کیا ہر خان پختون/پشتون ہوتا ہے؟
اسپیشل فیچر
لقب اور خطاب کیسے کیسے ابہام اور غلط فہمیوں کو جنم دیتے ہیں اس کی بہت سی مثالیں ہیں۔ انہی مثالوں میں سے ایک خطاب ’’خان یا خاں‘‘ بھی ہے۔ یہ لقب سلطنت عثمانیہ کے ترک دربار میں دیا جاتا تھا۔ اکثر محققین تو یہ لکھتے ہیں کہ لفظ ’’خان‘‘ درحقیقت خاقان اور کاغان جیسے القابات کی زمانے کے ساتھ ساتھ بدلی ہوئی شکل ہے جن کا مطلب’’ خانوں کا خان‘‘ ہوتا ہے۔ خان ترکی زبان کا لفظ ہے مگر بعد میں فارسی میں بھی پرچلت ہو گیا تھا۔ درحقیقت وسط ایشیائی ریاستوں میں اک طویل عرصہ تک ترکی اور فارسی زبانیں بغل گیر بھی رہیں اور لڑتی بھی رہیں۔ بعض حضرات تو ’’خان‘‘ کے لفظ سے اس قدر غلطی کھاتے ہیں کہ چنگیز خان اور ہلاکوخان کو بھی بیچارے پٹھانوں کے سر منڈھ دیتے ہیں۔ البتہ ایسے قوم پرستوں کی بھی کمی نہیں جو ایسا تاثر دیتے ہیں کہ ہر ’’خان‘‘ پختون ہی ہوتا ہے۔ یہ صرف پٹھانوں کا مسئلہ نہیں بلکہ قوم پرستی کا بخار ہی کچھ ایسا ہے کہ چڑھتا ہے تو اعتدال کی سب سرحدیں پار کر جاتا ہے۔ سچ ہے انتہاپسندی اپنی ہر شکل میں مضر ہی ہے چاہے وہ مذہبی ہو یاغیر مذہبی۔ فارسی سے’’خان‘‘ کا رشتہ لفظ ’’خانم‘‘ سے ظاہر ہے تو ترکی میں ’’خاتون‘‘ سے کہ جو اس کا مونث ہے۔ مالاکنڈ، کوہستان، گلگت اور بلتستان کے لوگ ہی نہیں بلکہ بلوچوں کو بھی جب کوئی ’’خان صاحب‘‘ کہہ کر پکارتا ہے تو وہ فوراً اسے ٹوک دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں بھی یہی غلط فہمی ہوتی ہے کہ انہیں پختون کہا جا رہا ہے۔ حالانکہ ہمارے خطہ کے وہ سب علاقے جو افغانستان اور چین کی سرحدوں سے پنجاب تک موجود ہیں وہاں پانی کی فراوانی اور فصلوں وغیرہ کی وجہ سے وسط ایشیائی ریاستوں ہی سے نہیں بلکہ توران اور خراسان سے بھی قافلے آتے رہتے تھے۔ ان میں ایسے بھی تھے جو ظلم و ستم سے بچ کر آتے تھے تو ایسے بھی تھے جو لشکروں کے ساتھ آتے تھے۔ تجارت بھی یہاں خوب تھی کہ یہاں سلک روٹ کی کئی شاخیں تھیں۔ ترکوں کی سلطنت عثمانیہ تو 500 سال سے بھی زیادہ عرصہ سے چل رہی تھی پھر ان کے خطابات کی حیثیت تو بڑھنی ہی تھی۔ پھر ترکی اور فارسی بولنے والے دلی اور اس سے آگے بھی گئے اور حکمران بھی رہے۔ مگر وہ جہاں بھی گئے وہاں ’’خان‘‘ مقامی رنگ ہی میں رنگا گیا۔ گوجری، ہندکو، پہاڑی، سرائیکی بولنے والے پنجابیوں پر بھی اس کا اثر ہوا اور جلال آباد سے کیلاش/نورستان تک رہنے والے ’’سیاہ پوش کافروں‘‘ پر بھی اس کا اثر پڑا۔ فیض صاحب کے والد سلطان احمد نے افغانستان کے بادشاہ امیرعبدالرحمن کی جو سوانح لکھی ہے اس میں ’’سیاہ پوش کافروں‘‘ بارے تذکرہ ہے جو 20ویں صدی کی ابتداء کی بات ہے۔ یہ کتاب انٹرنیٹ پر مفت پڑھی جا سکتی ہے۔ جب کوئی خطاب چل جاتا ہے تو اسے بہت سے لوگ تفاخر میںاپنابھی لیتے ہیں جیسے ۔’’میاں‘‘، ’’ملک‘‘، چودھری ‘‘ ایسے خطابات ہیںجو آپ کو قبائلی علاقوں سے لے کر بنگال تک ملتے ہیں۔ کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ لفظ ’’خان‘‘ کو اس کے تاریخی تناظر ہی میں دیکھا جائے تو بہتر ہو گا۔