شعر کیا سے کیا ہو گیا !
اسپیشل فیچر
کسی سنجیدہ شعر میں تحریف کرنا اور اسے مزاح کا رنگ دینا یا کسی سنجیدہ مصرعہ کو قطعہ میں استعمال کرکے تضمین کہنا… اور اس طرح قطعہ میں شگفتگی پیدا کرنا یہ ہنر بھی قابلِ تحسین ہے۔ اکثر شعرا نے ایسا کیا ہے اور یقینا وہ داد کے مستحق ہیں۔ اب دیکھئے نا… علّامہ اقبال کا یہ شعر کس قدر سنجیدہ ہے…مانا کہ ترے دید کے قابل نہیں ہوں میںتو میرا شوق دیکھ مرا انتظار دیکھمصرعۂ ثانی میں تھوڑی سی تحریف نے صرف مفہوم ہی نہیں بدلا بلکہ اسے مزاح کا ایسا رنگ دیا کہ قاری مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا…مانا کہ ترے دید کے قابل نہیں ہوں میںتو میری کار دیکھ مرا کاروبار دیکھاسی طرح کا ایک اور شعر جس کے خالق حفیظ جونپوری ہیں۔ شعر کہتے وقت شاعرِ محترم نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ شعر میں ذرا سی ردّوبدل سے کیسی ہلچل پیدا ہو جائے گی اور مفہوم کیا سے کیا ہو جائے گا۔حفیظ کا شعر ہے…بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہےہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہےتحریف کے بعد کا رنگ ملاحظہ کیجئے…۔بیٹھ جاتا ہوں جہاں ’چائے بنی‘ ہوتی ہےہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہےمرزا غالب کا ایک شعر… معنی کے اعتبار سے بے نظیر…رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنجمشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیںمرزا غالب کی منطق کے مطابق رنج کی زیادتی نے ان کی مشکلوں کو آسان کر دیا مگر یہاں معاملہ کچھ اور ہے…بیویاں مرتی گئیں میں شادیاں کرتا رہا’’مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں‘‘مومن خاں مومن نے ساری عمر عشقِ بتاں میں گزار دی اور جب عمر کے آخری حصّہ میں پہنچے تو خیال آیا کہ مسلماں ہو جائیں مگر اگلے ہی لمحے یہ بات بھی ذہن میں آئی کہ…عمر تو ساری کٹی عشقِ بُتاں میں مومنؔآخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گےآفرین ہے امیرالاسلام ہاشمی کو کہ انہوں نے مصرعۂ اولیٰ کی تبدیلی سے شعر کے مفہوم کا زاویہ تبدیل کر دیا…نائی آئے گا تو یہ کہہ کے گریزاں ہوں گے’’آخری وقت میں کیا خاک مسلماں ہوں گے‘‘جگر مراد آبادی کا مشہور شعر ہے…جان ہی دے دی جگرؔ نے آج پائے یار پرعمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیاکس قدر سنجیدہ شعر میں مرزا عاصی اختر نے مصرعۂ اولیٰ میں تحریف کرکے اسے ایسا شگفتگی کا رنگ دیا کہ قاری کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آنا لازمی ہے…آپ کے گھر سے میں کھا کے مار آ ہی گیا’’عمر بھر کی بے قراری کو قرار آ ہی گیا‘‘مرزا غالب کا وہ شعر جو عموماً غلط پڑھا اور لکھا جاتا ہے۔جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت‘ کہ رات دنبیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کئے ہوئےعام طور پر مصرعۂ اولیٰ احباب اس طرح پڑھتے یا لکھتے ہیں…’’جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن‘‘مصرعہ میں لفظ ’’فرصت کے‘‘ نہیں ہے بلکہ فرصت کے بعد ’کاما‘ ہے اور اس کے بعد ’’کہ رات دن‘‘ ہے۔فرصت کے رات دن پڑھنے سے مفہوم تبدیل ہو جاتا ہے۔ مرزا کو فرصت کے رات دن مطلوب نہیںہیں بلکہ وہ فقط فرصت کے خواہاں ہیں۔ فرصت ہو گی تو رات دن تصوّرِ جاناں میں گزار دیں گے۔سلسلہء کلام چل رہا تھا اشعار میں تحریف اور تضمین کا اور یہاں بات سے ایک اور بات نکل آئی۔ بہرحال میں واپس اپنے موضوع کی طرف لوٹتا ہوں۔ ہندوستان کے مشہور مزاح گو شاعر پاپولر میرٹھی کی ایک تضمین ملاحظہ کیجئے جس میں انہوں نے غالب کے اس مصرعہ کو ’’بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کئے ہوئے‘‘ میں تھوڑی سی تحریف کے بعد کیا اچھا مزاح پیدا کیا ہے…سنتے ہیں ایک لیڈی پولیس پہ ہے تو فدایہ عشق تیرا سب کو ہے حیراں کئے ہوئےایسا نہ ہو کہ جیل میں کل تو بھی پاپولرؔ’’بیٹھا رہے تصوّرِ جاناں کئے ہوئے‘‘مرزا غالب کے دیوان کی پہلی غزل کا ایک شعرکاوِ کاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھصبح کرنا شام کا‘ لانا ہے جوئے شیر کامعروف مزاح گو شاعر انور مسعود (حالاںکہ ان کے سنجیدہ اشعار کسی بھی اعتبار سے ان کے مزاحیہ اشعار کے معیار سے کم نہیں ہیں مگر چونکہ ان کے اوپر مزاح کی ایسی چھاپ لگ چکی ہے کہ وہ مزاح کے ہی نام سے پہچانے جاتے ہیں) نے غالب کے مندرجہ بالا شعر کے مصرعہء ثانی کو اپنے ایک قطعہ میں استعمال کیا اور مفہوم کچھ سے کچھ کر دیا…اک اتائی کر رہا تھا ایک مجمعے سے خطابیاد ہے بس ایک ٹکڑا مجھ کو اس تقریر کابات ہے بانگِ درا میں، شیخ سعدی نے کہی’’صبح کرنا شام کا‘ لانا ہے جوئے شیر کا‘‘مرزا غالب کا ایک اور شعر…داغِ فراق صحبتِ شب کی جلی ہوئیاک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہےایک تضمین ملاحظہ کیجئے۔ اب ذرا یہ دیکھئے کہ لفظ ’’شمع‘‘ کو شاعر نے کس معنی میں لیا ہے۔ یہ شوخیِ تحریر کس کے قلم کی ہے مجھے شاعر کا نام نہیں معلوم…لڑکی کہاں سے لاؤں میں شادی کے واسطےشاید کہ اس میں میرے مقدّر کا دوش ہےعذرا ‘ نسیم ‘ کوثر و تسنیم بھی گئیں’’اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے‘‘اس طرح کی بہت ساری تحریفات اور تضمینات ہیں۔ میں نے آپ کی تفریحِ طبع کے لیے چند کا ذکر کیا ہے، اجازت چاہوں گا۔