ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
اسپیشل فیچر
کہتے ہیں وعظ کرنا سب سے آسان اور سننا سب سے مشکل کام ہے۔ شیکسپیئر نے مرچنٹ آف وینس میں ایک کردار کی وساطت سے کہا ہے کہ بیس لوگوں کو نصیحت کرنا آسان ہے مگر ان بیس میں سے ایک ہونا مشکل ہے۔ اگر بات دانشمندی اور حکمت سے کی جائے تو ثمر بار رہتی ہے۔ نفس مضمون میں جدت اور تازہ کاری ہو تو کون کافر نہ سنے گاْ مجھے یاد ہے جب ہم ایم اے انگریزی کے طالب علم تھے تو پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ انگریزی میں ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی تشریف لائے۔ جو اس وقت چیئرمین شعبہ مساجد تھے اور انٹر ڈیپارٹمنٹل لیکچر دیتے تھے۔ چیئرمین اسماعیل بھٹی رخصت پر تھے اور میڈم نوید شہزاد قائم مقام چیئرپرسن تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کے لیکچر کا سن کر طلباء و طالبات تتر بتر ہونے لگے تو محترمہ نوید شہزاد نے انہیں زبردستی ہال کمرے میں دھکیل دیا کہ لیکچر سننا ضروری ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے شاید کنکھیوں سے دیکھ لیا تھا کہ طلباء مائل بہ خطاب نہیں ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے خطاب کا آغاز ہی یوں کیا ’’مجھے معلوم ہے آپ اسلام اور تبلیغ کے نام سے بدکتے ہیں۔ میں اسلام پر لیکچر دینے نہیں آیا۔ آج میں دنیائے عالم اور انسانیت پر بات کروں گا‘‘۔ اس کے بعد انہوں نے ترقی یافتہ ملکوں کی تہذیب اور سماج پر بات کی۔ مثلاً امریکہ میں ایک منٹ کے لیے بجلی چلی گئی تو کیا قیامت ٹوٹی۔ انہوں نے ہر تہذیب کا تنقیدی جائزہ پیش کیا اور آخر میں کہا کہ انہوں نے اپنے وعدے کے مطابق اسلام کی بات نہیں کی مگر ان نام نہاد تہذیبوں کی بربادیوں کے نتیجہ میں ایک تہذیب کی ضرورت ہے اس کے بارے میں آپ سوچیے گا۔ اللہ حافظڈاکٹر محمد اسلم صدیقی نے بائیس سال تک یونیورسٹی کی جامع مسجد میں خطبہ دیا۔ ایک مرتبہ انہیں ڈیپارٹمنٹس کے اندر دئیے گئے لیکچرز کا چیک ملا تو انہوں نے کہا کہ انہوں نے تو اتنے لیکچر دئیے ہی نہیں۔ پتہ چلا کہ چیک تو مہینے کا بن جاتا ہے۔ انہوں نے ممبر رسولؐ پر آ کر کہا کہ جو بھی اس طرح سے چیک بنواتے ہیں حرام ہے۔ یونیورسٹی میں زلزلہ آگیا۔ بہت لے دے ہوئی۔ وہ بڑے بے دھڑک اور بے خوف ہو کر بات کرتے تھے۔ تقریر میں ان کا انداز نہایت مدلل اور سائنٹفک ہوتا تھا۔ ایک دفعہ وہ قرآن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہنے لگے کہ قرآن دم کرنے کے لیے نہیں آیا‘ اس میں شفا ہے تو یہ اس کا اضافی فائدہ ہے۔ ایسے ہی جیسے توپ مکھیاں مارنے کے لیے نہیں ہوتی۔ اگرچہ اس سے مکھیاں بھی مر جاتی ہیں۔ قرآن تو نصابِ ذات اور منشورِ حیات ہے۔ یہ قدم بہ قدم ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ وہ اسلامی جمعیت طلبہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے تھے۔ انہوں نے 2001ء میں پورا قرآنِ پاک آڈیو اور وڈیو ریکارڈ کروایا۔ وہ مصلیٰ بھی خود سناتے تھے۔ وہ2002ء میں ریٹائر ہوئے اور آخری تقریر میں کہا ’’آج میں مجبوراً یہ بات کہہ رہا ہوں کہ کچھ لوگوں کا استفسار ہے کہ مجھے اٹھارہواں یا انیسواں گریڈ کیوں دیا گیا۔ میری تعلیم الحمد اللہ مناسب ہے۔ ایم اے اسلامیات اور عربی میں گولڈ میڈلسٹ ہوں‘ عربی فاضل اور دینی مدارس سے فارغ التحصیل ہوں۔ مزید برآں ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کے والد نے انہیں کہا تھا کہ اپنے گیٹ اپ کا خیال رکھنا اور ساتھ ہی اورنگ زیب کے حوالے سے وہ مشہور واقعہ بھی سنایا جس میں ایک سارنگی نواز نے کہا تھا کہ وہ اورنگ زیب کو دھوکہ دے کر ان کی مملکت میں رہ سکتا ہے۔ اورنگ زیب نے چیلنج قبول کیا۔ ایک عرصے کے بعد اورنگ زیب ایک بزرگ کے سامنے ہیرے جواہرات لے کر پیش ہوا تو اس بزرگ نے گیٹ اپ اتار کر کہا ’’بھاگ لگے رہن‘‘۔ اورنگ زیب حیران رہ گیا اور اس سے پوچھاکہ اس نے اشرفیوں اور لعل و جواہر سے بھری طشتری کیوں قبول نہ کی تو اس سارنگی نواز نے کہا ’’مجھے اللہ سے شرم آتی تھی کہ میں اس کے ایک برگزیدہ شخص کے گیٹ اپ میں ایسا کروں‘‘۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ انہوں نے کماحقہٗ اس گیٹ اپ کی لاج رکھی ہے۔ یہ باتیں اس لیے یاد آئیں کہ پچھلے دنوں ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی نے پورے قرآن پاک کی تفسیر بارہ جلدوں میں مکمل کی۔ اس کا نام روح القرآن ہے۔ اس تقریب پذیرائی کی صدارت قاضی حسین احمد نے کی تھی۔ ان کی تفسیر کو اس حوالے سے بہت سراہا گیا کہ یہ انتہائی سلیس‘ آسان فہم اور بامحاورہ ہے۔ خاص طور پر قرآن کی تفسیر پڑھانے والوں کے لیے بھی ممد ومعاون ہوگی۔