فن کی دیوی ... آسیہ
اسپیشل فیچر
کراچی نے پاکستانی فلمی صنعت کوبڑے بڑے فن کار دیے ۔محمد علی ،زیبا، وحیدمراد، شمیم آرا، دیبا، ندیم،روزینہ، سنگیتا اور ان جیسے بہت سے فن کاروں کا تعلق اسی شہر سے رہا۔ یہاں رہنے والی ماضی کی نام ور اداکارہ آسیہ بھی تھیں جنہوں نے کراچی سے لاہور تک اردو اور پنجابی فلموں میں کام کرکے بے پناہ شہرت حاصل کی ،ہفتہ9 مارچ کو خبر ملی کہ وہ کینیڈا کے شہر ٹورنٹومیں انتقال کرگئی ہیں۔چند برس پہلے آسیہ کے متعلق سننے میں آیاتھا کہ وہ شدید بیماری کی وجہ سے آغا خان اسپتال میں آئی سی یو میں داخل ہیں لیکن اس وقت ان کے شوہر نے ان سے کسی کو ملنے نہیں دیا اس لیے اس خبر کی تصدیق نہیں ہوسکی تھی۔اداکارہ آسیہ کاگھریلو نام فردوس اکرام تھا۔ 1947میں ان کے گھر والے پیٹالہ(بھارت) سے ہجرت کرکے کراچی آگئے تھے ۔ آسیہ1951میں کراچی میں پیدا ہوئیں ۔ انہوں نے نیو ٹائون اسکول سے میٹرک کیا۔ فلموں میں اداکاری کا شوق نہیں تھا لیکن رقص اور گائیکی کا شوق ضرور تھا ۔ابتدائی فنی زندگی میں ریڈیو آرٹسٹ کے طور پرپروگرام کرنے لگیں ۔ رقص کی باقاعدہ تربیت غلام حسین جونا گڑھی سے حاصل کی۔ اس وقت وہ فردوس جونیئر کے نام سے نجی محفلوں میںپرفارم کرتی تھیں ۔1970کا ذکر ہے جب فوٹو گرافر نبی احمدنے ان کی کچھ تصاویر بنائیں جنہیں ریاض شاہد نے دیکھا ۔ وہ ان دنوں اپنی نئی رنگین تاریخی فلم ’’غرناطہ‘‘ کے لیے نئے چہرے کی تلاش میں تھے انہیں یہ چہرہ پسند آیااور معروف صحافی الیاس رشیدی نے بھی ان کی سفارش کی لہٰذا ریاض شاہد نے آسیہ کو اپنی فلم میں کاسٹ کرلیا اور فردوس کو آسیہ کا نام صرف اس لیے دیا کہ ’’فردوس‘‘ نام کی اداکارہ پہلے سے فلموں میں کام کررہی تھیں۔ ’’غرناطہ‘‘ کی شوٹنگ کا آغاز ہوا۔ فلم کے سیٹس حبیب شاہ نے ایورنیو اسٹوڈیوز میں لگائے تھے اور ریاض شاہدڈائریکٹر آف سنیما ٹوگرافر بابر بلال کے ساتھ کیمرے کی آنکھ سے آسیہ کو دیکھ رہے تھے ۔آسیہ کیمرے کے سامنے خوبصورت لباس میں ملبوس خواب گاہ کے سین میں گانے کے لیے رقصاں تھیں۔گانے کے بول تھے ’’آرا ت بھی ہے ، مقدر بھی ہے، ستارے بھی ہیں‘‘ آسیہ کی بھر پور پرفارمنس اور رقص سے ریاض شاہد ان کی صلاحیتوں کے معترف ہوگئے ۔ ریاض شاہد اس کردار کے لیے پہلے اداکارہ عالیہ کو لینا چاہتے تھے لیکن فلم ’’دھی رانی‘‘ کی کام یابی کے بعد عالیہ سے وقت نہ مل سکا اور یہ کردار آسیہ کے حصے میں آگیا۔ ’غرناطہ‘‘ تکمیل کے مراحل طے کررہی تھی کہ ہدایت کار شباب کیرانوی نے انہیں اپنی فلم’’انسان اور آدمی‘‘ میں اداکار فاروق جلال(معروف ٹی اداکار طلعت حسین) کے ساتھ ہیروئن کاسٹ کرلیا اس فلم میںمحمد علی اور زیبا کا مرکزی کردار تھا ۔ یہ فلم چند ماہ میں مکمل کرکے نمائش کے لیے پیش کردی گئی ۔ فلم بے حد کام یاب رہی اور گولڈن جوبلی سے ہم کنار ہوئی۔ اس کے ساتھ ہدایت کار عزیز میرٹھی کی فلم ’’یادیں‘‘ میںمحمدعلی اور زیبا کے ساتھ اور ہدایت کار رضا میر کی فلم ’’پرائی آگ‘‘ میں بھی آسیہ کو کاسٹ کرلیاگیا جس میں ندیم اور شمیم آرا مرکزی کرداروں میں تھے لیکن انہیں ان دونوں فلموں سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوسکا۔1971 میں ہدایت کارکے خورشید کی کام یاب نغماتی فلم ’’چراغ کہاںروشنی کہاں‘‘ میں آسیہ نے کلب ڈانسر کا کردار ادا کیا جس میں ندیم اور شبنم مرکزی کرداروں میں تھے مگر انہیں اصل شہرت اداکار و ہدایت رنگیلا کی اردو فلم ’’دل اور دنیا‘‘ سے ملی جس میں انہوں نے ایک نابینا لڑکی کا کردار ادا کیا جو سڑکوں اور گلیوں، بازاروںمیںپھولوں کے گجرے بیچ کر اپنی گذر اوقات کرتی ہے اس فلم میں آسیہ ہیروئن تھیں اور ان کا ڈبل کردار تھا ۔ ایک طرف رنگیلا، اور دوسری طرف حبیب ان کے ہیرو تھے ان پر گلوکارہ رونا لیلیٰ کی آواز میں گانا ’’چمپا اور چنبیلی یہ گلیاں نئی نویلی ‘‘ آج بھی اپنی تازگی برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ ا س کے بعد وہ فلم ‘’ میں اکیلا‘‘ اور ’’ میں بھی تو انسان ہوں‘‘ میںاداکارشاہد کے مقابل ہیروئن آئیں ’’میںبھی تو انسان ہوں‘‘ کا مرکزی کردار ادا کار رنگیلا نے بڑی کام یابی کے ساتھ ادا کیا اور شاہد اور آسیہ پر ایک مقبول گیت پکچرائز کیاگیا جس کے بول تھے ’’ جب بھی سنوں میں تیری بانسریا‘‘ یہ گانا رجب علی اور رونا لیلیٰ کی آوازو ں میں تھا ۔ اپنی فنی زندگی کے دو برس بعد آسیہ نے پہلی بار کراچی میں ہدایت کار رفیق علی راکھن کی فلم’’پازیب‘‘ میںاداکار ندیم کے مقابل ہیروئن کا کردار ادا کیا۔ یہ ایک بلیک اینڈ وہائٹ فلم تھی جورنگین فلموں کا دور شروع ہونے کی وجہ سے بری طرح ناکام ہوگئی تھی۔ اس دوران ہدایت کار حسن طارق کی فلم ’’امرائو جان ادا‘‘ میں آسیہ نے رانی(امرائو جان) کی ہم جولی طوائف کا کردار نبھایا۔ فلم میں رونالیلیٰ کی آواز اور نثار بزمی کی کمپوزیشن میں ایک بڑا ہی خوب صورت مجرا ’’مانے نہ بیری بلما‘‘ پر آسیہ نے رانی اور زمرد کے ساتھ بہترین رقص پیش کیا۔ اس دوران آسیہ کی پہلی پنجابی فلم ’’پنوں دی سسّی‘‘ میں انہوں نے سسی( سنگیتا) کی سہیلی کا کردار ادا کیا۔معیاری فلم ہونے کے باوجود کام یابی حاصل نہیں کرسکی ۔ ہر برس آسیہ کی فلموںکی تعداد بڑھنے لگی۔ اپنی فلمی زندگی کے چوتھے سال ان کی فلموںکی تعداد گیارہ ہوگئی جس میں ہدایت کار رنگیلا کی فلم ’’دو رنگیلے‘‘ ہدایت کار راکھن کی فلم ’سہرے کے پھول‘‘ اور ہدایت کا رطیب زیدی کی فلم ’’بے ایمان‘‘ کام یاب رہیں۔فلم سہرے کے پھول میں آسیہ نے ندیم کی محبوبہ اور قوی کی بیوی کا یادگار کردار ادا کیا۔ لہری کی مزاحیہ اداکاری اور شیون رضوی کا مہدی حسن کی آواز میں گانا’’ آج تک یاد ہے وہ پیار کا منظر مجھ کو‘‘ آج بھی سماعتوں میں رس گھولتا ہے ۔ بھارت سے آئے ہوئے معروف ہدایت کار رفیق علی (راکھن) کی آسیہ کے بارے میں رائے تھی کہ ایسی اداکارائیں رو ز روز پیدا نہیں ہوتیں، یہ فن کی دیوی ہے۔ ہدایت کار الطاف حسین کی پنجابی فلم ’’چار خون دے پیاسے ‘‘ میں آسیہ نے پہلی بار عین جوانی میں ینگ ٹو اولڈ کردار ادا کیا ۔ اس فلم میںیہ افضل خاں کی ماں بنی تھیں۔ یہ فلم اداکار مصطفیٰ قریشی کی پہلی پنجابی فلم بھی تھی اور بے حد کام یاب رہی تھی۔ 1974میں آسیہ کی اکیس فلمیں ریلیز ہوئیں کسی بھی اداکارہ کی پانچویں سال اتنی زیادہ فلمیں ریلیز ہونا یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہدایت کاروں کے لیے کتنی اہم ہے۔ اردو اور پنجابی کی کئی کام یاب فلمیں آسیہ کے حصے میں آئیں جن میں ہدایت کار ایم اے رشید کی گولڈن جوبلی فلم ’’تم سلامت رہو‘‘ میں ان کے مقابل محمد علی اور وحید مراد نے ہیرو کے کردار ادا کیے ۔ فلم ’’نمک حرام‘‘ میں مزاحیہ اداکار منور ظریف کی جوڑی بے حد پسند کی گئی ۔ فلم ’’تم سلامت رہو‘‘ میں آسیہ پر فلم بند نور جہاں کی آوازمیں گانا ’’محبت زندگی ہے اور تم میری محبت ہو‘‘ بہت مشہور ہوا ۔ آسیہ نے جہاں اردو فلموں کے اداکار محمد علی، وحید مراد، ندیم، کے مقابل کام کیا وہیں وہ پنجابی فلموں کے اداکار سدھیر ، سلطان راہی، اقبال حسن، یوسف خان کے ساتھ بھی پسند کی گئیں۔ ان کی مشہور پنجابی فلموں میں لاٹری،غلام، جیرا بلیڈ، نوکر ووہٹی دا ، ہاشو خاں ، یار مستانے، کے بعد سلطان راہی اور آسیہ کی جوڑی بے حد مشہور ہوئی۔ سلطان راہی کے ساتھ کئی کام یاب فلموںمیں آئیں جن میں طوفان، جگا گجر، قانون، لاہوری بادشاہ، وحشی جٹ، اور خاص کر فلم ’’مولا جٹ‘‘ کے بعد ان کی جوڑی سلطان راہی کے سا تھ لازم و ملزوم ہوگئی او ر یہ جب تک فلموںمیں کام کرتی رہیں سلطان راہی کی ہیروئن رہیں۔ فلمی دنیا میں اپنے عروج کے دور میں شادی کرلی اور بنکاک شفٹ ہوگئیں ۔ اس کے بعد یہ کینیڈا چلی گئیں ۔ ان کی چھوڑی ہوئی جگہ کو انجمن نے پُر کیا۔ آسیہ نے پنجابی فلموں کے ساتھ ساتھ جن کام یاب اردو فلموں میں بھی کام کیا ان میں اسلم ڈار کی تین فلموں ’’وعدہ‘‘ میں وحید مراد، فلم ’’بڑے میاں دیوانے ‘‘ میں ندیم اور فلم ’’ پہلی نظر ‘‘ میں محمد علی کے ساتھ ہیروئن آئیں ۔ ہدایت کار حسن عسکری کی فلم ’’آگ‘‘ میںعیسائی لڑکی کے کردار میں متعدد ایوارڈز بھی حاصل کیے ۔ ہدایت کار ایس سلیمان کی فلم’’پرنس‘‘ میں ویمپ کا کردار ادا کیا ۔ آسیہ نے بہ حیثیت فلم ساز دو فلمیں ہدایت رفیق علی راکھن سے ’’پیار ہی پیار‘‘ اور محمد اکرام سے ’’اپریل فول‘‘ بھی بنوائیں ۔ فلم ’’پیار ہی پیار ‘ میں ان کی بہن شازیہ نے ہیروئن کا کردار ادا کیاتھا ۔ آسیہ نے اپنے فنی کیریر میں 188فلموں میں کام کیا جن میں28اردو اور160پنجابی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی آخری فلم 1990میں ہدایت کار جہانگیرقیصر کی فلم ’’چن میرے ‘‘ ریلیز ہوئی تھی ۔ آسیہ پنجابی فلموں کی نام ور اداکارہ رہیں اور ان کے کریڈٹ پر فلم’’مولا جٹ‘‘ میں’’مکھو‘‘ کا یادگار کردار موجود ہے ۔ آسیہ آج اس دنیا میں نہیں لیکن ان کی فلمیں ان کی موجودگی کا احساس دلاتی رہیں گی۔