فضول باتوں اور کاموں سے بچنے کی صفت
اسپیشل فیچر
’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’انسان کے اسلام کی خوبی اس کا لایعنی (لغو) باتوں سے بچنا ہے۔‘‘ (اس حدیث کو ترمذی اور دوسروں نے روایت کیا ہے)۔ یہ حدیث جوامع الکلم میں سے ہے۔ اس میں نبی اکرم ﷺ نے مومن کی ایک اہم صفت بیان فرمائی ہے جسے اختیار کرنے سے اس کا اسلام اور ایمان کامل اور عمدہ بن جاتا ہے۔ یہ صفت ہے مومن کا فضول باتوں اور کاموں سے کنارہ کش ہونا، اس صفت کو قرآن مجید میں اس طرح بیان کیا گیا ہے:’’اور جو لوگ لغو باتوں سے دور رہتے ہیں۔‘‘لغو ہر اس بات اور کام کو کہتے ہیں جو فضول، بیکار اور لاحاصل ہو، جن باتوں اور کاموں کا دنیا اور آخرت میں کوئی فائدہ نہ ہو، جن سے کوئی مفید نتیجہ نہ نکلے، جن کی کوئی حقیقی ضرورت نہ ہو اور جن سے کوئی اچھا مقصد حاصل نہ ہو۔ مومن وہ شخص ہے جسے ہر وقت اپنی ذمہ داریوں کا احساس رہتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ دنیا دراصل ایک امتحان گاہ ہے اور جس چیز کو زندگانی، عمر اور وقت کے مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہے، وہ درحقیقت ایک جچی تلی مدت ہے جو اسے امتحان کے لیے دی گئی ہے، یہ احساس اس کو بالکل اس طالب علم کی طرح سنجیدہ اور مشغول بنا دیتا ہے جو امتحان کے کمرے میں بیٹھا اپنا پرچہ حل کر رہا ہو، جس طرح اس طالب علم کو یہ احساس ہوتا ہے کہ امتحان کے یہ چند گھنٹے اس کی آئندہ زندگی کے لیے فیصلہ کن ہیں اور اس احساس کی وجہ سے وہ ان گھنٹوں کا ایک ایک لمحہ اپنے پرچے کو صحیح طریقے سے حل کرنے کی کوشش میں صرف کر ڈالنا چاہتا ہے اور اس کا کوئی سیکنڈ فضول ضائع کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا، ٹھیک اسی طرح مومن بھی دنیا کی زندگی کو انہی کاموں میں صرف کرتا ہے جو انجام کار کے لحاظ سے مفید ہوں حتیٰ کہ لغو اور بیکار باتوں اور کاموں سے بچ جائے گا اور اپنا دین و ایمان مکمل کرے گا۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎دل ز پر گفتن بمیرد اندر بدنگرچہ گفتارش بود در عدنیعنی زیادہ باتیں کرنے سے دل اندر سے مر جاتا ہے؛ اگرچہ وہ باتیں عدن کے موتیوں کی طرح قیمتی کیوں نہ ہوں۔ وہ تفریحات اور کھیلوں میں بھی ان چیزوں کا انتخاب کرتا ہے جو محض تضیع وقت نہ ہوں بلکہ کسی بہتر مقصد کے لیے اسے تیار کرنے والی ہوں۔ اس کے نزدیک وقت کاٹنے کی چیز نہیں ہوتی بلکہ استعمال کرنے کی چیز ہوتی ہے۔ آخر ایک مومن جو یہ یقین رکھتا ہو:’’وہ کوئی بات نہیں بولتا ہے جس کے لیے اس کے پاس ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو۔‘‘(ن۔ 18:50)اور یہ آیت اس کے سامنے موجود ہو تو وہ کس طرح لغو اور لا یعنی باتوں میں اپنا وقت گنوائے گا اور عمل کا موقع ضائع کرے گا۔ ’’جو شخص ذرہ برابر بھی نیکی کرے گا، وہ اسے پائے گا اور جو ذرہ برابر برائی کرے گا، وہ اس کو پائے گا۔‘‘ (الزلزال 87:99)ایسا شخص اپنا وقت کیسے بے ہودہ باتوں، گندے مذاق، ٹھٹھوں اور فقرہ بازیوں میں گنوائے گا پھر بیکار کھیل کود میں مشغول ہو کر یا بیکار بیٹھ کر اپنی قیمتی گھڑیاں ضائع کرے گا، اس شخص کے لیے ایسی سوسائٹی ایک عذاب ہوتی ہے جس میں کسی وقت بھی اس کے کان گالیوں، غیبتوں، تہمتوں، بہتانوں، جھوٹی باتوں، فحش گانوں اور بے ہودہ گفتگو سے محفوظ نہ ہوں۔ مومن سلامت طبع، پاکیزہ مزاج اور خوش ذوق انسان ہوتا ہے، بے ہودہ باتوں اور لغو کاموں سے اس کی طبیعت میل نہیں رکھتی، وہ مفید باتیں تو کر سکتا ہے مگر بے فائدہ باتوں کے قریب نہیں جاتا، وہ خوش طبعی پاکیزہ مزاح اور سنجیدہ مذاق تو کر سکتا ہے لیکن بے ہودہ مذاق ٹھٹھوں اور بے ہودہ باتوں سے کوسوں دور بھاگتا ہے۔ امام مالکؒ نے روایت کی کہ لقمان حکیم سے پوچھا گیا کہ آپ اس مرتبے اور مقام پر کن اوصاف کی وجہ سے پہنچے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا: ’’سچ بولنے، امانتیں حق داروں تک پہنچانے اور لغو باتوں اور کاموں سے کنارہ کشی کرنے کی وجہ سے پہنچا ہوں۔‘‘حضرت حسنؓ نے کہا ’’کسی بندے سے اللہ تعالیٰ کی توجہ ہٹنے کی نشانی یہ ہے کہ وہ لغو باتوں اور کاموں میں مشغول ہو جاتا ہے۔‘‘حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ نبی اکرم ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے وصیت فرمائیں اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں تجھے اللہ کا خوف اختیار کرنے کی وصیت کرتا ہوں کیونکہ تمہارے تمام معاملات کی بنیاد ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا کہ ’’مجھے مزید ارشاد فرمائیں‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’اپنے لیے قرآن کریم کی تلاوت کرنا لازم کر لو اور اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو، وہ تجھے آسمان پر یاد کرے گا‘‘ پھر میں نے مزید فرمانے کی گزارش کی تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’اپنے اوپر جہاد کرنا لازم کر لو کیونکہ یہ مومنوں کے لیے رہبانیت (ترک دینا) ہے۔‘‘ میں نے کہا کہ ’’اور کچھ فرمائیں‘‘ اس پر آپﷺ نے فرمایا: ’’خاموشی اختیار کرو جو تجھ سے شیطان کو دور کرے گی اور تمہارے دینی معاملات میں تمہاری مددگار ہوگی۔‘‘ میں نے اور فرمانے کی التجا کی۔ آپﷺ نے فرمایا ’’حق بات کہو پھر چاہے کسی کو کڑوی لگے‘‘ میں نے مزید نصیحت کرنے کی گزارش کی۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کے احکام کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہ کر‘‘ میں نے عرض کیا کہ مزید ارشاد ہو۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرو اگرچہ وہ قطع رحمی کا رویہ اختیار کریں‘‘ میں نے اور مزید فرمانے کی گزارش کی۔ آپﷺ نے فرمایا ’’آدمی کے برے ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے نفس کو بھلا دے اور لغو باتوں اور کاموں میں لگ جائے۔ اے ابوذرؓ! عقل تدبیر جیسی نہیں ہے، کسی کام سے دور رہنے جیسا تقویٰ نہیں ہے اور کوئی خوبی اور بھلائی حسن اخلاق جیسی نہیں ہے۔‘‘لغو کاموں اور باتوں سے بچنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر شخص بات کرنے سے پہلے یہ سوچے کہ جو بات میں کہہ رہا ہوں، وہ غلط تو نہیں ہے، گناہ کی بات تو نہیں ہے، کسی کو تکلیف دینے والی تو نہیں ہے اور بیکار تو نہیں ہے اور یہ کہاوت ہر وقت اپنے سامنے رکھے کہ ’’پہلے تول پھر بول۔‘‘اسی طرح کوئی کام کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے کہ اس میں دین و دنیا کا کون سا فائدہ ہے؟ کسی کی حق تلفی تو نہیں ہو رہی؟ ان باتوں کو سامنے رکھا جائے تو انسان بہت سی لغو باتوں سے محفوظ رہے گا۔ ٭٭٭