نواب محمد اسماعیل خان اور جناح کیپ
اسپیشل فیچر
تحریک وقیام اور تشکیل پاکستان کی تاریخ میں نواب محمد اسماعیل خان کا آل انڈیا مسلم لیگ کے نہایت فعال، سرگرم اور صف اوّل کے رہنمائوں میں شمار ہوتا ہے۔ آپ قائداعظم محمد علی جناح کے معتمد اور مقرب ترین ایسے ساتھی تھے جن کی رائے اور مشورے کو اوّلیت اور تقدّم حاصل تھا۔ نواب صاحب 1884ء میں آگرہ (اُترپردیش) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ممتاز شخصیت اور سماجی رہنما نواب محمد اسحاق خان اور دادا اپنے عہد میں دلّی کے ممتاز رئیس، جہانگیر آباد میرٹھ کے جاگیر دار، مشہور و ممتاز شاعر اور مرزا غالب کے سرپرست وہم نوا‘ نواب مصطفیٰ خان شیفتہ تھے۔ نواب صاحب نے ابتدائی تعلیم والد کی نگرانی میں آگرہ میں حاصل کی، خدا داد ذہانت کے باعث دینی ومذہبی علوم میں نمایاں کامیابی کے بعد مزید تعلیم کے لیے علی گڑھ چلے گئے۔ بعد ازاں کیمبرج یونی ورسٹی انگلستان سے بی اے اور بار ایٹ لا کی ڈگریاں حاصل کی، وطن واپس آکر میرٹھ میں وکالت شروع کی اور بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کے والد موتی لا نہرو جو بھارتی سیاست دان تھے کے ہمراہ پریکٹس کی۔ آپ نے میدان سیاست میں قدم رکھا اور 1917ء میں بال گنگا دھرتلک کی ہوم رول لیگ تحریک میں سرگرمی دکھائی بعد ازاں وولٹ ایکٹ کے خلاف حصہ لیا، علی برادران کے ساتھ تحریک خلافت میں حصہ لینے پر نواب صاحب کو خلافت کمیٹی کی مجلس عاملہ کا رکن اور یوپی خلافت کمیٹی کا صدر منتخب کیا گیا۔ علی برادران کی اسیری کے دوران ساری ذمہ داریاں آپ نے احسن طریقے سے نبھائیں۔ نواب محمد اسماعیل خان 1923ء اور 1926ء میں مرکزی قانون ساز کونسل کے بلا مقابلہ رکن منتخب ہوئے۔ کانگریس سے ابتدا میں وابستہ رہنے کے بعد اس کی ہندوانہ ذہنیت اور پالیسیوں کے سبب علیحدگی اختیار کرکے 1908ء میں بھر پور طور پر آل انڈیا مسلم لیگ سے وابستہ ہوگئے اور یہ وابستگی ان کی موت تک قائم رہی۔ آپ مسلم لیگ کی نمائندہ اور معزز شخصیت بن گئے۔ نومبر 1930ء کے لکھنٔو کے کل ہند مسلم کانفرنس کے اجلاس کی صدارت فرمائی۔ مشہور زمانہ آل انڈیا مسلم لیگ اجلاس الہٰ آباد منعقدہ 1930ء (جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی) کے مندوب تھے۔ اگست 1932ء میں اتحاد کانفرنس الہٰ آباد میں شرکت کی اور 1936ء میں لیگ کے مرکزی پارلیمانی بورڈ کے رکن منتخب ہوئے، پھر 1937ء میں یوپی قانون ساز اسمبلی کے ممبر بنے۔ اسی سال قائد اعظم نے انہیں کمیٹی آف ایکشن کا صدر منتخب کیا۔ 1938ء میں مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن نامزد ہوکر بارہ سال تک فرائض انجام دیے۔ یوپی مسلم لیگ کے آپ مسلسل سترہ سال تک صدر رہے اور یہ امتیاز ساری ہندوستانی تاریخ میں صرف نواب صاحب کو حاصل ہے۔ قائداعظم سب لوگوں کو ناموں سے پکارتے تھے لیکن صرف بیگم محمد علی جوہر کو ’’بیگم صاحبہ‘‘ اور آپ کو ’’نواب صاحب‘‘ کہتے تھے اور نواب صاحب ہی وہ شخصیت تھے جو قائداعظم کی موجودگی میں بھی سگریٹ نوشی کرسکتے تھے۔ ایک اجلاس میں نواب صاحب نے سگریٹ نہیں جلائی تو قائد اعظم نے فرمایا ’’نواب صاحب کیا بات ہے؟ سگریٹ جلائیے، جتنی دیر سگریٹ جلتی رہے گی آپ کا دماغ کام کرتا رہے گا اور مسلم لیگ کو فائدہ پہنچتا رہے گا۔‘‘نواب صاحب کا مستقل پہناوا شیروانی تھا اور شیروانی کے ساتھ ٹوپی پہننا لازمی امر تھا اور نواب صاحب اپنے گھر کی سلی ہوئی یہ مخصوص وضع کی سموری ٹوپی ہی پہنتے تھے جو ان پر خوب سجتی دھجتی تھی اور اس ٹوپی کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچنا اور پاکستانی تہذیب کا حصہ بننا تھا اس لیے یہ واقعہ وجود میں آیا۔مشہور سیاست دان مرحوم ایم اے ایچ اصفہانی نے اپنی یادداشتوں میں اس واقعے کو 1935ء میں ظاہر کیا ہے جب کہ نواب صاحب کے چھوٹے فرزند افتخار احمد عدنی (سابق ایڈیشنل سیکریٹری کیبنٹ ڈویژن اور سابق ڈائریکٹر نیپا) نے اسے 1937ء میں وقوع پذیر ہونا لکھا ہے بہرحال تاریخوں کے فرق سے اصل واقعے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اصفہانی صاحب لکھتے ہیں:۔’’1935ء کے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ کے پہلے انتخابات کے بعد مسلم لیگ کا پہلا عظیم الشان اجلاس 15 تا 17 اکتوبر لکھنٔو میں منعقد ہوا۔ راجہ صاحب محمود آباد انتظامات کے انچارج تھے۔ بڑے پنڈال کو دلکش انداز میں سجایا گیا تھا جس میں پچاس ہزار سے زائد لوگ جمع تھے، جناح صاحب محمود آباد ہائوس قیصر باغ میں مقیم تھے۔ پہلے روز کے جلسہِ عام سے ایک گھنٹہ قبل راجہ صاحب، چوہدری خلیق الزماں، نواب محمد اسماعیل خان اور جناح صاحب اس دن پروگرام پر نظر ثانی کی غرض سے جمع تھے۔ نواب صاحب حسب معمول بے عیب لباس میں ملبوس سیاہ سموری ٹوپی پہنے ہوئے تھے۔ جناح صاحب اس ٹوپی کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھنے لگے کہ ’’کیا وہ اسے تھوڑی دیر کے لیے دے سکتے ہیں‘‘۔نواب صاحب نے اپنی روایتی خوش اخلاقی سے مسکراتے ہوئے ٹوپی جناح صاحب کو دے دی اور ان سے پہنے کی درخواست کی صر ف یہ دیکھنے کے لیے کہ ان پر یہ کیسی لگتی ہے۔ جناح صاحب نے اسے پہن لیا اور انہوں نے پہننے کے بعد ہماری جانب دیکھا تو نواب صاحب نے ٹوپی کے ٹیڑھے زاویے کو درست کردیا۔ ہم لوگ اس کی تعریف کرنے لگے تو وہ اُٹھ کر ساتھ والی خواب گاہ میں چلے گئے اور وہاں ایک قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر ہماری رائے کا محاسبہ کرنے لگے۔ دو منٹ بعد برآمد ے میں واپس آئے۔ ہم میں سے کسی نے یہ تجویز پیش کی کہ وہ ٹوپی پہنے رہیں اور اسی طرح اجلاس میں جائیں۔ انہوںنے تجویز مان لی۔ مجھے وہ جلسہ ہمیشہ یاد رہے گا۔ مجھے لوگوں کے مسکراتے چہرے اب تک نظر آتے ہیں۔ زور و شور کی تالیاں اور اللہ اکبر کے فلک شگاف نعرے جناح صاحب کے پنڈال میں داخل ہوتے ہی گونجنے لگے۔ تمام مجمع سرگوشی میں پہلے پھر باآواز بلند اس ٹوپی کی اور اس شیروانی کی جسے جناح صاحب نے پہلی بار کسی ایسی تقریب میں زیب تن کیے ہوئے تھے تحسین و آفرین کرنے لگے گویا یہ نعرے ٹوپی کی جناح صاحب کو سجنے کا حقیقی اعتراف تھے‘‘۔لکھنٔو کا اجلاس ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ شہر کے نوجوانوں اور بہت سے معمر حضرات نے یہ ٹوپی پہننا شروع کردی تھی جو قائد اعظم کی بدولت راتوں رات مقبول ہوگئی تھی اور شہر کے کلاہ سازوں (ٹوپی/پگڑی بنانے والے) نے بھی راتوں رات فائدہ اٹھاتے ہوئے کمال کر دکھایا اور ہزاروں کی تعداد میں اصلی قراقلی یا نقلی کھال کی ٹوپیاں بنانا شروع کردیں۔ کنیا کماری سے صوبہ سرحد تک یہ توپی ’’جناح کیپ‘‘ کے نام سے مقبول ہوگئی تھی اور آج بھی ہے۔نواب محمد اسماعیل خان جیسی مافوق الفطرت اور عظیم الشان شخصیات صدیوں میں کہیں پیدا ہوتی ہیں اور صدیوں کی تاریخ پر اپنے انمنٹ نقوش ثبت کرجاتی ہیں۔ پاکستان کی نئی نسل کی فلاح و بہبود اور روشن مستقبل کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اسلام کے کارناموں کو یاد رکھے اور ایسی عظیم المرتبت ہستیوں کے نام اور کام کو حرزِجاں بنائے رکھے کیوں کہ زندہ قومیں اپنے آبائو اجداد اور محسنوں کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔(سید محمود خاور کی کتاب ’عہد ساز ہستیاں‘ سے انتخاب)