرہ۔ دنیا میں شاید ہی کسی اور شہر کے اتنے نام ہوں گے جتنے شہر وینس کو دئیے گئے ہیں۔ دنیا میں بہت کم ملک ایسے ہوں گے جن کی وجہ شہرت ان کے کسی شہر کی وجہ سے ہوتی ہو گی،ورنہ عمومی طور پر شہر اپنے ملکوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں ۔اٹلی کا ایسا ہی ایک شہر وینس ہے جسے نہ صرف سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے بلکہ اس سے زیادہ اس کی شناخت ایک رومان پرور شہر کے طور پر کی جاتی ہے۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ وینس بنیادی طور پر صوبہ وینیتو کا صدر مقام ہے۔ جس کی کل آبادی 2 لاکھ 70 ہزار کے قریب ہے لیکن وینس میٹروپولیٹن سٹی کی آبادی 50 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہ شہر ایک عرصے سے سالانہ دو سے تین کروڑ سیاحوں کی میزبانی کرتا آرہا ہے۔ ایک اندازے کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ 50 ہزار آبادی والے اس شہر میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً ڈیڑھ لاکھ سے دولاکھ سیاح وینس میں موجود رہتے ہوں گے؟۔118جزیرےوینس اپنی نہروں کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک مختلف شناخت رکھتا ہے۔ یہ شہر 118 جزیروں کی شکل میں ایک ''آرکیپیلاگو‘‘ ( آرکیپیلاگو ، جزائر کے ایک گچھے یا سلسلے کو کہتے ہیں )پر مشتمل ایک جزیرہ نما ہے ، جنہیں 150 نہروں نے آپس میں جوڑ رکھا ہے۔بیشتر جزیروں پر چھوٹے چھوٹے شہر آباد ہیں جو 400 کے قریب پلوں کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔''کار فری زون‘‘یہ شہر یورپ کاسب سے بڑا ''کار فری‘‘ علاقہ ہے جہاں کاروں، ٹرکوں اور گاڑیوں کے بغیر کام چلایا جاتا ہے۔ یہاں کے پلوں نے بنیادی طور پر مختلف محلوں کو آپس میں جوڑ رکھا ہے ، آپ جب ایک پل عبور کرتے ہیں تو آپ کو دوسرا محلہ نظر آتا ہے۔ ہر محلہ چھوٹی چھوٹی پتلی قدیم گلیوں پر مشتمل ہے جو اپنے ماضی کی خوبصورت ثقافت کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔یہاں کے محلوں کی ایک مخصوص بات یہ ہے کہ ہر محلے کے بیچ ایک کھلی جگہ ہوتی ہے جس میں ایک چرچ اور ندی کنارے سیاحوں کیلئے ہوٹل بھی موجود ہیں ۔ بلکہ اکثر محلوں میں بچوں کیلئے فٹ بال گراونڈ بھی بنائے گئے ہیں جہاں شام کے اوقات میں بچے مختلف کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔پرانا طرز تعمیر اور جدید سہولیات پرانی طرز کے چھوٹے اور تنگ دروازے ، بڑی بڑی کھڑکیاں ان کے ساتھ لٹکتی پرانے زمانے کی کنڈیاں اور بغیر پلاسٹر صدیوں پرانے بنے گھر یہاں کی ثقافت کی ترجمانی تو کرتے نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت یہ اندر سے جدید ضروریات زندگی سے آراستہ ہوتے ہیں۔اور شاید سب سے منفرد بات یہاں اکثر گھروں کے باہر پانی والی طرف بندھی وہ کشتی ہوتی ہے جو انہوں نے اپنی آمدورفت کیلئے ایسے باندھ رکھی ہوتی ہے جیسے ہمارے گھروں کے باہر یا گیراجوں میں کاریں کھڑی ہوتی ہیں۔وینس شہر کی کشش صرف پانی اور کشتیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ اپنے دور کا ایک ثقافتی شہر ہونے کے ناطے بے شمار تاریخی اور ثقافتی عمارات کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ان میں برج آف سائے ، ریا لٹو برج ، سینٹ مارکس اسکوائر ،اوپرا ہاوس ، بورانو جزیرہ ، اور سانتا مارا ڈیلا سلیوٹ قابل ذکر ہیں۔ مقامی آبادی سیاحوں سے نالاں کیوں ؟ دنیا کا خوبصورت اور رومانوی شہر جہاں سارا سال سیاحوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس لحاظ سے بھی یہ دنیا کا واحد شہر ہے جہاں دنیا بھر سے ہر لمحہ ، شہر کی اصل آبادی سے کئی گنا زیادہ سیاح موجود رہتے ہیںتو پھر آخرایسا اچانک کیا ہوا کہ وینس انتظامیہ کو شہر میں کچھ اس طرح کی پابندیوں کا اطلاق کرنا پڑا کہ ''ایک دن کیلئے آنے والے سیاحوں کا مفت داخلہ بند، یورپ کے سب سے لمبے اور چوڑے ''سپینش سٹیپس‘‘ نامی منفرد اور پرکشش زینوں پر بیٹھنے پر پابندی، املفی کے ساحلی علاقے پر سیاحوں کی بسوں کے داخلے پر پابندی ، ساحلی علاقے پورتوفینو میں سیلفی لینے پر پابندی ، کروز جہازوں کی وینس داخلے پر پابندی، اٹلی کے مشہور ساحلی علاقے چنکوئے تیرے میں قینچی چپل پہننے پر بھاری جرمانہ ہے۔ یہ اور اس جیسی متعدد پابندیوں کو سیاح اپنے لئے حوصلہ شکنی سے تعبیر کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ چند ماہ پہلے مقامی اخبارات میں ایک خبر شہ سرخیوں سے شائع ہوئی جس میں شہریوں کو سڑکوں پر بینر اٹھائے احتجاج کرتے دکھایا گیا تھا جو سیاحوں کی کثرت کی وجہ سے اس لئے سراپا احتجاج تھے جن کی وجہ سے ان کی زندگیاں تیزی سے مختلف مسائل کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ ان مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے یہاں کے شہری کہتے ہیں کہ وینس میں آنے والے سیاح اس دوران ضرورت زندگی کی ہر شے منہ مانگے داموں خرید کر مہنگائی کی نئی سے نئی بنیاد رکھتے چلے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بیشتر نوجوان سیاح قدیم گرجا گھروں کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر کھانا کھا کر خالی ڈبے ، بوتلیں اور دیگر کوڑا کرکٹ پانی میں یا سڑکوں پر پھینک کر چلے جاتے ہیں جو بالآخر شہر کے بے شمار پلوں والی نہروں کی تہہ میں ٹنوں کے حساب سے اکٹھا ہوتا رہتا ہے۔گزشتہ دنوں وینس شہر پر بنی ایک ڈاکومینٹری میں وینس کی نہروں کی تہہ سے کوڑا کرکٹ نکالنے کی ایک مہم کا احوال دکھایا جا رہا تھا۔اس مہم کے دوران درجنوں غوطہ خوروں نے یہاں کی نہروں کی تہہ سے جو کوڑا کرکٹ نکالا اس کا وزن 18 ٹن سے بھی زیادہ تھا۔اس مہم کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس کچرے میں زیادہ تعداد گاڑیوں کے ٹائروں کی تھی جو نہروں میں چلنے والی ہزاروں گنڈولا کشتیوں کیلئے رات کے وقت انہیں نہر کنارے باندھنے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ ٹائر اکثر رات کو رسوں سے الگ ہو کر پانی میں گر جاتے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔لاحق خطراتمقامی شہریوں کے یہ خدشات بلا سبب نہیں کیونکہ آج سے کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے بھی وینس کو لاحق خطرات کا اظہار کرتے ہوئے وینس کو خطرے سے دوچار عالمی ثقافتی مقامات کی فہرست میں شامل کرنے کا عندیہ دے دیا تھا ۔یونیسکو نے اپنی ایک رپورٹ میں اٹلی کے شہر وینس کو درپیش خطرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ '' وینس کو بہت زیادہ سیاحت ، حد سے زیادہ ترقی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر کی سطح میں اضافے کے سبب ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے ، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً زمین کے بڑھتے درجہ ٔ حرارت کے باعث سمندر کی سطح میں اضافے سے پانی میں گھرے وینس کو سیلاب کا بہت خطرہ ہے۔ وینس کی انتظامیہ کو ''وژن کی کمی‘‘ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے متنبہ کیا گیا ہے کہ انتظامیہ کی لاپرواہی سے اٹلی کا سب سے خوبصورت شہر مسائل کا گڑھ بنتا جا رہا ہے۔ آگے چل کر یونیسکو نے شہر کی بلند و بالا عمارات کی طرف وینس انتظامیہ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ یہ شہر کی خوبصورتی پر منفی اثر ڈالتی ہیں، انہیں شہر کے مرکزی حصے سے دور تعمیر کیا جانا چائیے تھا۔یونیسکو نے اپنی اسی رپورٹ میں وینس انتظامیہ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سان مارکو کینال اور دیگر ساحلوں پر بڑے بحری جہازوں کی آمد پر پابندی کا اطلاق ہونا چائیے تھا جو بہت زیادہ آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔وینس کے مسائل ایک طرف لیکن اس حقیقت سے بھی تو انکار ممکن نہیں کہ وینس کے باسیوں کا سیاحت کے علاوہ کوئی اور ذریعہ معاش بھی تو نہیں ہے۔ روایتی سواریاں''واپوریتو‘‘ اور ''گونڈولا‘‘شہر کے اندر آمدورفت کیلئے سب سے بڑا ذریعہ واٹر بسوں کا ہے جنہیں مقامی زبان میں ''واپوریتو‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بسیں شہر کے اندر پانی پر تیرتی ایسے نظر آتی ہیں جیسے بڑے شہروں میں عام بسیں سڑکوں پر چلتی نظر آتی ہیںجبکہ شہر کے مختلف علاقوں کو پلوں کے ذریعے آپس میں ملانے کیلئے پیدل راستے بھی بنائے گئے ہیں۔یہاں کی ایک خاص روائتی سواری ''گونڈولا‘‘ہے۔یہ ایک ثقافتی کشتی ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے استعمال ہوتی ہے لیکن اب یہ مقامی افراد سے زیادہ سیاحوں کی سواری کا روپ دھار چکی ہے جو یہاں کے مقامی ملاح جگہ جگہ لئے کھڑے نظر آتے ہیں۔