نصرت فتح علی خاں
اسپیشل فیچر
مون مارکیٹ‘ فاروق سٹوڈیو پر بیٹھے تھے وہاں ایک شخص سے تعارف ہوا۔ پتہ چلا ان کا نام حاجی اقبال نقیبی ہے اور وہ نصرت فتح علی خاں کے دستِ راست ہیں۔ باتوں باتوں میں میری شاعری کی بات چلی کہ فاروق میری کچھ غزلیں ریکارڈ کرنا چاہتے تھے۔ میرے شعر سن کر اقبال نقیبی کہنے لگے کہ اگر آپ کے پاس وقت ہوتو ایک جگہ چل کر چائے پیتے ہیں۔ اتوار کی صبح تھی۔ میں نے سلیپنگ سوٹ اور ہوائی چپل پہن رکھی تھی۔ یہی گمان تھا کہ یہیں کہیں باہر اوپن ائیر بیٹھنا ہے۔ میں نے حامی بھر لی تو کہنے لگے‘ ’چلیے اٹھیے!‘‘ وہاں سے اٹھ کر ان کی کار میں جا بیٹھے۔ انہوں نے گاڑی ماڈل ٹائون کی طرف موڑ دی۔ میں نے احتجاج کیا کہ ایسی حالت میں کسی کے گھر جا کر چائے پینا تو بالکل معیوب سا لگتا ہے۔ حاجی صاحب کہنے لگے نہیں نہیں کوئی بات نہیں ہم بھی ایک فقیر کے گھر جا رہے ہیں۔ ہم ایک کوٹھی میں داخل ہوئے اور ڈرائنگ روم میں جا کر بیٹھ گئے۔ میں بہت عجیب سا محسوس کر رہا تھا۔ کولڈ ڈرنکس آگئے۔ تھوڑی دیر کے بعد اندر سے نصرت فتح علی خاں مسکراتے ہوئے ڈرائنگ روم میں داخل ہوئے۔ اس سے پیشتر میری ایک اور ملاقات ان سے ہوچکی تھی۔ وہ آتے ہی کہنے لگے ’’اچھا سعداللہ شاہ آئے ہیں‘‘۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوئے ’’شاہ صاحب کوئی شعر سنائیے‘‘۔ میں نے تازہ کہے ہوئے شعر سنا دئیے:اگرچہ غم بھی ضروری ہے زندگی کے لیے مگر یہ کیا کہ ترستے رہیں خوشی کے لیے وہ مجھ کو چھوڑ گیا تو مجھے یقیں آیاکوئی بھی شخص ضروری نہیں کسی کے لیے کہنے لگے ’’لیجیے شاہ صاحب ہم آپ کے اعزاز میں ابھی اس کی دھن بناتے ہیں۔ اس کے بعد میوزک کا سارا ساز و سامان آگیا۔ سازندے بیٹھ گئے اور دھن بننا شروع ہوگئی۔ جب وہ ٹریک ریکارڈ کروا چکے تو پوری غزل گائی اور مندرجہ ذیل شعر کے پہلے مصرع پر رکے کیوں کہ ’ہم اس‘ گانے میں رکاوٹ آئی:اسے کہو کہ ہم اس کے بغیر جی لیں گےیہ غم اگرچہ زیادہ ہے آدمی کے لیےمیں نے کہا خان صاحب! الف وصل ہو رہا ہے اس لیے آپ کو ’ہمُس‘ کہنا پڑے گا۔ بہت خوش ہوئے ظاہر ہے ’ہمُس‘گانے سے شعر سر میں آگیا۔ اس کے بعد چائے آگئی اور خان صاحب کہنے لگے میرے پاس کچھ دھنیں ہیں اگر آپ چاہیں… میں نے بات کاٹ کر کہا سر میں کسی …‘‘ انہوں نے میری بات بھی کاٹ دی۔ میں سمجھ گیا آپ اوریجنل شاعر ہیں دھنوں پر نہیں لکھیں گے۔ میں نے کہا ’’نہیں خان صاحب ٹی وی میں یہ کام کیا۔ اب اچھا نہیں لگتا۔ اس کے بعد خان صاحب کے ساتھ دوستی ہوگئی۔ انہوں نے پی ٹی وی پر شکوہ جواب شکوہ گایا تو میں موجود تھا۔ بعد میں میں نے تلفظ کے حوالے سے نشاندہی کی تو بڑے فراخ دلی سے کہنے لگے۔ سٹوڈیو میں بیٹھ کر اس پر گفتگو ہوگی۔ ان کی مصروفیت بہت تھی۔ وہ بہت شفیق‘ نرم خو اور محبت کرنے والے تھے۔ معصومیت میں تو میں انہیں ایک شیر خوار بچے سے تشبیہ دیتے ہوئے بھی نہیں رکوں گا۔ وہ زیادہ تر باتیں سنتے‘ خود کم گفتگو کرتے‘ مسکراتے رہتے۔ ان کی آنکھیں بھی ہنستی تھیں۔ اپنے فن پر وہ گرفت کہ دنیا بھر کے فنکاران کے معترف تھے۔ میں نے خان صاحب میں انتہائی عاجزی دیکھی۔ ہماری موجودگی میں کسی نے اسد امانت علی کے حوالے سے کوئی بات کی تو کہنے لگے۔ ’’رہنے دیں‘ کسی کے خلاف کوئی بات نہ کریں‘‘۔ وہ سب بڑے فنکار ہیں۔ جب میں ان کے جنازے پر گیا تو وہاں ایسے ایسے لوگ ملے کہ بس۔ بے پناہ جنازہ۔ مجھے نقیبی کا فقرہ یاد آیا ’’ہم ایک فقیر سے ملنے جا رہے ہیں‘‘۔