لفظوں کے سہارے منزلیں نہیںملتیں
اسپیشل فیچر
خواتین کاعالمی دن گزر گیا۔ کیا عورت کی کہانی نے خوش گوار موڑ لے لیا ہے، کیاکوئی تبدیلی رونما ہوئی؟ ملازمت پیشہ عورت آج بھی گھریلو ذمے داری اور آفس کی ذمے داری کا دگنا بوجھ اٹھارہی ہے پھر بھی اسے وہ باوقار حیثیت نصیب نہیں جو مرد کو حاصل ہے۔ مرد آج بھی زندگی کے تمام فیصلوں میں آزاد ہے مگر عورت آج بھی مرد کے فیصلے کی پابند ہے۔ کیاکاروکاری کی بھینٹ چڑھنے والی عورتوں کی کہانیاںختم ہوگئیں؟عورتوں پر کیا جانے والا تشدد ختم ہوگیا ؟بے اولاد پریشان حال عورتیں آج بھی کالے جادو اور جعلی پیروں ، فقیروں کے چنگل میں گرفتار نہیں ؟کیا عورت عالمی دن کے بعد بے خوف و خطر دیہات اور شہروں میں آزادانہ گھوم پھر سکتی ہے؟ موجودہ معاشرے میں کیا وہ ترقی کے راستے پربے خوف وخطر گام زن ہوسکتی ہے؟مرد سے وابستہ کہانیاں اس کی مردانگی ہیں اور عورتوں سے وابستہ کہانیاں غیر شریفانہ زمرے میں آتی ہیں۔ عورتوں کاعالمی دن گویا365دنوں میں364دن مرد کے اور صرف ایک دن عورت کا وہ بھی مرد کے معاشرے میں مرد کے زیر اثر عالمی دن گزرگیا اور عورت کی کہانی اپنی جگہ موجود ہے بغیر کسی تبدیلی کے۔زیر نظر مضمون اسی پس منظر کا احاطہ کرتا ہے۔میں ایک کہانی کار ہوں اورہمیشہ اپنے کرداروں کے قریب رہتی ہوں۔ عورت ہونے کی وجہ سے بھی اپنے نسوانی کرداروں سے خاص ہم دردی ہے۔ مجھے ایک سہولت حاصل ہے۔ میں جب چاہوں بغیر دستک دیئے کرداروں کے گھر میںداخل ہوسکتی ہوں۔عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر بھی میں اپنے کرداروں کے گھرگئی۔پہلا نسوانی کردار روبینہ کا ہے وہ سخت غصہ اور انتہائی بے بسی کی کیفیت میں نظر آرہی ہے۔ میں نے اسے سمجھایا تھا کہ جتنا احترام تم اپنے شوہر کو دیتی ہو اتنا ہی احترام حاصل کرنا تمہاری ذمے داری اور حق بھی ہے ۔ روبینہ کی یہ کوششیں کیا رنگ لائی اسی کی زبانی سنیے۔’’عجیب بات ہے کہ احترام سے وہ بالکل ہی واقف نہیں ذرا سا مرضی کے خلاف ہو آپ سے تم اور تم سے تو پر اُتر آتا ہے اور جب میں عورت کے حقوق پر بات کرتی ہوں تو وہ عجیب مضحکہ خیز انداز میںمسکراتا ہے اور پھر سکون سے کہتا ہے:’سُنو یہ اسٹیج نہیں گھر ہے اور تم لیڈر نہیں بیوی ہو،بیوی ہی رہو اور گھر میںدل چسپی لو ‘اور جب میںگھرکے کام کرکے تھک جاتی ہوں اور تھکن کا اظہار کرتی ہوںتو اطمینان سے کہتا ہے:’’کون سااحسان کرتی ہو یہ تمہاری ذمے داری ہے‘‘جلدی جلدی کھانا تیار کررہی ہوں شوہر صاحب کے آنے کا ٹائم ہے،صاحب بہادر تشریف لائے ٹیبل پر بیٹھے نمک مرچ پر تبصرہ کیا اور اٹھ گئے گویا میری ذات پر کھانا کھا کراحسان کیا۔ میں کچن میںبرتن دھوتے ہوئے سوچ رہی ہوں کیا میری صرف یہی اوقات ہے؟ کیا میرے وجود کا مقصد صرف گھر کا کام کاج کرنا ہے، میں بیوی ہوںیا باندی؟کاش عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر روبینہ کے گھرکوئی تبدیلی آئی ہوتی۔اس کا شوہر اس موقع پر پیار کا لہجہ اپناتا۔ اس کی گھریلو خدمات کی تعریف کرتا، اسے صرف گھر کے کام کاج تک محدود نہ رکھتا بلکہ دیگر دل چسپیوں میں دوست کا درجہ بھی دیتامگر کاش سے کیا ہوتا ہے۔ شوہر کا مطلب اس کے نزدیک حاکم ہے اور حاکم کا کام حکم دینا ہے۔ عورت باندی ہے اور اس کا کام حکم بجالانا ہے۔میرا دوسرا نسوانی کردار شہلا ہے۔ اسے اپنی ساس نندوں سے شکایت ہے کہ وہ اس کے گھر کے معاملات میں بے جا مداخلت کرتی ہیں۔ دیکھیے مجازی خدا کی طرف سے اسے کیا جواب ملتا ہے۔ آئیے آپ بھی میرے ساتھ چلیں اور دیکھیں شہلا کا مکالمہ شوہر کے ساتھ۔’’سنیے یہ آپ کی ماں بہنوں کو میرے گھر آکر نکتہ چینی کرنے اور بچوں کو بہکانے کی کیا ضرورت ہے ؟‘‘’’چہ خوب است‘میرے گھر‘ محترمہ یہ میرا گھر ہے اور میری اماں بہنیں اس گھر میں اور معاملات میں تمہاری اجازت یا مرضی کی پابند نہیں‘‘’’کیوں کیا یہ میرا گھر نہیں ہیِ؟‘‘’’یہ گھر تم جہیز میں نہیں لائی ہو‘ رخصت ہوکر آئی ہو جس گھر سے آئی ہو وہ تمہارا گھر تھا۔‘‘’’وہ میرے باپ کا گھر تھا،اماں ہمیشہ کہتی تھیں باپ کے گھر سے رخصت ہو کر اپنے گھر جائوتومیرا گھر کہاں ہے ؟‘‘’’اماں میں بڑے ہو کرگھر بنائوں گا وہ آپ کا گھر ہوگا ۔‘‘ ’’نہیں بیٹا وہ تو تمہارا گھر ہوگا بیٹے کا گھر۔‘‘میرا گھر کون سا ہے؟‘‘شہلا کا یہ سوال ہر عورت کا سوال ہے کہ کیا عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا باپ کاگھر،شوہر کا گھر یا پھر بیٹے کا گھر۔کیا عالمی دن منانے والوں کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے شاید نہیں شہلا کی موت پر مجھے اس کی قبر پر لگی ہوئی تختی دیکھ کر اپنے اس سوال کا جواب مل گیا۔ تختی پر شہلا کا نام تھا اور قبر پر کوئی مرد دعوے دار نہ تھالیکن میں سوچ رہی ہوںکہ یہاں بھی وہ اپنی ذاتی آرام گاہ تک پہنچنے کے لیے مردوں کی احسان مند تھی کہ کاندھا دینے والے اور دفنانے والے مرد تھے۔گویا اس کا بے جان جسم بھی مردکا احسا ن مند تھا ۔ کیا عالمی دن کی پرجوش تقاریر مرد کے معاشرے میں عورت کو مرد کے احسانات سے آزاد کراسکتی ہیں۔ عورت کی آزادی محض لفظی بیان بازی تک محدود ہے۔ کل بھی وہ گھر بنانے کے لیے مرد کی ضرورت مند تھی اور آج بھی اسے گھر بنانے کے لیے مرد کی ضرورت ہے۔میرا تیسرا نسوانی کردارکونین ہے۔اس کی شادی بہت دھوم دھام سے ہوئی۔ میں نے اس کے چہرے پر دھنک کے رنگ دیکھے تھے لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ کہانی میںاس کردار کی شمولیت مختصر عرصے کے لیے ہے۔شادی کے چھ ماہ بعد مجھے اطلاع ملی کہ سسرال میںکھانا پکاتے ہوئے وہ جل گئی اور ایک ہفتے کے بعد اس کی موت واقع ہوگئی۔ کیا وہ واقعی جل کر مری ہے۔یہ حادثہ ہے یا قتل؟خواتین کے عالمی دن کے موقع پر میں نے سوچا کہ جلنے والی ہمیشہ بہو کیوں ہوتی ہے ساس یا نند کیوں نہیںلیکن نہیں چولہا ہو یا ماچس وہ ہمیشہ بہو کا انتخاب کرتی ہے۔ کیا یہ انتخاب تبدیل ہوگیا؟ عورت اقتدارتک پہنچ گئی،پارلیمنٹ کی ممبر ہوگئی۔ وزارتیں مل گئیں لیکن عورت کی قسمت نہ بدل سکی ۔ آج بھی اسے تحفظ حاصل نہیں ۔ اپنی کہانی میں شامل اس لڑکی کو میں کیسے بُھول سکتی ہوں جو اپنے باپ کے لیے روٹی لے کر جارہی تھی،کھیتوں سے گزرتے ہوئے انسان نما درندوں نے اسے اپنی ہوس کا نشانہ بنایااور موت کی نیند سلادیا۔وہ اجنبی چہرے نہ تھے اسی کے اپنے گائوں کے تھے۔ کیا یہ میری کہانی میں شامل واحد لڑکی تھی جس کے ساتھ یہ سانحہ پیش آیا،نہیں غریب لڑکی اسی طرح بے آبروہوتی رہتی ہے۔ کبھی کسی کہانی کا عنوان بن جاتی ہے اور کبھی بے آواز دفن ہوجاتی ہے۔ وہ اپنے حقوق کی آواز کہاں اٹھائے اسے تحفظ مرددے سکتا ہے جو اسے عدم تحفظ کا شکار کرتا ہے لیکن صرف ایک صورت میں کہ اسے،اس کے ضمیر کو یہ احساس دلایا جائے کہ ہر اجنبی عورت کی عزت و ناموس اس کی اپنی عزت ہے۔ہمیں مردوں کی ذہنیت تبدیل کرنا ہوگی۔عورت گائوں کی ہو یا شہر کی قسمت ایک جیسی لے کر آتی ہے۔ اچانک میرا تخلیق کردہ ایک مظلوم کردار سامنے آگیا ۔ میری کہانیوں میں مظلوم عورتوں کی کہانیاں زیادہ ہیں۔ اینٹیں بنانے والی عورتیں ہوں یا پتھر کوٹنے والی۔ شہر کی تعلیم یافتہ عورت ہو یا گھریلو ملازمت پیشہ کسی کی زندگی میں حقوقِ نسواں کے بلند بانگ دعووں سے فرق نہیں پڑا۔ باعزت، شریف خاندان کی خواتین آج بھی مسائل کا شکار ہیں اور یہ مسائل انہیں تحفہ میں مردوں نے دئیے ہیں۔آئیے مسز سرمد کے گھر چلتے ہیں۔ سرمد نے اپنی پسند سے آسیہ سے شادی کی تھی دو بچوں کی پیدائش کے بعد آہستہ آہستہ اس کی پسند اور سلوک میں تبدیلی آنے لگی۔ اس کی وجہ اس کے دفتر کی ساتھی شرمیلا تھی اور پھر ایک دن اس نے آسیہ کی اجازت کے بغیر شرمیلا کو اپنی زندگی میں شامل کرنے کا فیصلہ کرلیا اور جب اس نے احتجاج کیا کہ وہ بغیر آسیہ کی اجازت کے نکاح نہیں کرسکتا تو اس نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ اجازت پہلی بیوی سے لی جاتی ہے۔ میں ابھی تمہیں تین لفظوں کے ساتھ فارغ کردیتا ہوں، جب بیوی ہی نہ ہوگی تو اجازت کیسی؟اگر تمہیں بچے اور چھت چاہیے توخاموشی کے ساتھ پڑی رہو۔ وہ گھر کے ایک کمرے میں بچوں کے ساتھ ’’پڑی‘‘ ہے اور شوہر کی بے وفائی کا نظارہ روز وشب دیکھتی ہے۔ کیا آج کی عورت اتنی مضبوط ہوچکی ہے کہ وہ مرد سے اپنا حق مانگ سکے۔کورٹ، قانون، وکیل، معاشرہ کیا تنہا عورت محفوظ طریقے سے یہ تمام مراحل طے کرسکتی ہے ۔ گھر سے کورٹ تک کا سفر عورت کے لیے آسان نہیں ہوتا۔آئیے اپنی معاشرتی کہانی کے چند اور کرداروں سے ملوائوں۔ فرزانہ متوسط طبقے کی لڑکی تھی۔کالج کے زمانے میں فرہاد نامی لڑکا اسے پسند کرتاتھا۔ فرزانہ نے کبھی فرہاد کی حوصلہ افزائی نہیں کی کیوں کہ وہ بچپن ہی سے اپنے چچازاد سے منسوب تھی۔ ویسے بھی فرہاد جیسے سڑکوں پر آوارہ گردی کرنے والے لڑکے اسے پسند نہ تھے اور ایک دن جب اس نے واضح کردیا کہ اس کی شادی کی تاریخ طے ہوچکی ہے اور وہ قطعی طور پر اس سے دوستی نہیں کرسکتی یا کوئی رشتہ نہیں رکھ سکتی تو فرہاد نے انتقاماً اسے کسی دوسرے کے قابل بھی نہ رکھا۔ آج وہ تیزاب سے جھلسے چہرے کے ساتھ آئینہ سے بھی خوفزدہ ہے۔ وہ پلاسٹک سرجری کا سہارابھی لے تو اس کا اصل چہرہ کہیں کھوچکا ہے۔فرزانہ تنہا نہیں تیزاب زدہ چہرے کے ساتھ اور بھی بے شمار لڑکیاں معاشرے میں سسک رہی ہیں۔گل رُخ کے شوہر نے بھنویں اور بال مونڈکر اس کی ناک کاٹ دی محض شک کی بنیاد پر...اس کے چہرے پر ہمیشہ نقاب رہتی ہے۔ اگر اس کا چہرہ بے نقاب ہوگیا تو ہمارا ظالم معاشرہ بے نقاب ہوکر سامنے آجائے گا۔برہنہ چہرہ اور برہنہ پائوں بے شمار حوّا کی بیٹیوں کو سڑکوں پر بے آبرو کیا جاتا ہے۔کیا آج کی عورت بدل گئی ہے۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔میری کہانی کی بوڑھی عورت آج بھی اپنے میلے دوپٹے سے ٹوٹی چارپائی پر بیٹھی آنسوپونچھ رہی ہے۔اس کی بیٹی اب اس دنیا میں نہیں۔ نرگس دو سال سے کسی بنگلے پر کام کررہی تھی اور ایک دن اس کی لاش بنگلے کے کمرے میںپنکھے سے لٹکی ہوئی ملی۔خودکشی یا قتل؟طاقت اور دولت نے غریب بڑھیا کی زبان بند کردی۔ اس کی آنکھ سے ٹپکا ہوا ہر آنسو آج بھی پکار پکار کر کہہ رہا ہے میری نرگس ایسی نہ تھی۔ انصاف کی زنجیر تک آج بھی غریب عورت کی رسائی کہاں؟میری اس کہانی میں کتنے کردار اپنی اپنی جگہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ میں فرح اور نعمان کے پیار کی حقیقت جانتی ہوں ۔ میری کوشش بھی تھی کہ دونوں کو کہانی کے آخر میں ملوادوں مگر افسوس،فرح کے گھروالے خاندان سے باہر شادی نہیں کرتے اورمجبوراً فرح کو اسی خود ساختہ فرسودہ رواج کی بھینٹ چڑھنا پڑا،میرے پاس دوسرا راستہ بھی تا کہ فرح گھر سے فرار ہو کر کورٹ میرج کرلیتی مگر مجھے یہ دوسرا راستہ پسند نہیں۔ ایسی لڑکیوں کا کوئی مستقبل نہیںہوتا۔ممکن ہے عورت کی آزادی کے علم بردار اس راستے کوعورت کاحق قرار دیں۔شاید اسی لیے لڑکیوں کے فرار اور کورٹ میرج کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔پسند عورت کاحق ہے اس لیے میں چاہوں گی کہ عورتوں کے عالمی دن کے حوالے سے والدین درخواست کروں کہ وہ بچوں کی پسند کاخیال رکھیں لیکن والدین کے تجربے اور معیار کا خیال رکھنا،لڑکیوں کی بھی ذمے داری ہے ’’پیار کیا تو ڈرنا کیا‘‘ صرف فلمی دنیا تک ہی اچھا لگتا ہے ورنہ انارکلی کی سزا یہ ہے کہ دیوار میں چنوادی جائے۔خیراتی ادارے میں سانس لینے والی ریشماں منتظر ہے کہ اس کی اولاد اسی سے ملنے آئے لیکن زندگی کی گہما گہمی میںاولادیں مصروف ہوگئی ہیں۔ان کے لیے بوڑھی ماں بوجھ ہے اور یہ بوجھ اتارکر انہوں نے خیراتی ادارے کے سپرد کردیا ہے۔