کراماتِ حضرت شیخ عبدالقادر جیلا نی ؒ
اسپیشل فیچر
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ بغداد کے حالات سے مضطرب ہوکر شاید کسی بیاباں کارُخ اختیار کرتے مگر ایک ایسا واقعہ پیش آیاکہ جس نے آپؒ کے قدموں کو روک دیا۔ایک رات حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے رسالت مآب صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو خواب میں دیکھا ۔سرورِ کونین ؐ نے فرمایا:’’فرزند!تم بات کیوں نہیں کرتے۔‘‘(وعظ کیوں نہیں کہتے؟)آپ ؒ نے عرض کیا:’’آقاؐ! میں عجمی ہوں۔فصحائے عرب کے سامنے کس طرح زبان کھول سکتاہوں؟‘‘حضوراکرمؐ نے فرمایا:’’اچھااپنا منہ کھولو۔‘‘آپ ؒ نے حکم پر عمل کیا۔سرورِکائناتؐ نے سات بار یہ آیت پڑھ کر آپ کے حلق پر دَم فرمائی۔’’ بُلا پروردگار کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ۔‘‘دوسری روایت کے مطابق سرکارِدوعالمؐ نے سات بار اپنالعاب ِ دہن آپؒ کے منہ میں ڈالا اور فرمایا:’’جائو عبدالقادر! مخلوقِ خدا کو نصیحت کرو۔‘‘پھر اہلِ بغداد نے فرزند ِ سادات کو انسانی ہجوم سے خطاب کرتے ہوئے دیکھا۔’’میں کہ میری تلوار مشہورہے،میری کمان کھنچی ہوئی ہے۔میرا تیر سینہ شگاف ہے۔میرانیزہ نشانہ باز ہے۔ میں محفوظ ہوں۔میں ہی ملحوظ ہوں ۔ روزہ دارو!آئو۔ شب بیدارو!آئو۔ پہاڑوں کے عبادت گزارو!آئو۔ خانقاہ نشینوں!آئو خداکے کام کے لیے میرے پاس آئوکہ میں اُسی کے اَمر سے تمہیں بلاتاہوں۔میرے فیض کا دریا بے کنارہے۔عزتِ رَبّ کی قسم !اچھے بُرے سب میرے سامنے ہیں۔ میری نگاہیں لوح ِمحفوظ پر ہیں۔میں دریائے علم و مشاہدۂ الٰہی کا تیراک ہوں ۔ میں خداوند تعالیٰ کی حجّت ہوں۔ میں نائب و وارث ِ رسول صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم ہوں ۔میری مجلس میں فرشتے اور مردان ِ غیب اس لیے آتے ہیں کہ مسجد سے بارگاہِ اقدس کے آداب سیکھیں۔‘‘ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے جس وقت یہ تقریر فرمائی۔آپ ؒ کے صاحب زادے سیّد عبدالرزاق ؒ منبر کے قریب بیٹھے تھے۔انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا اور بے ہوش ہوگئے۔سیّدالرزاق کے لباس میں آگ لگی ہوئی تھی۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ منبر سے نیچے تشریف لائے اور اپنے ہاتھوں سے فرزند کے کپڑوں کی آگ بجھائی۔اہلِ مجلس پروجد طاری تھا۔آپؒ نے فرزند سے دریافت فرمایا:’’فرزند!اس وقت تمہاری کیاکیفیت تھی؟‘‘ انہوں نے عرض کیا:’’جب میں نے آسمان کی طرف دیکھا تو مجھے مردانِ غیب ساکت و مدہوش کھڑے اس طرح نظرآئے کہ سارا آسمان ان سے بھراہواتھا اور سب کے جسموں میں آگ لگی ہوئی تھی۔٭٭٭٭حضرت شیخ عبدالقادرجیلانی ؒ کے ایک ہم عصر بزرگ فرماتے ہیں کہ ایک بارمیں نے جِنّات کی حاضری کا عمل کیا مگر کوئی جِن حاضر نہ ہوا۔ میں حیران رہ گیا، کیوں کہ اس سے قبل کبھی ایسانہ ہواتھا۔میں نے کئی گھنٹے تک عمل جاری رکھا۔ بالٓاخر وظیفے سے متعلق جِن حاضر ہوئے ۔ میں نے تاخیر کا سبب پوچھا:’’ہم سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کی مجلسِ وعظ میں حاضرتھے۔‘‘ایک جِن نے جواب دیا۔میں نے حیران ہوکرپوچھا:’’تم لوگ بھی حضرت شیخ کی مجلس میں حاضر ہوتے ہو۔‘‘ ’’انسانوں کے اجتماع سے زیادہ وہاں ہمارا اجتما ع ہوتاہے، ہمارے کئی قبائل ان کے دست مبارک پرایمان بھی لاچکے ہیں۔‘‘اجنّہ نے عجیب راز کا انکشاف کرتے ہوئے کہا۔٭٭٭٭ایک بار سیّدنا عبدالقادر جیلانی ؒ کھلے میدان میں تقریر فرمارہے تھے ۔ اس وقت دس ہزار سے زیادہ انسانوں کاہجوم تھا۔یکایک ایک سیاہ بادل اُٹھا اور آسمان پر چھا گیا۔کچھ دیرمیں موسلادھاربارش ہونے لگی۔آپؒ نے آسمان کی طرف دیکھااور رقت آمیزلہجے میں عرض کیا:’’میں تو صرف تیرے لیے مخلوق جمع کرتاہوں ۔‘‘ اچانک میدان پرپانی برسنا بندہوگیا،مگر میدان کے چاروں طرف پورے زور و شور سے بارش ہوتی رہی۔ہجوم نے کھلی آنکھوںسے حضرت شیخ کی یہ کرامت دیکھی۔ایک روز حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی مجلس میں شیخ علی بن ابی نصرؒ بھی موجود تھے جو آپ کے سامنے ہی بیٹھے ہوئے تھے ،ابھی حضرت شیخ کی تقریر شروع نہیں ہوئی تھی ،یکایک شیخ علی کو نیند آگئی۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے ایک نظر انہیںدیکھا اور لوگوں سے فرمایا:’’خاموش ہوجائو!خاموش ہوجائو!‘‘ حاضرین مجلس خاموش ہوگئے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ منبر سے نیچے اُتر آئے اور شیخ علی ؒ کے روبرو ادب سے کھڑے ہوگئے ، آپ ؒ شیخ علی ؒ کا چہرہ غور سے دیکھتے رہے، جب شیخ علیؒ بیدار ہوئے اور انہوںنے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کو اپنے سامنے ایستادہ پایا تو خود بھی گھبرا کرکھڑے ہوگئے۔’’علی! بیٹھ جائو۔‘‘ آپؒ نے اپنا دست شفقت شیخ علیؒ کے کاندھے پر رکھتے ہوئے فرمایا۔شیخ علی ؒ حکم شیخ سے مجبور تھے ناچار اپنی نشست پر بیٹھ گئے۔’’کیا سرورِ کونین حضور ِاکرم ؐ ابھی آپ کے خواب میں تشریف لائے تھے؟‘‘ حضرت عبدالقادر جیلانیؒ نے شیخ علیؒ سے دریافت فرمایا۔’’جی ہاں! ابھی کچھ دیر پہلے مجھے سرور کائنات ؐکے دیدار کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔‘‘شیخ علی ؒ نے رقت آمیز لہجے میں عرض کیا۔’’میں سردار دو جہاں ؐکے احترام ہی میں کھڑا ہوا تھا۔‘‘حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے فرمایا۔شیخ علی ؒ سیدنا عبدالقادر جیلانی ؒ کے مقام سے واقف تھے مگر پھر بھی انہوںنے بڑی حیرت سے حضرت شیخ کی طرف دیکھا۔’’کیا سرکار ِدو عالم ؐ نے آپ کو کوئی ہدایت بھی فرمائی ہے؟‘‘ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نے شیخ علی ؒ سے دریافت کیا۔’’جی ہاں! بارگاہ ِرسالت مآب ؐ سے میرے لیے حکم ہوا ہے کہ میں آپ کی خدمت اقدس میں حاضر رہوں۔‘‘جس مجلس روحانی پر گنبد خضرا کی شعاعیں منعکس ہوں اس مجلس کی برکتوں کا اندازہ کون کرسکتا ہے؟٭٭٭٭حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کا لقب ’’محی الدین‘‘ تھا، یعنی دین کو زندہ کرنے والا۔ ایک مجلس خاص میں کسی شخص نے دریافت کیا کہ آپ کا لقب محی الدین کس طرح ہوا؟حضرت شیخ نے فرمایا: ’’ایک بار میں بغداد سے باہر گیا ہوا تھا۔ واپسی میں جب شہر کے قریب پہنچا تو ایک نہایت خستہ حال اور ضعیف شخص میرے سامنے آیا اور زمین پر گر کر تڑپنے لگا ۔میں نے اجنبی سے پوچھا۔’’ اے بھائی! تجھے کیا تکلیف ہے؟‘‘’’میں اپنا حال کیا سنائوں کہ مجھے کون کون سی بیماریاں لاحق ہیں‘‘۔ ضعیف شخص نے کہا: ’’ قریب المرگ ہوں ۔اگر تم سے ہوسکے تو مجھ پر رحم کرو اور ایسی دوا دو کہ جسے پی کر جان بر ہوسکوں۔‘‘میں نے چند آیات قرآنی پڑھ کر اس پر دَم کیں ۔چند لمحے بھی نہ گزرے تھے کہ وہ کسی سہارے کے بغیر اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ اُس کے جسم کی لاغری کافور ہوگئی اور چہرہ کسی پھول کی مانند تروتازہ نظر آنے لگا۔’’خدا کا شکر ہے کہ تمہیں تمہاری گم شدہ صحت دوبارہ مل گئی۔‘‘ میں نے اپنے دینی بھائی کی صحت یابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔’’عبدالقادر! تم نے مجھے پہچانا۔‘‘ اجنبی شخص نے میرا نام لے کر مجھے مخاطب کیا۔’’میں تم سے واقف نہیں ہوں۔‘‘ میں نے اپنی لاعلمی ظاہر کی۔’’تم مجھ سے خوب واقف ہو۔‘‘ اجنبی شخص نے کہا: ’’میں آنحضرت محمد مصطفیٰ ؐ کا دین اسلام ہوں۔ ضعیف و ناتوانی کے سبب میرا یہ حال ہوگیا ۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھے تمہارے ہاتھوں زندہ کیا ہے آج سے تم محی الدین ہو۔‘‘یہ کہہ کر وہ شخص غائب ہوگیا اور میں نماز ادا کرنے کے لیے جامع مسجد کی طرف روانہ ہوا۔ راستے میں ایک برہنہ پا شخص بھاگتا ہوا میرے قریب آیا اور مجھے مخاطب کرکے بولا۔’’سیّدی محی الدین!‘‘میں نے اسے حیرت سے دیکھا، وہ مزید کچھ کہے بغیر چلا گیا اور میں مسجد میں داخل ہوگیا۔اس کے بعد میں نے دوگانہ ادا کیا اور جیسے ہی سلام پھیرا ، نمازی میرے چاروں طرف جمع ہوگئے اور ’’محی الدین… محی الدین‘‘ پکارنے لگے۔ ٭٭٭٭روایت ہے کہ حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو ’’غوث اعظم‘‘ کا لقب بارگاہ ِخداوندی سے عطا ہوا۔ مردان غیب نے آپ کو اسی لقب سے مخاطب کیا اور پھر یہ لقب اس قدرعام ہوا کہ اکثر لوگوں کو آپ کا حقیقی نام دیانہیں رہا، مگر سب غوث اعظمؒ کو خوب جانتے ہیں۔تاریخ میں درج ہے کہ جس روز حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ ’’غوث اعظم‘‘ کے خطاب سے نوازے گئے، اس روز ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒکا معمول تھا کہ جب مسجد تشریف لے جاتے تو راستے میں ہر چھوٹے بڑے کو باآواز بلند سلام کرتے۔ مسجد کے قریب ایک دکان تھی ۔ دکان کا مالک عام سا مسلمان تھا ،مگر حضرت شیخ سے نہایت عقیدت رکھتا تھا، حضرت شیخ اسے بھی سلام کرتے، دکان کا مالک آپ سے مصافحہ کرتا، پھر دکان بند کرکے نماز ادا کرنے کے لیے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کے پیچھے پیچھے مسجد میں داخل ہوجاتا۔ برسوں سے یہی صورت حال جاری تھی ۔جس روز حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ کو ’’غوث اعظم‘‘ کالقب عطا ہوا تو آپؒ نے حسب روایت دکان کے قریب پہنچ کر باآواز بلند فرمایا۔’’السلام علیکم یا اَخی!‘‘’’وعلیکم السلام یا غوث اعظم!‘‘ یہ کہتا ہوا دکان دار نیچے اترآیا اور حضرت شیخ سے مصافحہ کیا۔سیّدنا عبدالقادر جیلانیؒ نے اس تبدیلی کا سبب پوچھا۔’’اب مجھے حکم ہوا ہے کہ میں آپ کو غوث اعظم کے لقب سے یاد کروں۔‘‘ دکان دار کا سرجھک گیا۔’’جو رازاللہ اور اُس کے مردان ِغیب کو معلوم ہے ،وہ تم پر کس طرح فاش ہوگیا؟‘‘ حضرت سیّدنا عبدالقادر جیلانیؒ نے فرمایا۔ ’’کیا تم کوئی خاص وظیفہ پڑھتے ہو؟‘‘’’سیّدی! میں پانچ وقت کی نماز، ذکر و تسبیح اور درود شریف کے علاوہ کوئی خاص عمل نہیں کرتا۔‘‘ دکان دار نے عرض کیا۔’’یقینا تم کوئی خاص عمل کرتے ہو مگر تمہیں اس کا احساس نہیں‘‘۔ دکان دار کچھ دیر تک سوچتا رہا اور عرض کیا: ’’جب روز مرہ کے استعمال میں آنے والی چیزیں کمی کے سبب گراں ہوجاتی ہیں تو میں لوگوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے زیادہ قیمت وصول نہیں کرتا۔ میں ہر حال میں پورا تولتا ہوں۔ یہاں تک کہ مخلوق خدا کا ایک دانہ بھی میرے ذمے باقی نہیں۔‘‘’’ بے شک! تم خدائی راز جاننے کے لائق ہو۔ اتنا ہی دیانت دار شخص اس امانت کا بار اٹھا سکتا تھا۔‘‘ حضرت سیّدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے فرمایا اور دکان دار کو سلامتیٔ ایمان کی دعائیں دیتے ہوئے مسجد کی جانب روانہ ہوگئے۔