مالا بیگم
اسپیشل فیچر
پاکستانی فلمی صنعت میں فن گلوکاری میںجن فن کارائوں نے بلند مقام حاصل کیا ان میں ملکۂ ترنم نورجہاں کے علاوہ کوثر پروین، زبیدہ خانم، نسیم بیگم اور مالا بیگم کے نام نمایاں نظرآتے ہیں۔ ان کے بعد رونا لیلیٰ، مہ ناز، ناہید اختر، حمیرا چنا، شازیہ منظور وغیرہ ہیں۔ کوثر پروین اور نسیم بیگم نے اپنے عروج کے دَور ہی میں دنیا سے منہ موڑ لیا، تو مالا بیگم نے عروج کے بعد زوال دیکھا۔ انہوںنے طویل عرصے تک اپنی شیریں آواز کے جادو سے لاکھوں دلوں کی دھڑکنوں کو مسحور کیے رکھا اور 1962ء سے 1980ء تک تین سو سے زائد فلموں میں قریباً چھ سو گانے ، سولو اور ڈوئٹ صدا بند کرائے۔ اس دور میں شاید ہی کوئی فلم ایسی تھی جس میں ان کے گیت شامل نہ کیے گئے ہوں۔ اپنی زندگی کے آخری ایّام انتہائی کس مپرسی میںگزارے اور 6؍ مارچ 1990ء کو دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ کل ان کی 23 ویں برسی منائی جارہی ہے۔مالا بیگم کا اصل نام نسیم تھا وہ 1942ء کو بھارتی پنجاب کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئیں۔ قیام پاکستان کے وقت اپنی والدہ سونا بیگم، بڑی بہن شمیم ناز لی اور بھائی رانا مشتاق کے ساتھ لائل پور، جو اَب فیصل آباد کہلاتا ہے،چلی آئیں۔ مالا کا بچپن موسیقی کے ماحول میں گزرا۔ ان کی تربیت بڑی بہن شمیم نازلی نے کی۔ شمیم نازلی فیصل آباد سے لاہور ریڈیو پروگرام کے لیے آتی تھیں۔ وہ بھی اچھا گاتی تھیں لیکن انہوںنے ہمیشہ خود سے زیادہ مالا کی گائیکی نکھارنے کے لیے محنت کی۔مالا ، شمیم نازلی سے چار سال چھوٹی تھیں۔ بڑی بہن کو ماں کا درجہ دیتی تھیں۔ شمیم نازلی ہارمونیم لے کر بیٹھتیں تو مالا کو گیت کی نزاکتیں، الفاظ کی ادائیگی سے اس طرح آگاہ کرتیں جیسے کوئی اپنی اولاد کو بہتر زندگی گزارنے کے گُر سکھاتا ہے۔ 1961ء کا ذکر ہے، جب پنجابی فلموں کے معروف موسیقار جی اے چشتی نے انہیں پنجابی فلم ’’آبرو‘‘ میں نغمہ نگار حمید احمد ایم، اے کے گانے ’’میرالوں لوں پھُل گلاب دا‘‘ میں گلوکارہ زبیدہ خانم کے ساتھ گانے کا موقع دیا۔ مالا کی اس گانے سے شناخت نہ بن سکی۔ ریڈیو پر مالا کی ملاقات موسیقار ماسٹر عبداﷲ سے ہوگئی جو اپنی پہلی فلم ’’سورج مکھی‘‘ کی موسیقی ترتیب دے رہے تھے۔ انہوںنے مالا کی آواز سنی تو انہیں فلم ساز و ہدایت کار انور کمال پاشا کے پاس لے گئے۔ انور کمال پاشا نے مالا کے مٹاپے کو دیکھا تو ماسٹر عبداﷲ سے کہا یہ موٹی لڑکی کیا گانا گائے گی، لیکن جب مالا کی آواز سُنی تو وہ خاموش ہوگئے۔ اس وقت گلوکارہ نسیم بیگم فلموں میں بے حد کام یاب تھیں۔ لہٰذا انور کمال پاشا نے نسیم کا نام مالا رکھ دیا۔ فلم ’’سورج مکھی‘‘ کو انور کمال پاشا کے اسسٹنٹ دلشاد ملک ڈائریکٹ کررہے تھے۔ اس فلم میں مالا کی آواز میں جو گانا ریکارڈ ہوا اس کے بول تھے۔ ’’ دیکھو آیا رے جوبَنوا پہ رنگ، سُکھی ناچو مورے سَنگ‘‘ اس فلم میں مالا کے دو اور گانے بھی ریکارڈ کیے گئے۔ جن کے بول تھے’’کبھی تھم تھم چلوں‘‘ اور ’’ہوائیں ٹھنڈی ٹھنڈی کالی ہے گھٹا‘‘ یہ گانے بشیر منظر نے لکھے گو کہ اس فلم کی ریلیز سے پہلے ان کی پانچ فلمیں سپیرن، گلفام، قیدی، میرا کیا قصور اور موسیقار بھی ریلیز ہوگئی تھیں۔ لیکن ان فلموں کے کوئی گیت مقبول نہ ہوسکے تھے۔ سورج مکھی کے بعد مالا کے گیت فلم مہتاب، دوشیزہ، محبوب، ایک منزل دو راہیں، داماد میں بھی آئے لیکن انہیں اصل شہرت 1963ء میں ہدایت کار شریف نیّر اور اداکار الیاس کشمیری کی ذاتی فلم ’’عشق پر زور نہیں‘‘ کے گانے ’’دل دیتا ہے رو رو دہائی کسی سے کوئی پیار نہ کرے‘‘ سے ملی، یہ گانا مالا نے اس طرح گایا کہ جیسے اپنے دل پر لگنے والی چوٹ اُبھرآئی ہو۔ گانے کے دوران گلو کار سائیں اختر کے الاپ نے اسے اور بھی دل پذیر بنادیا۔ یہ گیت جب ریڈیو سے نشر ہوا تو سننے والوںکے دل پر مالا کی آواز اثر کر گئی اور ہر موسیقار مالا کی آواز کی تعریف کرنے لگا۔ یہ گیت قتیل شفائی نے لکھا اور ماسٹر عنایت حسین نے موسیقی سے سجایا، اس پر اداکارہ یاسمین کی اداکاری بھی عروج پر تھی۔ مالا جلد ہی اپنی مسحور کن، مترنم اورمدھر آواز کی بہ دولت صف اول کی گلوکار بن گئیں او رملکہ ترنم نور جہاں کے بعد یہ دوسری گلوکارہ تھیں جو فلمی دنیا میں بے حد مصروف رہیں۔ ہدایت کار جمیل اختر کی فلم’’خاموش رہو‘‘میں مالا نے گیت ’’میں نے تو پرِیت نبھائی، سانوریا نکلا تو ہرجائی‘‘ کی گائیگی میں وہ درد پیدا کیا جو کسی نئی گلوکارہ کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔مالا کا عروج کی طرف سفر جاری تھا جب ہدایت کار خلیل قیصر کی فلم ’’فرنگی‘‘ کا گانا ہٹ ہُوا اس کے بول تھے ’’بَِن کے میرا پروانہ آئے گا اکبر خاناں، کہہ دوں گی دل برجانا پخیر راغلے،یاقربان یاقربان‘‘۔ یہ گیت قتیل شفائی نے لکھا، رشید عطرے کی موسیقی میں شمیم آراء پر فلم بند ہوا۔ 1965ء میں ہدایت کار شریف نیّر اور موسیقار ماسٹر عنایت حسین کی فلم ’’نائلہ‘‘ وہ فلم تھی جس کے تمام آٹھ کے آٹھ گانے مالا نے گائے تھے اور سب کے سب مشہور ہوئے۔ مسعود رانا کے ساتھ ان کے ڈوئٹ،’’ دور ویرانے میں اک شمع ہے روشن اب تک، کوئی پروانہ اِدھر آئے تو کچھ بات بنے‘‘ دیگر گیتوں میں ’’غم دل کو ان آنکھوں سے چھلک جانا بھی آتا ہے‘‘،’’ مجھے آرزو تھی جس کی وہ پیام آگیا ہے‘‘ شامل ہیں، جو مالا کی عمدہ گائیکی کی پہچان ہیں۔ اداکار وحید مراد کی ذاتی فلم ’’ ارمان‘‘ میں مالا اور احمد رشدی کی آوازوں میں الگ الگ ریکارڈ ہونے والا تھیم سانگ آج بھی اسی شوق سے سنا جاتا ہے جس کے بول ہیں ’’اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم، تمہارے بِنا ہم بھلا کیا جئیں گے‘‘ یہ گیت مسرور انور نے لکھا اور سہیل رعنا نے موسیقی سے سنوارا۔ یہ دونوں گیت وحید مراد اور زیبا پر فلم بند ہوئے۔مالا نہ صرف مغربی پاکستان بل کہ مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ دیش کہلاتا ہے، میں بھی یک ساں پسند کی جاتی تھیں یہی وجہ ہے کہ بنگالی فلم ساز جب اُردو فلم بناتے تو مالا ان کی پہلی ترجیح ہوتیں۔ ایسے ہی اداکار، فلم ساز وہدایت کار رحمن نے ڈھاکا میں فلم ’’درشن‘‘ بنائی تو مالا کی آواز میں ایک گانا ریکارڈ کیا جس کے بول تھے ’’ یہ سماں پیارا پیارا‘‘ اس فلم کے باقی تمام گیت گلوکار بشیر احمد نے گائے تھے اور یہی اس فلم کے شاعر اور موسیقار بھی تھے، جو شاعری بی اے دیپ کے نام سے کرتے تھے۔ کسی فلم میں سولو گیتوں کے علاوہ ڈوئٹ گانا بہت مشکل ہے۔ جب تک دونوں آوازوں میں ہم آہنگی نہ ہوگی ڈوئٹ نہیں گائے جاسکتے۔ اس میں مالا خوش قسمت گلوکارہ رہیں جن کے گلو کار احمد رشدی کے ساتھ بے شمار ڈوئٹ مشہور ہوئے۔ ان میں فلم’’دل میرا دھڑکن تیری‘‘ کا ڈوئٹ ’’کیا ہے جو پیار تو پڑے گا نبھانا‘‘ آج بھی اسی طرح مشہور ہے جو آج سے 35 برس پہلے تھا۔ مالا نے لاہور، کراچی اور ڈھاکا کی فلموں میں اپنی آواز کا جادو جگایا۔ مالا کی آواز میں گانے اپنے وقت کی کئی اداکارائوں پر فلم بند ہوئے خصوصاً زیبا اور شمیم آراء پر مالا کی آواز زیادہ پسند کی جاتی تھی، لیکن ان کے علاوہ جن اداکارائوں پر ان کے گانے فلم بند ہوئے ان میں چند یہ ہیں۔میرے پردیسی بابو، فلم ’’فسانۂ دل‘‘ اداکارہ نیّرسلطانہ۔ محبت میں سارا جہاں جل گیا ہے،فلم ’’انسانیت‘‘ اداکارہ فردوس۔ ہم ہیں دیوانے تیرے، فلم ’’آخری چٹان‘‘ اداکارہ رانی۔ شمع کا شعلہ بھڑک رہا ہے، فلم ’’عادل‘‘ اداکارہ سلونی۔ یہ سماں موج کا کارواں، فلم ’’چاند اور چاندنی‘‘ اداکارہ شبانہ۔ ٹہر بھی جائو صنم تم کو میری قسم، فلم ’’بازی‘‘ اداکارہ نشو۔ کس نے توڑا ہے دل حضور کا، فلم ’’رنگیلا‘‘ اداکارہ مینا چوہدری۔ دل لے کے مُکر گیا ہائے سجن بے ایمان نکلا، فلم ’’شکار‘‘ اداکارہ ممتاز۔ کہاں سے کہاں آگئی زندگانی، فلم ’’دلہن ایک رات کی‘‘ اداکارہ نمی۔گلوکارہ مالا نے تعلیمی اعتبار سے چند جماعتیں ہی پڑھی تھیں لیکن اس کے باوجود ان کا اُردو لہجہ اور تلفظ نہایت درست اور شائستہ و شگفتہ تھا۔ وہ گانوں کے بولوں اور لفظوں کے سحر کو خود پر طاری کرنے کا ہُنر جانتی تھیں۔ مالا نے سب سے زیادہ ڈوئٹ احمد رشدی کے ساتھ گائے، اس کے علاوہ مہدی حسن، سلیم رضا، مسعود رانا، منیر حسین، باتش، محمد افراہیم، بشیر احمد، مجیب عالم، ندیم، رنگیلا، رجب علی اور اخلاق احمد کے ساتھ بھی ڈوئٹ گائے۔ 1975ء تک مالا عروج پر رہیں۔ اس کے بعد نیّرہ نور، ناہید اختر اور مہ ناز کے آنے کے بعد مالا پس منظر میں چلی گئیں ان کا آخری مشہور گانا گلوکار اخلاق احمد کی آواز میں 1980ء کی فلم ’’بندھن‘‘ کا تھا جس کے بول تھے ’’ہر تمنا کنول بن گئی ہے‘‘۔اپنی زندگی کے آخری برسوں میں مالا شدید بیماری سے دو چار ہوئیں، ان پر فالج کا حملہ ہوا۔ اسپتال میں زیر علاج رہیں، اس موقع پر گلوکاروں کی انجمن کے زیر اہتمام مالی اعانت کے لیے ایک امدادی شو منعقد کیا مگر اس سے بہ مشکل اس قدر آمدنی ہوئی کہ اسپتال کے اخراجات پورے کرنے کے بعد ان کے پاس کچھ نہ بچا۔ کوٹھی بک گئی اور یہ کرائے کے مکان میں آگئیں، اور آخر کار 6؍مارچ 1990ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ مالا بیگم نے فلم ساز عاشق بٹ سے پہلی شادی کی اور 1969ء میں پی ایل فلم کارپوریشن کے نام سے فلم ساز ادارہ بنایا اور بحیثیت فلم ساز فلم ’’بہاریں پھر بھی آئیں گی‘‘ ہدایت کار ایس سلیمان سے بنوائی جس میں محمد علی اور زیبا نے مرکزی کردار ادا کیے، اس فلم میں پہلی بار خاتون موسیقار شمیم نازلی نے موسیقی ترتیب دی۔ ان کی دوسری فلم ’’میرا پیار یاد رکھنا‘‘ نامکمل رہی۔ ان کی دوسری شادی اداکار نصراﷲ بٹ سے ہوئی لیکن یہ بھی کام یاب نہ ہوسکی۔ مالا بیگم ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن ان کے گائے ہوئے گیت ان کی آواز کو ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔