بادشاہی مسجد
اسپیشل فیچر
شاید لاہور کے چند باسی جانتے ہوں کہ قلعہ لاہور کے نزدیک واقع بادشاہی مسجد، جس کا شاہانہ گنبد اور عالی شان مینار لاہور کے شمالی قرب و جوارکی خوبصورتی کو چار چاند لگائے ہوئے ہیں، (ابھی اس بات کو زیادہ عرصہ نہیںہوا کہ) اس مقصد سے ہٹ کر دیگر کئی مقاصد کیلئے استعمال ہوتی رہی ہے، جس کیلئے اسے1673ء میں شہنشاہ اورنگزیب نے تعمیر کروایا تھا۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں سکھوں نے اسے فوجی ذخائر کیلئے پائوڈر میگزین کے طورپر استعمال کیا۔دستاویزات میں یہ بات درج ہے کہ جب مہاراجہ شیر سنگھ نے 1841ء میں قلعہ لاہور کا محاصرہ کیا تو اس کے (توڑے دار) بندوق بردارسپاہیوں نے میناروں پر قبضہ کرلیا۔ کچھ ہی عرصہ بعد جب راجہ ہیرا سنگھ نے سندھیانوالیہ سرداروں کا محاصرہ کیا تو قلعہ پربمباری کرنے کی خاطر میناروں کی چوٹیوں پر زنبورک توپیں (چھوٹی توپیں) رکھ دی گئیں۔ (48 سال پیشتر تاریخ نے خود کو مصنوعی لڑائی کی صورت میں دہرایا، جب مقامی رضاکاروں کے سالانہ معائنہ کے منصوبہ میں قلعہ کے ایک حصہ کا دفاع بھی شامل تھا، اور حملہ آور فوج کے نشانہ بازوں نے میناروں پر قبضہ کر لیا)۔ کہا جاتا ہے کہ میناروں کی موجودہ بلندی 143 فٹ ہے، لیکن ہر ایک مینار کی بالائی منزل (جس پر ایک گنبدی سایہ فگن تھی) کو 1840 کے زلزلہ سے ہونے والے شدید نقصان کے باعث شہید کردیا گیا۔ پنجاب کے انگریزوں کے ساتھ الحاق تک تبرکات مقدسہ بھی سکھوں کے قبضہ میں تھے، انہیںانتہائی عقیدت و احترام کے ساتھ اسی مسجد میں رکھا گیا ہے۔1856ء میں اس وقت پنجاب کے چیف کمشنر جان لارنس (Sir John Lawrence) نے قلعہ اور اس کی مضافاتی عمارات کے ذمہ دار فوجی حکام سے مشورہ کے بعد لاہور کی مسلمان برادری کو مسجدکی بحالی (واپسی) کے لئے حکومت ہند کی منظوری حاصل کی ۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ اس برادری کے موجودہ اراکین میں سے چند لوگ اس عظیم شخص ( جس نے ہمیشہ ان کے مفادات کا خیال رکھا) کی توہین کرنے کی غرض سے مقامی انتہا پسندوں کی طرف سے شروع کیے گئے احتجاج میں حصہ لے رہے ہیں۔ایک دلچسپ دستاویز:بہرصورت اس میں کسی قسم کے شک و شبہ کا اظہار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمان برادری نے حکومت برطانیہ کے ان جذبات کو بھرپور انداز میں سراہا، جن کے زیراثر اس نے ان کی تاریخی مسجد انہیں واپس کر دی۔ وہ اس وقت اس بات کا بخوبی اندازہ لگا سکتے تھے کہ مذہبی آزادی کا حقیقی مطلب کیا ہے۔ مندرجہ ذیل دستاویز دراصل لاہور کے70 انتہائی بارسوخ مسلمانوں کے دستخط شدہ ایک خط کا ترجمہ ہے جس میں انہوں نے سرجان لارنس کے توسط سے حکومت ہند کو اپنی برادری کی جانب سے شکرگزاری اور احسان مندی کے دلی جذبات پہنچائے ہیں۔لاہور کے چند انتہائی بارسوخ مسلمانوںکی طرف سے پیش کردہ سپاسنامہ:ترجمہ: واضح ہو کہ مسلمان قلعہ لاہور میں واقع بادشاہی مسجد کو سابق بادشاہوں کے دور سے بطور عبادت گاہ استعمال کرتے چلے آئے ہیں اور شاہی فرمان کے تحت قاضی غلام شاہ کے فرزند سید بزرگ شاہ کے آبائو اجداد اس مسجد کے نگہبان اور خطیب کے طورپر خدمات سرانجام دیتے رہے ہیں۔ لیکن فرمانروائوں کی متحملانہ رواداری اور بادشاہوں کے لائق ستائش برتائو کے برعکس سکھ قوم کے مذہبی تعصب کے نتیجہ میں عبادت اور نماز کی ادائیگی معطل ہوگئی بلکہ کچھ عرصہ تک مکمل طور پر روک دی گئی‘‘۔اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کے مبارک دور حکومت کے زیر اہتمام مذکورہ مسجد کو عبادت کی خاطر بحال کر دیا گیا ہے۔ اس عمل کو حکومت کی خوشحالی میں اضافے کی طرف ایک مبارک قدم شمار کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ سید بزرگ شاہ کو مسجد کا متولی اورخطیب مقرر کیا گیا ہے۔ چنانچہ شہر لاہور اور ملک کے دور و نزدیک کے تمام طبقات سے تعلق رکھنے والے باشندے، جنہوں نے یہ خوشخبری سنی، حکومت کی طرف سے اس مہربانی کے اظہار پر بہت زیادہ خوش ہیں، کیونکہ حکومت نے جائز فریقین کو انکے واجبات ادا کردیئے ہیں اور ان لوگوں کیلئے انتہائی فیاضی کا مظاہرہ کیا ہے، جو اپنی عبادت گاہ کے حصول کے سلسلہ میں انتہائی فکرمند تھے۔ اس نیک عمل نے انہیں ابدی آلام اور مصائب سے بچالیا ہے۔ لوگوں کے جملہ طبقات نے اس مہربانی کی پرزور تعریف کی ہے۔ عوام الناس کی آسودہ حالی دراصل قادرمطلق کی رضامندی، حکام کی نیک نامی اور حکومت کی بے انتہا خوشحالی اور عظمت کا نتیجہ ہوتی ہے اور یہ آخرت اور اس دنیا دونوں جگہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے حصول کے ذریعے ہیں۔ ہمارے پاس ایسی زبان نہیں ہے جس سے ہم اس لطف و کرم اور عنایت و مہربانی کا شکریہ ادا کرسکیں۔ ہم نیک نیتی سے حکومت کی عظمت اور خوشحالی میں اضافہ کیلئے صرف دعا ہی کرسکتے ہیں، تاہم اس بے انتہا مہربانی اور شفقت کا شکریہ ادا کرنے کیلئے ہم نے یہ سپاسنامہ پیش کرنا مناسب سمجھا ہے۔(دستخط بمعہ مہر)قاضی حفیظ الدین، نور عبدالرحمننواب احمد اللہ خان اور 67 دیگر صاحبان)(’’پرانا لاہور‘‘مصنف،کرنل ایچ آر گولڈنگ،مترجم،افتخار محبوب)