شبنم شکیل کی رحلت
پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت متعدد ایوارڈز حاصل کرنے والی منفرد شاعرہ ،افسانہ نگار اور نقاد شبنم شکیل 2مارچ2013ء کو مختصر علالت کے بعد کراچی کے ایک ہسپتال میں وفات پاگئیں۔مرحومہ 12 مارچ 1942ء کو لاہور میں پیدا ہوئی تھیں اوراُن کا شمار موجودہ دَور کی گنی چنی شاعرات و افسانہ نگار خواتین میںہوتا تھا، وہ قریباً 30 برس تک اُردو ادبیات کی اُستاد رہی ۔ ویسے تواُردو شاعری کے ایک قد آور نام سید عابد علی عابد کی صاحب زادی ہونا ہی اُن کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں تھا، مگر اُنھوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے انتھک محنت کی ۔اُن کی والدہ بھی صاحب ِکتاب افسانہ نگار تھیں، اُن کے افسانوں کا ایک مجموعہ’’دوسری عورت‘‘ کے نام سے شایع ہوا۔ شبنم شکیل کو بچپن سے ہی ادبی اور تخلیقی ماحول میسر آیا ،اُن کے بقول ’’صرف7سال کی عمر میں میرے ہاتھ میں ریڈیو کا مائیک آگیا تھا، میَں نے پہلی کہانی ’ جادو کا ڈبہ‘ کے عنوان سے لکھی اور خود پڑھی، جس کا معاوضہ مجھے10روپے ملا تھا۔ اُس دَور میں ریڈیو سے وابستہ اتنی اہم شخصیات والد صاحب سے ملنے آتیں کہ یوں محسوس ہوتا کہ ہمارا گھرریڈیو پاکستان ہے۔ پطرس بخاری ،فیض احمد فیضؔ ،چراغ حسن حسرتؔ ،سید عبداللہ ، عزیزاحمد ،ناصر ؔکاظمی ، آپا شمیم ،رفیع پیرزادہ ، سید امتیاز علی تاج سمیت اُس وقت کے قریباً تمام مشاہیر ہمارے گھر آتے تھے‘‘۔شہر ادب و ثقافت لاہور میں قیام کے دوران، شبنم شکیل کوکچھ عرصہ احمد ندیم قاسمی کو اپنا کلام دکھانے کا موقع بھی ملا ۔ اُن کے ایک مجموعہ کلام ’’اضطراب‘‘ کے پس ورق پر قاسمی صاحب نے لکھا ہے:’’ شبنمؔ شکیل جدید غزل کے اُس اُسلوب کی امانت دار ہے، جس نے اُردو غزل کو لگے بند ے مضامین کی قید سے آزاد کیا اور غزل کے آفاق کو حدِ نظر تک پھیلا دیا ہے‘‘۔جب کہ افتخار عارف کچھ یوں رقمطراز ہیں:’’غزل ہو کہ نظم، مصرعہ،مصرعہ تخلیق کار کے ’مبتلا‘ ہونے کا اعلان اور تصدیق کرتا نظر آتا ہے، مگر بات کرنے کا مہذب اُسلوب، واردات ، فکر، جذبے اور خیال کے اصلاً باغیانہ اور سرکش ہونے کے باوجود کہیں بھی اپنے اظہار میں اُس تہذیبی شائستگی کا دامن نہیں چھوڑتا ،جو شبنم کی تخلیقی شخصیت کا جوہر خاص ہے‘‘۔ شبنم شکیل کے شعری مجموعے ’’ شب زاد‘‘، ’’مسافت رائیگاں تھی‘‘ اور ’’اضطراب‘‘کے علاوہ افسانوں کے مجموعے’’ نہ قفس نہ آشیانہ‘‘ ،’’تقریب کچھ تو‘‘ اور ’’آواز تو دیکھو ‘‘کو علمی و ادبی حلقوں میں بے حد سراہا گیا۔ شبنم شکیل کی تدفین تین مارچ کو بعد ازنماز عصر اسلام آباد میں ایچ الیون کے قبرستان میں عمل میں آئی، اُن کی ایک غزل کے چند اشعار پیش ِ خدمت ہیں:بدل چکی ہے ہر اِک یاد اپنی صورت بھیوہ عہدِ رفتہ کا ہر خواب ہر حقیقت بھیکچھ اُن کے کام نکلتے ہیں دشمنی میں مِریمیَں دشمنوں کی ہمیشہ ہوں ضرورت بھییہ جس نے روک لیا مجھ کو آگے بڑھنے سےوہ میری بے غرضی تھی، مِری ضرورت بھیمیَں اپنی بات کسی سے بھی کر نہ پائوں گیمجھے تباہ کرے گی یہ میری عادت بھییہ میرا عجز کہ دل میں اُسے اُترنے دِیایہ اُس کا مان کہ مانگی نہیں اجازت بھی٭…٭…٭