ولیم ورڈز ورتھ
اسپیشل فیچر
گہرے مشاہدۂ فطرت اور حسن قدرت سے والہانہ لگائو کے باعث اُسے ’’شاعر فطرت‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا ہےورڈز ورتھ کا مقام انگریزی شاعری میں بے حد بلند ہے۔ اسے زمین سخن کا ’’کوہ پُرشکوہ‘‘ کہا جاتا ہے جس نے رومانیت کو انگریزی شاعری میں ایک بار پھر مروج کردیا۔ انگلستان کا یہ مایۂ ناز شاعر لیک ڈسٹرکٹ (Lake District) میں پیدا ہوا جہاں اس کا باپ ایک اٹارنی (Attorney) تھا۔ لیک ڈسٹرکٹ اپنی جھیلوں، پہاڑوں، سرسبز وشاداب پھولوں سے لہلہاتی وادیوں کے لیے پورے انگستان میں شہرت رکھتا ہے۔ ورڈز ورتھ نے ابتدائی تعلیم کا زمانہ انہی حسین اور دل کش مناظر میں گزارا جن کی یادیں اس کے دل و دماغ میں نقش ہوکر رہ گئیں۔ اسکول کی تعلیم مکمل کرکے وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کیمرج چلا گیا جہاں اس کی ملاقات کولرج (Coleridge) سے ہوئی اور انگلستان کے یہ دونوں ہونے والے عظیم شاعر آپس میں گہرے دوست بن گئے اور ان کی یہ دوستی انگریزی شاعری کے لیے بڑی سود مند ثابت ہوئی۔1790ء میں ورڈز ورتھ نے سوئزرلینڈ کی سیاحت کی۔ فرانس سے گزرتے ہوئے اس نے وہاں کے لوگوں میں انقلاب کا عجب جوش وخروش پایا، اور وہ ان کے انقلابی خیالات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ انقلابی نظریات کی کشش اسے دوبارہ فرانس کھینچ لائی۔ یہاں شہر اورلین(Orlean) کی ایک فرانسیسی لڑکی سے اس نے شادی کرلی جس کے بطن سے اس کی ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ مگر اس عرصے میں اس کی جیب خالی ہوچکی تھی اور وہ روپیہ فراہم کرنے کے لیے وطن آنے پر مجبور ہوگیا جب وہ روپیہ فراہم کرکے واپس فرانس جانے کی تیاری کررہا تھا تودونوں ملکوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی اور سلسلہ آمدو رفت یک بارگی منقطع ہوگیا۔ بہ ہزار دقت و خرابی جب وہ چھپ چھپا کر پیرس پہنچا تو ہر طرف کشت وخون کا بازار گرم تھا۔ اسے اپنی بیوی کے پاس صحیح سلامت پہنچنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی۔ خود اس کی جان ہر وقت خطرے میں تھی۔ آخر کار مجبور ہوکر اسے واپس انگلینڈ آنا پڑا۔1795ء میں اس کے ایک عزیز قریب کے مرجانے پر اس کی کچھ جائیداد اسے ترکہ میں ملی جس کی آمدنی پر وہ ایک اوسط درجے کی زندگی بافراغت گزار سکتا تھا۔ ورڈزورتھ کے حق میں یہ ایک ایسی نعمت تھی جس نے اسے ساری عمر کے لیے فکر معاش سے آزادکردیا اور اب وہ صرف شاعری کرسکتا تھا۔ رابرٹ سدے کے انتقال کے بعد اسے انگلستان کا (Poet Laureate) ہونے کا شاہی اعزاز عطا ہوا۔ورڈزورتھ کی شاعری کے مختلف ادوار ہیں، مگر جو خصوصیت ان سب میں نمایاں ہے وہ اس کا گہرا مشاہدۂ فطرت اور حسن قدرت سے اس کا والہانہ لگائو ہے جس کے باعث اُسے ’’شاعر فطرت‘‘ (The Poet of Nature) کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔ وہ قدرت کی کرشمہ سازیوں کو جن حسین لفظوں میں منظوم کرتا اور اپنے قاری کو اپنے جمالیاتی وجدان میں اپنے ساتھ شریک کرلیتا ہے وہ اُسی کا حصہ ہے۔ذیل میں اس کی مشہور نظم (Daffodils) ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔ ورڈز ورتھ نے یہ خوب صورت نظم اُس خوب صورت منظر کو بچشم خود دیکھ کر لکھی تھی اور میں نے ورڈز ورتھ کی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے اس نظم کی روح کو اس ترجمے میں منتقل کرنے کی کوشش کی ہے بہرحال، ملاحظہ فرمائیے۔پھُول ہی پھُولسیرِ کہسار میں تنہا صفتِ ابرِ رواںمحوِ نظّارہ میں اک روز چلا جاتا تھاناگہاں جھیل کنارے نظر آیا وہ سماںلہلہاتا ہوا اک منظر رنگیں ایساجیسے پھولوں کی برات‘ ایک گلوں کا لشکردامنِ کوہ میں اترا ہوا تاحدِّ نظرپھُول ہی پھُول تھے اس طرح وہاں پھُول ہی پھُولکہکشاں پھُولوں کی، پھُولوں کے چمکتے تارےگُل ہر اک جام بکف رقص میں اپنے مشغولپھُول پھولے نہ سماتے تھے خوشی کے مارےاک مرقع تھا عجب چاک گریبانوں کاشکل معشوق کی، انداز وہ دیوانوں کا…………رقص میں پُھول اِدھر تھے تو اُدھر تھیں امواجیہاں پریاں سی تھرکتی تھیں، وہاں جل پریاںشوخیاں ناز سے کرتے ہوئے وہ شوخ مزاجتھی صبا ہورہی لے لے کے بلائیں قرباںتھی عجب بزم حسینان مرنجان و مرنجکہ مجھے بخش دیا ایک گراں مایہ گنج…………کیوں کہ جب شومیٔ قسمت سے میں ہوتا ہوں ملولپاس مونس کوئی ہوتا ہے نہ کوئی غم خوارتب مرے ذہنِ فسردہ میں کھِل اُٹھتے ہیں وہ پھُولیک بیک مری خزاں میں چلی آتی ہے بہارپھر سے آراستہ ہوتی ہے گلوں کی محفلاور پھر ناچنے لگتا ہے خوشی سی مرا دل