وینس کو دیئے گئے مختلف نامآخر ایسا کیا منفرد اور خاص ہے کہ وینس دنیا بھر کے سیاحوں کی جنت اور رومانوی شہر کی شہرت رکھتا ہے ؟ سیاح ہی نہیں بلکہ خود اطالوی بھی اس شہر سے بہت پیار کرتے ہیں۔ تبھی تو انہوں نے پیار سے اسے کئی نام دے رکھے ہیں ، جیسے ''ایڈریاٹک کی ملکہ‘‘ ، ''محبت کرنے والوں کا شہر‘‘ ، ''سکون دینے والا شہر‘‘ ، ''رومانوی شہر ‘‘ وغیرہ۔اٹلی کے شمال مشرق میں واقع اس شہر کو لوگوں نے جہاں پیار کے کئی نام دے رکھے ہیں، وہیں پہچان کیلئے بھی اس شہر کو کئی ناموں سے جانا جاتا ہے مثلاً تیرتا ہوا شہر ، پلوں والا شہر ،پانی والا شہر ، ماسک والا شہر ، تالابوں والا شہر ، سیاحوں کا شہر وغیرہ۔ دنیا میں شاید ہی کسی اور شہر کے اتنے نام ہوں گے جتنے شہر وینس کو دئیے گئے ہیں۔ دنیا میں بہت کم ملک ایسے ہوں گے جن کی وجہ شہرت ان کے کسی شہر کی وجہ سے ہوتی ہو گی،ورنہ عمومی طور پر شہر اپنے ملکوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں ۔اٹلی کا ایسا ہی ایک شہر وینس ہے جسے نہ صرف سیاحوں کی جنت کہا جاتا ہے بلکہ اس سے زیادہ اس کی شناخت ایک رومان پرور شہر کے طور پر کی جاتی ہے۔یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ وینس بنیادی طور پر صوبہ وینیتو کا صدر مقام ہے۔ جس کی کل آبادی 2 لاکھ 70 ہزار کے قریب ہے لیکن وینس میٹروپولیٹن سٹی کی آبادی 50 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یہ شہر ایک عرصے سے سالانہ دو سے تین کروڑ سیاحوں کی میزبانی کرتا آرہا ہے۔ ایک اندازے کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ 50 ہزار آبادی والے اس شہر میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً ڈیڑھ لاکھ سے دولاکھ سیاح وینس میں موجود رہتے ہوں گے؟۔118جزیرےوینس اپنی نہروں کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک مختلف شناخت رکھتا ہے۔ یہ شہر 118 جزیروں کی شکل میں ایک ''آرکیپیلاگو‘‘ ( آرکیپیلاگو ، جزائر کے ایک گچھے یا سلسلے کو کہتے ہیں )پر مشتمل ایک جزیرہ نما ہے ، جنہیں 150 نہروں نے آپس میں جوڑ رکھا ہے۔بیشتر جزیروں پر چھوٹے چھوٹے شہر آباد ہیں جو 400 کے قریب پلوں کے ذریعے آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔''کار فری زون‘‘یہ شہر یورپ کاسب سے بڑا ''کار فری‘‘ علاقہ ہے جہاں کاروں، ٹرکوں اور گاڑیوں کے بغیر کام چلایا جاتا ہے۔ یہاں کے پلوں نے بنیادی طور پر مختلف محلوں کو آپس میں جوڑ رکھا ہے ، آپ جب ایک پل عبور کرتے ہیں تو آپ کو دوسرا محلہ نظر آتا ہے۔ ہر محلہ چھوٹی چھوٹی پتلی قدیم گلیوں پر مشتمل ہے جو اپنے ماضی کی خوبصورت ثقافت کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔یہاں کے محلوں کی ایک مخصوص بات یہ ہے کہ ہر محلے کے بیچ ایک کھلی جگہ ہوتی ہے جس میں ایک چرچ اور ندی کنارے سیاحوں کیلئے ہوٹل بھی موجود ہیں ۔ بلکہ اکثر محلوں میں بچوں کیلئے فٹ بال گراونڈ بھی بنائے گئے ہیں جہاں شام کے اوقات میں بچے مختلف کھیل کھیلتے نظر آتے ہیں۔پرانا طرز تعمیر اور جدید سہولیات پرانی طرز کے چھوٹے اور تنگ دروازے ، بڑی بڑی کھڑکیاں ان کے ساتھ لٹکتی پرانے زمانے کی کنڈیاں اور بغیر پلاسٹر صدیوں پرانے بنے گھر یہاں کی ثقافت کی ترجمانی تو کرتے نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت یہ اندر سے جدید ضروریات زندگی سے آراستہ ہوتے ہیں۔اور شاید سب سے منفرد بات یہاں اکثر گھروں کے باہر پانی والی طرف بندھی وہ کشتی ہوتی ہے جو انہوں نے اپنی آمدورفت کیلئے ایسے باندھ رکھی ہوتی ہے جیسے ہمارے گھروں کے باہر یا گیراجوں میں کاریں کھڑی ہوتی ہیں۔وینس شہر کی کشش صرف پانی اور کشتیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ اپنے دور کا ایک ثقافتی شہر ہونے کے ناطے بے شمار تاریخی اور ثقافتی عمارات کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ان میں برج آف سائے ، ریا لٹو برج ، سینٹ مارکس اسکوائر ،اوپرا ہاوس ، بورانو جزیرہ ، اور سانتا مارا ڈیلا سلیوٹ قابل ذکر ہیں۔ مقامی آبادی سیاحوں سے نالاں کیوں ؟ دنیا کا خوبصورت اور رومانوی شہر جہاں سارا سال سیاحوں کی آمدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور اس لحاظ سے بھی یہ دنیا کا واحد شہر ہے جہاں دنیا بھر سے ہر لمحہ ، شہر کی اصل آبادی سے کئی گنا زیادہ سیاح موجود رہتے ہیںتو پھر آخرایسا اچانک کیا ہوا کہ وینس انتظامیہ کو شہر میں کچھ اس طرح کی پابندیوں کا اطلاق کرنا پڑا کہ ''ایک دن کیلئے آنے والے سیاحوں کا مفت داخلہ بند، یورپ کے سب سے لمبے اور چوڑے ''سپینش سٹیپس‘‘ نامی منفرد اور پرکشش زینوں پر بیٹھنے پر پابندی، املفی کے ساحلی علاقے پر سیاحوں کی بسوں کے داخلے پر پابندی ، ساحلی علاقے پورتوفینو میں سیلفی لینے پر پابندی ، کروز جہازوں کی وینس داخلے پر پابندی، اٹلی کے مشہور ساحلی علاقے چنکوئے تیرے میں قینچی چپل پہننے پر بھاری جرمانہ ہے۔ یہ اور اس جیسی متعدد پابندیوں کو سیاح اپنے لئے حوصلہ شکنی سے تعبیر کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ چند ماہ پہلے مقامی اخبارات میں ایک خبر شہ سرخیوں سے شائع ہوئی جس میں شہریوں کو سڑکوں پر بینر اٹھائے احتجاج کرتے دکھایا گیا تھا جو سیاحوں کی کثرت کی وجہ سے اس لئے سراپا احتجاج تھے جن کی وجہ سے ان کی زندگیاں تیزی سے مختلف مسائل کا شکار ہوتی جارہی ہیں۔ ان مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے یہاں کے شہری کہتے ہیں کہ وینس میں آنے والے سیاح اس دوران ضرورت زندگی کی ہر شے منہ مانگے داموں خرید کر مہنگائی کی نئی سے نئی بنیاد رکھتے چلے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ بیشتر نوجوان سیاح قدیم گرجا گھروں کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر کھانا کھا کر خالی ڈبے ، بوتلیں اور دیگر کوڑا کرکٹ پانی میں یا سڑکوں پر پھینک کر چلے جاتے ہیں جو بالآخر شہر کے بے شمار پلوں والی نہروں کی تہہ میں ٹنوں کے حساب سے اکٹھا ہوتا رہتا ہے۔گزشتہ دنوں وینس شہر پر بنی ایک ڈاکومینٹری میں وینس کی نہروں کی تہہ سے کوڑا کرکٹ نکالنے کی ایک مہم کا احوال دکھایا جا رہا تھا۔اس مہم کے دوران درجنوں غوطہ خوروں نے یہاں کی نہروں کی تہہ سے جو کوڑا کرکٹ نکالا اس کا وزن 18 ٹن سے بھی زیادہ تھا۔اس مہم کے ایک اہلکار نے بتایا کہ اس کچرے میں زیادہ تعداد گاڑیوں کے ٹائروں کی تھی جو نہروں میں چلنے والی ہزاروں گنڈولا کشتیوں کیلئے رات کے وقت انہیں نہر کنارے باندھنے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ یہ ٹائر اکثر رات کو رسوں سے الگ ہو کر پانی میں گر جاتے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔لاحق خطراتمقامی شہریوں کے یہ خدشات بلا سبب نہیں کیونکہ آج سے کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے بھی وینس کو لاحق خطرات کا اظہار کرتے ہوئے وینس کو خطرے سے دوچار عالمی ثقافتی مقامات کی فہرست میں شامل کرنے کا عندیہ دے دیا تھا ۔یونیسکو نے اپنی ایک رپورٹ میں اٹلی کے شہر وینس کو درپیش خطرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ '' وینس کو بہت زیادہ سیاحت ، حد سے زیادہ ترقی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندر کی سطح میں اضافے کے سبب ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے ، جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مثلاً زمین کے بڑھتے درجہ ٔ حرارت کے باعث سمندر کی سطح میں اضافے سے پانی میں گھرے وینس کو سیلاب کا بہت خطرہ ہے۔ وینس کی انتظامیہ کو ''وژن کی کمی‘‘ کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے متنبہ کیا گیا ہے کہ انتظامیہ کی لاپرواہی سے اٹلی کا سب سے خوبصورت شہر مسائل کا گڑھ بنتا جا رہا ہے۔ آگے چل کر یونیسکو نے شہر کی بلند و بالا عمارات کی طرف وینس انتظامیہ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ یہ شہر کی خوبصورتی پر منفی اثر ڈالتی ہیں، انہیں شہر کے مرکزی حصے سے دور تعمیر کیا جانا چائیے تھا۔یونیسکو نے اپنی اسی رپورٹ میں وینس انتظامیہ کی توجہ مبذول کراتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سان مارکو کینال اور دیگر ساحلوں پر بڑے بحری جہازوں کی آمد پر پابندی کا اطلاق ہونا چائیے تھا جو بہت زیادہ آلودگی کا سبب بن رہے ہیں۔وینس کے مسائل ایک طرف لیکن اس حقیقت سے بھی تو انکار ممکن نہیں کہ وینس کے باسیوں کا سیاحت کے علاوہ کوئی اور ذریعہ معاش بھی تو نہیں ہے۔ روایتی سواریاں''واپوریتو‘‘ اور ''گونڈولا‘‘شہر کے اندر آمدورفت کیلئے سب سے بڑا ذریعہ واٹر بسوں کا ہے جنہیں مقامی زبان میں ''واپوریتو‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بسیں شہر کے اندر پانی پر تیرتی ایسے نظر آتی ہیں جیسے بڑے شہروں میں عام بسیں سڑکوں پر چلتی نظر آتی ہیںجبکہ شہر کے مختلف علاقوں کو پلوں کے ذریعے آپس میں ملانے کیلئے پیدل راستے بھی بنائے گئے ہیں۔یہاں کی ایک خاص روائتی سواری ''گونڈولا‘‘ہے۔یہ ایک ثقافتی کشتی ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلئے استعمال ہوتی ہے لیکن اب یہ مقامی افراد سے زیادہ سیاحوں کی سواری کا روپ دھار چکی ہے جو یہاں کے مقامی ملاح جگہ جگہ لئے کھڑے نظر آتے ہیں۔