بیٹیوں کی تربیت میں ماں کا کردار
اسپیشل فیچر
سورہ ٔاحزاب میں اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے’’اے نبی مُکرّم ؐ !آپ فرمایئے اپنی اَزواج مُطہرات، اپنی صاحب زادیوں اور تمام مسلمان عورتوں کو کہ جب وہ باہر نِکلیں تو ڈَال لیا کریں اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلّو۔‘‘ پیرمحمد کرم شاہ فرماتے ہیں، ’’اﷲ تعالیٰ تمام مخلوقات کاخالق ہے ،اُسے مردوںا ور عورتوں دونوں کی خیر خواہی مطلوب ہے۔ وہ مَردوں کو باوقار زندگی گزارنے اور عورتوں کو شرم وحیا کا پیکر بن کر رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی خدمت میں بنوتمیم قبیلے کی چند عورتیں حاضر ہوئیں انہوں نے باریک لباس پہنا ہوا تھا۔ اُم المؤمنین ؓنے فرمایا ’’اگر تم مومن عورتیں ہو تو سُن لو کہ یہ لباس مومن عورتوں کا نہیں، اگر تم مُومن نہیں ہو تو پھر جو چاہو کرو۔‘‘رسول اللہ ؐ نے فرمایا ’’کئی عورتیں جنہوں نے لباس پہنا ہوتا ہے لیکن برہنہ ہوتی ہیں ناز و اَدا سے جُھکتی سے ہیں۔ ان کے سر اس طرح ہیں جِس طرح بخت نَسل کے اونٹوں کے کوہان۔ یہ عورتیں جنت میں نہیں جائیں گی اور نہ اُنہیں اِس کی ہوا لگے گی۔‘‘اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور ٹھہری رہو اپنے گھروں میں، اپنی آرائش کی نمائش نہ کرو۔‘‘ اس آیت میں عورتوں کو بلاضرورت گھروں سے نکلنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے اورزمانہ ٔجاہلیت میں عورتیں جس طرح بَن ٹَھن کر بازاروں میں بے حِجاب پِھرتی تھیں اُس سے سختی سے روکا گیاہے۔عورت کی عِفت و عَصمت کی قدرومَنزلت کے پیش نظر یہ احکام صادر فرمائے گئے۔ اِن اسباب کا قلع قمع کیا گیا جِن کے ذریعے اِس متاع کے لُٹنے کا اندیشہ ہو۔ کوئی زِیرک جواہرات رکھ کر اپنے گھر کے دروازے چوروں کے لیے کھلے نہیںچھوڑتا۔ اسلام، قرآن اور حاملِ قرآنؐ نے مسلمان عورتوں کو غیرت باختہ طرزِ معاشرت سے سختی سے روکا ہے۔مصنوعی بال لگوانے،جسم گدوانے،پلکیں نُچوانے اوردانت کشادہ کرانے والیوں پر لعنت کی گئی ہے۔ حضرت اَسماء بِنت ابی بکرؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی اکرم ؐ کی خدمت میں ایک عورت نے حاضر ہوکر عرض کیا: ’’یارسول اﷲ ؐ ! میری بیٹی دُلہن بنی ہے اور اسے چیچک نکل آئی،جس سے اُس کے بال جَھڑگئے ہیں۔ کیا میں ان بالوں کے ساتھ ملا کر پیوند کردوں؟‘‘ آپ ؐنے فرمایا، ’’بال جوڑنے اور بال جڑوانے والی پر اﷲ تعالیٰ نے لعنت کی ہے۔‘‘ حضرت عبداﷲ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’گودنے والیوں، گدوانے والیوں، بال نوچنے، نچوانے والیوں اور خوب صورتی کے لیے دَانت کُشادہ کرنے والیوں اور اﷲ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی کرنے والیوں پر اﷲ کی لعنت ہے۔‘‘ ( صحیح مسلم)بالوں کے ساتھ آدمی کے بال مِلانا(پیوند کرنا) حرام ہے، خواہ وہ عورت کے بال ہوں یا کسی دوسرے کے، کیوں کہ رسول اﷲ ؐ نے اُن پر لعنت کی ہے۔ (درمختار) ’’جو عورتیں لباس پہننے کے باجود برہنہ ہوں گی۔ وہ راہِ حق سے ہٹانے والی اور خود بھی ہٹی ہوئی ہوں گی۔ ان کے سر بَختی اُونٹوں کی طرح ایک طرف جُھکے ہوئے ہوں گے۔ وہ نہ جنّت میںداخل ہوں گی اور نہ جنّت کی خوش بُو پائیں گی۔ ان کا لباس باریک اور چُست ہوگا وہ خود بھی گم راہ ہوں گی اور دوسروں کو بھی گم راہ کریں گی۔‘‘( صحیح مسلم)حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ؐ نے اُس مَرد پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں جیسا لباس پہنے اور اُس عورت پر لعنت فرمائی ہے جو مرد جیسا لباس پہنے۔ (ابودائود)ایک بار حضرت عائشہ ؓ سے کِسی نے ذکر کیا کہ ’’ایک عورت ہے جو مَردوں کے جوتے پہنتی ہے۔‘‘ آپ ؓ نے فرمایا ’’رسول اﷲ ؐ نے ایسی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے جو مَرد بننے کی کوشش کرتی ہیں۔‘‘ رسول اﷲؐ کا ارشاد ہے کہ:’’اﷲ تعالیٰ نے اُن مَردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں جیسا رنگ ڈھنگ اختیار کریں اور ان عورتوں پر بھی لعنت فرمائی ہے جو مرَدوں جیسا رنگ ڈھنگ اختیار کریں۔‘‘ (بخاری شریف، اصلاح معاشرہ)اﷲ تعالیٰ نے لباس کی نعمت سے صرف انسانوں کو نوازا ہے۔ماں کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کو یہ تربیت دے کہ ایسے باریک کپڑے نہ پہنے جس میں سے بدن جھلکے اور نہ ایسا چُست لباس پہنے جس میں سے بدن کی ساخت نمایاں ہو۔ماں کو چاہیے کہ وہ بیٹیوں کی ایسی تربیت کریں کہ وہ نیک ،فرماں بردار اور سلیقہ مند بنیں۔بیٹیوںکو قرآن مجید، حدیث اور فقہ کی تعلیم ضرور دی جائے تا کہ وہ حلال ، حرام اور عدل ، ظلم میں فرق کرسکیں۔ بیٹیوں کا اچھے اَخلاق،شرم و حیا، اسلامی لباس، حقوق اﷲ (نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ) حقوق العباد(ہم سائیوں، رشتے داروں، خاوند،ساس، سُسر سے برتائو) اور طہارت وغیرہ سے واقف ہونا ضروری ہے۔ اسلام لڑکیوں کی اَچھی تعلیم و تربیت کا حُکم دیتا ہے۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا : ’’جس کی تین بیٹیاں یا تین بہنیں ہوں یا دو بیٹیاں یا دو بہنیں ہوں اور وہ انہیں ادب سِکھائے ، ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور ان کی شادی کردے تو اسے جنّت ملے گی۔‘‘ (اسلام و تربیتِ اولاد)رسول اﷲؐ نے فرمایا کہ ،’’جس شخص کی چار بیٹیاں ہوں اور وہ اِنہیں عمدہ آداب سکھائے اور ان کی تربیت میں روپیہ صرف کرے تو اُس پر ہر روز آسمان سے اﷲ تعالیٰ کی چار سو رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور چار ہزار سلام بھیجے جاتے ہیں۔‘‘ یہ سُن کر ایک عورت نے سوال کیا کہ ’’یا رسول اﷲؐ! اگر تین لڑکیاں ہوں؟‘‘ آپ ؐنے فرمایاکہ ’’اگر تین لڑکیاں ہیں تو انہیں تین کے موافق، اگر دو ہیں تو دو کے برابر اور اگر ایک ہے تو ایک کے مطابق ثواب پہنچے گا اور ہر روز اس گھر میں رحمت کے سَتّر فرشتے آتے رہیں گے ۔ اﷲ تعالیٰ ان کے والدین کو ایک ایک دن کا ثواب سال سال بھر کے برابر عطا فرمائے گا ۔جو عزیز اِن لڑکیوں میں سے کسی کو پیٹ بھر کر کھانا کھلائے گا تو گویا اس نے ایک پیغمبرؑ کو پیٹ بھر کر کھانا کھلایا۔‘‘ماں کو چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کو ایسی تعلیم و تربیت دے کہ دیکھنے والے بے اختیار کہہ اُٹھیں کہ ’’بیٹی ہو تو ایسی۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ بچوں پر سب سے زیادہ اثر ماں کا پڑتا ہے۔جب ماں باادب ،بااخلاق اور سلیقہ مندہوگی تو اولاد بھی ایسی ہی ہوگی۔کئی مائیں بیٹیوں کوادب اور اخلاق نہیں سِکھاتیں جِس کی وجہ سے وہ بے اَدب یا بَدتمیز ہوجاتی ہیں۔ اگر کبھی نصیحت بھی کرتی ہیں تو ایسے بے ڈھنگے انداز سے کہ اس کا مُطلق اثر نہیں ہوتا۔ ماں کو چاہیے کہ موقع محل دیکھ کر اس طرح محبت سے نصیحت کریں کہ ان کے دِل پر بات نقش ہوجائے۔ بیٹیوں کو بچپن سے ہی ایسے کام سپرد کریں کہ وہ شوق اور اچھی طرح سے کرسکیں اور وقت کی پابندی سیکھ جائیں۔ بٍچپن ہی سے انہیں نماز اور تلاوت قرآن کریم کی تاکید کریں تاکہ وہ دِین دار بنیں۔ جو بَچیاں بَچپن سے نماز کی عادی بن جاتی ہیں وہ پوری عمر نماز کی پابندی کرتی ہیں۔اسی طرح لڑکیوں کو گھرکے سب کام کاج سِکھانے چاہئیں، خواہ اُن کا تعلق امیر گھرانے سے ہی کیوں نہ ہو۔ جو لڑکیاں لکھنا، پڑھنا، سلائی کڑھائی، کھانا پکانا اور دیگر گھریلو کام کاج جانتی ہوں، ساتھ ہی صبر والی اور نرم مزاج ہوں تو اُن کے لیے اور اُن کے گھر کے دیگر افراد کے لیے یہ دُنیا جَنت بن جاتی ہے۔ بعض مائیں لاڈ اور پیار میں اپنی بیٹیوں سے کام نہیں کراتیں جب سُسرال میں اُنہیں کام کرنا پڑتا ہے تو مُصیبتوں کا پہاڑ اُن کے سَر پر آجاتا ہے۔ بعض گھروں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر گھر میں دو تین بیٹیاں ہیں تو جو بیٹی اچھی روٹی پکاتی ہے یہ کام اسی کے ذمّے لگادیا جاتا ہے اور جو اِس میں مہارت نہیں رکھتی وہ ایسی ہی رہ جاتی ہے۔ سسرال جاکر اس کی یہی کمی اس کی دوسری خوبیوں پر پانی پھیر دیتی ہے۔ اسی طرح لڑکیوں میں بدزبانی کی عادت بھی نہیں ہونی چاہیے،میاں بیوی کے درمیان اکثرلڑائی جھگڑے کی وجہ یہی ہوتی ہے۔بعض اوقات اس کی وجہ سے گھر بھی برباد ہوجاتے ہیں۔ جھوٹ، غیبت، بُرائی، چغلی جیسی عادتیں لڑکیوں کے لیے بہت خطرناک ہیں۔ ایسی عادتوں سے انہیں بچانا چاہیے۔ بیٹی کی زندگی کام یاب بنانے کے لیے ماں کو ایک نیک مثال پیش کرنی چاہیے۔ جب بیٹی سمجھ دار ہوجائے اور اس کی شادی کی منزل قریب آئے تو اسے یہ بات اچھی طرح سمجھایئے کہ خاوند اور اس کے والدین کا اَدب مثل اپنے والدین کرے اور ہر حال میں ان کی رضا مقدّم سمجھے۔ خواہ تکلیف ہو یا راحت۔ زبان سے ایسا لفظ نہ نکالے جس سے انہیں تکلیف ہو۔ اگر ساس کسی بات پر تنبیہ کرے تو خاموشی کے ساتھ سُنے۔ایسی بے مثل بیٹی ان شاء اﷲ ہمیشہ سُکھی رہے گی اور آپ بھی پُرسکون زندگی گزاریں گی ،کہ اولاد سُکھی ہو تو ماں بھی خوش رہتی ہے۔