امام احمد رضا اور ترک موالات
پاک و ہندو کا وہ عبقری جس نے فرنگی تہذیب و تمدّ ن اور فرنگی افکار وخیالات کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔جس نے تحریک خلافت اور تحریک ترک ِ موالات کے اند ر دوڑنے والی سورج کی برقی لہروں اور مسٹر گاندھی کی سیاسی حکمتِ عملی کا راز اس وقت پایاجب کسی نے نہ پایا۔ماسوائے چند بزرگوں کے۔جس نے اسلامی نشاۃِثانیہ کے لیے بھر پو ر کوشش کی۔ہرفردکوملی تشخص کااحساس دیااورتحریکِ پاکستان کے لیے فکری راہیںہموار کیں۔ہاں اُس نے صرف اسلام کی خاطرہندومسلم اشتراکِ عمل کو کسی قیمت پر قبول نہ کیا۔وہ کوہِ استقامت تھا،اُس نے حق کی خاطر ہر بے راہ سے ٹکر لی اور اپنی ناموس وعزت کواسلام اور پیغمبر اسلام ؐ کی ناموس پرقربان کردیا۔وہ اسلام کے متوالوں،فداکاروںاور جانثاروں کاسرتاج تھااُس کاکوئی حریف نہ تھا۔ اُس نے ہر فکر کو قرآن و حدیث کی کسوٹی پر پرکھا ،کھوٹا اور کھرا الگ کر دکھایا۔اس کو دیوانہ کہا گیا مگر وہ تو فرزانوں کی آبرو تھا۔اسے’’مفکرالمسلمین‘‘ کہاگیا،مگروہ تو اسلام اور مسلمانو ں کا محافظ تھااسے’’مبتدع ‘‘کہاگیامگروہ تو سنت رسول ؐ کاپاس دارتھا،اسے فرنگیوں کادمساز کہا گیا مگر وہ تو اسلامیوں کا خیر خوا ہ تھا۔وہ ۱۹۲۱میں جب پورا مُلک کفر، شرک وبدعت کی لپیٹ میں تھا نعرہ ٔ مستانہ لگاتا ہوا خوابیدہ قوم کو جگا تا ہوا اپنے مولا کے حضور حاضر ہوگیا۔اس کی آواز نے اپنی تاثیر دکھائی اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری قوم جاگ اٹھی۔اس کا ذہن برق رفتار تھا۔اس کی آنکھ عر ش نگاہ تھی۔اس کا سینہ بحرناپیدا کنار تھا ۔اس کا ہاتھ صبا رفتار تھا،وہ کیا تھا؟وہ کون تھا؟ اس نے کیاکیاکیا؟وہ سراپا حرکت تھا۔اس کی زندگی جامد نہیںتھی۔اس کی حرکت وعمل کے ایک نہیں بیسیوں پہلوہیں۔جس پہلو سے دیکھیے وہ متحرک نظر آتاہے۔حرکت و عمل کے ان مختلف پہلوؤں کودیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ امام احمدرضاؒنہایت ہی فعال تھے ۔ان پر کام کرنے کے لیے ایسی ہی فعال اکیڈمی کی ضرورت ہے۔امام احمد رضا نے محسوس کیا کہ اصل جنگ انگر یز سے نہیں بلکہ ہنودسے ہے چنا ں چہ تقسیمِ ہند کے بعد امام احمد رضا کے اس خیا ل کی تو ثیق ہو گئی۔کسی انگر یز نے پاکستا ن سے جنگ نہ کی نہ مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی،ہولی کھیلنے والے اور جنگ کرنے والے یہی ہنود تھے،جنہوں نے کبھی ’’ہندومسلم بھائی بھائی ‘‘کے دل پذیر نعرے لگائے تھے،یہ وہ حقیقت ہے جسے زمانے نے نصف صدی بعد ظاہر کیا،لیکن امام احمد رضاؒ نے 1920ء میں بلکہ اس سے بہت پہلے محسوس کر لیا تھا اسی لیے اُنہوں نے فلسفۂ گا ندھی کے سامنے اسلامی فلسفے کی بات کی، اپنو ں اور بیگانو ں میں جس نے فلسفۂ گا ند ھی کی بات کی اُس کا شدت سے تعاقب کیا اور مؤثر ردکیا۔جہاں تک اما م احمد رضا ؒکے مذہبی افکار کا تعلق ہے وہ سُنی حنفی اور پکے و سچے مسلمان تھے،ایمان میں کسی لچک کے قائل نہ تھے اسی لیے اُنہو ں نے اپنے معاصرین کے اقوال واعمال پر سخت تنقید کی اور کفر کے فتوے بھی لگائے چناں چہ ان کے مخالفین نے مشہو ر کر دیا کہ تفکیر مسلم امام احمد رضاؒکا محبو ب مشغلہ تھا لیکن حقیقت واقعہ یہ ہے کہ کلمۃالحق ان کا مسلک تھا اوراحیاء اسلام ان کا مقصد۔اس مسلک کا جو مخالف ہو تااوراس مقصد کی راہ میں جو حائل ہوتا خواہ اپنا ہو یا بیگانہ ،وہ پوری شدت سے اس کی مخالفت فرماتے اوراس کے لیے اپنی تمام فطری وعملی تو انائیاں صرف کرتے۔وہ اپنے مخالفین کے بر عکس اپنوں کی کبھی رعایت نہ کرتے۔یہی ان کی عدل گستری اورانصاف پسندی کا طُرّۂ امتیاز تھا جو محسوس کیا جاناچاہییے۔انگر یز وں کے زیر ِاثر قدیم وجد ید درس گا ہوں اور علمی اداروں سے آزاد خیالی اور فکر ی کج روی کا جو ایک سیلاب امڈا ا مام احمد رضا اس سیلا ب بے پناہ کے لیے بند ثابت ہوئے۔بے شک اگر یہ بند نہ ہوتا تو آزاد خیا لی اور بے راہ روی کا سیلاب نہ معلوم کتنوں کو بہا کرلے جاتا اور مستقبل کاکیا حال ہو تا؟س حقیقت پر گہرے غورفکر کی ضرورت ہے اور یہ بات مؤرخین کے لیے قابل تو جہ ہے کہ جب یہ سب کچھ ہو رہا ہے وہ کو ن تھا جس نے پوری قوم کو غارِ ہلاکت میںگر نے سے بچا یا اور اُسے شعورِ جان وایمان بخشا۔امام احمد رضانے اوائل بیسویں صدی عیسوی میں جس اسلامی غیر ت اورمومنانہ بصیر ت کا ثبوت دیا اس پران کے بعض مخالفین نے انگریزدوستی پر محمو ل فرمایاحالاں کہ اواخر انیسوی صدی ہجری میں انگریز کے حامی قلم کاروں اور رہنماؤں کے اقوا ل واعمال پر وہ پہلے ہی تنقید کر چکے تھے۔جس کے دل میں محبت مُصطفیٰ ؐ جا گز یں ہو چکی ہو اُس کے دل میں نہ انگریز کی محبت جگہ پا سکتی ہے اور نہ کسی اور کافر مشرک و مرتد کی۔امام احمد رضاکے بعض اشعار تیر و نشتر سے کم نہیں مگر یہ وہی تیر ہیں جو چادرِمصطفی ؐ پر بیٹھ کر حضرت حسان بن ثابتؓ نے چلائے تھے اوررسول اللہ ؐ نے دعاؤں کے پھول نچھاور کئے تھے۔بہت سے اشعاربظاہر نامعقول نظر آتے ہیں لیکن جب اُن کا پس ِ منظر سامنے آتا ہے تو ہر نا معقول شعر ،معقول نظر آنے لگتا ہے۔امام احمد رضا کے ان اشعار کی روح کفار ومشرکین ہند سیاسی اور تہذیبی تعاون سے پیدا ہونے والی کج خیالیوں اور بے راہ رویوں کی اصلاح ہے،یہی روح حضرت مجدد الف ثانی ؒکے مکتوبات شریف میں نظر آتی ہے۔جنہوں نے عہد جہانگیری میںایک عظیم الشان پُر امن انقلاب برپاکیا۔امام احمد رضا کے مخالفین کے لٹریچر کا اچھا خاصہ حصہ اس رو ح سے خالی ہے۔بلکہ اس کے بر عکس ان کی تاریخوں اور تذکروں میں ہندو زُعماکا نہایت ادب و احترام کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے جب کہ امام احمد رضا اور ان کے متبعین کا نفرت وحقارت کے ساتھ۔گویا ان کی نظر میں ان کا درجہ کفارومشرکین سے بھی گیا گزرا تھا۔امام احمد رضا کے مخالفین سے مؤدبانہ عر ض ہے کہ وہ ٹھنڈے دل سے امام احمد رضاکے افکار وخیالات اور تنقیدات کا مطالعہ کریں اور جذباتی انداز ِ فکر تر ک کردیں اور ان کے افکار سے اسی طرح استفادہ کریں جس طرح وسیع القلبی کے سا تھ مولانامحمد انور شاہ کشمیری نے استفادہ کیا تھا۔امام احمد رضا کے اُس جذبۂ صادق کو پہچاننے کی کوشش کریں جس نے اُنہیں وطن میں غریب الوطن بنادیاتھا۔آخر وطن میں انہوںنے غربت کیوں اختیار کی؟ کیا اپنے نفس کے لیے یہ سب کچھ کیایااسلام کے لیے؟کوئی دیوانہ ایسا نظر نہیں آتاجو خوا ہ مخواہ خود کو ہلاکت میں ڈالے اور زمانے بھر کی رسوائیاں مول لے،دانش مندی کا تقاضہ ہے کہ اسلام کے ایسے سچے شیدائی کے احوال و واقعات ہر تعصب سے بالاتر ہوکر مطالعہ کئے جائیں جس طرح جامع ازہر (قاہرہ)کے اہل حدیث فاضل ڈاکٹر محی الدین الوائی(جواَب مدینہ یونیورسٹی میں ہیں)نے مطالعہ کیے اور ایک قیمتی مقالہ قلم بندکیاجوصوتالشرق(قاہرہ ، فروری 1970) میں شائع ہو ا۔ اور اب پروفیسر جے،ایم ،ایس،بلیان،صدرشعبہ علوم اسلامیہ لیڈن یونیورسٹی (ہالینڈ)اس طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔اسی طرح لندن یونیورسٹی کے ڈاکٹر حنیف اختر فاطمی نے انگریزی میں ایک مقالہ بعنوان’’اسلام کاتصورِ علم‘‘امام احمد رضا کی تصانیف کے حوالے سے لکھاہے۔امام احمد رضا نے جو کردار اداکیا وہ وہی تھا جو ایک ماہر سرجن کو اداکرنا چاہییے تھا پھر دوسروں کا فرض ہے کہ مریض کی کماحقہ‘تیماداری کریں اور اصلاح کی کوشش کریں ۔پروفیسرفاضل زیدی صدرشعبہ اُردو،گورنمنٹ کالج ،سکرنڈ (نواب شاہ سندھ)لکھتے ہیں کہ اعلیٰ حضرت حجۃُالاسلام امام احمد رضابریلوی ؒ کی بابرکات ہستی ایک مینارہ نور کی حیثیت رکھتی تھی جس سے اپنو ں اور غیر وں سب نے اکتساب ِ نور کیا۔دین متین کی خدمت کے لیے انہوں نے اپنی ہستی وقف کردی تھی،انہیں اسلام اور بانی اسلام سرور دوجہاں احمد مجتبیٰ محمدمصطفی ؐسے جومحبت تھی وہ محتاج ِ بیان نہیں،ان کا نعتیہ کلام اس پر برہان ِقاطع ہے۔امام احمد رضاؒنے اپنی گراں قدر تصنیفات سے دین کی بڑی خدمت کی اور سب سے بڑی خدمت یہ کی کہ دشمنانِ اسلام کا تعاقب کیا اور جو مسلمان اپنی سادہ لوحی سے دشمنوں کے فریب میں آئے انہیںفہمائش کی اور انہیں دشمنوں کے فریب سے آگاہ کیا۔امام احمد رضاؒایک مستند عالمِ دین ہی کی حیثیت سے عوام میں روشناس ہیں اور مسلمان سیاست دان کی حیثیت سے اُن کی ہستی ہنوز پردہ ٔ خفامیںہے۔ مسٹر گاندھی کے سحر سامری میں بڑے بڑے مسلمان علماء آگئے تھے،مولانا شوکت علی ،مولانا حسرت موہانی ،مولاناابولکلام آزاداورمولانا عبد الباری اُن کے ہم نو ا ہو گئے تھے،یہاں تک کہ ان حضرات نے گاؤ کُشی پر پابندی لگانے کے حق میں آوا زاٹھائی ،اُس وقت علمائے ہند میں صرف امام احمد رضا ہی کی وہ تنہا ذات تھی جس نے مسٹر گاندھی اور ان کے مسلمان ہم نوائوںکے خلاف قلمی جہاد کیا،اور مسلمان علماء کو اپنی مومنانہ فراست سے بر وقت متنبہ کیا۔اعلیٰ حضرت ؒ نے گاندھوی الحادوارتدادکے خلاف تادم آخر یں مسلسل جہاد فرمایا،غیرت اسلامیہ کے امین بن کر’’قوم پرست علمائے سوء ‘‘کے سیاسی فریب سے اُمّت مسلمہ کو بچانے کے لیے اپنی زندگی تَج دی،ملت مسلمہ تشخص کو ایک قومیت کے پر چار کرنے والے نام نہاد مسلم رہنماؤں کے ہتھکنڈوں کا برابر توڑ کرتے رہے اور اہل ہنود کے مقابلے میں ملت اسلامیہ کی شان دوبالارکھنے اور اسے’’ہندوسوراج‘‘کے ہاتھوں پامال ہونے سے مامون رکھنے کی خاطر ہمہ دم سینہ سپر رہے۔اعلیٰ حضرتؒ نے حق گوئی ،بے باکی،دینی حمیّت اور ملی غیرت اُجاگر کرتے ہوئے تحریک خلافت ترک موالات،گاندھوی فلسفے اور اس کے سحرمیںگرفتار نام نہاد مسلمان رہنماؤں پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے،گاندھی نے تحریک خلافت میں گھس کر ،ہندودھرم،ہندوثقافت اور ہندوسوراج کو جنوبی ایشیاکے مسلمانوں پر مسلط کرنے کاجوناپاک منصوبہ بنایاتھا،اسے منظر عام پرلاکرناکام بنانے کاسہرااعلیٰ حضرتؒ کے سر ہے،آپ نے جدل وجدال،مناظرے یا مناقشے کا سہارانہیں لیا بلکہ عدل ومیانہ روی پر گامزن رہتے ہوئے افہام وتفہیم کی راہ اختیارکی اور سُنت سنیہ کی پیروی کرتے ہوئے ہندو زدہ مسلمانوں کو’’براہین قاطعہ‘‘ سے قائل کرنے کی کوشش فرمائی۔