آج کا دن

آج کا دن

اسپیشل فیچر

تحریر :


برج خلیفہ کا افتتاح
4جنوری2010ء کو دبئی میں قائم دنیا کی سب سے بلند عمارت برج خلیفہ کا افتتاح کیا گیا اور اسے عام عوام کے لئے کھول دیا گیا۔افتتاح سے قبل اسے برج دبئی کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔اس کی اونچائی 829.8میٹر ہے۔اس کی تعمیر کا آغاز2004ء میں ہوا اور بیرونی حصہ پانچ سال بعد2009ء میں مکمل ہوا۔اس کا بنیادی ڈھانچہ مضبوط کنکریٹ کا ہے اور عمارت کا کچھ حصہ سٹیل سے بھی تعمیر کیا گیا ہے۔برج خلیفہ کو تعمیر کرنے کا مقصد دبئی کو بین الاقوامی شناخت فراہم کرنا تھا تاکہ دنیا بھر کے سیاح اس عمارت کو دیکھنے کے لئے دبئی کا رخ کریں۔

سکھر ٹرین حادثہ
سکھر ریل حادثہ 4 جنوری 1990ء کو صوبہ سندھ میں سکھر کے قریب سانگی گاؤں میں پیش آیا۔ اس خوفناک حادثے میں 307 لوگ جاں بحق ہوئے۔ اس حادثے کو پاکستان کا تاریخ کا بدتریں ٹرین حادثہ سمجھا جاتا ہے۔بہاؤالدین زکریا ایکسپریس ملتان سے کراچی کیلئے سفر کر رہی تھی۔اس کا سفر800کلومیٹر طویل تھا اور ٹرین میں کل1408افراد کی گنجائش موجود تھی جبکہ ٹرین میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار تھے۔ٹرین کے ساتھ 16بوگیوں کو منسلک کیا گیا تھا۔ اسے سکھر کے قریب سانگی گاؤں سے سیدھا گزرنا تھا لیکن غلط طریقے سے سیٹ کئے گئے ریل پوائنٹس کی وجہ سے یہ ایک سائیڈ پر چلی گئی جہاں پر پہلے سے 55کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کرتی ہوئے مال بردار ٹرین سے ٹکرا گئی۔اس حادثے میں بہاؤالدین زکریا کی اگلی تین بوگیاں مکمل طورپر تباہ ہو گئی تھیں۔

جبکہ دیگر دو کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا۔اس حادثے میں تقریباً700افراد شدید زخمی بھی ہوئے۔تحقیقات میں ریلوے کا عملہ ذمہ دار پایا گیا۔ سانگی سٹیشن پر ڈیوٹی پر موجود عملے پر قتل عام کا الزام عائد کیا گیا۔

سپرٹ روور
''سپرٹ‘‘ جسے MER-1 یا MER-2 بھی کہا جاتا ہے ایک مریخ روبوٹک روور تھا جو 2004ء سے2010ء تک فعال رہا۔''سپرٹ روور مریخ پر6سال77دن تک کام کرتا رہا۔یہ جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے زیر اہتمام ناسا کے مارس ایکسپلوریشن مشن کا ہی ایک حصہ تھا۔سپرٹ روور4جنوری2004ء کو مریخ کی سطح پر کامیابی کے ساتھ اترا۔اس خلائی جہاز کا نام امریکی خلائی ادارے ناسا کے زیر اہتمام طلبہ کے مضمون نویسی کے مقابلے کے ذریعے رکھا گیا۔یہ روور2009ء میں ایک ریت کے ڈھیر میں پھنس گیا جس کی وجہ سے اس کی بیٹری چارجنگ میں بہت مشکلات پیش آئیں۔ زمین پر موجود کنٹرول روم کے ساتھ اس کا آخری رابطہ 22 مارچ2010ء کو ہوا لیکن اس وقت تک یہ اپنا مشن مکمل کر چکا تھا۔ اس نے ناسا کے منصوبہ سازوں کی توقع سے کئی گنا زیادہ مؤثر انداز میں کام کیا۔

ٹرپل الائنس
ٹرپل الائنس ایک دفاعی معاہدہ تھا جس پر 4 جنوری 1717ء کو ڈچ ریپبلک، فرانس اور برطانیہ کے درمیان بوربن سپین کے خلاف دستخط کئے گئے تاکہ1713ء سے1715ء تک ہونے والے امن کے یوٹریکٹ معاہدے کو برقرار رکھنے کی کوشش کی جاسکے۔تینوں ریاستوں کو سپین کے یورپ میں سپر پاور بننے پر تشویش تھی۔ اسی تشویش کے نتیجے میں عسکریت پسندی ہوئی اور شہریوں کو بہت زیادہ تباہی کا سامنا کرنا پڑا۔اس معاہدے نے سپین اور دیگر یورپی ریاستوں کو بھی مشتعل کیا ۔ یہ معاہدہ اتحاد کے اگلے ہی سال رومی شہنشاہ چارلس ششم کے الحاق کے بعد کواڈرپل الائنس میں تبدیل ہو گیا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
رومانوی شہر  وینس خطرات اور خدشات کی زد میں

رومانوی شہر وینس خطرات اور خدشات کی زد میں

وینس کو دیئے گئے مختلف نامآخر ایسا کیا منفرد اور خاص ہے کہ وینس دنیا بھر کے سیاحوں کی جنت اور رومانوی شہر کی شہرت رکھتا ہے ؟ سیاح ہی نہیں بلکہ خود اطالوی بھی اس شہر سے بہت پیار کرتے ہیں۔ تبھی تو انہوں نے پیار سے اسے کئی نام دے رکھے ہیں ، جیسے ''ایڈریاٹک کی ملکہ‘‘ ، ''محبت کرنے والوں کا شہر‘‘ ، ''سکون دینے والا شہر‘‘ ، ''رومانوی شہر ‘‘ وغیرہ۔اٹلی کے شمال مشرق میں واقع اس شہر کو لوگوں نے جہاں پیار کے کئی نام دے رکھے ہیں، وہیں پہچان کیلئے بھی اس شہر کو کئی ناموں سے جانا جاتا ہے مثلاً تیرتا ہوا شہر ، پلوں والا شہر ،پانی والا شہر ، ماسک والا شہر ، تالابوں والا شہر ، سیاحوں کا شہر وغیرہ۔ دنیا میں شاید ہی کسی اور شہر کے اتنے نام ہوں گے جتنے شہر وینس کو دئیے گئے ہیں۔ دنیا میں بہت کم ملک ایسے ہوں گے جن کی وجہ شہرت ان کے کسی شہر کی وجہ سے ہوتی ہو گی،ورنہ عمومی طور پر شہر اپنے ملکوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں ۔اٹلی کا ایسا ہی ایک شہر وینس ہے جسے نہ صرف سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے بلکہ اس سے زیادہ اس کی شناخت ایک رومان پرور شہر کے طور پر کی جاتی ہے۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ وینس بنیادی طور پر صوبہ وینیتو کا صدر مقام ہے۔ جس کی کل آبادی 2 لاکھ 70 ہزار کے قریب ہے لیکن وینس میٹروپولیٹن سٹی کی آبادی 50 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہ شہر ایک عرصے سے سالانہ دو سے تین کروڑ سیاحوں کی میزبانی کرتا آرہا ہے۔ ایک اندازے کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ 50 ہزار آبادی والے اس شہر میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً ڈیڑھ لاکھ سے دولاکھ سیاح وینس میں موجود رہتے ہوں گے؟۔118جزیرےوینس اپنی نہروں کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک مختلف شناخت رکھتا ہے۔ یہ شہر 118 جزیروں کی شکل میں ایک ''آرکیپیلاگو‘‘ ( آرکیپیلاگو ، جزائر کے ایک گچھے یا سلسلے کو کہتے ہیں )پر مشتمل ایک جزیرہ نما ہے ، جنہیں 150 نہروں نے آپس میں جوڑ رکھا ہے۔بیشتر جزیروں پر چھوٹے چھوٹے شہر آباد ہیں جو 400 کے قریب پلوں کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔''کار فری زون‘‘یہ شہر یورپ کاسب سے بڑا ''کار فری‘‘ علاقہ ہے جہاں کاروں، ٹرکوں اور گاڑیوں کے بغیر کام چلایا جاتا ہے۔ یہاں کے پلوں نے بنیادی طور پر مختلف محلوں کو آپس میں جوڑ رکھا ہے ، آپ جب ایک پل عبور کرتے ہیں تو آپ کو دوسرا محلہ نظر آتا ہے۔ ہر محلہ چھوٹی چھوٹی پتلی قدیم گلیوں پر مشتمل ہے جو اپنے ماضی کی خوبصورت ثقافت کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔یہاں کے محلوں کی ایک مخصوص بات یہ ہے کہ ہر محلے کے بیچ ایک کھلی جگہ ہوتی ہے جس میں ایک چرچ اور ندی کنارے سیاحوں کیلئے ہوٹل بھی موجود ہیں ۔ بلکہ اکثر محلوں میں بچوں کیلئے فٹ بال گراونڈ بھی بنائے گئے ہیں جہاں شام کے اوقات میں بچے مختلف کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔پرانا طرز تعمیر اور جدید سہولیات پرانی طرز کے چھوٹے اور تنگ دروازے ، بڑی بڑی کھڑکیاں ان کے ساتھ لٹکتی پرانے زمانے کی کنڈیاں اور بغیر پلاسٹر صدیوں پرانے بنے گھر یہاں کی ثقافت کی ترجمانی تو کرتے نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت یہ اندر سے جدید ضروریات زندگی سے آراستہ ہوتے ہیں۔اور شاید سب سے منفرد بات یہاں اکثر گھروں کے باہر پانی والی طرف بندھی وہ کشتی ہوتی ہے جو انہوں نے اپنی آمدورفت کیلئے ایسے باندھ رکھی ہوتی ہے جیسے ہمارے گھروں کے باہر یا گیراجوں میں کاریں کھڑی ہوتی ہیں۔وینس شہر کی کشش صرف پانی اور کشتیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ اپنے دور کا ایک ثقافتی شہر ہونے کے ناطے بے شمار تاریخی اور ثقافتی عمارات کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ان میں برج آف سائے ، ریا لٹو برج ، سینٹ مارکس اسکوائر ،اوپرا ہاوس ، بورانو جزیرہ ، اور سانتا مارا ڈیلا سلیوٹ قابل ذکر ہیں۔ مقامی آبادی سیاحوں سے نالاں کیوں ؟ دنیا کا خوبصورت اور رومانوی شہر جہاں سارا سال سیاحوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس لحاظ سے بھی یہ دنیا کا واحد شہر ہے جہاں دنیا بھر سے ہر لمحہ ، شہر کی اصل آبادی سے کئی گنا زیادہ سیاح موجود رہتے ہیںتو پھر آخرایسا اچانک کیا ہوا کہ وینس انتظامیہ کو شہر میں کچھ اس طرح کی پابندیوں کا اطلاق کرنا پڑا کہ ''ایک دن کیلئے آنے والے سیاحوں کا مفت داخلہ بند، یورپ کے سب سے لمبے اور چوڑے ''سپینش سٹیپس‘‘ نامی منفرد اور پرکشش زینوں پر بیٹھنے پر پابندی، املفی کے ساحلی علاقے پر سیاحوں کی بسوں کے داخلے پر پابندی ، ساحلی علاقے پورتوفینو میں سیلفی لینے پر پابندی ، کروز جہازوں کی وینس داخلے پر پابندی، اٹلی کے مشہور ساحلی علاقے چنکوئے تیرے میں قینچی چپل پہننے پر بھاری جرمانہ ہے۔ یہ اور اس جیسی متعدد پابندیوں کو سیاح اپنے لئے حوصلہ شکنی سے تعبیر کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ چند ماہ پہلے مقامی اخبارات میں ایک خبر شہ سرخیوں سے شائع ہوئی جس میں شہریوں کو سڑکوں پر بینر اٹھائے احتجاج کرتے دکھایا گیا تھا جو سیاحوں کی کثرت کی وجہ سے اس لئے سراپا احتجاج تھے جن کی وجہ سے ان کی زندگیاں تیزی سے مختلف مسائل کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ ان مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے یہاں کے شہری کہتے ہیں کہ وینس میں آنے والے سیاح اس دوران ضرورت زندگی کی ہر شے منہ مانگے داموں خرید کر مہنگائی کی نئی سے نئی بنیاد رکھتے چلے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بیشتر نوجوان سیاح قدیم گرجا گھروں کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر کھانا کھا کر خالی ڈبے ، بوتلیں اور دیگر کوڑا کرکٹ پانی میں یا سڑکوں پر پھینک کر چلے جاتے ہیں جو بالآخر شہر کے بے شمار پلوں والی نہروں کی تہہ میں ٹنوں کے حساب سے اکٹھا ہوتا رہتا ہے۔گزشتہ دنوں وینس شہر پر بنی ایک ڈاکومینٹری میں وینس کی نہروں کی تہہ سے کوڑا کرکٹ نکالنے کی ایک مہم کا احوال دکھایا جا رہا تھا۔اس مہم کے دوران درجنوں غوطہ خوروں نے یہاں کی نہروں کی تہہ سے جو کوڑا کرکٹ نکالا اس کا وزن 18 ٹن سے بھی زیادہ تھا۔اس مہم کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس کچرے میں زیادہ تعداد گاڑیوں کے ٹائروں کی تھی جو نہروں میں چلنے والی ہزاروں گنڈولا کشتیوں کیلئے رات کے وقت انہیں نہر کنارے باندھنے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ ٹائر اکثر رات کو رسوں سے الگ ہو کر پانی میں گر جاتے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔لاحق خطراتمقامی شہریوں کے یہ خدشات بلا سبب نہیں کیونکہ آج سے کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے بھی وینس کو لاحق خطرات کا اظہار کرتے ہوئے وینس کو خطرے سے دوچار عالمی ثقافتی مقامات کی فہرست میں شامل کرنے کا عندیہ دے دیا تھا ۔یونیسکو نے اپنی ایک رپورٹ میں اٹلی کے شہر وینس کو درپیش خطرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ '' وینس کو بہت زیادہ سیاحت ، حد سے زیادہ ترقی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر کی سطح میں اضافے کے سبب ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے ، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً زمین کے بڑھتے درجہ ٔ حرارت کے باعث سمندر کی سطح میں اضافے سے پانی میں گھرے وینس کو سیلاب کا بہت خطرہ ہے۔ وینس کی انتظامیہ کو ''وژن کی کمی‘‘ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے متنبہ کیا گیا ہے کہ انتظامیہ کی لاپرواہی سے اٹلی کا سب سے خوبصورت شہر مسائل کا گڑھ بنتا جا رہا ہے۔ آگے چل کر یونیسکو نے شہر کی بلند و بالا عمارات کی طرف وینس انتظامیہ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ یہ شہر کی خوبصورتی پر منفی اثر ڈالتی ہیں، انہیں شہر کے مرکزی حصے سے دور تعمیر کیا جانا چائیے تھا۔یونیسکو نے اپنی اسی رپورٹ میں وینس انتظامیہ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سان مارکو کینال اور دیگر ساحلوں پر بڑے بحری جہازوں کی آمد پر پابندی کا اطلاق ہونا چائیے تھا جو بہت زیادہ آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔وینس کے مسائل ایک طرف لیکن اس حقیقت سے بھی تو انکار ممکن نہیں کہ وینس کے باسیوں کا سیاحت کے علاوہ کوئی اور ذریعہ معاش بھی تو نہیں ہے۔ روایتی سواریاں''واپوریتو‘‘ اور ''گونڈولا‘‘شہر کے اندر آمدورفت کیلئے سب سے بڑا ذریعہ واٹر بسوں کا ہے جنہیں مقامی زبان میں ''واپوریتو‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بسیں شہر کے اندر پانی پر تیرتی ایسے نظر آتی ہیں جیسے بڑے شہروں میں عام بسیں سڑکوں پر چلتی نظر آتی ہیںجبکہ شہر کے مختلف علاقوں کو پلوں کے ذریعے آپس میں ملانے کیلئے پیدل راستے بھی بنائے گئے ہیں۔یہاں کی ایک خاص روائتی سواری ''گونڈولا‘‘ہے۔یہ ایک ثقافتی کشتی ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے استعمال ہوتی ہے لیکن اب یہ مقامی افراد سے زیادہ سیاحوں کی سواری کا روپ دھار چکی ہے جو یہاں کے مقامی ملاح جگہ جگہ لئے کھڑے نظر آتے ہیں۔  

عظیم مسلمان سائنسدان ابو عباس احمد بن محمد کثیر فرغانی

عظیم مسلمان سائنسدان ابو عباس احمد بن محمد کثیر فرغانی

زمین کے محیط کی پیمائش کرنے والوں کی جماعت کا ممبر تھا۔ طغیانی ناپنے کا آلہ ایجاد کیا،دھوپ گھڑی پیش کی۔ علم ہیئت میں بھی کمال رکھتا تھا۔ جوامع العلوم کتاب مرتب کی۔ اس کتاب کے ترجمے ہو چکے ہیں۔احمد کثیر فرغانی علم ہیئت کا ماہر، کامیاب سول انجینئر اور اچھا صناع تھا۔احمد کثیر شہر فرغانہ( ترکستان میں پیدا ہوا) ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بغداد آ گیا۔ تعلیم مکمل کی اور مطالعہ میں مصروف ہو گیا۔ یہاں کے علمی ماحول میں اس کے جوہر کھلے۔ اس نے بہت اچھی استعداد پیدا کرلی۔ مامون الرشید کا زمانہ تھا۔ مامون نے اس کی علمی صلاحیتوں کے سبب بڑی قدر کی۔بغداد علم و فن کا مرکز بن گیا تھا۔ ہر علم و فن کے قابل ترین لوگ وہاں موجود تھے۔ مامون الرشید علمی ذہن و دماغ رکھتا تھا۔ اس کے ذہن میں آیا کہ زمین کے محفظ کی صحیح صحیح پیمائش کی جائے، چنانچہ اس نے انجینئروں کی ایک جماعت مقرر کی، اس جماعت نے غور و فکر کے بعد کچھ اصول اور قاعدے بنائے اور طریق کار متعین کئے ماہرین کی اس جماعت کا صدر احمد کثیر فرغانی تھا۔ شہر کوفہ کے شمال میں ایک وسیع میدان اس کام کے لئے موزوں سمجھا گیا۔ اس میدان کو دشت بخار کہتے تھے۔ اس میدان میں دو مقامات رقہ اور تدرُ کو منتخب کیا گیا۔ جملہ آلات اور سامان وہاں مہیا کر دیا گیا۔زمین کے محیط یعنی گھیر کی صحیح پیمائش کے لئے طریقہ کار یہ طے کیا گیا کہ پہلے اصطرلاب اور سُدس اور دیگر آلات کی مدد سے قطب تارے کی بلندی زاویے کے ذریعے معلوم کی جائے۔ پھر ایک مقررہ فاصلے تک آگے بڑھ کر قطب تارے کی بلند کی پیمائش کی جائے اور اب دونوں کے فرق کو معلوم کر لیا جائے۔ اس طرح زمین کے محیط کی پیمائش معلوم ہو جائے گی۔ماہرین نے پیمائش شروع کی اور حساب کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ زمین کا گھیر 25009 میل ہے۔ مامون الرشید بہت خوش ہوا۔ بیت الحکمتہ کے ممبروں میں فرغانی بھی تھا۔ اسے بھی کام کا کافی موقع ملا۔موجودہ زمانے میں جب کہ ہر طرح کی سہولتیں ہیں، نئے نئے آلات ہیں، زمین کے محیط یعنی گھیر کو 24858میل مانا جاتا ہے۔ مسلم دور کی پیمائش اور آج اس نئے دور کی پیمائش میں بقدر15 میل کا فرق ہے۔ یعنی کل غلطی صرف 6فیصد پائی جاتی ہے یہ غلطی کوئی غلطی نہیں ہے۔فرغانی کو صناعی میں بھی کمال حاصل تھا، اس نے کئی اہم چیزیں ایجاد کیں۔طغیانی ناپنے کا آلہ: اس آلہ کے ذریعے دریا کے پانی کا صحیح اندازہ ہو جاتا تھا اور معلوم ہو جاتا تھا کہ سیلاب آنے والا ہے یا نہیں۔ یہ آلہ دریا میں نصب کر دیا جاتا تھا۔دھوپ گھڑی:دوسری چیز جو بہت ضروری تھی وہ دھوپ گھڑی تھی جس سے دن میں وقت کا صحیح اندازہ ہو جاتا تھا۔فرغانی نے کئی کتابیں مرتب کیں، مشہور کتاب اس کی '' جوامع علم النجوم‘‘ ہے۔ اس کتاب کا پہلالاطینی ترجمہ بارہویں صدی عیسوی میں شائع ہوا۔ پھر دوسرا ترجمہ جرمنی میں 1537ء میں چھپا، اور تیسرا ترجمہ فرانس کے دانشوروں نے 1546ء میں شائع کیا۔ 

چہل قدمی اور توانائی

چہل قدمی اور توانائی

باقاعدگی سے پیدل چلنے کے بہت سے فوائد ہیں۔ جسمانی سرگرمی کا یہ آسان اور سستا طریقہ ہے، نیز روزانہ مطلوبہ چہل قدمی سے یاسیت اور وزن میں اضافے کا خطرہ کم ہوتا ہے، ذہن اور ہڈیوں کی صحت میں بہتری کے ساتھ ساتھ زندگی کے مجموعی معیار میں اضافہ ہوتا ہے۔ حالیہ برسوں میں باقاعدہ جسمانی سرگرمیوں کیلئے روزانہ 10 ہزار قدم چلنے کا مشورہ بہت مقبول ہے۔ آخر 10 ہزار قدم ہی کیوں؟ کیا اس سے فٹنس کا حصول ممکن ہے؟ اس تحریر میں 10 ہزار قدم چلنے سے خرچ ہونے والے حراروں (کیلوریز) پر روشنی ڈالی گئی ہے۔بہت سے لوگوں کیلئے 10 ہزار قدم چلنا تقریباً پانچ میل (8.05 کلومیٹر) چلنے کے مساوی ہوتا ہے۔ جدید تحقیق بھی اس کی حمایت کرتی ہے کہ وزن کم کرنے اور مجموعی صحت کیلئے 10 ہزار قدم چلنا اچھا ہے۔باڈی ماس انڈیکس (بی ایم آئی) کی قدر وزن اور قد کی مناسبت سے حاصل کی جاتی ہے۔ آپ اپنا بی ایم آئی متعدد آن لائن ویب سائٹس پر وزن اور قد درج کر کے حاصل کر سکتے ہیں۔ 31.7 سے 44.9تک باڈی ماس انڈیکس رکھنے والے 35 بالغوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں شرکاء کو غذائی مشاورت فراہم کی گئی اور ساتھ ہی ان کے قدموں میں درجہ بہ درجہ 10 ہزار تک اضافہ کیا گیا۔ 6 ماہ کے بعد ان شرکاء کے بی ایم آئی میں 3.7 فیصد کمی ہو گئی۔ تاہم کہا جاسکتا ہے کہ اس کمی کی ذمہ دار صرف چہل قدمی نہیں اور اس میں غذائی مشاورت کا بھی کردار ضرور ہو گا۔ حیران کن طور پر یہ جاننا آسان نہیں کہ 10 ہزار قدم اٹھانے سے آپ کے کتنے حرارے خرچ ہوئے۔ دراصل ہر فرد کی مقدار میں فرق ہو سکتا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسمانی سرگرمی کے نتیجے میں خرچ ہونے والے حراروں پر مختلف عوامل اثرانداز ہوتے ہیں۔ حراروں کی مقدار کے خرچ ہونے میں ایک بڑا عامل جسم کا سائز اور وزن ہے۔ چھوٹے جسم کی نسبت بڑے کو حرکت دینے کیلئے زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر آپ پتھریلی چٹان پر 5 میل چڑھتے ہیں تو ہر ایک منٹ میں آپ کے 7 سے زیادہ حرارے خرچ ہوں گے۔ اگر آپ 3 سے 4 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پہاڑی سے اترتے ہیں تو شاید ہر منٹ میں آپ 3.5 سے 7 حرارے خرچ کریںگے۔ ایک تحقیق کے مطابق 2 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے 10 ہزار قدم چلنے کی نسبت 4 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے سے اوسطاً 153 زیادہ حرارے خرچ ہوتے ہیں۔ ایک اور عامل جسے عموماً نظرانداز کر دیا جاتا ہے، جینیات ہے۔ 2 ہفتوں تک 8 جڑواں افراد کی جسمانی سرگرمی سے خرچ ہونے والے حراروں کی پیمائش کی گئی جس کے بعد محقق اس نتیجے پر پہنچے کہ روزمرہ زندگی میں حراروں کے خرچ میں جینیات 72 فیصد تک اثر ڈال سکتی ہے۔ علاوہ ازیں چوہوں پر تحقیق سے معلوم ہوا کہ مستقل سرگرم رہنے والے اور زیادہ دوڑنے کی صلاحیت رکھنے والے چہل قدمی کے دوران اپنے پٹھوں کو زیادہ حرارت پہنچاتے ہیں۔ 10 ہزار قدم چلنے پر آپ کتنے حرارے خرچ کرتے ہیں، یہ جاننے کیلئے مدِنظر رکھے جاتے ہیں،وزن، ورزش کی شدت اور ورزش کا عرصہ۔ ان عوامل کے تحت ایک مساوات کے ذریعے چہل قدمی یا ورزش کے دوران خرچ ہونے والے حراروں کا پتا لگایا جا سکتا ہے، مساوات یہ ہے: خرچ ہونے والے حرارے فی منٹ = 0.0175 × ایم ای ٹی × وزن( کلوگرام میں)اس مساوات کو استعمال کرنے کیلئے آپ کو کچھ باتیں معلوم کرنا ہوں گی۔(1) ''ایم ای ٹی‘‘ (میٹابولک اکوئی ویلنٹ آف ٹاسک‘‘)۔ ایم ای ٹی اس شرح کی نمائندگی کرتا ہے جس میں کسی جسمانی سرگرمی کے دوران آپ حرارے خرچ کرتے ہیں۔ سرگرمیوں کی نوعیت کے اعتبار سے ایم ای ٹی مختلف ہوتی ہے۔ پیدل چلنے میں ایم ای ٹی 2 سے 10 تک ہو سکتی ہے جس پر رفتار اور پیدل چلنے والی سطح جیسے عوامل اثر انداز ہوتے ہیں۔ پہاڑی علاقے پر یا ریس کے دوران بائیسکل چلانے پر ایم ای ٹی 14 سے 16 اور کھانا پکاتے ہوئے2.5 ہوتی ہے۔ (2) کلوگرام میں اپنا وزن۔ اگر آپ کو اپنا وزن پاؤنڈ میں معلوم ہے تو اسے کلوگرام میں بدل لیں۔ اس کا سادہ سا طریقہ یہ ہے کہ پاؤنڈ میں اپنے وزن کو 2.2 پر تقسیم کر لیں۔ (3) یہ نوٹ کریں کہ 10 ہزار قدم پیدل چلنے میں کتنا وقت صرف ہوتا ہے۔ چونکہ اس مساوات میں فی منٹ کے لحاظ سے حراروں کا حساب رکھا جاتا ہے اس لیے آپ کل منٹوں سے ضرب دے کر 10 ہزار قدموں کے دوران خرچ ہونے والے حرارے پا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر اس میں 1.5 گھنٹے (90 منٹ) لگے ہیں تو آپ کی مساوات کچھ یوں ہو گی: خرچ ہونیوالے حرارے= 0.0175×ایم ای ٹی×کلوگرام میں وزن×90 (منٹ)4۔ جب آپ اپنا ایم ای ٹی، کلوگرام میں وزن اور 10 ہزار قدموں میں صرف ہونے والا وقت معلوم کر لیں گے تو آپ اس مساوات میں یہ ڈیٹا داخل کر کے مکمل اندازہ لگا سکیں گے۔ ذیل میں گراف سے مثالیں دی جا رہی ہیں کہ جسمانی وزن اور قدموں کی رفتار میں فرق سے حراروں کے خرچ ہونے پر کیسے فرق پڑتا ہے۔

حکایت رومیؒ آنسو

حکایت رومیؒ آنسو

ایک کتانزع کے عالم میں تھا اور اس کا مالک پاس بیٹھا آنسو بہا رہا تھا۔ فرط رنج سے اس کی ہچکی بندھی ہوئی تھی۔روتا جاتا اور کہتا جاتا کہ ''ہائے مجھ پر تو آسمان ٹوٹ پڑا،میں کیا کروں، کدھر جائوں ، کون سا جتن کروں کہ میرے پیارے کتے کی جان بچ جائے‘‘۔غرض کہ اسی طرح سے اونچی آواز سے رو رہا تھا۔ اتنے میں ایک فقیر ادھر سے گزر ا۔ کتے کے مالک کو یوں بے حال دیکھا تو پوچھ بیٹھا کہ ''بھائی خیر تو ہے، یوں گلا پھاڑ پھاڑ کر کیوں رو رہا ہے؟‘‘کتے کے مالک نے جواب دیا : '' کیا کہوں، کون میری فریاد سننے والا ہے، میرا یہ کتا جس پر نزع کا وقت طاری ہے، بڑے اوصاف والا ہے۔ چراغ لے کر بھی ڈھونڈو تو ایسا کتا نہ ملے گا۔ رات کو میرے مکان کی نگہبانی کرتا ہے، کیا مجال کہ کوئی پرندہ بھی ادھر پر مارے۔کتا کیا،اسے شیر کہو شیر، بڑی بڑی روشن آنکھوں والا ہیبت ناک ، اونچا قد، دوڑنے میں ہرن کو مات کر دے، اسے دیکھ کر چور اچکوں کی روح فنا ہو جاتی ہے۔ کمان سے نکلے ہوئے تیر کی طرح شکار کے تعاقب میں نکلتا ہے، ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ بلا کا قانع، بے غرض اور وفادار۔ میں نے جو دے دیاوہی کھالیا‘‘۔ فقیر نے بے حد متاثر ہو کر چوچھا: ''تیرے کتے کو تکلیف کیا ہے؟ کیا کوئی مہلک زخم آ گیا ہے؟‘‘ کتے کے مالک نے جواب دیا : ''بھوک سے اس کا دم نکالا جا رہا ہے، اور کوئی بیماری نہیں۔ کئی دن ہو گئے ، اسے کچھ کھانے کو نہیں ملا‘‘۔ فقیر نے کہا : ''بھائی اب صبر کرو، اس کے سوا چارہ ہی کیا ہے، خدا کے ہاں کسی چیز کی کمی نہیں، اللہ تعالیٰ صبر کا پھل بھی دیتا ہے‘‘۔ اتنے میں فقیر کی نظر رونے والے کی کمر پر پڑی۔ جہاں کپڑے میں کوئی چیز بندھی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ فقیر نے پوچھا ''میاں! اس کپڑے میں کیا چیز لپیٹی ہوئی ہے ؟‘‘یہ میں نے کل کے لئے کچھ روٹیاں اور کھانے کا سامان رکھا ہوا ہے‘‘۔وہ بولا۔ فقیر حیرت زدہ رہ گیا۔ اس نے کہا : ''ارے ظالم ، کتا اتنا اچھا ہے تو اسے کیوں نہیں دیتا کھانے کو‘‘!وہ شخص کہنے لگا ''کتے سے مجھے اس حد تک محبت نہیں ہے کہ اپنی روٹی اسے دے دوں۔ روٹیاں بغیر پیسوں کے نہیں ملتیں۔ یہ جو آنسو اس کیلئے بہا رہاہوں، یہ میرے پاس مفت ہیں، فالتو ہیں، آنسو بہانے پر کوئی خرچ نہیں آتا، سو میں اس پے بہا رہاہوں‘‘۔فقیر بولا: ''لعنت ہو تیری اس عقل اور محبت پر۔ تیری مثال تو اس مشک کی سی ہے جس میں ہوا بھری ہوتی ہے۔ خاک تیرے سر پر، تیرے نزدیک روٹی کا ایک ٹکڑا آنسو سے زیادہ قیمتی ہے۔ ارے نامراد، آنسو تو وہ خون ہے جسے غم اور صدمے نے پانی بنا دیا ہے‘‘۔ ''ارے ظالم! خون کی قیمت خاک کے برابر کیسے ہو سکتی ہے‘‘۔ درس حیات: اگر تم ضرورت مند کی مدد کرنے کے قابل ہو تو اس کے لئے ہمدردی کے چند الفاظ بولنا کافی نہیں ہیں، بلکہ تم پر فرض ہے کہ اس کی مدد کرو۔ 

آج کا دن

آج کا دن

برج خلیفہ کی تعمیر دنیا میں بہت کم ملک ایسے ہوں گے جن کی وجہ شہرت ان کے کسی شہر کی وجہ سے ہوتی ہو گی،ورنہ عمومی طور پر شہر اپنے ملکوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں ۔اٹلی کا ایسا ہی ایک شہر وینس ہے جسے نہ صرف سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے بلکہ اس سے زیادہ اس کی شناخت ایک رومان پرور شہر کے طور پر کی جاتی ہے۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ وینس بنیادی طور پر صوبہ وینیتو کا صدر مقام ہے۔ جس کی کل آبادی 2 لاکھ 70 ہزار کے قریب ہے لیکن وینس میٹروپولیٹن سٹی کی آبادی 50 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہ شہر ایک عرصے سے سالانہ دو سے تین کروڑ سیاحوں کی میزبانی کرتا آرہا ہے۔ ایک اندازے کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ 50 ہزار آبادی والے اس شہر میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً ڈیڑھ لاکھ سے دولاکھ سیاح وینس میں موجود رہتے ہوں گے؟۔ٹیلی گراف کی ایجادشعبہ ٹیکنالوجی میں جدت پسندی کا پہلا قدم ٹیلی گراف کی ایجاد سے ہوا، جسے پہلی بار سامویل مورس نے 1838ء میں آج کے دن متعارف کروایا۔ ''ٹیلی گرافی‘‘ پیغامات کی طویل فاصلے تک منتقلی کا نظام ہے، جہاں بھیجنے والا علامتی کوڈز استعمال کرتا ہے، جو کہ وصول کنندہ کو معلوم ہوتا ہے۔اس تخلیق نے مواصلات کی دنیا میں انقلاب برپا کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ انسانی زندگی میں معلومات بھیجنے اور وصول کرنے کے عمل کو تیز کیا۔ نیو میکسیکو امریکہ کی 47 ویںریاست بنی1912ء میں آج کے روز نیو میکسیکو کو 47 ویں امریکی ریاست کے طور پر یونین میں شامل کیا گیا۔ یہ رقبے کے لحاظ سے متحدہ امریکہ کی پانچویں بڑی ریاست ہے، لیکن اس کی آبادی صرف 21 لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ اس کی آب و ہوا اور جغرافیہ انتہائی متنوع ہے۔نیو میکسیکو کی ایک تہائی اراضی وفاق کی ملکیت ہے۔ جنگل کے پہاڑوں سے لے کر صحراؤں تکِ شمالی اور مشرقی علاقے سردہیں جبکہ مغرب اور جنوب گرم اور زیادہ خشک ہیں۔مسافر طیارے میں بم دھماکہ1960ء میں آج کے روز نیشنل ایئر لائنز کی پرواز 2511 نیویارک سے میامی جاتے ہوئے فضاء میں ایک بم سے تباہ ہو گئی۔نیشنل ایئرلائن کے طیارے میں عملے کے 5 ارکان اور 29 مسافر سوار تھے، جن میں سے سبھی ہلاک ہوگئے۔ سول ایروناٹکس بورڈ کی تحقیقات نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ طیارہ بارود سے بنے بم سے گرایا گیا۔ کوئی مجرمانہ الزامات کبھی درج نہیں کیے گئے، اور نہ ہی کبھی بم دھماکے کیلئے الزام کا تعین کیا گیا، حالانکہ شبہ ہے کہ خودکش بم حملہ کیا گیاتھا۔ 

چین میں HMPV کا پھیلائو

چین میں HMPV کا پھیلائو

چین میں حالیہ دنوں ایک نئے وائرس کے پھیلاؤ کی رپورٹیں سامنے آئی ہیں اور لوگ اس حوالے سے پریشان ہیں ۔ مختلف سوشل میڈیا پوسٹس میں خبردار کیا گیا ہے کہ چینی ہسپتالوں میں HMPV(Human Metapneumovirus)اور دوسرے وائرسوں سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جن میں سے بہت سے افراد کو کووِڈ19 جیسے علامات کا سامنا ہے۔ ایچ ایم پی وی کا پتہ 2001ء میں نیدرلینڈز میں لگایا گیا تھا۔ یہ ایک موسمی وائرس ہے جو عام طور پر پھیپھڑوں کے انفیکشن کا سبب بنتا ہے۔ جنوری 2025ء میں چین میں ایچ ایم پی وی انفیکشن کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں ہمیں جو معلومات ملی ہیں وہ یہ ہیں :چین میںHMPV کے نئے وائرس کا پھیلاؤ کیا ہے؟چین کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے مطابق ایچ ایم پی وی کے ساتھ ساتھ انفلوئنزا ، نمونیا اور کوویڈ 19 کے کیسز بھی رپورٹ ہو رہے ہیں اور مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر کچھ پوسٹس میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ چین میں وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے کئی مقامات پر ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور ہسپتالوں میں بھیڑ بڑھ رہی ہے۔ تاہم چین کی طرف سے ایسی کوئی باضابطہ اطلاع نہیں دی گئی ہے۔ایچ ایم پی وائرس 14 سال اور اس سے کم عمر کے بچوں میں فلو کے انفیکشن میں اضافہ کا سبب بنتا ہے۔خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ وائرس جوقے اور اسہال کا سبب بنتا ہے، کا پھیلاؤ اگلے دو مہینوں کے لیے بلند سطح پر رہے گا۔American Lung Association کے مطابق ایچ ایم پی وی سانس کے شدید انفیکشن کی ایک اہم وجہ ہے اور انفلوئنزا کی طرح متاثرہ فرد کے قریبی رابطے سے پھیلتا ہے۔ یہ عام سردی کے قریب علامات کا سبب بنتا ہے جو عام طور پر دو سے پانچ دن تک رہتا ہے۔ بچوں، بوڑھوں اور کمزور مدافعتی نظام والے افراد کو نمونیا جیسی مزید پیچیدگیاں پیدا ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ نیوز ویک کے مطابق اس کے خلاف قوت مدافعت کووڈ19 جیسے نئے وائرس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اس لیے وبائی مرض کا خطرہ اتنا زیادہ نہیں ہے۔HMPV کی علامات کیا ہیں؟ایچ ایم پی وی والے زیادہ تر مریضوں میں اوپری سانس کی ہلکی علامات ہوتی ہیں جیسے سردی لگنے کی علامات ہوتی ہیں۔ ان میں شامل ہوسکتا ہے:کھانسیبہتی ہوئی ناک یا ناک بند ہوناگلے میں خراشبخارزیادہ سنگین صورتوں میں مریضوں کو گھرگھراہٹ، سانس لینے میں دشواری اور دمہ کی شکایت ہو سکتی ہے یا سانس کا انفیکشن ہو سکتا ہے جیسے برونکائٹس یا نمونیا، جس میں اضافی طبی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔امریکن لنگ ایسوسی ایشن کے مطابق ایچ ایم پی وی کی ہلکی علامات کا سامنا کرنے والے زیادہ تر افراد کو ڈاکٹر سے ملنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ بیماری کو خود ہی ختم ہونا چاہیے اور گھر پر علامات کی معاون دیکھ بھال کافی ہے۔ تاہم اگر علامات خراب ہو جائیں اور آپ کو سانس لینے میں دشواری، شدید کھانسی یا گھرگھراہٹ ہو تو آپ کو ڈاکٹر سے ملنا چاہیے۔ HMPV کی تشخیص کیسے کی جاتی ہے؟سانس کے انفیکشن کی تشخیص کے لیے آپ کا ڈاکٹر جسمانی معائنہ کرے گا۔ مزید تشخیص کرنے کے لیے آپ کا ڈاکٹر آپ کی بیماری کا سبب بننے والے وائرس کی قسم کی تصدیق کے لیے لیبارٹری ٹیسٹ کا کہہ سکتا ہے۔ہسپتال میں داخل ہونے والے بہت کم سنگین معاملات میں ڈاکٹر ایک برونکوسکوپی کر سکتے ہیں جہاں ایک چھوٹا لچکدار کیمرہ پھیپھڑوں میں ڈالا جاتا ہے اور وائرس کی جانچ کے لیے سیال کا نمونہ نکالا جاتا ہے۔